قبض کا علاج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

قبض کا علاج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

اگر اجابت معمول کے مطابق نہ آئے یا آئے تو پاخانہ تھوڑا تھوڑا کئی بار آئے یا روزانہ حاجت ہونے کے بجائے دوسرے، تیسرے روز آئے۔ ان دونوں صورتوں کو قبض کہتے ہیں۔ باقاعدہ اجابت نہ ہونے سے طبیعت مضمحل رہتی ہے جسم کا تھکا تھکا زبان میلی اور بھوک روز بروز کم ہونے لگتی ہے۔ جب آنتوں میں پہلے سے جگہ موجود نہ ہو تو ان میں نئی غذا کا داخل کرنا ممکن نہیں رہتا اور جب غذا اندر نہ جائے تو توانائی میں کمی ایک لازمی نتیجہ ہے۔
آنتوں میں خوراک جب معمول سے زیادہ ٹھہرتی ہے تو وہاں پرسٹراند پیدا ہوکر بدبو دار ریاح پیدا ہوتی ہے۔ اگر رکاوٹ زیادہ ہوتو ان ریاح کا اخراج نہیں ہوتا۔ اس طرح پیٹ بوجھ کے ساتھ ڈھولک کی طرح تن جاتا ہے۔
پیٹ میں ریاح کی کثرت کی وجہ سے دماغ پر بوجھ، چکر، بے خوابی، لازمی نتائج ہیں۔ پیٹ میں جب بوجھ محسوس ہو رہا ہو تو آسانی سے نیند نہیں آتی۔ ڈکار مارنے کی کوشش بذات خود ایک بیماری ہے جس سے اور مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں اطباء کا یہ قول بھی ہے کہ قبض عام بیماریوں کی ماں ہے۔

غذائی علاج
قبض کے علاج کے سلسلہ میں ابتدائی اہم بات غذا ہے۔ پرانی قبض میں مبتلا لوگوں کو کھانا وقت پر کھانا چاہئیے۔ کھانا جو بھی ہو، اس میں پھوک یا ریشہ کی معقول مقدار ہونی چاہئیے۔ گوشت کے ساتھ اگر سبزیاں شامل نہ ہوں تو ان کی کمی پھلوں سے دور ہو سکتی ہے لیکن پھلوں کا جوس یا عرق ہرگز اس ضرورت کو پورا نہیں کرتے۔ آٹا ان چھنا ہو۔
پانی کی مقدار زیادہ بھی قبض کشاء ہے لیکن کھانے کے ساتھ اس کی مقدار بہرحال کم ہونی چاہئیے۔ رفع حاجت کے لئے کموڈ کی نسبت پیروں پر بیٹھنا زیادہ مفید ہے۔ اس شکل میں مریض اپنے بائیں گھٹنے کو جوکہ پیٹ کے ساتھ لگا ہوتا ہے، اگر اندر کی طرف دباکر رکھیں تو یہ بڑی آنت کے آخری حصے پر دباؤ ڈال کر اس میں موجود اشیاء کو اپنے دباؤ کی مدد سے آگے کو دھکیل کر باہر نکلنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
علم الغذا کے بارے میں آج سے صدیوں پہلے بڑی اہمیت کا ایک دلچسپ واقعہ یاد آ گیا۔ حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالٰی عنہا سفر پر گئیں تو وہاں سے واپسی پر ایک نئے کھانے کی ترکیب سیکھ کر آئیں۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو اس نئے کھانے کی دعوت دی جس کا حال وہ بیان فرماتی ہیں۔
“انہوں نے چھان کر سفید آٹا گوندھا اور بتایا کہ ہمارے ملک کا یہ کھانا ہے جوکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تیار کر رہی ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے باریک آٹا دیکھ کر فرمایا کہ تم نے آٹے میں جو کچھ نکالا ہے، اس کو اس میں دوبارہ شامل کرو اور پھر تیار کرو۔“ (ابن ماجہ)

یہ واقعہ حدیث کی کئی کتب میں آیا ہے۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں انہوں نے چھلنی نہ دیکھی تھی اور تنکے وغیرہ پھونک مار کر اڑا دیتے تھے۔ یہی بات حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ ان کے گھر میں آٹا چھان کر استعمال کرنے کا رواج نہ تھا۔ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آٹے سے چھان کر جس چیز کو بڑی محنت اور کاوش سے نکال کر پھر اس کی سفید روٹیاں پکائیں مگر ان کو ہدایت فرمائی گئی کہ وہ چھان کو پھر سے شامل کرکے روٹی پکائیں جس سے چھان کی اہمیت کو آ شکار کیا گیا۔
جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ آٹے کا چھان پرانی قبض اور ذبابیطس کے مریضوں کے لئے بہترین دوائی ہے۔ اس میں ریشے کے علاوہ وٹامن ب طاقت کا باعث ہوسکتی ہے۔ وٹامن ب عضلات کے لئے مقوی ہے۔

قبض کا دوسرا اہم علاج غذا اور حاجت کے اوقات کا تعین ہے۔ جب جی چاہا بیت الخلاء چلے جائیں اور جب فرصت نہ ہو یا جی نہ چاہے، ملتوی کر دیا جائے۔ ایسے میں قبض کو صرف ادویہ کی مدد سے وقتی طور پر دور کیا جا سکتا ہے۔ باقاعدہ علاج سے نہیں۔ صُبح اٹھ کر کچھ کھانے کے بعد ایک مقررہ وقت پر بیت الخلاء جانا اہم نکتہ ہے بلکہ مقررہ وقت پر اگر حاجت نہ ہو تب بھی جانا چاہئیے۔ اس طرح وقت پر حاجت ہونے کی عادت بن جاتی ہے مگر اس کے لئے تین اہم لوازمات ہیں۔
* خالی پیٹ بیت الخلاء نہ جائیں۔ ضرور کچھ کھاکر جائیں۔ جیسا کہ نہار منہ شہد پینے کے بعد۔
* رات کو کھانا ضرور کھایا جائے کیونکہ رات کا کھانا نہ کھانے سے صُبح تک 19۔ 18 گھنٹے کا فاقہ بن جاتا ہے۔ اتنے لمبے فاقہ سے خون میں مٹھاس کی مقدار گر جاتی ہے۔ کمزوری کے علاوہ سابقہ غذا کو آگے بڑھانے والا عنصر نہ ہونے کی وجہ سے قبض ہوتی ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ رات کا کھانا ہرگز ترک نہ کیا جائے، خواہ مٹھی بھر کھجور کھا لیں کیونکہ رات کا کھانا ترک کرنے سے بڑھاپا (کمزوری) طاری ہوتی ہے۔
اس سلسلے میں متعدد روایات میسر ہیں جیسے کہ “رات کا کھانا امانت ہے“ اور ارشاد گرامی میں واضح فرمایا گیا ہے کہ رات کا کھانا نہ کھانے سے کمزوری ہو جائے گی۔
* رات کو کھانے اور سونے کے درمیان کم از کم تین گھنٹے کا وقفہ ہونا چاہئیے اور اس وقفہ کے درمیان 500 قدم چلنے سے آنتوں کی توانائی میں اضافہ ہے اور اگلے دن اجابت اطمینان سے ہوتی ہے۔

قبض کشاء ادویات ۔ طب یونانی
جمال گوٹہ۔ جلاب۔ مسبر۔ سقمونیا۔ املتلاس وغیرہ
ان میں جمال گوٹہ اس حد تک مخزش ہے کہ اس کا تیل اگر تندرست جلد پر لگایا جائے تو وہاں پر آبلہ اور پیپ پڑ جاتے ہیں۔ اپنے مضر اثرات کی وجہ سے جمال گوٹہ علاج کے طور پر استعمال نہیں ہوتا۔ اس کے مدبر (اصلاح) کے بعد استعمال کیا جا سکتا ہے۔
چکنائی کی زیادہ مقدار آنتوں میں پھسلن پیدا کرکے اجابت لاتی ہے۔ اس غرض کے لئے روغن بادام، روغن بیدانجیر، کسٹرائیل اور گھی شہرت رکھتے ہیں۔
عضلات میں اگر کمزوری ہو تو یہ بھی قبض کا باعث ہے۔ اس لئے وہ تمام ادویہ جو جسم کو اور بالخصوص اعصاب اور عضلات کو طاقت دیتی ہے جیسے کہ کچلا، ہلیلہ سیاہ لوگ اسی اُمید پر سنکھیا بھی دے دیتے ہیں لیکن سنکھیا معدہ اور آنتوں میں شدید قسم کی خراش ہی نہیں بلکہ سوزش پیدا کرتا ہے۔ اسی لئے دودھ اور گھی میں آمیز کرکے دیا جاتا ہے۔
سنامکی ایک قابل اعتماد اور مفید دوائی ہے۔ اس میں تھوڑی سی خرابی پیٹ میں مروڑ ڈالنے کی ہے۔ وہ اگر تنکے چن کر اور سوئے اور شہد ملاکر استعمال کریں تو انتہائی نفع بخش ثابت ہوتی ہے۔ سوئے پیٹ سے ہوا نکالنے میں شہد آنتوں کو سکون دیتا اور مقوی ہے۔ اس طرح قبض کا باعث اگر آنتوں کی کمزوری بھی ہو تو سنا اور سوئے سے فائدہ ہوگا۔

طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
قبض کے مسئلہ کو تاجدار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے جس شاندار اور سائنسی طریقہ سے حل فرمایا ہے، طب جدید آج بھی اس سے بہتر لائحہ عمل تجویز نہیں کرسکی جس پر عمل کرتے ہوئے قبض کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

حفظ ماتقدم :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوقات خوراک متعین فرما کر اور آنتوں کے Gastro.colic reflex سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ جیسا کہ نہار منہ شہد کا استعمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی روزمرہ کی عادت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشہ دار غذاؤں پر اصرار فرمایا۔ ان چھنے آٹے کی تاکید فرمائی۔ “اپنے دسترخوان کو سبز چیزوں سے مزین کرو۔“ یہ ایک جامع ارشاد ہے جوکہ پیٹ میں اتنا بھوک پیدا کرتا ہے کہ آنتوں میں اخراج کا عمل خیرو خوبی سے وقوع پذیر ہوتا رہے۔

علاج بالغذا :۔ قبض کی ابتدائی حالتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادویہ کی بجائے کھانے پینے کی چیزوں کو دوا کے طور پر استعمال فرمایا ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا روایت فرماتی ہیں۔
“جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی کو لایا جاتا کہ اس کو بھوک نہیں لگتی تو ارشاد ہوتا کہ اس کو جو کا دلیہ کھلایا جائے۔ پھر فرمایا کہ خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ پیغمبری عطا کی ہے۔ یہ پیٹ کو اس طرح صاف کر دیتا ہے کہ جیسے تم میں سے کوئی اپنے چہرے کو پانی سے دھو کر اس سے غلاظت کو اتار دیتا ہے۔
یہ ایک بڑی خوبصورت مثال ہے کہ کیونکہ جو میں باریک ریشہ کثیر مقدار میں ہوتا ہے۔ یہ پیٹ میں جاکر پھولتا ہے اور آنتوں میں بوجھ کی کیفیت پیدا کرکے اجابت کے عمل کو تیز کرتا ہے۔ جو میں لحمیات کے اجزاء بھی ہوتے ہیں جو جسم کو توانائی مہیا کرتے ہیں۔ اگر کسی کو کمزوری کی وجہ سے قبض محسوس ہو رہی ہو تو جو کھانے سے اس کا مداوا بھی ہو جائے گا۔
تاجدار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے انجیر کی یہاں تک تعریف فرمائی کہ اسے جنت کا میوہ قرار دیا۔ چنانچہ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہ تاجدار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ “انجیر کھایا کرو۔ اگر مجھ سے کہا جائے کہ کیا کوئی پھل جنت سے زمین پر آ سکتا ہے تو میں کہوں گا کہ ہاں یہی ہے۔ یہ بلاشبہ جنت کا پھل ہے اسے کھایا کرو کہ یہ بواسیر کو کاٹ کر رکھ دیتا ہے اور گھنٹیا میں مفید ہے۔“
ہم جانتے ہیں کہ بواسیر پُرانی قبض، جگر کی خرابیاں اور پیٹ کت آخری حصہ میں خون کی نالیوں میں دوران خون سست پڑ جانے سے پیدا ہوتی ہے۔ جب یہ ان کا علاج ہے تو مطلب یہ ہوا کہ انجیر قبض کو دور کرتی ہے۔ جگر کے لئے مصلح ہے اور خون کی نالیوں میں دوران خون کو دُرست کرتی ہے۔
انجیر کی ساخت میں موجود چھوٹے چھوٹے دانے پیٹ میں جاکر پھول جاتے ہیں۔ ان کا اسبغول کی مانند پھولنا بھی قبض کو دور کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالٰی عنہا سے تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تم اپنے پیٹ کو چلانے کے لئے کیا استعمال کرتی ہو۔ میں نے بتایا کہ شبرم لیتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تو بہت گرم ہے۔ پھر اس کے بعد میں سناء استعمال کرنے لگی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر کوئی چیز موت سے شفاء دے سکتی ہے تو وہ سناء ہے۔ (ابن ماجہ)
سناء کی مفید قسم وہ ہے جو وادی مکہ میں پیدا ہوئی ہے۔ اس کے پتے نشتر کی شکل کے اور دونوں طرف سے چکنے ہوتے ہیں۔ ان کی پھلی گول اور پھول سبزی مائل سنہرے لگتے ہیں۔ اس کا بیج مصر میں بویا گیا مگر زمین کی وہ تائید حاصل نہ ہوسکی۔ اسی طرح بھارت اور سکھر میں پیدا ہونے والی سناء فوائد کے لحاظ سے تیسرے درجہ پر ہے کیونکہ ان اجزاء عاقل کی مقدار کم ہوتی ہے۔
اطباء نے سناء کا استعمال دسویں صدی سے شروع کیا۔ البتہ بوعلی سینا اسے مفید قرار دے چکے ہیں۔ عربوں کو دیکھ کر بھارتی وید بھی اس کے مدح ہوگئے اور اب اس کے کئی متعدد نسخے مرتب ہوئے ہیں۔
بہرحال قبض کے بارے ماہرین کی تازہ ترین رائے کے مطابق اس کا علاج ادویہ کی بجائے غذا میں ریشہ دار اشیاء کے استعمال میں اضافہ (پھل اور سبزیاں) سے کیا جائے۔ آج کے تمام مشاہدات اور ایک ہزار سال کے تجربات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبض کے علاج میں جو ارشادات فرمائے ہیں، سائنس اپنی تمام تر کاوشوں کے باوجود ان کے برابر بھی نہیں آ سکی۔ ان کے اہم نکات کا خلاصہ یہ ہے۔
* کھانا وقت پر کھایا جائے۔
* رات کے کھانے کے بعد جلد نہ سویا جائے اور پیدل چلا جائے۔
* کھانے سے پہلے تربوز یا خربوزہ پیٹ کو صاف کرتا ہے۔
* ناشتہ میں جو کا دلیا آنتوں کو صاف کرتا ہے۔ جا سکتا ہے جس کے لئے خود علاج کرنے کی بجائے کسی مستند معالج سے رجوع کرنا چاہئیے کہ یہ بیماری خطرناک ہو سکتی ہے
* ریشے دار غذائیں کھائی جائیں جیسا کہ سبزیاں یا پھل۔
* آٹا چھان کر نہ پکایا جائے کیونکہ اس کی بھوسی قبض اور دل کا علاج ہے۔
* خشک انجیر کے 3۔ 2 دانے ہر کھانے کے بعد کھانے سے نہ صرف قبض ختم ہو جاتی ہے بلکہ یہ بواسیر کا علاج بھی ہے۔
* ان تمام کوششوں کے باوجود اگر قبض میں بہتری نہ ہو تو سب سے پہلے زیتون یا اس کا کوئی مرکب نسخہ استعمال کیجئے۔
اگر ان تمام کوششوں کے باوجود قبض دور نہ ہو یا اس کے ساتھ درد، سوزش یا بخار ہو تو ایسے میں آنتوں میں رکاوٹ یا اپینڈکس کا شبہ کیا

Share this post

Leave a Reply