Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

جنسی عدم اطمینان کی وجہ سے شادی شدہ جوڑے طلاقوں کا سامنا کرتے رہیں گے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر لوگوں کو مثبت طریقے سے جنسی تعلیم نہیں ملتی تو وہ اپنے جنسی اعضاء سے کماحقہ واقفیت نہ ہونے کی بناء پر ان کے جائز استعمال سے بھی قاصر رہتے ہیں۔ بہت سے بے اولاد جوڑے صرف مثبت جنسی تعلیم کے فقدان کی وجہ سے ساری زندگی اولاد کی نعمت سے محروم رہتے ہیں۔ اور بعض دفعہ جنسی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے حمل ضائع کر بیٹھتے ہیں۔ حالانکہ اگر معاشرے میں اپنے جنسی مسائل کو ڈسکس کر کے حل کرنے کی جرات ہو تو اس قسم کے مسائل بآسانی حل ہو سکتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں جہاں ایک طرف لوگ جائز و ناجائز کا علم نہ ہونے کے باعث نادانستگی میں اسلامی شریعت کی حدود پار کرتے جا رہے ہیں، وہیں یہ المیہ بھی موجود ہے کہ دوسری طرف بے شمار شادی شدہ جوڑے جنسی عدم اطمینان کی وجہ سے طلاقوں کا سامنا بھی کر رہے ہیں۔

ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیئے کہ یہ سب کچھ مثبت جنسی تعلیم کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اگر لوگوں‌ کو مثبت جنسی تعلیم دی جائے تو بے شمار لوگ اپنے جنسی مسائل کو خود حل کر سکتے ہیں اور بہت سے شادی شدہ جوڑے ایک دوسرے سے جنسی طور پر مطمئن ہو کر طلاق جیسی بدترین حماقت سے بچ سکتے ہیں۔

بچے بڑوں کے ہاتھوں جنسی تشدد کا شکار ہوتے رہیں گے

مثبت جنسی تعلیم نہ ملنے کی وجہ سے بہت سے معصوم بچے بڑوں کے ہاتھوں ان کی جنسی ہوس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم جنس پرست اکثر معصوم بچوں‌ کو ورغلاتے اور اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔معصوم بچے نہیں جاتے کہ کون انہیں پیار کر رہا ہے اور کون پیار کے بہانے ان سے زیادتی کرنے کا ماحول بنا رہا ہے۔ اگر بچوں کو مثبت طریقے سے جنسی تعلیم دی جائے تو انہیں یہ سمجھنے میں آسانی ہو سکتی ہے کہ وہ ایسے مواقع پر خود کو کیسے بچا سکیں۔ اور یوں وہ دوسروں کے ہاتھوں جنسی تشدد کا شکار ہونے سے بچ سکتے ہیں۔

ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیئے کہ یہ سب کچھ مثبت جنسی تعلیم کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہو رہا ہے، جس کا خمیازہ بہت سے بچوں‌ کو جنسی تشدد کی صورت میں‌ بھگتنا پڑتا ہے

جنسی بیماریوں کا علاج کروانے سے شرمائیں گے اور اپنے جنسی مسائل سے نمٹ نہیں پائیں گے۔

مثبت جنسی تعلیم کی ضرورت و اہمیت کے پیش نظر واضح ہو کہ جس معاشرے میں مثبت طریقے سے جنسی تعلیم نہ ملے اور کسی کو جنسی موضوعات پر گفتگو کرنے کی جرات نہ ہو، ایسے معاشرے میں اگر خدانخواستہ کوئی شخص کسی جنسی مرض میں مبتلا ہو جائے تو وہ اپنا علاج کروانے سے اس وقت تک شرماتا رہتا ہے جب تک وہ مرض پوری طرح شدت اختیار نہیں کر لیتا۔ایسے امراض جن پر بروقت تشخیص کی صورت میں چند دن کے علاج سے قابو پانا ممکن ہے، ہمارے معاشرے کی کھوکھلی حیاء کی وجہ سے ان کی تشخیص اس وقت ہوتی ہے جب وہ موذی مرض بن چکے ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ مثبت جنسی تعلیم کا فقدان اور جنسی موضوعات پر کلام کو ناجائز سمجھنا ہے۔ ایسی صورت میں مریض اپنی جنسی بیماریوں کا علاج کروانے سے شرماتے ہیں اور اپنے جنسی مسائل سے نمٹ نہیں پاتے۔
ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیئے کہ یہ سب کچھ مثبت جنسی تعلیم کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اگر معاشرے میں مثبت جنسی تعلیم موجود ہو تو لوگ اپنے جنسی مسائل کے حل میں محض شرم و حیاء کی وجہ سے سستی نہیں‌ کریں‌ گے اور بیشمار لوگ پیچیدہ جنسی بیماریوں‌ سے محفوظ‌ رہ سکیں گے۔

اسقاط ‌حمل شرعی نقطہ نظر سے

بچے کی زندگی کا آغاز مرحلہ جنین سے ہوتا ہے اور حمل کے 4 ماہ بعد رحم مادر میں موجود بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ حمل کے پہلے 4 ماہ کے دوران کسی معقول وجہ کی بناء پر حمل ضائع کرنا جائز ہے جبکہ 4 ماہ گزرنے کے بعد حمل کو ضائع کرنا بچہ کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔رحم مادر میں استقرارِ حمل جب تک 120 دن یعنی چار ماہ کا نہ ہو جائے یعنی بچہ کے اندر روح پھونکے جانے سے قبل اسقاطِ حمل (abortion) اگرچہ جائز ہے مگر بلا ضرورت مکروہ ہے، جب کہ 4 ماہ کا حمل ہو جانے کے بعد اسے بلا عذر شرعی ضائع کرنا حرام ہے۔
عذر شرعی سے مراد یہ ہے کہ اگر حمل کے 4 ماہ گزرگئے ہوں لیکن حمل برقرار رہنے کی وجہ سے عورت کی ہلاکت یقینی ہو، جس کی ماہر ڈاکٹروں نے تصدیق کردی ہو، تو ایسی صورت میں 4 ماہ کے بعد بھی اسقاط حمل جائز ہے بلکہ عورت کی جان بچانے کے لیے ضروری ہے کیونکہ اِسقاط نہ کرانے کی صورت میں ماں اور بچہ دونوں کی ہلاکت کا خطرہ یقینی ہے۔ ماں‌ کے مقابلہ میں پیٹ میں‌ موجود بچہ کا زندہ ہونا محض ظنی ہے، چنانچہ بچے کی نسبت ماں کی جان بچانا زیادہ اہم ہے۔ اس لیے اس صورت میں اسقاط کرانا واجب ہے۔

مباشرت کے جائز طریقے

مثالی مباشرت کے لئے ضروری ہے کہ میاں‌ بیوی دونوں دل کی رغبت سے ایک دوسرے سے مباشرت کرنے کے خواہشمند ہوں۔ مباشرت کے وقت دونوں‌کا تندرست و توانا ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر دونوں‌ میں سے کسی ایک کے سر میں‌ درد ہے، یا اس کی مرضی شامل نہیں ہے تو دونوں مباشرت سے صحیح طریقے سے لطف اندوز نہیں‌ ہو سکتے۔ بیوی کی مرضی کے بغیر اس سے مباشرت کرنا شوہر کو کبھی حقیقی سکون نہیں دے سکتا۔ علاوہ ازیں جس سوچ اور جن حالات میں میاں بیوی مباشرت کر رہے ہیں اس کا اثر ان کی ہونے والی اولاد پر بھی پڑ سکتا ہے، اس لئے دونوں‌ کا تازہ دم ہونا اور برضا و رغبت جنسی عمل میں شریک ہونا نہایت ضروری ہے۔
مباشرت کے دوران مرد کو جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیئے، کیونکہ وہ مباشرت سے قبل بیوی کے جذبات کو بیدار کرنے پر جتنی محنت کرنے گا، اتنی ہی بہترین مباشرت کے لئے وہ اسے تیار پائے گا۔ اگر بیوی کے جنسی جذبات کو تیز سے تیز تر کرتے ہوئے خوب بھڑکا دیا جائے تو میاں‌ بیوی دونوں‌ کے لئے وہ ایک مثالی مباشرت ہوتی ہے۔ اس لئے مباشرت شروع کرنے سے قبل مرد کو اس بات کا خصوصی خیال رکھنا چاہیئے کہ وہ جہاں تک ممکن ہو خود کو ٹھنڈا رکھے، بوس و کنا ر میں بہت ضبط سے کام لے اور دوسری طرف عورت کے جذبات اور اس کے شوق کو بھڑکاتا چلا جائے۔ یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ مرد کی نسبت عورت کے جذبات کو بیدار ہونے میں کافی وقت لگتا ہے۔ اس لئے شروع میں کم از کم 15 منٹ کے لئے شوہر کو چاہیئے کہ وہ بیوی کو جنسی طور پر بیدار کرنے کے لئے اس کے مخصوص اعضاء سے کھیلے۔ بیوی کے پستانوں‌ کو منہ میں ڈال کر ہاتھوں‌ سے خوب اچھی طرح دباتے ہوئے چوسے۔ اس کی فرج کے دھانے پر اوپر کی طرف واقع مٹر کے دانے جتنے گوشت کے چھوٹے ٹکڑے “بظر” (جسے C Spot بھی کہا جاتا ہے) کو مسلنے سے بیوی مباشرت کے لئے بے تاب ہو جاتی ہے۔اگرچہ مثالی مباشرت کے لئے میاں‌ بیوی دونوں کا انزال ایک وقت میں‌ ہونا ضروری نہیں تاہم بہترین لطف اندوزی کے لئے یہ ایک اچھی صورت ہو سکتی ہے۔

دخول کے بعد بھی شوہر کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ اگر وہ بیوی کی پیاس بجھانے سے پہلے انزال کر دے گا تو بیوی اسے ناپسند کرنے لگے گی۔ جلدی انزال کر کے فارغ‌ ہو جانے والے شوہر کو خودغرض سمجھتے ہوئے اس کی بیوی سوچتی ہے کہ شوہر نے اس کی خواہش کو نظر انداز کرتے ہوئے محض اپنا کام نکالا ہے۔ چنانچہ وہ بعد ازاں خود بھی شوہر کی خواہشوں کو کچلنے میں مزہ لیتی ہے اور صرف اپنا الو سیدھا کرنے کی فکر میں پڑ جاتی ہے۔ نوبت بایں جا رسید کہ بعض عورتیں‌ اپنی جنسی تسکین کے لئے غیر مردوں سے جنسی تعلقات استوار کر لیتی ہیں۔

مزید بہترین مباشرت کے لئے بہتر ہے کہ مباشرت کے دوران میں مناسب دنوں کا وقفہ کیا جائے اور ہر دو مباشرت کے دوران اتنے دن کا وقفہ ہو کہ منی پختہ ہو چکی ہو۔

مباشرت ایک فطری عمل ہے

جنسی عمل ایک فطری عمل ہے اور فطرت کبھی بے حیاء نہیں ہوتی۔ ہمارے معاشرے میں عام طور پر میاں‌ بیوی کے تعلق پر بات کرنے والوں‌ کو بے حیاء سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے بہت سے نوبیاہتا جوڑے کسی بڑے سے اپنے جنسی مسائل پوچھنے سے شرماتے ہیں اور یوں ان کے مسائل کے گھمبیر ہوتے چلے جاتے ہیں۔مباشرت یعنی فریضہ زوجیت ایک صدقہ ہے۔ میاں‌ بیوی کے درمیان الفت بڑھانے اور نسل انسانی کے تحفظ کا ضامن یہ عمل کوئی شجر ممنوعہ نہیں‌ کہ اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے اس بارے میں‌ بات کرنا بے شرمی کی بات سمجھی جائے۔ جائز حدود میں رہ کر جنسی مسائل کو ڈسکس کرنا اور ان کا حل معلوم کر کے اپنی زندگی کو خوشگوار بنانا ہر انسان کا حق ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ ہماری غیر شرعی معاشرتی اقدار ہمیں‌ ہمارے اس جائز حق سے محروم رکھے ہوئے ہیں۔
اسلام کی تعلیمات میں جابجا جنسی معلومات دی گئی ہیں۔ قرآن و حدیث کی بے شمار نصوص میاں‌ بیوی کے تعلق کو نہ صرف واضح کرتی ہیں بلکہ مباشرت کے جائز اور ناجائز طریقوں سے بھی آگاہ کرتی ہیں۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ جیسے ہم نے اسلام کی روحانی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا اسی طرح اسلام کی ان تعلیمات کو بھی بے شرمی کی باتیں‌ قرار دیتے ہوئے ان سے بھی صرف نظر شروع کر دیا جو ایک مسلمان کے تکمیل ایمان کی ضامن ہیں۔ من گھڑت شرم و حیاء کا لیبل جہاں‌ ایک طرف متبعین شریعت کو ضروری جنسی معلومات کے حصول سے محروم کر دیتا ہے وہیں شریعت کو بوجھ سمجھنے والوں‌ کو جنسی معلومات کے حصول کے لئے شتر بے مہار کی طرح مغرب کی تقلید کے لئے کھلا چھوڑ دیتا ہے۔ یہ دوغلاپن ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح‌ چاٹ رہا ہے۔

غسل کا طریقہ

غسل کا طریقہشریعت کی رو سے غسل سے مراد پاک پانی کا تمام بدن پر خاص طریقے سے بہانا ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْا. (القرآن، المائدہ، 5 : 6)
اور اگر تم حالتِ جنابت میں ہو تو (نہا کر) خوب پاک ہو جاؤ۔

غسل کے 3 فرائض ہیں  (1) کلی کرنا، (2) ناک میں پانی ڈالنا، (3) پورے بدن پر پانی بہانا۔
غسل کا مسنون طریقہ

1. نیت کرے۔
2. بسم اللہ سے ابتداء کرے۔
3. دونوں ہاتھوں کو کلائیوں تک دھوئے۔
4. استنجاء کرے خواہ نجاست لگی ہو یا نہ لگی ہو۔
5. پھر وضو کرے جس طرح نماز کے لیے کیا جاتا ہے اگر ایسی جگہ کھڑا ہے۔ جہاں پانی جمع ہو جاتا ہے تو پاؤں کو آخر میں غسل کے بعد دھوئے۔
6. تین بار سارے جسم پر پانی بہائے۔
7. پانی بہانے کی ابتداء سر سے کرے۔
8. اس کے بعد دائیں کندھے کی طرف سے پانی بہائے۔
9. پھر بائیں کندھے کی طرف پانی بہانے کے بعد پورے بدن پر تین بار پانی ڈالے۔
10. وضو کرتے وقت اگر پاؤں نہیں دھوئے تھے تو اب دھو لے۔

غسل واجب کی صورت میں جسم پر لگی ہوئی نجاست کو پہلے دھونا سنت ہے۔

شاور، ٹوٹی، نل اور ٹب وغیرہ کے ذریعے غسل کرنے کے لیے پہلے اچھی طرح کلی کریں اور ناک میں نرم ہڈی تک پانی ڈالیں اور پھر پورے بدن پر کم از کم ایک مرتبہ اس طرح پانی بہائیں کہ بدن کا کوئی حصہ بال برابر بھی خشک نہ رہے تو غسل کے واجبات ادا ہو جائیں گے۔
تالاب یا نہر میں غسل کا طریقہ
تالاب، دریا یا نہر میں نہانے سے پہلے کلی کریں پھر ناک میں پانی ڈال کر خوب صاف کریں اور تھوڑی دیر اس میں ٹھہرنے سے غسل کی سب سنتیں ادا ہو جائیں گی۔ اور اگر تالاب اور حوض یعنی ٹھہرے ہوئے پانی میں نہائیں تو بدن کو تین بار حرکت دینے یا جگہ بدلنے سے غسل ہو جائے گا۔
سر کے بالوں‌ کا دھونا
اگر غسل کرنے والی عورت کے سر کے بالوں‌ کو کھولے بغیر پانی سر کی جلد تک بخوبی پہنچ جائے تو اس کے لیے سر کے بالوں کو کھولنا ضروری نہیں۔ تاہم اگر گوندھے ہوئے بالوں کی تہ تک پانی نہ پہنچے تو پھر بالوں کا کھولنا واجب ہے۔
دوران غسل قرآنی آیات اور دعاؤں کا پڑھنا
غسل کرتے ہوئے انسان بالعموم ننگا ہوتا ہے اس لیے اس دوران قرآنی آیات یا دیگر کوئی دعا وغیرہ پڑھنا جائز نہیں یہاں تک کہ کوئی دنیوی کلام کرنا بھی منع ہے۔

غسل فرض اور واجب

اسباب فرضیت غسل
غسل کے فرض ہونے کی صورتمباشرت کے دوران مرد کے ذکر کی ٹوپی عورت کی فرج میں داخل ہونے سے مرد اور عورت دونوں پر غسل فرض ہو جاتا ہے، خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔

اسباب وجوب غسل
غسل کے واجب ہونے کی درج ذیل صورتیں ہیں
 احتلام کی صورت میں غسل واجب ہو جاتا ہے۔
 عورت حیض اور نفاس سے فارغ ہو تو اس پر غسل فرض ہے۔
 مباشرت کے علاوہ کسی بھی دوسرے طریقے سے شہوت حاصل کرتے ہوئے انزال ہو جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔
 اگر شہوت کے علاوہ کسی دوسری وجہ مثلا محنت و مشقت یا کسی بیماری کی وجہ سے انزال ہو جائے تو غسل واجب نہیں، التبہ اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
 اگر پتلی منی پیشاب کے ساتھ بغیر شہوت کے نکلی تو غسل فرض نہیں۔

سو کر اٹھنے کے بعد کپڑوں پر کچھ نشانات پائے گئے تو اس پر غسل کی چند صورتیں ہیں

1. اگر اس کے ودی یا مذی دونوں میں سے ایک کے ہونے کا یقین یا اِحتمال ہو تو غسل واجب نہیں۔
2. اگر یقین ہے کہ منی یا مذی نہیں کچھ اور ہے تو غسل واجب نہیں۔
3. اگر منی ہونے کا یقین ہے مگر مذی کا شک ہے اور اگر خواب میں احتلام ہونا یاد نہیں تو غسل ضروری نہیں ورنہ ہے۔

جنسی تعلیم بارے مغربی نظریہ

امریکی و یورپی معاشروں میں انسان کی موجودہ زندگی کو ہی مکمل حیات سمجھا جاتا ہے اور مذہبا عیسائی کہلانے کے باوجود اس معاشروں میں حیات بعد الموت کا کوئی تصور موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسی دنیا کو جنت بنانے پر تلے ہیں اور اس روش میں وہ کسی بھی قسم کا جائز و ناجائز حربہ استعمال کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں‌ بھی مغربی نظریات کی بوچھاڑ‌ میں بہنے والے طبقہ کی اکثریت آخرت کو بھلا بیٹھی ہے اور اسی زندگی کو کل سمجھ کر روپیہ پیسہ کمانے کے لئے ہر جائز و ناجائز طریقہ کو روا رکھے ہوئے ہے۔
جنسی تعلیم کے حوالے سے مغربی معاشرے میں یہ نظریہ عام ہے کہ زندگی صرف مزے لینے کے لئے بنی ہے اور انسان شتر بےمہار کی طرح جب چاہے جو چاہے کرے۔ چنانچہ ان کے مطابق انسان جنسی تعلق بنانے میں مکمل طور پر آزاد ہے۔ ان کے معاشرے میں فرد کو شادی کی ضرورت نہیں۔ وہ بناء شادی کئے جنسی تعلقات بنانا چاہے تو کوئی قانون اسے روک نہیں سکتا۔ ان کے ہاں‌ کسی قسم کے جنسی عمل کے لئے لڑکے اور لڑکی کی رضامندی ہی کافی ہے۔ اگر جنسی عمل دونوں‌ کی مرضی سے ہو رہا ہے تو اسے کسی عدالت میں چیلنج نہیں‌ کیا جا سکتا۔

اسی طرح ہم جنس پرستی کو بھی بیشتر ممالک نے قانونی حیثیت دے رکھی ہے۔ اگر کوئی دو لڑکے میاں‌ بیوی کے طور پر جنسی تعلقات بنانا چاہیں تو وہ آزاد ہیں، یہی حالت لڑکیوں‌ کی بھی ہے۔ نوبت بایں‌ جا رسید کہ یورپ کی کسی گلی میں ایک دوسرے کے منہ میں منہ ڈالے کھڑے لڑکوں‌ یا لڑکیوں کو اگر کوئی بزرگ اس واہیات حرکت پر ٹوکے تو وہ وہیں‌ کھڑے کھڑے پولیس کو کال کر دیتے ہیں اور پولیس اس بزرگ کو سرزنش کرتی ہے کہ تم ان کی آزادی میں ٹانگ اڑانے والے کون ہوتے ہو!!!

مغربی ممالک میں‌ عام طور پر جو جنسی تعلیم دی جاتی ہے، اس میں اس قسم کی منفی تعلیم بھی شامل ہوتی ہے:

* اپنے دوستوں‌ سے جنسی ملاپ کی صورت میں کیا احتیاطیں‌ کی جائیں؟
* جنسی ملاپ سے پہلے کون سی ادویات کھا لینے سے حمل نہیں ہوتا؟
* کنڈوم کیسے استعمال کیا جاتا ہے؟ اور کس قسم کا کنڈوم معیاری ہوتا ہے؟
* جنسی ملاپ سے اگر حمل ہو جائے تو اسے کیسے گرایا جائے؟

اس قسم کی منفی جنسی تعلیم کے دوران اصلاح کی بجائے انتہائی سطح‌ کا بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ مخلوط تعلیم کے دوران نوجوان لڑکے لڑکیاں بعض اوقات ایک دوسرے کو اپنے جنسی تجربات سے بھی آگاہ کرتے اور جنسی عمل کے دوران زیادہ مزہ لینے کے مختلف طریقے (Sex Positions) بھی دہراتے ہیں۔
مشرقی معاشروں کی ضرورت
مغربی نظریات کی یلغار کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ مشرقی معاشروں میں بھی مرد عورت کو اپنی شہوانی خواہشات کی آگ بجھانے کا ایک خوبصورت آلہ سمجھنے لگا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ عورت کو انسان کی نسل برقرار رکھنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ قدرت نے اسے مرد کی مونس و غمخوار اور ساتھی بنا کر بھیجا ہے۔ اس لئے مرد کو چاہیئے کہ وہ اسے صحیح اور جائز طریقے سے استعمال کر کے اپنی زندگی کو بہشت کا نمونہ بنائے اور تندرست و توانا اولاد پیدا کر کے اپنی نسل کو بہتر بنائے۔ اس حوالے سے عورت کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنے آپ کو بالکل بے کس اور مجبور خیال نہ کرے یا اپنے آپ کو بالکل ہی مرد کی دست نگر تصور نہ کرے، بلکہ مرد کی ہم پلہ بن کر اپنے آپ کو صیحح معنوں میں نصف بہتر بنائے۔

لڑکی کے والدین کو چاہیئے کہ وہ شروع سے ہی اپنی بیٹی میں ایسے اوصاف پیدا کریں، جن سے وہ مرد کے لیے وبال جان نہ بنے بلکہ اس کی اچھی شریک حیات ثابت ہو۔

اکثر اوقات مرد یہ سمجھتے ہیں کہ عورت میں جنسی خواہشات مرد کی نسبت بہت زیادہ ہوتی ہیں اور وہ تقریباً ہر وقت مباشرت کے لئے تیار رہتی ہے، حالانکہ حقیقت کا اس سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔ عورت بے چاری تو خواہش کے نہ ہوتے ہوئے بھی اپنے خاوند کو خوش کرنے کے لئے مباشرت کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ اسی وجہ سے مرد یہ سمجھتا ہے کہ اس کی بیوی پر شہوت کا غلبہ رہتا ہے اور وہ خاوند کا اشارہ پاتے ہی اس آگ کو بجھانے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ جو لوگ عورت کو وقت بے وقت ستاتے رہتے ہیں اور کثرت سے مباشرت کرتے ہیں، وہ عورت کے لئے بہت بڑی آزمائش بن جاتے ہیں۔

پاکستان میں میسر ‌جنسی تعلیم کے جائز و ناجائز ذرائع

اگرچہ ہمارے ہاں جنسی تعلیم کی شدت سے مخالفت پائی جاتی ہے، جس کی بڑی وجہ لوگوں‌ کا اس بات سے خائف ہونا ہے کہ جنسی تعلیم ان کے بچوں‌ کو مغربی طرز کی جنسی خرافات کا شکار کرتے ہوئے معاشرے کو تباہ و برباد کر دے گی۔ تاہم ہمارے ہاں بعض سطحوں پر مثبت و منفی ہر دو قسم کی جنسی تعلیم کے بعض مواقع پہلے سے موجود بھی ہیں، جن سے بالعموم لوگ آنکھیں بند کئے رکھتے ہیں۔ ان میں سے چند ایک ذیل میں‌ بیان کئے جا رہے ہیں۔
سائنس کی کتب
میٹرک کی سطح‌ پر سکولوں‌ میں بچوں اور بچیوں‌ کو پڑھائی جانے والی تدریسی کتب میں ایک خاص حد تک جنسی مواد موجود ہوتا ہے، جس سے نوعمر طالب علموں‌ کو میاں‌ بیوی کے درمیان قائم جنسی تعلقات کی بخوبی سمجھ آ جاتی ہے حتی کہ وہ میاں‌ بیوی کے ملاپ کے بعد سے ماں‌ کے پیٹ میں‌ شروع ہونے والے اس عمل کو بھی جان لیتے ہیں جو بعد ازاں‌ ان کے بچے کی پیدائش کا سبب بنتا ہے۔
قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں‌ دی جانے والی مثبت جنسی تعلیم بچوں‌ کو اس نوعمری میں بے راہ روی سے محفوظ‌ رکھ سکتی ہے۔
میڈیکل کتب
میڈیکل کالجوں میں پڑھائی جانے والی کتب کی مدد سے میڈیکل سٹوڈنٹس کو میاں بیوی کے تعلق سے لے کر حمل اور بچے کی ولادت تک کے تمام مراحل بالتفصیل پڑھائے جاتے ہیں، جنہیں‌ بالعموم طلبہ و طالبات ایک ہی کلاس میں اکٹھے پڑھتے ہیں۔ امتحانات کی تیاری کے لئے لڑکے لڑکیاں‌ ان اسباق کو آپس میں‌ مل کر دہراتے بھی ہیں اور اسی دوران بہت سی لڑکیاں تعلیم مکمل ہونے سے پہلے اسقاط حمل کی نوبت کو بھی پہنچ جاتی ہیں۔میڈیکل کتب میں‌ موجود تدریسی مواد کو پڑھنے سے قبل اگر طلبہ و طالبات کے لئے قرآن و سنت کی روشنی میں مثبت جنسی تعلیم لازمی قرار دے دی جائے تو اس سے انہیں بے راہ روی سے بچنے میں یقینا مدد ملے گی۔
فقہ کی کتب
اسلام کی تعلیمات ہر دور اور ہر علاقہ کے لوگوں‌ کے لئے یکساں مفید ہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں‌ لکھی گئی کتب فقہ میں‌ ایک مسلمان کی زندگی کے تمام امور کا منظم انداز میں‌ احاطہ کیا جاتا ہے۔ چنانچہ فقہ کی کتب میں جنسی موضوعات بھی پائے جاتے ہیں، جس سے بچوں‌ اور بڑوں کو ان کی جنسی زندگی کے لئے بھی رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ مگر چونکہ ان کتب کو باضابطہ طور جنسی تعلیم کی غرض سے پڑھانا مقصد نہیں ہوتا اس لئے عموما جنسی نوعیت کے موضوعات سے صرف نظر کیا جاتا ہے۔ حتی کہ میٹرک سطح‌ کے طالب علموں‌ کے پوچھنے پر حیض اور نفاس کو عورتوں سے مخصوص بیماریوں کے طور پر متعارف کروایا جاتا ہے۔

اگر قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب کردہ فقہ کی کتب میں‌ موجود جنسی تعلیم سے بچوں‌ کو بہتر انداز میں‌ روشناس کروایا جائے تو بہت سے جنسی مسائل جنم لینے سے پہلے ختم ہو سکتے ہیں۔
شادی شدہ دوست اور سہیلیاں
شادی شدہ دوست اور سہیلیاں ہمارے معاشرے میں جنسی معلومات کے حصول کا اہم ذریعہ ہوتے ہیں۔ جن لڑکوں‌ اور لڑکیوں‌ کی نئی نئی شادی ہوتی ہے وہ اپنے دوستوں کو اپنے جنسی تجربات سے آگاہ کرتے اور مرچ مصالحہ لگا کر سناتے ہیں۔ اس کی وجہ سے اکثر غیر شادی شدہ نوجوانوں کے دل میں جنسی تجربات کا شوق پیدا ہوتا ہے اور وہ جنسی بے راہ روی کا شکار ہونے لگتے ہیں۔

اگر نوجوانوں‌ کو میٹرک سطح پر مناسب حد تک مثبت جنسی تعلیم دے دی جائے اور انہیں‌ جنسی حوالے سے اپنے اچھے برے کی پہچان ہو جائے تو وہ بہت سی قباحتوں سے بچ سکتے ہیں۔
عامل بنگالی اور نیم حکیموں کی گمراہ کن تعلیم
شادی کورس وغیرہ کے نام سے تشہیر کرنے والے نیم حکیموں‌ کی دکانیں بھی جنسی تعلیم میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتی ہیں۔ ان نیم حکیموں‌ کے اشتہارات نوجوانوں کو بے تکی جنسی معلومات فراہم کرتے ہیں اور نوجوان مثبت جنسی تعلیم کے فقدان کی وجہ سے نیم حکیموں‌ کے چنگل میں پھنس کر خود کو جنسی بیمار سمجھنے لگ جاتے ہیں اور وہ نیم حکیم اور عامل انہیں‌ دونوں‌ ہاتھوں‌ سے لوٹتے ہیں۔

مثبت جنسی تعلیم کے فروغ سے عاملوں‌ اور نیم حکیموں‌ کے چنگل میں پھنسے نوجوانوں کو اس عذاب سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔
جنسی ناول، جنسی کہانیوں‌کی سیریز، شیطانی کھیل
تجسس انسان کی فطرت میں ہے۔ چنانچہ اکثر نوجوان جنسی معلومات کے حصول اور بعض محض چسکے لینے کے لئے جنسی ناولوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ پڑھنے والوں‌ کو ایسے ناولوں‌ میں لڑکوں اور لڑکیوں کے آزادانہ اختلاط پر مبنی فرضی معاشرہ جنت سے کم نہیں‌ لگتا اور وہ اس سے متاثر ہو کر اپنی دنیا کو جنت بنانے کے شوق میں صنف مخالف سے یاری دوستی اور بعد ازاں جنسی تعلقات بنانے تک پہنچ جاتے ہیں۔

ایسا منفی لٹریچر شائع کرنے والے اداروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے نونہال منفی قسم کی جنسی معلومات سے محفوظ‌ رہتے ہوئے مثبت طرز حیات اپنا سکیں۔ علاوہ ازیں مثبت جنسی تعلیم یقینا انہیں‌ ایسے منفی جنسی مواد سے بچانے میں‌ اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
انٹرنیٹ پر موجود ننگی فلمیں
جنسی ناولوں‌ سے کئی گنا بڑھ کر وہ جنسی مواد ہے جو انٹرنیٹ پر آزادانہ میسر ہے۔ نوجوان لڑے لڑکیاں انٹرنیٹ کلبوں‌ میں جا کر ایسی سیکسی ویب سائٹس وزٹ کرتے اور اپنا دل بہلاتے ہیں۔ ایک محتاط سروے کے مطابق پاکستان میں موجود 80 سے 90 فیصد انٹرنیٹ کیفے اپنے گاہکوں‌ کو جنسی مواد کی ترغیب دیتے ہیں۔ ان کلبوں‌ میں‌ موجود کمپیوٹرز میں ہر رنگ و نسل کے جوڑوں کے جنسی اختلاط پر مبنی فلمیں موجود ہوتی ہیں، جو گاہک کے طلب کرنے پر ایکسٹرا فیس کے ساتھ مہیا کی جاتی ہیں۔

ایسی ننگی فلمیں چند سکوں‌ کے عوض سی ڈی شاپس پر بھی بآسانی دستیاب ہیں۔ پاکستان کے کسی بھی شہر میں موجود سی ڈیز کی ہول سیل مارکیٹ میں اچانک چھاپہ مارا جائے تو ہزارہا کی تعداد میں ایسی ننگی فلمیں‌ برآمد ہو سکتی ہیں اور اس کے نتیجے میں ہر شہر میں سیکڑوں‌ دکانیں‌ بند ہو سکتی ہیں۔
انٹرنیٹ پر موجود جنسی کہانیاں
ننگی فلموں کے علاوہ انٹرنیٹ پر ایسی اخلاق باختہ ویب سائٹس کی بھی کمی نہیں‌ جہاں‌ نوجوان لڑکے لڑکیوں‌ کو زنا کی ترغیب دینے کے لئے جنسی کہانیاں شائع کی جاتی ہیں۔ بے شمار نوجوان ان کہانیوں کو پڑھ کر زنا کی طرف راغب ہوتے ہیں اور بعد ازاں وہ بھی اپنے جنسی تجربات پر مبنی کہانیاں‌ ان ویب سائٹس پر شائع کرواتے ہیں۔ جنسی بے حیائی اور چسکوں‌ سے بھری ان کہانیوں‌ کو پڑھنا ننگی فلمیں‌ دیکھنے سے کسی طرح کم نہیں‌ ہوتا۔