Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

مذی – فقہی احکام

مردانہ عضو تناسل سے خارج ہونے والی تین رطوبتوں میں سے ایک رطوبت مذی کہلاتی ہے، جو بالعموم شہوت کی صورت میں‌ منی سے پہلے خارج ہوتی ہے۔

مذی کا مقصد شہوت کی صورت میں منی کے خروج سے پہلے ذکر کی اندرونی دیواروں کو نرم کرنا ہوتا ہے تاکہ منی کے اچانک خروج سے انہیں‌ کوئی نقصان نہ پہنچے۔
 تا دیر جنسی خیالات میں گھرے رہنے والے لوگوں‌ کو اکثر مذی کے خروج کی شکایت رہتی ہے۔
 مذی کے خارج ہونے سے غسل واجب نہیں ہوتا، تاہم وضو ٹوٹ جاتا ہے۔

منی – فقہی احکام

مردانہ عضو تناسل سے خارج ہونے والی تین رطوبتوں میں سے سب سے اہم رطوبت منی کہلاتی ایک ہے، جو انسان کی افزائش نسل میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

 پہلی بار منی کے خروج کے موقع پر شریعت اسلامی میں بچے کو بالغ قرار دے دیا جاتا ہے۔
 منی بالعموم شہوت کے ساتھ خارج ہوتی ہے، تاہم کبھی کبھار شہوت کے بغیر کسی بیماری یا پرمشقت کام کرتے ہوئے حادثاتی طور پر بھی منی کا خروج ممکن ہے۔
 شہوت کے ساتھ منی کے خارج ہونے سے غسل واجب ہو جاتا ہے۔

ضبط ولادت (مانع حمل) – شرعی نقطہ نظر سے

اولاد اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے مگر اس کے باوجود بعض اوقات انسان ضبط ولادت کو ضروری خیال کرتا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر ضبط ولادت کے پیچھے حرام کاری ہی کارفرما ہو۔

ضبط ولادت میں ممکنہ جائز وجوہات

 ماں اور بچوں کی صحت کے نکتہ نظر سے خواہش ہوتی ہے کہ بچوں کی پیدائش میں دو تین سال کا وقفہ ہو۔
 بعض اوقات ماں کی صحت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ مزید بچے پیدا کر سکے۔
بعض اوقات میڈیکل ٹیسٹوں کی مدد سے پتہ چل جاتا ہے کہ آئندہ بچے نارمل نہیں‌ ہوں گے، چنانچہ حمل سے احتراز کیا جاتا ہے۔
 والدین کی بعض بیماریاں بچوں کو منتقل ہونے کے خدشے سے بھی بعض اوقات ضبط ولادت کو ترجیح دی جاتی ہے۔
 اکثر جوڑے دو یا تین بچوں کی پیدائش کے بعد اپنے خاندان کو مزید بڑا کرنے سے احتراز کرتے ہیں تاکہ وہ بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کا انتظام کر سکیں۔
 ملازمت پیشہ خواتین بچوں کی تربیت کے لئے کم وقت نکال پاتی ہیں، چنانچہ ان کی بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ کم بچے پیدا کریں۔
شرعی نقطہ نظر
مذکورہ بالا ممکنہ وجوہات کے پیش نظر بہت سے علماء ضبط ولادت کو سو فیصد حرام قرار نہیں دیتے۔ اس کے جواز میں وہ احادیث پیش کی جاتی ہیں جن میں صحابہ کرام کے عزل کرنے کا ذکر ہے۔ عزل اس دور میں ضبط تولید کا ایک طریقہ تھا۔

صحیح بخاری میں مذکور حدیث مبارکہ میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم عزل کیا کرتے تھے درآنحالیکہ قرآن مجید کے نزول کا سلسلہ جاری تھا۔

بخاری شریف کی ایک اور حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ عزل کرنا کیسا ہے؟ آپ نے فرمایا جس جان کو اللہ نے قیامت سے پہلے پیدا کرنا ہے وہ ضرور پیدا ہو گی۔ (یعنی تم اسے روک نہیں سکو گے۔)

حقیقت بھی یہی ہے کہ عزل کے دوران انزال سے پہلے ذکر کو فرج سے باہر نکالنے کی کوشش میں یا انزال سے بھی پہلے بعض اوقات چند سپرم فرج میں رہ جاتے ہیں اور وہ حمل کا باعث بن جاتے ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق عزل کی صورت میں 25 فیصد تک حمل کا امکان باقی رہتا ہے۔ یہی بات چودہ صدیاں قبل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمائی تھی۔

اس صفحہ کے مواد میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔
دوبارہ ملاحظہ کرنا مت بھولئے گا۔

بچے میں روح کب پھونکی جاتی ہے؟

بچے کی زندگی کا آغاز مرحلہ جنین سے ہوتا ہے اور حمل کے 4 ماہ بعد رحم مادر میں موجود بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ اس حوالے سے حدیث مبارکہ میں ہے:

یہی وجہ ہے کہ فقھاء کرام نے کسی مجبوری کی بناء پر 4 ماہ سے قبل اسقاط حمل کو جائز قرار دیا ہے۔ بچے کی زندگی کا آغاز مرحلہ جنین سے ہوتا ہے اور حمل کے 4 ماہ بعد رحم مادر میں موجود بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ حمل کے پہلے 4 ماہ کے دوران کسی معقول وجہ کی بناء پر حمل ضائع کرنا جائز ہے جبکہ 4 ماہ گزرنے کے بعد حمل کو ضائع کرنا بچہ کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔
رحم مادر میں استقرارِ حمل جب تک 120 دن یعنی چار ماہ کا نہ ہو جائے یعنی بچہ کے اندر روح پھونکے جانے سے قبل اسقاطِ حمل

(abortion)

اگرچہ جائز ہے مگر بلا ضرورت مکروہ ہے، جب کہ 4 ماہ کا حمل ہو جانے کے بعد اسے بلا عذر شرعی ضائع کرنا حرام ہے۔

عذر شرعی سے مراد یہ ہے کہ اگر حمل کے 4 ماہ گزرگئے ہوں لیکن حمل برقرار رہنے کی وجہ سے عورت کی ہلاکت یقینی ہو، جس کی ماہر ڈاکٹروں نے تصدیق کردی ہو، تو ایسی صورت میں 4 ماہ کے بعد بھی اسقاط حمل جائز ہے بلکہ عورت کی جان بچانے کے لیے ضروری ہے کیونکہ اِسقاط نہ کرانے کی صورت میں ماں اور بچہ دونوں کی ہلاکت کا خطرہ یقینی ہے۔ ماں‌ کے مقابلہ میں پیٹ میں‌ موجود بچہ کا زندہ ہونا محض ظنی ہے، چنانچہ بچے کی نسبت ماں کی جان بچانا زیادہ اہم ہے۔ اس لیے اس صورت میں اسقاط کرانا واجب ہے۔
اسقاطِ حمل بارے فقھاء کے اقوال
درالمختار اور فتح القدیر میں ہے:
جب تک بچہ کی تخلیق نہ ہو جائے اسقاط حمل جائز ہے، پھر متعدد مقامات پر تصریح ہے کہ تخلیق کا عمل 120 دن یعنی چار ماہ کے بعد ہوتا ہے اور تخلیق سے مراد روح پھونکنا ہے۔
(درالمختار، 1 : 76) (فتح القدير، 3 : 274)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے
عورت حمل گرا سکتی ہے جب تک اس کے اعضاء واضح نہ ہو جائیں اور یہ بات 120 دن (چار ماہ) گزرنے سے پہلے ہوتی ہے۔
(فتاویٰ عالمگیری، 1 : 335)
علامہ ابن ہمام حنفی لکھتے ہیں
جب تک تخلیقی عمل (نطفہ میں اَعضاء کی ساخت کا عمل) شروع نہ ہو اِسقاطِ حمل جائز ہے۔ پھر فقہاء نے بیان کیا کہ یہ مدت چار ماہ ہے۔ اس تصریح کا یہ تقاضا ہے کہ تخلیقی عمل سے مراد روح کا پھونکا جانا ہو ورنہ یہ غلط ہے کیونکہ مشاہدہ سے ثابت ہے کہ تخلیقی عمل چار ماہ سے پہلے شروع ہوجاتا ہے۔
(فتح القدير، 3 : 274)
علامہ شامی حنفی لکھتے ہیں
اگر عورت رحم میں نطفہ پہنچنے کے بعد اس کے اخراج کا ارادہ کرے تو فقہاء نے کہا ہے کہ اگر اتنی مدت گزر گئی ہے جس میں روح پھونک دی جاتی ہے تو جائز نہیں۔ اس مدت سے پہلے اخراج کرانے میں مشائخ کا اختلاف ہے اور حدیث کے مطابق یہ مدت چار ماہ ہے۔
(ردالمختار، 5 : 329)
علامہ شامی حنفی لکھتے ہیں:
اور اگر اسقاط کے نتیجہ میں زندہ بچہ نکلا اور پھر مرگیا تو عورت کے عاقلہ پر اس بچہ کی دیت ہے جو تین سال میں ادا کی جائے گی، اور اگر عورت کے عاقلہ نہ ہوں تو عورت کے مال سے ادا کی جائے گی، اور عورت پر (دو ماہ کے مسلسل) روزے فرض ہیں اور عورت اس بچہ کی وارث نہیں ہوگی۔‘
(ردالمختار، 5 : 379)
علامہ حصکفی حنفی لکھتے ہیں:
عورت کے لیے حمل ساقط کرانے کی کوشش کرنا مکروہ ہے، اور عذر کی وجہ سے جائز ہے، بشرطیکہ بچہ کی صورت نہ بنی ہو اور اگر اس نے کسی دوا کے ذریعہ سے ناتمام (کچے) بچے کا اسقاط کرایا تو ماں کے عاقلہ (دودھیال) کی طرف سے بچہ کے وارثوں کو (ایک سال میں) پانچ سو درہم ادا کیے جائیں گے۔
(درالمختار، 5 : 397)

حمل (Pregnancy)

تخلیق انسانی بارے آیات قرآنی

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ. (النساء، 4 : 1)
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری تخلیق ایک جان سے کی۔

(single life cell)

وَهُوَ الَّذِيَ أَنشَأَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ. (الانعام، 6 : 98)
اور وہی (اﷲ) ہے جس نے تمہاری (حیاتیاتی) نشوونما ایک جان سے کی۔

مَّا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ. (لقمان، 31 : 28)
تمہیں پیدا کرنا اور تمہیں دوبارہ اُٹھانا بالکل اُسی طرح ہے جیسے ایک جان

Zygote یا fertilized ovum

سے انسانی زندگی کا آغاز کیا جانا

إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا (الدهر، 76 : 2)
بیشک ہم نے اِنسان کو مخلوط نطفےسے پیدا کیا۔ پھر ہم اسے مختلف

(mingled fluid)

حالتوں میں پلٹتے اور جانچتے ہیں، حتیٰ کہ اُسے سننے دیکھنے والا بنا دیتے ہیں

أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً (القيامه، 75 : 37، 38)
کیا وہ ابتداءً محض منی کا ایک قطرہ

(spermatic liquid یا sperm)

نہ تھا جو (عورت کے رحم میں) ٹپکا دیا گیا۔ پھر وہ لوتھڑا بنا۔

فَلْيَنظُرِ الْإِنسَانُ مِمَّ خُلِقَ خُلِقَ مِن مَّاءٍ دَافِقٍ يَخْرُجُ مِن بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ (الطارق، 86 : 5 – 7)
پس انسان کو غور (و تحقیق) کرنا چاہئے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔ وہ قوت سے اُچھلنے والے پانی (یعنی قوِی اور متحرک مادۂ تولید) میں سے پیدا کیا گیا ہے۔ جو پیٹھ اور کولہے کی ہڈیوں کے درمیان (پیڑو کے حلقہ میں) سے گزر کر باہر نکلتا ہے۔

ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِن سُلَالَةٍ مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍ. (السجده، 32 : 8)
پھر اس کی نسل کو ایک حقیر پانی کے نطفہ سے پیدا کیا جو اس کی غذاؤں کا نچوڑ ہے۔

إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ. (الدهر، 76 : 2)
بیشک ہم نے اِنسان کو مخلوط نطفےسے پیدا کیا۔

(mingled fluid)

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً. (النساء، 4 : 1)
اے لوگو! اپنے ربّ سے ڈرو، جو تمہاری تخلیق ایک جان

(single life cell)

سے کرتا ہے، پھر اُسی سے اُس کا جوڑ پیدا فرماتا ہے، پھر اُن دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلاتا ہے۔

خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا. (الزمر، 39 : 6)
اُس (ربّ) نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا پھر اُسی میں سے اُس کا جوڑ نکالا۔

وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى. (الحج، 22 : 5)
اور ہم جسے چاہتے ہیں (ماؤں کے) رحموں میں ایک مقررہ مدّت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں۔

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ (العلق، 96 : 1، 2)
اپنے رب کے نام سے پڑھیئے جس نے پیدا کیاo اُس نے اِنسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح ’’معلّق وُجود‘‘ سے پیدا کیاo

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً. فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً. فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا. فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا. ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ (المومنون، 23 : 12 – 14)
اور بیشک ہم نے اِنسان کی تخلیق (کی اِبتدا) مٹی کے (کیمیائی اجزا کے) خلاصہ سے فرمائی پھر ہم نے اُسے نطفہ (تولیدی قطرہ) بنا کر ایک مضبوط جگہ (رحمِ مادر) میں رکھا پھر ہم نے اس نطفہ کو (رحمِ مادر کے اندر جونک کی صورت میں) معلّق وجود بنا دیا۔ پھر ہم نے اُس معلّق وُجود کو ایک (ایسا) لوتھڑا بنا دیا جو دانتوں سے چبایا ہوا لگتا ہے۔ پھر ہم نے اُس لوتھڑے سے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنایا۔ پھر ہم نے اُن ہڈیوں پر گوشت (اور پٹھے) چڑھائے۔ پھر ہم نے اُسے تخلیق کی دُوسری صورت میں (بدل کر تدرِیجاً) نشوونما دی، پھر (اُس) اﷲ نے (اُسے) بڑھا کر محکم وُجود بنا دیا جو سب سے بہتر پیدا فرمانے والا ہے

ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ (السجده، 32 : 9)
پھر اُسے (اعضائے جسمانی کے تناسب سے) درُست کیا اور اُس میں اپنی طرف سے جان پھونکی اور تمہارے لئے (سننے اور دیکھنے کو) کان اور آنکھیں بنائیں اور (سوچنے سمجھنے کے لئے) دِماغ، مگر تم کم ہی (اِن نعمتوں کی اہمیت اور حقیقت کو سمجھتے ہوئے) شکر بجا لاتے ہو

إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا (الدهر، 76 : 2)
بیشک ہم نے انسان کو مخلوط نطفےسے پیدا کیا۔

(mingled fluid)

  پھر ہم اُسے مختلف حالتوں میں پلٹتے اور جانچتے ہیں، حتیٰ کہ اُسے سننے والا (اور) دیکھنے والا (انسان) بنا دیتے ہیں

يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ خَلْقًا مِن بَعْدِ خَلْقٍ فِي ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ (الزمر، 39 : 6)
وہ تمہیں ماؤں کے پیٹ میں تاریکیوں کے تین پردوں کے اندر ایک حالت کے بعد دُوسری حالت میں مرحلہ وار تخلیق فرماتا ہے۔ یہی اللہ تمہارا ربّ (تدرِیجاً پرورش فرمانے والا) ہے۔ اُسی کی بادشاہی (اندر بھی اور باہر بھی) ہے۔ سو اُس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، پھر تم کہاں بہکے چلے جاتے ہو!o

وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا (الفرقان، 25 : 2)
اور اُسی نے ہر چیز کو پیدا فرمایا ہے، پھر اُس (کی بقا و اِرتقاء کے ہر مرحلہ پر اُس کے خواص، اَفعال اور مدّت الغرض ہر چیز) کو ایک مقرّرہ اندازے پر ٹھہرایا ہے

مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ (عبس، 80 : 18 – 22)
اﷲ نے اُسے کس چیز سے پیدا فرمایا ہے؟o نطفہ میں سے اُس کو پیدا فرمایا، پھر ساتھ ہی اُس کا (خواص و جنس کے لحاظ سے) تعیّن فرما دیاo پھر (تشکیل، اِرتقاء اور تکمیل کے بعد بطنِ مادر سے نکلنے کی) راہ اُس کے لئے آسان فرما دیo پھر اُسے موت دی، پھر اُسے قبر میں دفن کر دیا گیاo پھر جب وہ چاہے گا اُسے (دوبارہ زندہ کر کے) کھڑا کر لے گا

سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّى وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَى (الاعلیٰ، 87 : 1 – 3)
اپنے ربّ کے نام کی تسبیح کریں جو سب سے بلند ہےo جس نے (کائنات کی ہر چیز کو) پیدا کیا، پھر اُسے (جملہ تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ) درُست توازُن دیاo اور جس نے (ہر ہر چیز کے لئے) قانون مقرّر کیا، پھر (اُسے اپنے اپنے نظام کے مطابق رہنے اور چلنے کا) راستہ بتایا

أَلَمْ نَخْلُقكُّم مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍ فَجَعَلْنَاهُ فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ إِلَى قَدَرٍ مَّعْلُومٍ فَقَدَرْنَا فَنِعْمَ الْقَادِرُونَ (المرسلات، 77 : 20 – 23)
کیا ہم نے تمہیں ایک بے قدر پانی سے پیدا نہیں فرمایاo پھر ہم نے اُسے ایک محفوظ جگہ (رحمِ مادر) میں رکھاo ایک معلوم ومعین انداز سے (مدت) تکo پھر ہم نے (اگلے ہر ہر مرحلے کے لئے) اندازہ فرمایا، پس ہم کیا ہی اچھے قادر ہیںo

وَهُوَ الَّذِيَ أَنشَأَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَفْقَهُونَ (الانعام، 6 : 98)
اور وہی (اﷲ) ہے جس نے تمہیں ایک جان (یعنی ایک خلیہ) سے پیدا فرمایا ہے پھر (تمہارے لئے) ایک جائے اقامت (ہے) اور ایک جائے امانت (مراد رحمِ مادر اور دنیا ہے یا دنیا اور قبر ہے)۔ بیشک ہم نے سمجھنے والے لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانیاں کھول کر بیان کردی ہیںo

پردہ بکارت (Virginity)

فرج کے دہانے کو ڈھکنے والی باریک جھلی پردہ بکارت کہلاتی ہے۔ یہ جھلی عموما شب عروسی کے موقع پر پہلی مباشرت کے دوران ختم ہو جاتی ہے اور اس کے زائل ہونے پر معمولی خون بھی نکلتا ہے۔

اسے عموما کنوارپن کی علامت سمجھا جاتا ہے، جبکہ عین ممکن ہے کہ یہ بچپن میں ہی کھیلتے ہوئے اچھل کود کے دوران ختم ہو جائے۔ دوسری طرف یہ بھی ممکن ہے کہ یہ آسانی سے زائل نہ ہو اور اسے زائل کرنے کے لئے تھوڑا تردد کرنا پڑے۔

لیکوریا / سیلان رحم (Leucorrhoea)

لیکوریا اندام نہانی یا ویجائنا کا چمٹنے والا سفید مادہ ہوتا ہے۔ نئی شادی شدہ خواتین کو کثرت جماع کی وجہ سے بعض اوقات اس کی شکایت ہو جاتی ہے۔ اسی طرح بعض اوقات دور نوبلوغت میں انگلی کی مدد سے بار بار آرگیزم حاصل کرنے کی عادی دوشیزاؤں کو بھی اس شکایت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

نیم حکیموں کی طرف سے دیواروں پر لکھے اشتہارات سے متاثر ہو کر عموما خواتین اسے موذی بیماری سمجھ لیتی ہیں اور الٹی سیدھی ادویات استعمال کر کے مزید پیچیدگی میں پڑ جاتی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ سیلانِ رحم / لیکوریا قطعآ کوئی ایسی موذی بیماری نہیں ہے۔ بعض احتیاطی تدابیر کے ذریعے اس سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔

اس صفحہ کے مواد میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔
دوبارہ ملاحظہ کرنا مت بھولئے گا۔

مباشرت ایک تکلیف دہ عمل ہے؟

مباشرت کوئی بری چیز نہیں ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے، جس کی بدولت انسان کی نسل آگے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

مباشرت کوئی تکلیف دہ چیز بھی نہیں ہے۔ بعض خواتین کو شروع شروع میں مباشرت سے معمولی تکلیف ہو سکتی ہے، مگر چند بار کے ملاپ کے بعد یہ عمل صرف راحت دیتا ہے اور تکلیف کا معمولی احساس بھی باقی نہیں رہتا۔

جن خواتین کو مباشرت تکلیف دہ محسوس ہوتی ہے اس کی وجہ صرف اور صرف ان کا نفسیاتی طور پر اس عمل کے لئے تیار نہ ہونا ہے۔ کسی سہیلی کی آپ بیتی سن کر پریشان ہو جانا اور مباشرت کے وقت بدن کو ڈھیلا چھوڑنے کی بجائے شدت احساس اور گھبراہٹ میں بدن کا اکڑ جانا دخول میں مشکل پیدا کرتا ہے اور عورت کے لئے تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ اگر عورت نارمل احساس کے ساتھ مباشرت کے لئے خود کو تیار رکھے اور دخول کے وقت بدن کو ڈھیلا چھوڑے رکھے تو معمولی تکلیف بھی باقی نہیں رہتی۔

واضح رہے کہ مباشرت کوئی گناہ نہیں ہے بلکہ یہ نیکی اور صدقہ ہے اور میاں بیوی دونوں کے لئے نہایت تسکین کا باعث ہے

حیض کے دنوں میں بہت زیادہ خون ضائع ہوتا ہے؟

حیض کے دنوں میں نکلنے والا خون دیکھنے میں عموما زیادہ لگتا ہے مگر حقیقت میں اس میں خون کی مقدار نظر آنے والے مقدر کے لحاظ سے بہت کم ہوتی ہے۔

حیض کے دوران ورزش نقصان دہ ہے؟

حیض کے دوران ورزش قطعاً نقصان دہ نہیں ہے۔ ورزش کرنے سے ماہواری کے بہاؤ پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا۔ بلکہ ورزش کرنے کی صورت میں عضلات میں آکسیجن زیادہ مقدار میں پہنچتی ہے اور درد میں کسی قدر کمی آجاتی ہے۔