Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

قدرتی امساک

قدرتی امساک
نسخہ الشفاء:تخم لاجونتی3گرام،مصری6گرام،سفوف کر کے یہ ایک خوراک ہے متواتر
10دن استعمال کریں اسی طر ح دن میں کسی بھی وقت خالی پیٹ نیم گرم دودھ کیساتھ
انشاءاللھ قدرتی امساک ہو گا کوئی نقصان نہیں ہے
کھٹی ترشی چیزوں سے پرہیز کریں

قدرتی طریقہ سے بننے والا سرکہ



 
 
 
 
 
قدرتی طریقہ سے بننے والا سرکہ تاریخ کے ہر دور میں اسے غذا اور دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ بقراط نے متعدد بیماریوں کے علاج میں سرکہ استعمال کیا ہے۔
فرانس کے ماہر جراثیم پاسچر نے معلوم کیا کہ ناشتہ میں خمیر جراثیم سے پیدا ہوتا ہے اور سرکہ کے کیمیائی عمل کا باعث جراثیم ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جراثیم کی ایک ایسی قسم بھی موجود ہے جو بیماریاں پیدا کرنے کے بجائے ہمارے ہی فائدے کے کام کرتی ہے۔ ان کو دوست Anti Bodies جراثیم کہتے ہیں۔
ان دوست جراثیم کی جانب سے انسانی فائدے کے لئے یہ منفرد کام نہیں بلکہ دودھ، دہی بنانے یا شکر کا الکحل میں تبدیل کرنے، جو سے مالٹ اکسٹریکٹ بنانے کے عمل میں بھی اسی قسم کے دوست جراثیم کی کوششیں شامل ہیں۔
احادیث میں سرکہ کی اہمیت
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی اکرم نور مجسم شاہ بنی آدم رسول محتشم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ “سرکہ کتنا اچھا سالن ہے۔“ (مسلم۔ مشکوٰۃ)
حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالٰی عنہا روایت فرماتی ہیں کہ ہمارے گھر میں نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور پوچھا کہ، “کیا تمہارے پاس کھانے کے لئے کچھ ہے ؟“ میں نے کہا۔ “نہیں ۔ البتہ باسی روٹی اور سرکہ ہے۔“ فرمایا کہ “اسے لے آؤ۔ وہ گھر کبھی غریب نہ ہوگا جس میں سرکہ موجود ہے۔“ (ترمذی)سرکہ امراض معدہ اور تلی میں مفید ہے
سرکہ کھانے کے بعد معدہ کا فعل قوی ہو جاتا ہے۔ پیاس اور صفراء کو اعتدال پر لاتا ہے۔ بھوک کھولتا ہے اور معدہ اور پیٹ کی سوزش میں انتہائی مفید ہے۔ پیٹ سے نفح کو نکالتا ہے اور ہچکی کو روکتا ہے۔ صفرا اور گرمی کی وجہ سے بھوک نہ لگتی ہو تو اس کا استعمال بے حد مفید ہے۔ انجیر کو دو روز تک سرکہ میں بگھو کر کھایا جائے بڑھی ہوئی تلی ٹھیک ہو جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تلی میں سرکہ کے لئے خصوصی رغبت ہے۔ اس لئے سرکہ کی جو بھی مقدار پیٹ میں جاتی ہے، فوراً تلی میں داخل ہو جاتی ہے۔ اس لئے وہ ادویہ جو تلی کے علاج میں دی جائیں، اگر اس کے ساتھ سرکہ بھی شامل کر دیا جائے تو اثر جلد ہوتا ہے۔ منقی اور جڑ کبر کو سرکہ کے ساتھ نہار منہ کھایا جائے تو پیٹ کے کیڑے مر جاتے ہیں۔خطوط: 664
گلے اور دانتوں کے امراض میں سرکہ کا استعمال

گلے کے اندر لٹکنے والے کوے کی سوزش، حساسیت اور اس کے ٹیڑھا پن میں مفید ہے۔ گرم سرکہ کے غرارے دانت کی درد کو ٹھیک کرتے ہیں اور مسوڑھوں کو مضبوط کرتے ہیں۔ موسم گرم میں سرکہ پینا جسم کی حدت کو کم کرکے طبیعت کو مطمئن کرتا ہے۔ علامہ محمد احمد ذہبی کہتے ہیں کہ “سرکہ گرمی اور ٹھنڈک دونوں کی تاثیر رکھتا ہے لیکن اس میں ٹھنڈا پیدا کرنے کا عنصر زیادہ غالب ہے۔ یہ معدہ کی سوزش کو دور کرتا ہے۔ عرق گلاب کے ساتھ سر درد میں مفید ہے۔ گرم پانی کے ساتھ غرارے دانت درد کو مفید ہے۔

سرکہ اورام اور دردوں میں مفید ہے

ابن قیم کہتے ہیں کہ اس کا لگانا سوزشوں سے پیدا ہونے والے اورام میں مفید ہے۔ حب الرشاد کے ساتھ جو کا آٹا ملا کر سرکہ میں لیپ بنا کر اعصابی دردوں اور خاص طور پر عرق النساء کے لئے لیپ کریں تو ازحد مفید ہے۔ میتھی کے بیج اور طرون پیس کر سرکہ میں لیپ بناکر پیٹ کی سوزش میں مفید ہے۔ یہی نسخہ ورم سے پیدا ہونے والے دردوں میں مفید ہے۔

سرکہ سے منشیات کا نشہ اتر جاتا ہے

سرکہ پینے سے شراب اور افیون کا نشہ اتر جاتا ہے۔ چونکہ سرکہ بنیادی طور پر تیزابی صفات رکھتا ہے، اس لئے قلوی رجحان والی زہروں کے علاج میں سرکہ دینا صحیح معنوں میں علاج بالضد ہے۔ جیسا کہ کاسٹک سوڈا وغیرہ۔ آپریشن کے بعد مریض کو جو قے آتی ہے، اس کو روکنے کے لئے رومال کا سرکہ میں تر کرکے مریض کے منہ پر ڈال دیا جاتا ہے۔ بے ہوشی کے بعد کی متلی رک جاتی ہے۔

ہیضہ کے علاج میں سرکہ کا استعمال

ویدک طب میں بھی سرکہ کے استعمال کا کافی ذکر ملتا ہے۔ ویدوں نے ہیضہ کے علاج میں سرکہ کو مفید قرار دیا ہے۔ ایک نسخہ کے مطابق پیاز کے ٹکڑے ٹکڑے کاٹ کر سرکہ میں بگھو دئیے جائیں، پیضہ کی وباء کے دنوں میں اس پیاز کو کھانے سے ہیضہ نہیں ہوتی۔

امراض جلد میں سرکہ کا استعمال

سرکہ اپنے اثرات کے لحاظ سے جراثیم کش، دافع تعفن اور مقامی طور پر خون کی گردش میں اضافہ کرتا ہے۔ ان فوائد کی بنا پر یہ پھپھوندی سے پیدا ہونے والی تمام سوزشوں میں کمال کی چیز ہے۔ اس میں اگر کسی اور دوائی کا اضافہ نہ بھی کیا جائے تو چھیپ، داد اور رانوں کے اندرونی طرف کی خارش میں مفید ہے۔ پھپھوندی کے علاج میں سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ پھپھوندی دواؤں کی عادی ہو جاتی ہے۔ اس لئے صحیح دوائی کے چند روزہ استعمال کے بعد فائدہ ہونا رک جاتا ہے بلکہ مؤثر دوائی کے استعمال کے دوارن ہی مرض میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ سرکہ وہ منفرد دوائی ہے جس کی پھپھوندی عادی نہیں ہوتی اور یہ ہر حال میں اس کے لئے مفید ہے۔ ابن قیم کے مشاہدات کی روشنی میں پھپھوندی سے پیدا ہونے والی سوزشوں کے لئے ایک نسخہ آزمایا گیا۔ برگ مہندی، سنامکی، کلونجی، میتھرے، حب الرشاد، قسط شیریں کو ہم وزن پیس کر اس کے ایک پیالہ میں چھ پیالہ سرکہ ملا کر اسے دس منٹ ہلکی آنچ پر ابالا گیا۔ پھر کپڑے میں نچوڑ کر چھان کر یہ لوشن ہمہ اقسام پھپھوندی میں استعمال کیا گیا۔ فوائد میں لاجواب پایا گیا۔ کسی بھی مریض کو بیس روز کے بعد مزید علاج کی ضرورت نہ رہی۔

سرکہ کے سر کے بالوں پر اثرات
سرکہ جلد اور بالوں کی بیماریوں کے لئے اطباء قدیم کے اکثر نسخہ سرکہ پر ہی مبنی ہیں۔ بو علی سینا کہتے ہیں کہ روغن گل میں ہم وزن سرکہ ملا کر خوب ملائیں۔ پھر موٹے کپڑے کے ساتھ سرکہ کو رگڑ کر سر کے گنج پر لگائیں۔ انہی کے ایک نسخہ میں کلونجی کو توے پر جلا کر سرکہ میں حل کرکے لیپ کرنے سے گنج ٹھیک ہو جاتا ہے۔ بکری کے کھر اور بھینس کے سینک کو جلا کر سرکہ میں حل کرکے سر پر بار بار لگانے سے گرتے بال اگ آتے ہیں۔ اسی مقصد کے لئے ادرک کا پانی اور سرکہ ملا کر لگانا بھی مفید ہے۔ بال اگانے کے لئے کاغذ جلا کر اس کی راکھ سرکہ میں حل کرکے لگانے کے بارے میں بھی حکماء نے ذکر کیا ہے۔

سرکہ کے فوائد ایک نظر میں :۔

خارش اور حساسیت میں سرکہ پلانا اور لگانا مفید ہے۔
 سرکہ میں پکائے ہوئے گوشت کو یرقان میں مفید بتلایا ہے۔
 سرکہ جوش خون اور صفراء اور پیاس میں مفید ہے۔ ان وجوہات کی وجہ سے بھوک نہ لگتی ہو تو مفید ہے۔
 سرکہ میں گندھک ملا کر خارش میں لیپ کرنا مفید ہوتا ہے۔
 سرکہ کاسٹک سوڈا کا علاج ہے۔
 عرق النساء میں حکماء نے لکھا ہے کہ حب الرشاد اور جو کا آٹا سرکہ میں حل کرکے لیپ کرنا نہایت مفید ہے۔
 ہیضہ اور اندرونی سوزشوں میں مفید ہے۔
 حلق کے ورم میں اس کی بھاپ سونگھایا جانا بے حد مفید ہوتا ہے۔ شراب کا نشہ اتارنے کے لئے ایک اونس سرکہ پلانا کافی ہوتا ہے۔
سرکہ اور شہد کا مشہور مرکب بخار، متلی اور صفراوی امراض میں مستعمل ہے۔
برسات اور موسموں کی تبدیلیوں میں بہترین چیز ہے۔ پیٹ کی اکثر بیماریاں دور کرتا ہے۔
 امام صادق فرماتے ہیں کہ سرکہ عقل کو تیز کرتا ہے اور اس سے مثانہ کی پتھری گل جاتی ہے۔
سرکہ بنانے کا طریقہ

سرکہ سازی کا بنیادی طریقہ کار جو آج کے دور میں رائج ہے۔ یہ معمولی فرق کے ساتھ بالکل وہی ہے جو آج سے ہزاروں سال پہلے کا تھا بلکہ بنوں، کوہاٹ اور پشاور کے علاقوں میں جہاں گھر گھر میں سرکہ سازی ہوئی ہے، وہی قدیم طریقہ استعمال کیا جاتا ہے یعنی کسی میٹھے یا نشاستہ دار محلول کو ضامن لگا کر جب خمیر اٹھایا جاتا ہے تو اس میں الکحل پیدا ہو جاتی ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ نکل جاتی ہے اور پھر جب الکحل اور آکسیجن کا ملاپ ہوتا ہے تو سرکہ بن جاتا ہے جبکہ اطباء کے ہاں سرکہ کی تیاری کا طریقہ کچھ اس طرح ہے کہ جس چیز کا سرکہ بنانا ہو، پہلے اس کا رس (جوس) حاصل کرکے پھر اس کو کسی روغنی مٹکے میں ڈال کر زیر زمین اس طرح دبایا جاتا ہے کہ مٹکے کا تمام حصہ زمین کے اندر رہے اور صرف گردن باہر ہو یا پھر کسی ایسی جگہ رکھا جاتا ہے جہاں سورج کی شعاعیں دیر تک رہیں۔ تقریباً چالیس روز بعد یا پھردو ماہ کے بعد نکال کر استعمال میں لاتے ہیں۔

مجموعی طور پر تیاری کے اعتبار سے سرکہ کی تین اقسام ہیں۔

 پہلی قسم وہ ہے جو پھلوں سے تیار کی جاتی ہے۔ یہ فطری اور قدرتی طریقہ سے بننے والا سرکہ ہے جو اپنی افادیت کے اعتبار سے بھی اعلٰی خاصوصیات کا حامل ہے۔

دوسری قسم خشک اجناس مثلاً جو کے جوہر (ایکسٹریکٹ) سے تیار ہوتی ہے، اپنی افادیت کے اعتبار سے یہ دوسرے نمبر پر ہے۔

تیسری قسم تیزاب سرکہ سے تیار کی جاتی ہے۔ اس کی تیاری میں مقطر پانی، تیزاب سرکہ کچھ مقدار چینی اور رنگ استعمال کیا جاتا ہے۔
سرکہ گنے، جامن، انگور، چقندر، گندم، جو وغیرہ سے تیار اور استعمال کیا جاتا ہے۔

Sneezing.disease.natural.treatment | چھینک بیماریوں کا قدرتی علاج

Sneezing.disease.natural.treatment 

چھینک  بیماریوں کا قدرتی علاج

چھینک اللہ پاک کی وہ نعمت ہے جس کی وجہ سے شعور کا نظام نارمل طریقے سے جاری و ساری ہے۔ خدانخواستہ انسان کو جب زندگی میں کوئی مسئلہ پیش آتا ہے وہ پریشان ہو کر اس مسئلے پر سوچنا شروع کر دیتا ہے۔ شعور کا سوچنے والا حصہ متحرک ہو جاتا ہے یعنی یادداشت، یادداشت کو کنٹرول کرنے والی لہریں متحرک ہو جاتی ہیں۔ یہ سلسلہ اگر حد سے زیادہ تجاوز کر جائے اور یادداشت پر دباﺅ پڑے یعنی یاددا شت متاثر ہونے لگے تو انسان کو چھینکیں آجاتی ہیں۔ چھینک آنے کی وجہ سے یادداشت کی متاثرہ لہریں واپس اپنی درست سمت میں کام کرنے لگتی ہیں لہٰذا انسان جب اپنے شعور پر دباﺅ ڈالے گا اس کو چھنکیں آسکتی ہیں۔
چھنکیں آنے سے انسان ہشاش بشاش ہو جاتا ہے کیونکہ چھینکوں سے متاثرہ لہریں اپنے مدار میں واپس چلی جاتی ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ شعور کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے اللہ پاک نے چھینکوں کو بنایا ہے۔ اس لیے انسان ہشاش بشاش ہو جاتا ہے اور مسئلہ اپنے آغاز میں چلا جاتا ہے یعنی آغاز کی لہروں میں جہاں سے مسئلے کو قابو کرنا انسان کیلئے بہت آسان ہوتا ہے۔ یہ حالت ایک نارمل انسان کے شعور کی بیان کی گئی ہے لیکن حالات سے متاثرہ حساس شخص جسے نفسیاتی مریض کہتے ہیں۔ ایک لائن پر سوچ سوچ کر اپنے شعور پر دباﺅ ڈالتا رہتا ہے تو شعور کا نظام جس میں نیند، دل، یادداشت ،جمائی اور چھینکیں آتی ہیں ان میں سے کوئی ایک نظام بھی متاثر ہو جائے تو باقی نظام بھی متاثر ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ نظام جذباتی نظام کے تحت آپس میں لہروں کے ذریعے جڑے ہوئے ہیں۔
جذباتی نظام چاہے تھوڑا بگڑا ہو یا زیادہ صرف چھینکوں کی بدولت ہم واپس اپنا شعوری نظام مکمل طور پر بحال کر سکتے ہیں۔
ایسے موقع پر نیند متاثر ہو جاتی ہے یعنی اڑ جاتی ہے۔ نیند کی گولیاں یا نیند کا انجکشن شعوری نظام کو مزید تباہ و برباد کر دیتے ہیں کیونکہ لہریں اپنے اپنے مدار سے باہر ہوتی ہیں اور انجکشن انہیں مزید بکھیر دیتا ہے یعنی الجھا دیتا ہے۔
اس لیے نفسیائی مریض ایسی ادویات سے مزید بگڑتا جاتا ہے۔ کوئی بھی حساس انسان اس وقت تک چوکنا نہیں ہوتا اور نہ فکر مند ہوتا ہے جب تک اس کی نیند نہ اڑے یا اُسے چکر نہ آئیں۔
مسلسل توجہ کی مشقوں سے لہروں میں مرکزیت اس وقت بحال ہو جائے گی۔ جب مریض کو چھینکیں آئیں گی یعنی شعور رواں دواں ہو جائے گا۔ ایسے موقعہ پر دو قسم کی مشقیں کی جا سکتی ہیں۔

(1 ) مطالعہ (2) پہلے چار کلموں کی تسبیحات
طریقہ: پہلے جتنی دیر مریض مطالعہ کر سکے اس کے بعد دائیں کروٹ لیٹ کر باری باری پہلے چار کلموں کی تسبیحات کریں ،چھینکیں آنے تک ۔چھینکیں آنے پر الحمد للہ ضرور پڑ ھیں ۔
یاد رکھیے: دنیا کی کوئی دوائی آپ کے شعور کی لہروں کی درست سمت کا تعین نہیں کر سکتی۔ سوائے توجہ اور پرسکون رہنے والی مشقوں کے اور نہ ہی دنیا کی کوئی دوائی آپ کی نیند واپس لا سکتی ہے ۔ سوائے توجہ کی مشقو ں کے ۔ چھینکو ں کی مثال شعور کے نظام میں ایسے ہے ۔ جیسے ویران جنگل میں نیک بزرگ با با جی۔ جو شہزادے کو ظالم جا دو گر تک پہنچنے کا راستہ بتا تے ہیں اور ساتھ منتر بھی تاکہ ظالم جا دو گر کا جادو اثر نہ کر سکے ۔ یہا ں شعور کو میں ایک ویران جنگل سے تشبیہ دو ں گی اور توجہ کی مشقیں منتر ہیں ۔ جبکہ نیند وہ شہزادی ہے جسے حاصل کرنا ہے۔
توجہ اورپر سکون رہنے والی مشقو ں سے شعور کو کنٹرو ل کریں اور کسی کو چارو ں کلمے نہ آتے ہوں تو وہ پہلے کلمے کی تسبیح نیند بحال ہونے تک کر تا رہے ۔ یا د رہے کہ کلمہ کی تسبیح میں زبان سے الفاظ ادا کرنے ضروری ہیں ۔ یعنی زبان کی حرکت ضروری ہے ۔ توجہ کی مشقوں سے دو قسم کی تبدیلی آئے گی یعنی چھینکیں اوراُبکائی۔ چھینکیں شعور کو نارمل بناتی ہیں اور ابکائی دل کو نارمل بناتی ہے یعنی گھٹن ختم کرتی ہے اسی طرح ڈپریشن کی کیفیت ختم ہو جاتی ہے ۔ پرانے نفسیاتی مریض جب اپنے شعور کو بیدار کرکے نارمل زندگی کی طرف لوٹیں گے تو وہ اپنی چھینکوں سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ نارمل ہونے کی کس حد پر ہیں۔
ایک دو چھینکوں کا مطلب ہے کہ بندہ مکمل نارمل ہے اور شعور مکمل کنٹرول میں ہے۔ تین چار کا مطلب ہے کہ بندہ نارمل ہے اگر وہ اپنی سوچوں پر کنٹرول رکھے۔ یعنی بندہ حساس ہے۔ پانچ، چھ، سات،آٹھ، نو، دس کا مطلب ہے کہ مریض کی سوچ اب نارمل ہے مگر ابھی لہریں مکمل درست سمت تک نہیں پہنچی اور ابھی منزل دور ہے۔ محنت کی ضرورت ہے۔ وقتی فطری نیند تو حاصل ہو جائے گی مگر جب تک چھینکوں کی تعداد دو نہ ہو جائے مریض خود کومکمل ٹھیک نہ سمجھے۔
اگر نفسیاتی مریض کو الرجی ہو یعنی آنکھوں ناک سے پانی بہنے کے ساتھ ساتھ چھینکیں آتی ہوںتو اگر وجہ نفسیاتی خامی ہے تو توجہ کی مشقوں سے آہستہ آہستہ الرجی پر قابو پائیں۔ جیسے جیسے آپ نارمل زندگی کی طرف آتے جائیں گے چھینکوں کی تعداد کم ہوتی جائے گی۔نفسیاتی مریض کی الرجی بھی ان مشقوں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ٹھیک ہو جائے گی۔ نارمل ہونے کے سفر میں کیونکہ نفسیاتی مریضوں کی الرجی بھی شعور کی ڈسٹرب لہروں کی وجہ سے ہوتی ہےلہذا نارمل ہونے کے سفر میں نفسیاتی مریض کو لڑائی جھگڑے اور غصے سے دور رہنا چاہیے اور پرسکون رہنے کی کوشش کرنی چاہیے اور حکمت عملی سے اپنے مسائل اور پریشانیوں سے دور رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر آپ کو حکمت عملی یا رہنمائی کیلئے راستہ نہ مل رہا ہو تو مکمل رہنمائی اور مدد کیلئے کسی مستند معالج سے رجو ع کر یں۔
توجہ کی مشقوں سے متاثر لوگوں میں کوئی بھی تبدیلی آئے مثلاً نیند میں جانے سے جھٹکا لگے یا شور سنائی دے۔ یہ شور درخت کے پتوں کے شور جیسا بھی ہو سکتا ہے یا ہوا کا یا چیزوں کے گھسیٹنے کا یا جنات کی موجودگی کا احساس ہونا، آنکھ کھلنے پر بہت کچھ نظر آنا۔ یہ سب اگر آپ کے ساتھ ہوا بھی تو چند لمحوں کیلئے ہو گا ۔یہ وقتی تبدیلی ہے جو شعور کی تحریک کی وجہ سے پیش آتی ہے جب شعور کی متاثرہ لہریں اپنے مدار میں صحیح کام کرنے لگیں گی یہ سب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ٹھیک ہو جائے گا۔ ضروری نہیں آپ کے ساتھ ان میں سے کوئی سے بھی حالات پیش آئیں ممکن ہے کہ آپ کو کچھ بھی محسوس نہ ہو، نہ چھینکیں آئیں نہ اُبکائی۔ آپ معمولی سی تبدیلی جیسے آپ محسوس بھی نہ کر سکیں اورٹھیک ہو جائیں۔البتہ بہت زیادہ پرانے مریضوں کو اپنی نیند بحال کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مسائل بھی حل کرنے چاہئیں مثلاً بے چینی کیوں ہوتی ہے‘ غصہ کیوں آتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
آخر میں نفیساتی مریضوں کو پھر دہرانا چاہوں گی کہ انسانی جسم میں اب نارمل سوچ کی وجہ سے دو چیزوں میں تبدیلی واقع ہوتی ہے شعور میں اور دل میں۔جب ان دونوں میں جذباتی تبدیلی واقع ہو جائے تو ڈپریشن کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ شعور میں تبدیلی چھینکوں کی بدولت جبکہ دل میں تبدیلی اُبکائی کی بدولت آئے گی، جس سے ڈپریشن کی کیفیت ختم ہو جائے گی اور مریض مکمل نارمل حالت میں آجائے گا۔(ان شا ءاللہ

سبزیوں میں قدرتی نمکیات

سبزیوں میں قدرتی نمکیات

اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کوئی شئے بھی بےکار پیدا نہیں کی مگر کسی بھی شئے کی زیادتی صحت و تندرستی کے لیئے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے ۔ عموماً یہ سوچا جاتا ہے کہ دالیں اور سبزیاں کم تو جبکہ گوشت اچھی اور بہتر غذا ہے ، یہ سوچ قطعاً غلط ہے ۔ دالیں اور سبزیاں بھی گوشت کی طرح ایسے ہی غذائی اجزاء رکھتی ہیں جو انسانی صحت و تندرستی کے لیئے اشد ضروری ہیں ۔ یہاں اس بات کا دھیان رکھنا بھی لازمی ہے کہ گوشت یا صرف سبزیاں کھانا ہی ٹھیک نہیں بلکہ ان کا مناسب امتزاج ہی صحت کی علامت ہے ۔
سبزیاں اب عالمی طور پر غذا کے علاوہ ضرورت بن چکی ہے ، کیونکہ جدید ریسرچ نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ جو لوگ غذا میں سبزیوں کی مناسب مقدار شامل رکھتے ہیں ، ان میں بیماریوں کے امکانات کافی کم ہوتے ہیں ۔ سبزیوں میں قدرتی نمکیات ، معدنیات ، اور وٹامنز کا خزانہ ہوتا ہے کیونکہ ان میں نمکیات کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جو جسم کے لیئے اشد ضروری ہوتے ہیں ۔
اروی ۔
اروی تاثیر کے لحاظ سے گرم تر ہوتی ہے ، بھوک بڑھاتی ہے ۔ خشک کھانسی میں اکثیر اور بلغمی طبعیت میں نقصان دہ ہوتی ہے ۔گرم خشک مزاج کو موافق ہوتی ہے ۔ۃضم کرنے میں ثقیل اور قابض ہوتی ہے ۔ اس لیئے ضروری ہے کہ اس کی تیاری میں گرم مصالحہ اور اجوائن وغیرہ استعمال کیا جائے ۔

پالک ۔
پالک بہت طاقت ور سبزی ہے ، اس میں موجود فولاد سے جسم میں طاقت و قوت کی کمی پوری ہوتی ہے ۔ پالک جلد ہضم ہو جاتی ہے اور قبض کشا ہوتی ہے ۔پالک ، پتھری یرقان اور گرمی کے بخار میں فائدہ مند ہوتی ہے ۔ یہ جسم میں خون کی مقدار بڑھاتی اور جگر کو مضبوط کرتی ہے ۔ حکماء کے مطابق کشتہء فولاد سے خون اتنی تیزی سے نہیں بنتا جتنا پالک کے استعمال سے بنتا ہے ۔ پالک پکانے سے پہلے اسے مناسب طریقے سے دھو لینا چاہیئے تاکہ اس میں لگی ریت اور مٹّی نکل جائے ۔

شلجم ۔

شلجم تاثیر کے لحاظ سے قدرت گرم تر ہوتے ہیں ۔ معتدل ، ہلکی پھلکی اور زود ہضم غذا ہے ۔ اس میں نشاستہ نہیں ہوتا مگر حرارت بخش ہوتے ہیں ۔ شوگر کے مریضوں کے لیئے نہایت مفید ہے ۔ قبض کشا ہے ، اور اس میں وٹامن اے ، بی اور سی پائے جاتے ہیں ۔ شلجم میں پانی کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ اس لیئے اس کو پکاتے وقت زیادہ پانی استعمال نہیں کرنا چاہیئے ۔اس میں سیاہ زیرہ ، ادرک اور سونٹھ شامل کرنے سے اس کے بادی اثرات ختم ہوجاتے ہیں ۔

آلو ۔
آلو پوری دنیا کی ہردلعزیز سبزی ہے ، مگر یہ پوری دنیا میں سارا سال نہیں ملتی ۔ پاکستان میں خوش قسمتی سے اس کی فصل بہترین ہوتی ہے اور یہ عوام النّاس کی پسندیدہ غذا ہے ۔آلو سرد خشک تاثیر کا حامل ہوتا ہے ۔ آلو میں فولاد ، کیلشئیم ، پوٹاشیئم اور فاسفورس کی خاصی مقدار ہوتی ہے ۔جو جسمانی نشونما کے لیئے بہت مفید ہے ۔ اس کے علاوہ آلو میں میگنیشیئم ، سوڈیم ، گندھک ، کلورین اور آیوڈین بھی ہوتی ہے ۔یہ اجزا بھی انسانی صحت کے لیئے بہترین ہیں ۔ آلو میں وٹامن اے بی اور سی بھی پایا جاتا ہے ۔ آلو کو زیادہ پکانے سے اس کے وٹامنز ضائع ہو جاتے ہیں ، آلو کو اُبال کر کھانا مفید ہے ۔

گاجر ۔

گاجر قدرتی طور پر قوتِ مدافعت کا نظام مضبوط کرنے میں مدد دیتی ہے ۔اس میں وٹامن کا وسیع خزانہ موجود ہوتا ہے ۔ گاجر میں وٹامن ، اے ، بی ، سی ، فولاد ، فاسفورس ، نشاستہ اور شکر کی وسیع مقدار ہوتی ہے ، نمکیات کی مناسب مقدار بھی ہوتی ہے جو جسم سے روزآنہ خارج ہونے والے نمکیات کی کمی کو پورا کرتی ہے ۔ گاجر کا جوس پینے سے تیزی سے خون بنتا ہے ۔ گاجر سے بصارت تیز ہوتی ہے ، گاجر خون صاف کرتی ہے ، دل کے امراض ، پتھری اور یرقان میں مفید ہوتی ہے ۔ گاجر سے جگر ، معدہ اور گردے پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ شہد میں گاجر کا مربہ بنا کر کھانے سے زبردست طاقت و توانائی حاصل ہوتی ہے ۔ گاجر کا حلوہ اور گجریلا بدن کو موٹا کرتا ہے ۔گاجر کو کچّا کھانا بھی بہت مفید ہے ، اس سے دیگر فوائد کے علاوہ دانت اور مسوڑھے مضبوط ہوتے ہیں ۔

ٹماٹر ۔
ٹماٹر کی تاثیر معتدل خشک ہوتی ہے یہ انتہائی مفید اور صحت پرور ہوتا ہے ۔ ٹماٹر میں وٹامن اے بی اور سی کی کثیر مقدار ہوتی ہے ۔ٹماٹر خون پیدا کرتا ہے ۔ اس میں مختلف نمکیات اور فولاد ہوتا ہے جو جسم کی نشونما کے لیئے ضروری ہے ۔ٹماٹر کچّا اور پکّا دونوں صورتوں میں مفید ہے ۔ ٹماٹر قبض رفع کرتا ہے اور آنتوں کے لیئے اکثیر ہے ۔ جسم میں قوتِ مدافعت بڑھاتا ہے ، ٹماٹر کا رس بچّوں کی صحت کے لیئے اچھا ہے اور دانتوں کی حفاظت کرتا ہے ۔

مٹر ۔
مٹر کی تاثیر سرد خشک ہوتی ہے ۔ مٹر زود ہضم اور مقوی غذا ہے جس سے انسان میں خون اور گوشت بڑھتا ہے ، مٹر میں گندھک ، فاسفورس ، نائٹروجن اور پروٹین جیسے اجزاء پائے جاتے ہیں ، مٹر پھیپھڑے کے مریضوں کے لیئے بہت مفید ہے اور اس سے پیچش میں آرام ملتا ہے ، خشک مٹر کا شوربہ بہت قوت بخش ہوتا ہے ، مٹر کھانے کے بعد پانی پینے سے پرہیز کرنا چاہیئے وگرنہ مٹر بدہضمی کا باعث ہوتا ہے ۔

پھول گوبھی ۔
پھول گوبھی ایک ایسی سبزی ہے جو وٹامن سے بھرپور ہوتی ہے ۔ پھول گوبھی ہڈیوں کو مضبوط بناتی ہے ، اس کو پکاتے وقت کم پانی استعمال کرنا چاہیئے ، پھول گوبھی سرد خشک ہوتی ہے اس کے استعمال سے پیشاب زیادہ آتا ہے مگر یہ دیر سے ہضم ہوتی ہے ۔ اس لیئے پیٹ کے جملہ امراض اور بیمار افراد کے لیئے مفید ثابت نہیں ہوتی ۔ گوبھی کو ادرک ڈالے بغیر نہیں پکانا چاہیئے ۔

بند گوبھی ۔

بند گوبھی قبض کشا اور پیشاب آور ہوتی ہے ۔ یہ خون صاف کرتی ہے اور شوگر کے مریضوں کے لیئے بہت مفید ہے ۔ کیونکہ اس میں نشاستہ اور شکر نہیں ہوتی ۔

لہسن ۔
پاکستان میں لہسن کو مصالحے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے لیکن لہسن انتہائی بہترین شئے ہے ۔اس کے استعمال سے دل و دماغ اور جسم کو قوت حاصل ہوتی ہے ۔ لہسن تاثیر میں گرم خشک ہوتا ہے ، یہ جسم میں کولسٹرول کی مقدار کو مناسب سطح پر رکھتا ہے اور خون بڑھاتا ہے ، جسم میں موجود غیر ضروری جراثیم مارتا ہے ، چہرہ تروتازہ کرتا ہے ۔ لہسن ، فالج ، لقوہ ، دمّہ ، کھانسی ، دل کی کمزوری ، سردی لگنے ، جوڑوں کے درد ، پھیپھڑے کے زخم ، تپِ دق اور پرانے بخار میں دوا کی طرح کام کرتا ہے ۔

پیاز ۔

پیاز کی تاثیر گرم ہے مگر پیاز بھی نہایت مفید ہے ۔ پیاز قدرتی طور پر جراثیم ختم کرنے والی غذا ہے اس سے قبض رفع ہوتا ہے ، اس میں پروٹین بھی ہوتی ہے جو حرارت پیدا کرنے والے اجزاء اور معدنی اجزاء پر مشتمل ہوتی ہے ، پیاز جسم میں گندھک کی مناسب مقدار برقرار رکھتا ہے ، کچّی پیاز ہاضم ہے ، پیاز کا پانی دِق کے مریضوں کے لیئے اکثیر ہے ۔پیاز کا عرق شہد کے ساتھ استعمال کرنے سے جسمانی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے ۔

مولی ۔

مولی کو عام طور پر ٹھنڈی تاثیر کا سمجھا جاتا ہے مگر مولی گرم تر ہوتی ہے ۔ مولی ، بواسیر ، تلّی ، یرقان ، دمّہ ، معدہ اور پتّہ کے لیئے اکثیر ہے ۔مولی یورک ایسڈ کم کرنے میں بہت مدد دیتی ہے ۔ مولی گردے صاف کرتی ہے اور فضلات کو خارج کرتی ہے ۔

لوکی ۔

لوکی سرد تر اور زود ہضم ہوتی ہے ۔ قبض کشا اور پیشاب آور ہوتی ہے ۔ گرمی اور لو لگنے کا بہترین علاج ہے ، لوکی پاؤں پر لگانے سے گرمی ختم ہو جاتی ہے ۔

ٹنڈے ۔

ٹنڈے سرد تر ، قبض کشا اور زود ہضم ہوتے ہیں ، گرمی کے بخار ، پیشاب کی جلن اور خشک کھانسی میں اکثیر ہیں ۔

چقندر ۔

چقندر میں شکر اور وٹامن کی وسیع مقدار پائی جاتی ہے ۔ اس سے چینی بھی بنائی جاتی ہے ، اس کی تاثیر گرم ہوتی ہے ، چقندر جسم میں فولاد پیدا کرتا ہے ، خون کو بڑھاتا ہے اور جوڑوں کے درد میں مفید ہوتا ہے ۔ تاہم سبزی کے ساتھ ساتھ تمام قسم کے گوشت ، خاص طور پر مرغی ، انڈے اور مچھلی بھی کھانا ضروری ہے تاکہ جسم کو متوازن غذا مل سکے ۔
یہاں چند سبزیوں کا ذکر کیا گیا ہے ، بہرحال ہر سبزی فوائد سے بھرپور ہے ۔ صحیح وقت پر کھانا کھایا جائے ، بسیار خوری سے پرہیز کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنی زندگی کو صحت مند اور خوش و خرم طریقے سے نہ گزار سکیں ۔

قدرتی غذاؤں سے بہترین علاج

پھل
قدرتی غذاؤں سے بہترین علاجخدا کی نعمتوں میں سب سے قیمتی اور اہم نعمت انسان کی صحت ہے جس کی حفاظت کرنا ہمارا فرض بھی ہے اور ضرورت بھی۔ غذائیت سے بھر پور خوراک کے صحیح استعمال سے نا واقف بہت سے لوگ اس نعمت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ سبزیوں اور پھلوں کے مختلف اجزاء ہماری صحت کے لئے مفید اور چہرے کی شادابی اور تروتازگی کے لئے بہت موثر رہتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم ایسی ہی سبزیوں کا ذکر کریں گے جن کے استعمال سے آپ بھر پور غذائیت حاصل کرنے کے ساتھ علاج معالجے کے لئے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔

گاجر

جدید تحقیق نے واضح کیا ہے کہ یہ وٹامن سے بھر پور سبزی ہے جس میں فاسفورس، نشاستہ بھی پائے جاتے ہیں۔ خون کی مقدار میں اضافہ کرنے، آنکھوں کی روشنی بڑھانے، دانتوں اور مسوڑھوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ کمر درد، پتھری، یرقان جیسی بیماری کے لئے مفید ہے۔

ٹماٹر

ٹماٹر کی غذائیت اور مفید صحت ہونے کے سبب کوئی دوسری سبزی سے اس کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ فولاد معدنی نمکیات اور وٹامن کی کثرت خون پیدا کرتی ہیں قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے اس کا رس بچوں کے دانتوں کی حفاظت کرتا ہے۔

پودینہ

پودینہ زود ہضم، طاقت بخش اور اشتہار آور سبزی ہے یہ جگر کو تقویت پہنچاتا ہے کردے اورمعدے بلغم ہچکی اور پیٹ درد کے لئے مفید ہے۔ پودینے کا قہوہ معدے کی گرانی میں موثر رہتا ہے۔

کھیرا

یہ قبض کشا سبزی ہے اس چھیل کر نمک لگا کرکھانا چاہئے پیاس کی شدت ، یرقان، پیشاب کی جلن جیسی شکایات سے نجات دلاتا ہے عموما اسے کچا استعمال کیا جاتا ہے۔

ادرک

معدہ کمزور ہو یا بلغم کی زیادتی کی شکایت دونوں صورتوں میں ادرک مفید ہوتا ہے حال ہی میں ہونے والی تحقیقی رپورٹ کے مطابق فالج، لقوہ، دمہ، نزلہ زکام اور بلغمی کھانسی میں ادرک استعمال موثر رہتا ہے۔ لیکن اس کا استعمال اعتدال سے کرنا چاہیے۔

پالک

ایک سستی اور کم وقت میں گلنے والی سبزی ہے اس میں پایا جانے والا فولاد خون میں اضافہ کرتا ہے۔ کیلشیم کی موجودگی ہڈیوں کی مضبوطی اور پائیداری برقرار رکھتی ہے۔ گرمی کے بخار یرقان، پتھری کی صورت میں بھی مفید ہے۔

کریلا

کریلے کا استعمال پیٹ کے کیڑوں کے خاتمے، بلغم ختم کرنے، لقوہ، گنٹھیا، پتھری کو رفع کرنے میں مفید ثابت ہوتا ہے۔

شلجم

یہ ایک مفید سبزی ہے جو بیماروں کے لئے ہلکی اور زود ہضم ثابت ہوتی ہے۔ طبی ماہرین نے ذیابیطس کے مریضوں کے لئے اس مفید قرار دیا ہے اس کے پتوں میں وٹامنز پائے جاتے ہیں۔ لہذا شلجم کو ہمیشہ پتوں سمیت پکانا چاہیے۔

پیاز

دنیا بھر کی مشہور عام سبزی پیاز ہے جس کے بغیر نہ ہی کوئی سالن تیار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کھانے ہیں لذت پیدا ہو سکتی ہے۔ یہ قدرت کا عطیہ ہے جس میں پروٹین، نشاستہ، فاسفورس، وٹامن بی ای اور جی، نمکیات شامل ہیں۔ مراجا یہ گرم اور خشک ہوتا ہے۔ پیاز کو اگر دہی میں ڈال کر یا سادہ اور سرکے کے ساتھ استعمال کیا جائے تو کئی امراض سے بچا سکتی ہے۔ پیاز کے فوائد سے کوئی ناواقف نہیں ہے۔ ذیل میں پیاز اور اس کے استعمال کے بارے میں بیان کیا جا رہا ہے۔

سردرد

اگر سر میں درد محسوس ہو تو پیاز کا لیپ پاؤں کے تلوں پر لگائیں ایسا کرنے سے درد ختم ہو جائے گا۔

نکسیر کا علاج

گرمیوں میں اکثر افراد نکسیر بہنے کی شکایت کرتے ہیں ایسی صورت میں پیاز کے رس کے ایک دو قطرے ناک میں ٹپکانے سے نکسیر بند ہو جاتی ہے۔

لو سے محفوظ

اگر پیاز کو کسی ترش چیز میں ملا کر استعمال کیا جائے یا دہی کے ساتھ کھایا جائے تو لو لگنے کے خطرات کم ہو جاتے ہیں۔ اگر لو لگ جائے تو پیاز کا رس پی لیں اگر آپ چند مرتبہ ایسا کر لیں تو جلد افاقہ ہو گا۔

ڈنگ یا کاٹے کا علاج

بچھو، بھڑ، شہد کی مکھی یا کوئی زہریلا کیڑا کاٹ لے تو پیاز کا عرق اس جگہ پر لگائیں۔ قدیم اطباء کے مطابق ایسا کرنے سے درد دور ہو جائے گا اور زہر اپنا اثر نہیں چھوڑے گا۔

اکسیر دمہ

پیاز کے رس میں شہد اور کھانے کا سوڈا ملا کر صبح و شام استعمال کرنے سے دمے کے مریضوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔

کان درد

سفید پیاز کا عرق اور انڈے کی سفیدی ہم وزن لیں اور چند قطرے ان میں ڈالنے سے بے حد فائدہ ہو گا۔

دہی

دودھ سے دہی بنانے کا رواج تین ہزار سال قبل مسیح قدیم مصریوں میں شروع ہوا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ فراعنہ مصر کے دستر پر دہی ایک عمدہ غزا کے طور پر رکھا جاتا تھا۔ پھر ایران ، روس، عرب، بلقانی ریاستیں اور متحدہ ہندوستان میں صدیوں سے دہی غذا کا ایک اہم جز تصور ہوتا آیا ہے۔ پھر جب دہی کی شکل میں خمیر اٹھا ہوا دودھ طبی نقطۂ نظر سے مفید اور زود ہضم اور زیادہ غذائیت کا حامل ثابت ہوا تو اس سے فائدہ اٹھانے سے کسی نے نہیں روکا۔ یونانی طب میں چھاج، معدہ، جگر اور خون کی بیماریوں میں دوا بن کرصحت عطا کرتی ہے۔ ضعیف ہضم، تبخیر پیچس، بدہضمی اور رنگ برنگے دستوں کے علاج میں دہی بطور غذا تجویز کرکے عمدہ نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ غذائی نالی میں وٹامن بی کافی مقدار میں دہی سے حاصل ہوتا ہے اور یہاں سے اس کی تقسیم تمام بدن میں ہوتی رہتی ہے۔ روزانہ چھاج کا استعمال حیاتین بی کی کمی اعصابی کمزوری، دل کی عام بیماریاں اور قبض کا گھریلو قدرتی علاج ہے۔ دہی کا تیزابی مادہ، دماغ کو بھی جلا دیتا ہے اور تروتازگی بڑھا کر غصہ کو روکتا ہے۔ اس کا فعل غذا کو ہضم کر کے بھوک لگانا بھی ہے

دوا خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

خواتین ومردوں کیلئے لازوال حسن قدرتی اشیاءکا استعمال

beautiful girls خواتین ومردوں کیلئے لازوال حسن  قدرتی اشیاءکا استعمال
کہا جاتا ہے انسان کے چہرے کا حسن اللہ تعالیٰ کی عمدہ عنایت ہے۔ تبھی اکثر خواتین اپنی خوبصورتی کی حفاظت کے لئے دن رات ایک کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ نت نئی کریمیں آزمائی جارہی ہیں، معروف اداکاراﺅں کے حسن کے راز معلوم کئے جارہے ہیں، مہنگے مہنگے بیوٹی پارلرز سے رجوع بھی ہورہا ہے اور امپورٹڈ کاسمیٹکس بھی ڈریسنگ ٹیبل کی زینت ہیں مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت ساری خواتین بالخصوص لڑکیوں کی سکن ان ساری کوششوں کے باوجود بے جان، مردہ اور بے رونق نظر آتی ہے۔ تب وہ اچانک سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر دیسی طریقے آزمانے پر غور کرتی ہیں تاکہ ان کی صرف اصل خوبصورتی ہی واپس آجائے کیونکہ اتنے سارے تجربات نے ان کے چہرے کو خوبصورت بنانے کی بجائے جھریوں نما لکیروں یا چھائیوں اور داغ دھبوں کا تحفہ بھی عنایت کردیا ہے۔
بات جب قدرتی اشیاءجڑی بوٹیوں اور دیسی نسخوں کی ہوتی ہے تو علم ہوتا ہے کہ ان کے اندر قدرت نے صحت و خوبصورتی کے انمول خزانے چھپا رکھے ہیں۔ جڑی بوٹیوں سے حسن کا نکھار مصروفیات، موسمی تبد یلیوں اور مختلف صدمات کے اثرات کے باعث ماند پڑجانے والا حسن اصل حالت میں واپس آسکتا ہے
بہت سی خواتین اپنے بالوں، چہرے اور ہاتھوں پاﺅں کی جلد کی خوبصورتی کیلئے کیمیکل سے بنی ہوئی ادو یا ت ، شیمپوز اور کریمیں استعمال کرتی ہیں جن سے صرف وقتی خوبصورتی حاصل ہوتی ہے۔ منیرہ خانم ایک با ہمت خاتون ہیں جو پچھلے کئی سالوں سے خواتین کو چہرے، آنکھوں، بالوں اور ہاتھوں، پیروں کے حسن کی حفاظت کے طریقے بتارہی ہیں۔اپنے شوہر کی وفات کے بعد انہوں نے ہربل طریقہ علاج سے خواتین کی خوبصورتی کے مسائل دور کرنے کیلئے ایک ادارہ قائم کیا جہاں پر خواتین کی کنسلٹیشن کے بعد پراڈکٹ تیار کی جاتی ہیں۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ عورت کی کمزوری اس کے حسن کی تعریف ہے لیکن میں نے دیکھا کہ عورتیں خو بصورتی کی حفاظت کے عام مروجہ طریقوں پر عمل کے باوجود اس میں بہت کم ہی کامیاب ہوتی ہیں جبکہ وہ اپنی خوبصورتی کی تعریف ہمیشہ سننا پسند کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قدرت نے اس کی حفاظت کیلئے انسان کو بے شمار قدرتی ذرائع عطاءکئے ہیں جس سے اس کی جلد تروتازہ رہ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ خواتین اگر اپنے چہرے پر خوشی، اطمینان کے جذبات رکھیں اور پریشانی، مایوسی کو چہرے پر نہ آنے دیں تو اس سے بھی کافی مدد ملتی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ 16 سال کی عمر کے بعد تقریباً ہر لڑکی کو کیل مہاسے، گرتے با لوں، دانوں، چھائیوں اور داغ دھبوں جیسے مسائل سے واسطہ پڑتا ہے اس کا بہترین حل سادہ گھریلو ٹو ٹکے  ہیں سیب اور گاجر کا جوس آنکھوں اور سکن کیلئے بہت اچھا ہے۔ گاجر کا جوس تھوڑا سا چہرے پر لگالیں اور پندرہ منٹ تک لگا رہنے دیں درمیان میں خشک ہونے پر دو تین مرتبہ کوٹنگ کریں اس سے چہرے کی چمک میں اضافہ ہوگا۔
موسم کے اثرات سے بچنے کے لئے تھوڑی سی دہی، بالائی یا دودھ میں دو قطرے شہد ملاکر دن یا رات میں دس پندرہ منٹ کیلئے چہرے پر لگائیں ۔ ہفتے میں تین سے چار مرتبہ یہ عمل دھرائیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ایک کیلے کو اچھی طرح میش کرکے ایک چمچ دہی، دو قطرے بادام روغن اچھی طرح مکس کرکے پورے چہرے اور گردن پر پندرہ سے بیس منٹ کیلئے لگائیں۔ اس سے بھی اچھے نتائج سامنے آتے ہیں۔
جلد کیلئے بادام کی پیسٹ بھی اچھے نتائج دیتی ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ رات کو بادام بھگودیں صبح چھلکا اتار کر میش کریں اور اس کے اندر تھوڑی سی ہلدی اور دہی یا دودھ ملاکر پندرہ سے بیس منٹ کیلئے چہرے پر لگا ئیں۔ ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں کی گانٹھوں پر پڑنے والے کالے دھبوں کے علاج کیلئے رات کو روغن بادام روغن زیتون یا ناریل کے تیل کا پندرہ منٹ تک مساج کریں اس کے علاوہ ایک ابلے ہوئے آلو کی پیسٹ بنالیں اسمیں دو قطرے لیموں، آدھا چمچ شہد، تھوڑا سا دودھ یا دہی دو چٹکی ہلدی اور ایک چمچ روغن بادام ملاکر ہاتھوں اور پیروں پر لگائیں۔ پندرہ سے بیس منٹ تک مرکب لگارہنے دیں۔ پھر مل مل کر اتار یں دھونے کے بعد نیم گرم پانی میں تھوڑا سا نمک ڈال کر پانچ سے سات منٹ تک پاﺅں اس کے اندر ر کھیں اور سنگ یعنی جھانویں کے ساتھ صاف کرلیں اس سے انگلیوں کے کالے دھبے ختم ہوجاتے ہیں لیکن مسلسل یہ عمل دہراتے رہنا چاہئے۔
پھٹی ایڑیاں بعض خواتین کا ایسا مسئلہ ہیں جس کی وجہ سے خوبصورت سینڈلز بھی سوٹ نہیں کرتے؟ پھٹی ایڑیوں کیلئے خالص سرسوں کے ایک ٹیبل سپون میں تھوڑا سا کپڑے دھونے کا صابن ڈال کر پکالیں۔ رات کو اپنی پھٹی ایڑیوں پر لگالیں۔ پندرہ منٹ کے بعد کاٹن کی جراب پہن لیں صبح گرم پانی میں نمک ڈال کر دھوئیں اور جھانویں سے ہلکا ہلکا رگڑیں۔
چہرے کے دانوں کیلئے منڈی بوٹی 6 دانے‘ عناب 6 دانے‘ خشک لسوڑے 6 دانے‘ برادہ صندل 2 ما شے لے کر رات کو ساری چیزیں ایک گلاس میں بھگودیں۔ صبح اٹھ کر چھان کر پانی پی لیں ایک ماہ تک استعمال کرنے سے افاقہ ہوگا۔ اسکے علاوہ پھل سبزیاں ‘جوس‘ سیب‘ بند گوبھی اور ہرے رنگ کی تمام سبزیاں چہرے کے داغ دھبے ختم کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ قندھاری انار اور عام انار کو ملا کر جوس استعما ل کریں۔ کھیرا اور مولی کھانے میں سلاد کے طور پر استعمال کریں۔
موٹاپا کنٹرول کرنے کیلئے ناشتہ میں ابلا ہوا انڈا‘ دو رس‘ ایک کپ بغیر چینی کے چائے جبکہ دوپہر کے کھانے میں سبزیوں کی سلاد استعمال کریں۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک کھیرا تھوڑے سے ابلے ہوئے چنے یا لوبیہ تھوڑا سا چکن یا مٹن بند گوبھی‘ روغن زیتون ایک چمچ‘ سرکہ دو قطرے‘ کالی مرچ‘ نمک حسب ضرورت دوپہر کو روزانہ استعمال کریں۔ شام کو آدھی روٹی کے ساتھ گھر کا پکا ہوا کوئی سالن لے لی

ہیپا ٹائٹس سی کےلیے کامیاب نسخہ انشاء اللہ اس موذی مرض سے شفا یا بی ہوگی

ہیپا ٹائٹس سی کےلیے کامیاب نسخہ انشاء اللہ اس موذی مرض سے شفا یا بی ہوگیہیپاٹائٹس

انشاء اللہ اس موذی مرض سے شفا یا بی ہوگی-ہیپا ٹائٹس سی کے قدرتی علاج کےلیےدرج ذیل تین نسخوں میں سے کوئی ایک نسخہ مسلسل کافی عرصہ استعمال کریں۔ انشاء اللہ اس موذی مرض سے شفا یا بی ہوگی۔

تازہ مولی پتوں سمیت سلاد کی شکل میں یا جوسر میں جوس نکال کر استعمال کریں۔اکیلا جوس استعمال نہ کر سکیں تو گاجر، چکوترہ یا کوئی اور پھل شامل کرکے صبح و شام پیئں۔

ملٹھی اور سونف ہموزن لے کر سفوف تیار کریں اور صبح نہار منہ ‘شام 5بجے ایک ایک چمچ (چائے والا)ہمراہ عرق کاسنی یا آب تازہ استعمال کریں ۔

ملٹھی’سونف ‘دارچینی ہر ایک تین گرام رات کو آدھے گلاس پانی میں بھگو دیں صبح یہ پانی نتھار لیں اورمولی کا پتوں سمیت پچاس ملی لیٹر رس نیز سادہ گلوکوز پچیس گرام شامل کر کے نہار منہ استعمال کریں ایسی ہی خوراک شام 5بجے لیں۔

آم کھائیں بے شمار فائدے

 آم کھائیں بے شمار فائدے

آم کا شمار برصغیر کے بہترین پھلوں میں ہوتا ہے، اس لیے یہ پھلوں کا بادشاہ کہلاتا ہے۔ اسے برصغیر کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ آم اپنے ذائقے، تاثیر، رنگ اور صحت بخشی کے لحاظ سے تمام پھلوں سے منفرد ہے اور چوں کہ خوب کاشت ہوتا ہے، اس لیے یہ سستا اور سہل الحصول بھی ہے۔ اس کی سینکڑوں اقسام ہیں۔ برصغیر کو آم کا گھر بھی کہتے ہیں۔ فرانسیسی مورخ ڈی کنڈوے کے مطابق برصغیر میں آم چار ہزار سال قبل بھی کاشت کیا جاتا تھا۔ آج کل جنوبی ایشیاءکے کئی ممالک میں بھی بڑے پیمانے پر اسے کاشت کیا جاتا ہے۔
ویسے تو آم کی متعدد اقسام ہیں جن کا ذکر آگے چل کر آئے گا تاہم دو قسمیں عام ہیں۔ تخمی اور قلمی، کچا آم جس میں گٹھلی نہیں ہوتی، کیری کہلاتا ہے اور اس کا ذائقہ ترش ہوتا ہے۔ البتہ پکا ہواآم شیریں اور کبھی کھٹ میٹھا ہوتا ہے۔ پکے ہوئے تخمی آم کا رس چوسا جاتا ہے اور قلمی کو تراش کر کھایا جاتا ہے۔ آم قلمی ہو یا تخمی بہر صورت پکا ہوا لینا چاہیے۔ یہ رسیلا ہونے کی وجہ سے پیٹ میں گرانی پیدا نہیں کرتا اور جلد جزو بدن ہوتا ہے۔ پکا ہوا رسیلا میٹھا آم اپنی تاثیر کے لحاظ سے گرم خشک ہوتا
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آم کے استعمال کے بعد کچی لسی پینے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ اس طرح آم کی گرمی اور خشکی جاتی رہتی ہے۔ جو لوگ کچی لسی (دودھ میں پانی ملا ہوا) استعمال نہیں کرتے ان کے منہ میں عام طور پر چھالے ہو جانے یا جسم پر پھوڑے پھنسیاں نکل آنے کی شکایت ہو جاتی ہے۔ آم کے بعد کچی لسی استعمال کرنے سے وزن بھی بڑھتا ہے اور تازگی آتی ہے۔ معدے، مثانے اور گردوں کو طاقت پہنچتی ہے۔ آم کا استعمال اعضائے رئیسہ دل، دماغ اور جگر کیلئے مفید ہے۔ آم میں نشاستے دار اجزا ہوتے ہیں جن سے جسم موٹا ہوتا ہے۔ اپنے قبض کشا اثرات کے باعث اجابت بافراغت ہوتی ہے۔اپنی مصفی خون تاثیر کے سبب چہرے کی رنگت کو نکھارتا ہے۔ ماہرین طب کی تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ آم تمام پھلوں میں سے زیادہ خصوصیات کا حامل ہے اور اس میں حیاتین ”الف “اور حیاتین ”ج “ تمام پھلوں سے زیادہ ہوتی ہے۔کچا آم بھی اپنے اندر بے شمار غذائی و دوائی اثرات رکھتا ہے۔ اس کے استعمال سے بھوک لگتی ہے اور صفرا کم ہوتا ہے۔ موسمی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے لو کے اثرات سے بچاتا ہے البتہ ایسے لوگ جن کو نزلہ، زکام اور کھانسی ہو ان کو یہ ہرگز استعمال نہیں کرنا چاہیے۔آم تمام عمر کے لوگوں کیلئے یکساں مفید ہے۔ جو بچے لاغر اور کمزور ہوں ان کیلئے تو عمدہ قدرتی ٹانک ہے۔ اسے حاملہ عورتوں کو استعمال کرنا چاہیے، یوں بچے خوب صورت ہوں گے۔ جو مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں، اگر آم استعمال کریں تو دودھ بڑھ جاتا ہے۔ یہ خوش ذائقہ پھل نہ صرف خون پیدا کرنے والا قدرتی ٹانک ہے بلکہ گوشت بھی بناتا ہے اور نشاستائی اجزا کے علاوہ فاسفورس، کیلشیم، فولاد، پوٹاشیم اور گلوکوز بھی رکھتا ہے۔ اسی لیے دل، دماغ اور جگر کیساتھ ساتھ سینے اورپھیپھڑوں کیلئے بھی مفید ہے البتہ آم کا استعمال خالی پیٹ نہیں کرنا چاہیے۔ بعض لوگ آم کھانے کے بعد گرانی محسوس کرتے ہیں اور طبیعت بوجھل ہو جاتی ہے۔ انہیں آم کے بعد جامن کے چند دانے استعمال کرنے چاہئیں، جامن آم کا مصلح ہے۔

آم کی مختلف اقسام
یوں تو آم کی بے شمار اقسام سامنے آچکی ہیں مگر پاکستان میں بکثرت پیدا ہونے والی اقسام درج ذیل ہیں:
دسہری
اس کی شکل لمبوتری، چھلکا خوبانی کی رنگت جیسا باریک اور گودے کے ساتھ چمٹا ہوتا ہے۔ گودا گہرا زرد، نرم، ذائقے دار اور شیریں ہوتا ہے۔

چونسا
یہ آم قدرے لمبا، چھلکا درمیانی موٹائی والا ملائم اور رنگت پیلی ہوتی ہے۔ اس کا گودا گہرا زرد، نہایت خوشبودار اور شیریں ہوتا ہے۔ اس کی گٹھلی پتلی لمبوتری، سائز بڑا اور ریشہ کم ہوتا ہے۔ اس کی ابتدا ملیح آباد (بھارت) کے قریبی قصبہ ”چونسا“ سے ہوئی۔

انور رٹول
اس کی شکل بیضہ نما ہوتی ہے اور سائز درمیانہ ہوتا ہے۔ چھلکا درمیانہ، چکنا اور سبزی مائل زرد ہوتا ہے۔ گودا بے ریشہ، ٹھوس، سرخی مائل زرد، نہایت شیریں، خوشبودار اور رس درمیانہ ہوتا ہے۔ اس کی گٹھلی درمیانی، بیضوی اور نرم، ریشے سے ڈھکی ہوتی ہے۔ اس قسم کی ابتدا میرٹھ (بھارت) کے قریب قصبہ ”رٹول“ سے ہوئی۔

لنگڑا
یہ آم بیضوی لمبوترا ہوتا ہے۔ اس کا چھلکا چکنا، بے حد پتلا اور نفیس گودے کے ساتھ چمٹا ہوتا ہے۔ گودا سرخی مائل زرد، ملائم، شیریں، رس دار ہوتا ہے۔ الماس: اس کی شکل گول بیضوی ہوتی ہے اور سائز درمیانہ، چھلکا زردی مائل سرخ، گودا خوبانی کے رنگ جیسا ملائم، شیریں اور ریشہ برائے نام ہوتا ہے۔

فجری
یہ آم بیضوی لمبوترا ہوتا ہے۔ فجری کا چھلکا زردی مائل، سطح برائے نام کھردری ، چھلکا موٹا او نفیس گودے کے ساتھ لگا ہوتا ہے۔ گودا زردی مائل، سرخ، خوش ذائقہ، رس دار اور ریشہ برائے نام ہوتا ہے۔ اس کی گٹھلی لمبوتری موٹی اور ریشے دار ہوتی ہے۔

سندھڑی
آم بیضوی اور لمبوترا ہوتا ہے۔ اس کا سائز بڑا، چھلکا زرد، چکنا باریک گودے کیساتھ چمٹا ہوتا ہے۔ گودا شریں، رس دار اور گٹھلی لمبی اور موٹی ہوتی ہے۔ اصلاًمدراس کا آم ہے۔

گولا
یہ شکل میں گول ہوتا ہے۔ سائز درمیانہ، چھلکا گہرا نارنجی اور پتلا ہوتا ہے۔ گودا پیلا ہلکا ریشے دار اور رسیلا ہوتا ہے۔ گٹھلی بڑی ہوتی ہے۔

مالدا
یہ آم سائز میں بہت بڑا ہوتا ہے، مگر گٹھلی انتہائی چھوٹی ہوتی ہے۔ چھلکا پیلا اور پتلا ہوتا ہے۔
نیلم
اس آم کا سائز درمیانہ اور چھلکا درمیانہ، موٹا اور پیلے رنگ کا چمکتا ہوا ہوتا ہے۔ سہارنی: سائز درمیانہ اور ذائقہ قدرے میٹھا ہوتا ہے۔

دوائی استعمالات
تمام پھل موسمی تقاضے پورا کرنے کی صلاحیتوں سے مالامال ہیں۔ چونکہ آم موسم گرما کا پھل ہے اور موسم گرما میں دھوپ میں باہر نکلنے سے لو لگ جاتی ہے، لو لگنے کی صورت میں شدید بخار ہو جاتا ہے۔ اس لیے لو کے اثر کو ختم کرنے کیلئے کچا آم گرم راکھ میں دبا دیں۔ نرم ہونے پر نکال لیں۔ اس کا رس لے کر ٹھنڈے پانی میں چینی کے ساتھ ملا کر استعمال کرائیں۔ لو لگنے کی صورت میں تریاق کا کام دے گا۔ آم کے پتے، چھال، گوند، پھل اور تخم سب دوا کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ آم کے پرانے اچار کا تیل گنج کے مقام پر لگانے سے بالچر کو فائدہ ہوگا۔ آم کے درخت کی پتلی ڈالی کی لکڑی سے روزانہ مسواک کرنے سے منہ کی بدبو جاتی رہے گی۔ خشک آم کے بور کا سفوف روزانہ نہار منہ چینی کے ساتھ استعمال کرنا مرض جریان میں مفید ہے۔جن لوگوں کو پیشاب رکنے کی شکایت ہو، آم کی جڑ کا چھلکا برگ شیشم دس دس گرام ایک کلو پانی میں جوش دیں۔ جب پانی تیسرا حصہ رہ جائے تو ٹھنڈا کرکے چینی ملا کر پی لیں۔ پیشاب کھل کر آئے گا۔ ذیابیطس کے مرض میں آم کے پتے جو خود بخود جھڑ کرگر جائیں، سائے میں خشک کرکے سفوف بنا لیں۔ صبح و شام دو دو گرام پانی سے استعمال کرنے سے چند دنوں میں فائدہ ہوتا ہے۔ نکسیر کی صورت میں آم کے پھولوں کو سائے میں خشک کرکے سفوف بنا لیں اور بطور نسوار ناک میں لینے سے خون بند ہو جاتا ہے۔ جن لوگوں کے بال سفید ہوں، آم کے پتے اور شاخیں خشک کرکے سفوف بنا لیں۔ روزانہ تین گرام یہ سفوف استعمال کیا کریں۔ کھانسی، دمہ اور سینے کے امراض میں مبتلا لوگ آم کے نرم تازہ پتوں کا جوشاندہ، ارنڈی کے درخت کی چھال ‘سیاہ زیرے کے سفوف کے ساتھ استعمال کریں۔ آم کی چھال قابض ہوتی ہے اور اندرونی جھلیوں پر نمایاں اثر کرتی ہے، اس لیے سیلان الرحم (لیکوریا)، آنتوں اور رحم کی ریزش، پیچش، خونی بواسیر کیلئے بہترین دوا خیال کی جاتی ہے۔ ان امراض میں آم کے درخت کی چھال کا سفوف یا تازہ چھال کا رس نکال کر اسے انڈے کی سفید ی یا گوند کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ کیری کے چھلکے کو گھی میں تل کر شکر ملا کر کھانے سے کثرت حیض میں فائدہ ہوتا ہے۔ یہ چھلکا مقوی اور قابض ہوتا ہے۔آم کی گٹھلی کی گری قابض ہوتی ہے۔ چونکہ اس میں بکثرت گیلک ایسڈ ہوتا ہے‘ اس لئے پرانی پیچش‘ اسہال‘ بوا سیر اور لیکوریا میں مفید ہے۔ پیچش میں آنوﺅں کو روکنے کیلئے گری کا سفوف دہی کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ نکسیر بند کرنے کیلئے گری کا رس ناک میں ٹپکایا جاتا ہے۔آم برصغیر پاکستان وہندوستان کا مشہور و معروف ہردلعزیز اور مقبول ترین پھل ہے۔ نہایت خوش رنگ ، خوش ذائقہ ، لذیذ اور خوشبودار۔ اپنی شیریں اور حلاوت کی وجہ سے پوری دُنیا میں سب سے زیادہ پسند کیا جانے والا یہی پھل ہے۔ دور حاضر میں مصر ، سوڈان ، برازیل ، برما ، فلپائن ، انڈونیشیا ، سری لنکا ، تھائی لینڈ ، فلوریڈا ، آسٹریلیا ، میکسیکو ، یمن ، اور عمّان وغیرہ میں آم کی کاشت ہورہی ہے۔ لیکن اب بھی دنیا کا 75 فیصد آم برِصغیر پاکستان و ہندوستان میں ہوتا ہے۔
مختلف نام
اردو ۔۔۔ آم
پیجابی ۔۔۔ انب
سندھی ۔۔۔ آمو
فارسی ۔۔۔ انبہ
عربی ۔۔۔ انبج
ترکی ۔۔۔ منگواغ
فرانسیسی ۔۔۔ انبو
جرمنی ۔۔۔ مینگو بام

آم کا درخت
درخت کی اونچائی تقریباً ساٹھ ستر فٹ ہوتی ہے ۔ دس بارہ سال کے بعد پھلنا پھولنا شروع ہوتا ہے ۔ پتے چھ انچ سے 9 انچ تک لمبے اور نوکیلے ہوتے ہیں ۔ اپنی ابتدائی بہار میں‌بہت اچھے اور زیادہ پھل دیتا ہے مگر جوں‌جوں عمر زیادہ ہوتی جاتی ہے، پھلوں میں‌بھی کمی واقع ہوتی جاتی ہے۔ نیز اوّل سال اچھے اور بکثرت پھل لگتے ہیں ۔ دوسرے سال کم بعض اوقات پھلتے ہی نہیں۔

ذائقہ
بہت خام آم کا ذائقہ کسیلا ۔ اوسط درجے میں‌بہت زیادہ ترش اور پختہ حالت میں‌بدرجہ غایت شیریں‌ہوتا ہے۔

آم کی قِسمیں
قلمی اور تخمی یہ دو بڑی آم کی قسمیں ہیں ۔ پھر ان میں‌سے ہرایک مزے ، شکل وصورت اور مقامِ پیدائش کے اعتبار سے بیسیوں‌قسم کا ہوتا ہے۔
بعض مشہور آموں کے نام درج ذیل ہیں
مالدہ ۔ انور رٹول ۔ چونسہ ۔ لنگڑا ۔ پرنس ۔ سفیدہ ۔ دسہری ۔

آم کے غذائی اجزاء : فی صد
وٹامن اے 48ء
وٹامن سی ۔ 13ء0
آبی اجزاء ۔ 1ء86
پروٹین (لحمی اجزاء) ۔ 6ء5
چکنائی ۔ 61ء0
فولاد ۔ 63ء0
معدنی نمکیات ۔ 93ء0
چونا ۔ 1 ء4

Read More