بلند فشارِ خون کیسے قابو کریں

بلند فشارِ خون کیسے قابو کریں

بلند فشارِ خون کیسے قابو کریں ؟(میڈیکل کالم )
بلند فشارِ خون جسے ہائیپرٹینشن (Hypertension) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کے بارے میں عوامی معلومات کی اشاعت ماضی قریب میں ہوئی ہے بلکہ کسی حد تک یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس کے متعلق وسیع جانکاری موجودہ سائنسی دور ہی کی مرہون منت ہے ماضی میں اس مرض نے لاتعداد مریضوں کو اپنے خونی پنجے میں جکڑا۔ بہت ہی کم لوگوں کو اس مرض سے واقفیت حاصل ہوئی ہے۔ اور وہ بروقت اس کی روک تھام میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

ماہرین نے اس مرض کے بارے میں کچھ اعداد و شمار بھی جاری کیے ہیں جن سے اس کی ہولناکی و سنگینی کا ایک مجمل خاکہ سامنے آ جاتا ہے۔ 2002ء میں امریکہ میں تقریباً 261000کل اموات ہوئیں۔ جن میں سے فشارِ خون کے سبب مرجانے والے مریضوں کی تعداد 4970تھی۔ امریکہ میں بلند فشارِ خون کے مریضوں (جن کی عمریں 6سال سے25سال تک ہیں) کی تعداد 65ملین ہے۔ ہر تین بالغ امریکیوں کی چالیس فیصد تعداد بلند فشارِ خون کا شکار ہے۔ 65ملین امریکیوں میں سے ایک تہائی ایسے ہیں جنہیں اپنے بلند فشارِ خون کے بارے میں قطعی علم نہیں ہے۔ فشارِ خون کس وجہ سے لا حق ہوتا ہے۔ اس بارے میں قطعی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ پھر بھی جدید تحقیق اور مختلف تجزیاتی مطالعات سے کم از کم اس امر سے پردہ اٹھ جاتا ہے کہ شریانوں کی مختلف خرابیوں سے اس مرض کا گہرا تعلق ہے جس کا نتیجہ اکثر فالج کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ اور حملہٴ قلب کا تو یہ ایک لازمی جزو ہوتا ہے۔ کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک کے 65ملین مریضوں میں سے ایک تہائی اس مرض کے بارے میں بھی پوری آگاہی نہیں رکھتے تو ہمارا کیا کہنا۔ ہمارے ہاں مریض اسی وقت ہسپتال پہنچ کر انتہائی نگہداشت کے کمرے میں داخل ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اس کو بڑھاپے کا مرض سمجھا جاتا ہے اور بوڑھے افراد بھی اس بارے میں ایک بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں کہ بلند فشارِ خون صرف ان بوڑھوں کو ہوتا ہے جن کا وزن زیادہ ہوتا ہو یاوہ موٹاپے کا شکار ہوں۔ اگرچہ ایسے افراد کا بلند فشارِ خون میں مبتلا ہونے کا خطرہ دوسروں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ دبلے پتلے، کم وزن یا کم عمر افراد کو یہ مرض بالکل نہیں ہوتا۔ اس مرض کا ہماری نجی زندگی سے گہرا تعلق ہے۔ مطمئن، پرسکون، جفا کش اور جسمانی ورزش کا اہتمام کرنے والے زیادہ تر اس مرض کی تخریب کاریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ خوشحال آرام پسند، سست و کاہل، دفتری کاموں میں مصروف، غصیلے افراد اس کے شکار زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ زیادہ موٹے لوگ زندگی کے ایک موڑ پر ضرور اس مرض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس سے قبل از وقت بھی اپنا بچاؤ کر سکتے ہیں اور مرض کا شکار ہونے کے بعد بھی اپنا بچاؤ کر سکتے ہیں لیکن اس ضمن میں ایک بات ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ مرض لاحق ہونے کے بعد اگر آپ اپنا دفاع کر رہے ہیں تو اس جنگ میں کچھ نہ کچھ نقصان آپ کو ہو چکا ہو گا اور مزید نقصان سے بچنے کے لیے آپ نے ہتھیار اٹھائے ہوں۔ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ مرض کے حملہ آور ہونے سے قبل آپ ایسے اقداما ت کریں جن سے یہ نتیجہ حاصل ہو کہ بلند فشارِ خون کے لیے آپ ایک آسان شکار نہیں رہے؟ سب سے پہلے ایسی تدابیر کا ذکر کیا جاتا ہے۔ جن سے بلند فشارِ کون میں مبتلا مریض اور اس سے بچاؤ کے خواہش مند افراد دونوں فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
1۔ خوردنی نمک (Table Salt)کم سے کم استعمال کریں۔
2۔ سرخ گوشت، جسے ہم عرفِ عام میں بڑ اگوشت کہتے ہیں، کم کھائیں۔
3۔ جما ہوا گھی خواہ کسی قسم کا ہو، (دیسی گھی، مکھن، بالائی چاہے دودھ کی ہو یا دہی کی اور بناسپتی گھی) پرہیز کریں۔
4۔ غصے میں نہ آئیں۔
5۔ اپنی معاشی حالت پرشاکر و صابر رہیں۔
6۔ بڑی سے بڑی پریشانی اور تکلیف میں صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے اور مصیبت کی گھڑی میں اپنے رب کو ضرور یاد رکھیں۔
7۔ ورزش باقاعدگی سے کریں (یاد رہے کہ ورزش کا لازمی مطلب کھلاڑیوں کی طرح اچھل کود نہیں بلکہ لمبی سیر اور طویل فاصلہ طے کرنا جس سے آپ کا جسم گرم ہو اور ہلکا سا پسینہ آ جائے)
8۔ سبزیاں، پھل، مچھلی اور پانی زیادہ استعمال کریں۔
جن لوگوں کو فشارِ خون کی بیماری کچھ عرصے سے لا حق ہے اور اکثر اس مرض کو ادویہ ہی کے ذریعے قابو کرتے ہیں وہ مذکورہ سات تدابیر کے ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل ادویہ بھی استعمال کریں اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ شفایابی عطا فرمائے گا۔
1۔ چھوٹی چندن کے نام سے ایک بوٹی عام طورپر پنساریوں کے ہاں ملتی ہے یہ بلند فشارِ خون کے لیے بے نظیر دوا ہے۔ یہ دوا تقریباً 12گرام کے قریب لے لیں اور کوٹ کر اچھی طرح پیس لیں۔ اور پھر رتی کی مقدار میں صبح و شام پانی سے کھانے کے بعد استعمال کریں۔ اگر مرض کی نوعیت شدید ہو یعنی اس مقدار سے قابو میں نہ آئے تو دن میں تین یا چار مرتبہ استعمال کریں۔ (یہ دوا مستند نباتاتی دوا خانے بھی گولیوں کی شکل میں تیار کرتے ہیں، اگر کوٹنے اور چھاننے کے لیے آپ کے پاس وقت نہ ہوتو بازار سے بنی بنائی مل سکتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ کسی مستند دوا خانے کی بنی ہو)
2۔ اگر بلند فشارِ خون شدید قسم کا نہ ہو، تو کبھی کبھار خفیف مقدار میں کسی پیشاب آور (Diuretic)دوا کے استعمال سے بھی یہ مرض قابو میں آ جاتا ہے ۔ روایتی ادویہ کی جگہ یہ دوائیں فشارِ خون پر بغیر کسی قسم کی دقت کے قابو پا لیتی ہیں۔ پیشاب کے لیے بہترین دیسی دوا شربتِ بزوری تجویز کی جا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ مولی اور اس کے پتوں میں بھی یہ خاصیت موجود ہے اس طرح تربوز، خربوزہ، ککڑی اور کھیرا بھی انہی اوصاف کے حامل ہیں اگر کوئی دوسرا مرض لاحق نہ ہو اور یہ چیزیں میسر ہوں تو انہیں کام میں لائیں۔
3۔ لہسن اس بیماری میں نعمت غیر مترقبہ ہے چونکہ یہ شریانوں کا مرض ہے اور اس میں شریانوں کی لچک ختم ہو جاتی ہے اور شریانوں میں مخصوص مادوں کی رکاوٹ پڑ جاتی ہے۔ دونوں حالتوں میں شریانوں کی ابساط (پھیلاؤ) کی ضرورت ہوتی ہے اور لہسن یہ ضرورت بخوبی پوری کرتا ہے۔ لہسن کے استعمال کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ اسے دودھ یا دہی کی آدھی پیالی میں ڈال دیں۔ لہسن کی دو یا تین پھانکیں کافی ہوں گی۔ صبح اُسے کوٹ کر دہی یا دودھ کے ساتھ استعمال کریں۔ موسم گرما میں دہی اور سرما میں دودھ بہتر ہوتا ہے۔ لہسن کے بارے میں قدیم معا لجین کے رائے یہ ہے کہ یہ جسم سے فاسد مادے خارج کرتا ہے۔
4۔ بعض مریض ایسے بھی ہیں جن کو اس مرض کے ساتھ دوسرے امراض نے بھی گھیرا ہوتا ہے۔ اکثر فشارِ خون کے مریضوں کو قبض کی شکایت ہوتی ہے، کوئی معدے سے بے حال ہوتا ہے اور کسی کے لیے ذہنی اور اعصابی تناؤ باعث پریشانی ہوتا ہے۔
نباتاتی ماہرین کے مطابق مذکورہ امراض بھی کبھی کبھار بلند فشارِ خون کا سبب بن جاتے ہیں۔ یہاں ایک ایسے نسخے کا ذکر کیا جاتا ہے جس میں مذکورہ بیماریوں سے نجات کے لیے باری تعالیٰ نے شفا رکھی ہے۔ ادرک تازہ، پودینہ تازہ، انار دانہ اور لہسن تازہ۔ ان چار چیزوں کو کوٹ کر اسے اپنی خوراک میں بطور چٹنی استعمال کریں لیکن اس میں نمک بالکل نہ ڈالیں۔ یہ ایک عام چٹنی ہے جسے گھروں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ادرک مقوی اعصاب ہے۔ شیخ الرئیس ابن سینا تحریر کرتے ہیں کہ پودینہ قلبی امراض میں مفید ہے۔ لہسن اور انار دانہ، دل کے مریضوں کے لیے مفید ہونے پر جدید و قدیم ماہرین کے تجربات شاہد ہیں۔
اور آخر میں ایک بار پھر یہ تحریر کیا جاتا ہے کہ اس مرض کو آسان نہ سمجھیں۔ یہ اپنا تخریبی عمل آہستگی سے انجام دیتا ہے اور اس وجہ سے اسے ماہرین نے خاموش قاتل کا نام دیا ہے۔ اپنے معالج سے اس کے بارے میں وقتاً فوقتاً معلومات حاصل کریں۔ اس کی ہدایات کو نظر انداز نہ رکریں۔ ادویہ باقاعدگی سے استعمال کریں۔ باقاعدہ سیر اور عبادت کے ذریعے اپنے رب کو راضی کریں اور اس سے مدد طلب کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحتِ کاملہ عطا فرمائے۔ (آمین)

Share this post

Leave a Reply