Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

خالی پیٹ سگریٹ پینا

خالی پیٹ سگریٹ پینا

سگریٹ پینا

خالی پیٹ سگریٹ-نہار منہ سگریٹ نوشی سے پھیپھڑوں کا سرطان لاحق ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے

امریکی تحقیق کے مطابق نہار منہ سگریٹ پینے والے افراد میں ان افراد کی نسبت جو اٹھنے کے بعد قدرے دیر سے سگریٹ پیتے ہیں، نکوٹن کے زیادہ اثرات پائے جاتے ہیں۔
سائنس دانوں نے سگریٹ نوشی کرنے والے افراد میں نکوٹن کی ایک ذیلی پیداوار کوٹنائن کی مقدار کی پیمائش کی ہے جس سے پھیپھڑوں کے کینسر کے خطرے کا پتہ چلتا ہے۔
سائنس دانوں کے مطابق تجربے میں ناشتہ کرنے کے بعد سگریٹ پینے سے اس مادے کی مقدار کم پائی گئی ہے۔
پین سٹیٹ کالج سے تعلق رکھنے والی ٹیم کے مطابق ناشتے سے قبل سگریٹ نوشی کرنے والوں کو یہ عادت ترک کرنے میں زیادہ مدد کی ضرورت ہے۔
نہار منہ سگریٹ نوشی کرنے والے افراد اور وہ لوگ جو دیر سے سگریٹ پیتے ہیں ان میں نکوٹن کی مختلف مقدار کی وجوہات واضح نہیں لیکن خیال ہے کہ پہلی قسم کے افراد میں سگریٹ پینے کے انداز میں شدت زیادہ ہے اور شاید ان کی سگریٹ کی ضرورت دوسروں کے نسبت زیادہ ہے۔
تحقیق میں دو سو پچاس صحت مند افراد کو جو روزانہ سگریٹ پیتے ہیں شامل کیا گیا۔
ایسے افراد جو روزانہ بیس سگریٹ پیتے ہیں ان میں کوٹنائن کی سطح ڈرامائی طور پر مختلف تھی۔ یہ مواد سب سے زیادہ ان میں پایا گیا جو جاگنے کے تیس منٹ کے اندر اندر سگریٹ پیتے ہیں اور جن کا اس پر بہت زیادہ انحصار ہے۔
رپورٹ کے مصنف پروفیسر جوشو مسکت کے مطابق ’ایسے افراد جو نہار منہ سگریٹ پیتے انھیں سگریٹ نوشی ترک کرانے میں زیادہ مشکل پیش آسکتی ہے‘۔
رائے کیسل کینسر فاؤنڈیشن کے ترجمان نے اس تحقیق کو خوش آئیند قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا ’اس تحقیق سے سگریٹ نوشی کرنے والے افراد کی عادات سمجھنے میں مذید مدد ملے گی

پیٹ کے کیڑوں کا علاج

پیٹ کے کیڑوں کا علاج

تھوڑے سے گرم پانی میں سپاری (چھالیہ) کا چورہ ڈال کر دن میں تین چار دفعہ لینے سے فائدہ ہوتا ہے۔

پودینہ کا رس پینے سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔

تلسی کے پتوں کا رس پینے سے فائدہ ہوتا ہے۔

خالی پیٹ کھجوریں کھانے سے بھی پیٹ کے کیڑے مر جاتے ہیں۔

سرکہ پیٹ کے کیڑوں میں ازحد مفید ہے۔

خالی پیٹ پانی پینےسے بےشمارنقص پڑجاتےہیں دلیل سے بات کرنے کیلیے رابطہ کریں حکیم محمد عرفان

جوفوائدلکھے ھیں الٹ یھی مرض لگتے ھیں
یوں تو پانی کے بے شمار فوائد ہیں اسے کئی طریقوں سےاستعمال کیا جاسکتا ہے لیکن خالی پیٹ پانی پینے کے بے شمار فوائد ہیں، جنہیں جدید سائنسدانوں نے بھی تحقیق کے بعد مثبت پایا ہے۔ سردرد، بدن درد، نظامِ دل، بلند فشارِ خون، مرگی، موٹاپا، ٹی بی، تیزابیت، معدےکی بیماریاں،آنکھوں کی بیماریاں،ناک کان اور گلے کے امراض، گردے اور پیشاب کی تکالیف کے ساتھ ساتھ دیگر کئی پرانے،پیچیدہ اور نئے امراض پر بھی پانی کے علاج کے ذریعےکامیابی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔
طریقہء علاج
 جونہی آپ صبح اُٹھیں اپنے دانتوں کو برش کیے بغیر 160 ملی لیٹر کے چار گلاس پانی پئیں۔
 دانت برش کریں اور منہ صاف کریں مگر 45 منٹ تک مزید کچھ کھانے پینے سے گریز کریں۔
 منٹ بعد نارمل کھا پی سکتے ہیں۔
 ناشتے ، لنچ یا ڈنر کے بعد دو گھنٹے تک مزید کھانے یا پینے سے اجتناب برتیں۔
 جو صبح چار گلاس پانی نہیں پی سکتے انہیں چاہیے کہ جتنا پی سکتے ہیں اتنا پیئیں اور بتدریج اس میں اضافہ کرتے ہوئے 4 گلاس تک لے جائیں۔مدتِ علاج
یوں تو مختلف بیماریوں کے لیے اس طریقہ علاج کو مختلف مدت کے لیے تجویز کیا جاسکتا ہے، چونکہ اس کے کوئی سائیڈ افیکٹس نہیں ہیں اور بیماریوں کے علاج کے علاوہ صحتمند زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لیے انتہائی مفید ہے اسلیئے اسے اپنا معمول بنالیں۔ شروع شروع میں آپکو بار بار پیشاب کی حاجت محسوس ہوگی جو کہ بعد میں ختم ہو جائیگی۔

پیٹ کے کینسر کا تیر بہدف علاج

ہمارے عزیز وں میں فورتھ ایئر کے طالب علم کو عین امتحانات کے دوران پیٹ میں تکلیف ہو گئی۔ پہلے درد اٹھا پھر مسلسل
ٹیسیں اٹھنے لگیں اور درد ایسی شدت اختیار کر گیا کہ والدین پہلے تو اپنے شہر میں علاج کراتے رہے۔ پھر آخر کار جب صحت بد سے بد تر ہوتی گئی اور ڈاکٹر حضرات نے مایوسی کا اظہار کیا کہ آپ کسی بڑے ہسپتال میں لے جائیںچونکہ والدین کا اکلوتا چشم و چراغ تھااس لئے وہ نشتر ہسپتال ملتان لے گئے۔ وہاں بڑے سرجن کا علاج ہونے لگا۔ جوں جوں دوا کی مرض بڑھتا گیا۔ ایک ہفتے کے بعد اچھے علاج اور توجہی کے باوجود وہ نوجوان تکلیف کی شدت سے ہر وقت چیختا اور چلاتا۔ آخر اس ہسپتال میں میٹنگ ہوئی اور پھر ان لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ ہمارے علاج سے یہ نوجوان ٹھیک نہیں ہو سکا۔ آپ لوگ اسے امریکہ لے جائیں ‘شاید وہاں علاج ہو سکے۔ والدین نے جب یہ سنا تو ان کی تو امید ہی ختم ہو گئی۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو اسٹیچر پر ڈالا اور روتے دھوتے ہسپتال سے نکلے۔ ان کے عزیز و اقارب بھی ساتھ تھے۔ والدین کی آہ و بکا ایسی تھی کہ جتنے بھی لوگ تھے۔ وہ والدین سے پوچھتے
کہ کیوں اس قدر دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں؟ معلوم ہوتا تو وہ بھی ہمدردی کرنے ساتھ شامل ہو جاتے۔ آخر ہسپتال کے گیٹ پر ہجوم پہنچا تو وہاں پہ ایک بزرگ نے آگے بڑھ کر پوچھا کیا معاملہ ہے؟ جب انہیں اس نوجوان کی بیماری کی تفصیل بتائی تو انہوںنے ان کے والدین کو بلوایا۔ جب وہ آگئے تو وہ بزرگ فرمانے لگے یہ نوجوان صرف تین دن میں ٹھیک ہو جائے گا اگر آپ علاج کر لیں تو بتا دیتا ہوں۔ بیمار بیٹے کے والدین نے حامی بھر لی کہ جو بھی علاج بتائیں گے وہ کریں گے۔ان بزرگ نے علاج یہ بتایا ۔ نیم کی کونپل کی پتیاں لیں‘ ان کو گھوٹ لیں ‘ اس کا پانی دن میں تین مرتبہ پلائیں۔ بھینس کا خالص دودھ ابالیں اور دودھ میں تین چمچ گائے کا گھی ڈالیں۔ وہ دودھ بھی تین دن پلائیں۔ شرط یہ تھی انہیں لباس نہ پہنائیں۔
ان دونوں دواﺅں سے مریض کو بے حد موشن ہوں گے جو کہ بیماری کو جڑ سے ختم کر دیں گے۔ اس مریض کو یہ چیزیں استعمال کرائی گئیں۔ تین دن گزر گئے اورایک مرتبہ پھر والدین اور مریض چیک اپ کرانے نشتر ہسپتال جا رہے تھے اور ان بزرگ کی تلاش میں جنہوں نے یہ نسخہ دیا تھا۔ پہلے تو سرجن صاحب کے پاس گئے۔ مریض کا چیک اپ کرایا‘ سرجن صاحب کے سامنے ایک صحت مند نوجوان کھڑا تھا۔ رپورٹیں دیکھیں تو سرجن کی عقل دنگ رہ گئی۔ جیسے اس نوجوان کو تو کوئی مرض نہیں۔ مگر وہ سرجن خود حیرت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ یہ نوجوان کونسے علاج سے صرف تین دن میں صحت یاب ہو گیا۔ پھر سرجن نے سوالیہ انداز میں ان کے والدین سے پوچھا تو انہوں نے بتا دیا۔ پھر تو وہ سرجن بھی ان بزرگ کی تلاش میں نکلے۔ لیکن وہ بزرگ وہاں سے جا چکے تھے۔ لیکن وہ پیٹ کے کینسر کا تحفہ ضرور دے گئے۔اشیاءنیم کی کونپل کی پتیاں تین تولے ‘پانی ایک گلاس ڈالیں‘ دودھ خالص بھینس کا ایک گلاس ‘تین چمچ گائے کا گھی۔ نیم کی کونپل کونڈی ڈنڈے سے گھوٹ لیں۔ پانی میں ڈال کر چھان لیں‘ چھنا ہوا پانی مریض کو پلا دیں۔ ایک گھنٹے بعد دودھ پلائیں یہ نسخہ دن میں تین بار استعمال کرنا ہے۔ دن بڑھائے جا سکتے ہیں اگر افاقہ نہ ہو۔ راقمہ طویل عرصے سے جڑی بوٹیوں پر ریسرچ کر رہی ہے‘ ان جڑی بوٹیوں میں اللہ نے جس قدر شفاءرکھی ہے ‘راقمہ نے عمل کیا اور لوگوں کو کروایا تو ششدر رہ گئی۔ بچوں کو بیماری سے تڑپتے ہوئے دیکھتی ہوں تو بہت غمگین ہوتی ہوں‘اس لئے جڑی بوٹیوں کے ان فوائد کو عام کرنا چاہتی ہوں۔
نزلہ زکام دور کرنے کیلئے رتن جوت کی جڑیں لے لیں‘ ایک پاﺅ جڑیں لیں اس کوباریک پیس کر ایک کلو سرسوں میں ڈال کر دھوپ میں رکھ دیں۔ جب یہ تیل سرخ ہو جائے تو اسے نزلہ زکام کیلئے استعمال کریں۔ راقمہ نے ایک کلو تیل خریدا لیکن بنج احمر بوٹی کی مقدار بڑھا دی۔ وہ سرسوں کا تیل تیار کرلیا۔ اب اس پر ریسرچ شروع کی تو مندرجہ ذیل فوائد سامنے آئے۔
1 سر میں شدید درد ہو‘ اس تیل سے مالش کریں سر کادرد سیکنڈوں میں غائب ہوجاتا ہے۔ 2۔ راقمہ کے پیٹ پر بہت زیادہ دانے نکل آئے تھے۔ ایسے نوکدار اور تکلیف دہ ‘ بے حد خارش ہوتی تھی۔ اتنی شدید تکلیف کبھی نہ ہوئی تھی۔ راقمہ نے اس تیل کو خارش دانوں پر لگایا فوری سکون ہوا۔ خارش غائب ہو گئی‘ نوکدار جو دانے تھے وہ خود بخود جھڑ گئے۔ 3۔ ایک خاتون امریکہ میں تھیں‘ ان کے اندرونی حصے میں دس سال سے خارش تھی‘ روئی سے انہیں استعمال کا طریقہ بتایا ان کی خارش چند گھنٹوں میں غائب ہو گئی۔ یہی تیل استعمال کیا۔ 4۔ یہی تیل ہاتھوں اور چہرے پر لگایا ہاتھوں کی رنگت سفید ہو گئی‘ شفاف ہو گئے اور چہرے پر لگایا تو رنگ نکھر آیا۔ 5 ۔ میرے ہمسفر کو نزلے ‘ کھانسی کا شدید اٹیک ہوا‘ اس تیل سے مالش کی ‘ کانوں کے پیچھے اور سینے پر صرف دو مرتبہ۔ اللہ کا خاص کرم ہے کہ نزلہ کھانسی بالکل ٹھیک ہو گیا اور سر کا درد بھی‘ ورنہ ایک ہفتہ مستقل بیڈ ریسٹ کرتے اور ایک ہزار کی دوا آنی تھی۔ بیٹے کو بھی ہوا تو یہی تیل استعمال کیا‘ ناک کے اوپر اور اندر لگایا اور اسی طرح مالش کی‘ ماشاءاللہ ٹھیک ہوا‘ اگر الرجی میں یہ تیل استعمال کیا جائے تو کیا ہی بات ہے‘ الرجی ختم ہو جاتی ہے۔ 5 ۔ ایک محترمہ کو طویل عرصے سے الرجی کی بیماری شروع ہوئی۔ پندرہ سال قبل الرجی ہوئی‘ ناک بند ‘ نزلہ ‘ چھینکیں۔ انہوں نے پورے پاکستان میں علاج کروایا۔ کئی لاکھ روپے اس علاج پر خرچ ہوئے ‘ ایسی دواﺅں کا استعمال ہوا کہ اس خاتون کے گردے سکڑ گئے‘ ہر ڈاکٹر نے علاج سے انکار کر دیا۔ وہ میرے پاس آئیں۔ انہیں بھی تیل استعمال کرایا‘ ان کا نمونیہ الرجی اور کھانسی تینوں مرض ٹھیک ہو گئے۔ 6۔ 25 دن کی بچی کو نمونیہ تھا‘ ڈاکٹر نے کہا کہ اگر بچ جائے تو بڑی بات ہے۔ وہ بچی میرے پاس لائی گئی‘ اس کو مالش کی ‘ گرم پٹی باندھی‘ سیکائی کی گئی‘ صبح بچی کو جگانا پڑا اتنے سکون سے سوئی اور صبح کو نارمل تھی۔ 7۔ اس کو حکیم صاحب نے روغن اکسیر اعظم کہا ہے ۔ 8۔ ڈینگی بخار کے مرض میں مبتلا بچوں ‘بڑوں کو یہ تیل استعمال کرایا جائے۔ مزید تفصیل تو طویل ہو جائے گی‘ برائے مہربانی میرے اور مخلوق خدا کے ساتھ تعاون فرمائیں۔ اللہ آپ کو اس کا اجر دے۔ آمین

بڑھا ہوا پیٹ اور امراض قلب

بڑھا ہوا پیٹ اور امراض قلب
سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ ذرا سے بڑھے ہوئے پیٹ سے دل کے امراض کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
امریکہ کی یونیورسٹی آف ٹیکساس کی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ کولہوں کے تناسب سے پیٹ کا سائز زیادہ ہونے اور امراض قلب کی ابتدائی علامات کے درمیان تعلق ہوتا ہے۔
دو ہزار سات سو چوالیس افراد پر کی جانے والی اس تحقیق سے لگتا ہے کہ ایک عورت کے لیے کمر کا ناپ بتیس انچ (اکاسی سینٹی میٹر) اور مرد کے لیے سینتیس انچ (چورانوے سینٹی میٹر) ہونے کا مطلب ہے کہ انہیں دل کا عارضہ لاحق ہونے کے امکانات ’واضح‘ طور پر زیادہ ہو جاتے ہیں۔امیرکن کالج آف کارڈیالوجی کے جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں سائسندانوں نے ان خواتین و حضرات کا جائزہ لیا جن میں ایتھرو سیکلوراسس (atherosclerosis) یا خون کی شریانیں تنگ اور سخت ہو جانے کی علامات ظاہر ہو چکی تھیں۔

اس کے بعد محققین نے شریانوں کی حالت اور مذکورہ مرد یا عورت کی جسمانی ساخت کے درمیان تعلق کا مطالعہ کیا۔

جن افراد میں کولہے اور کمر کے سائز کا تناسب سب سے زیادہ تھا ان میں کیلشیم جمع ہونے کے امکانات ان افراد سے دگنا تھے جن میں کولہے اورکمر کے سائز کا تناسب سب سے کم تھا۔

اس مشاہدہ کو جب بلڈ پریشرڑ شوگر اور مذکورہ عورت یا مرد کی عمر جیسے عناصر کی روشنی میں دیکھا گیا تو پیٹ کے سائز اور امراض قلب کے درمیان تعلق اور زیادہ مضبوط دکھائی دیا۔

تحقیقی ٹیم کے سربراہ پروفیسر جیمز ڈی لیموز نے کہا کہ ’ آپ کی کمر کے گرد جمع ہونے والی فیٹ یا چکنائی کولہوں پر جمع ہونے والے چکنائی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے کیونکہ پیٹ کی چکنائی سے رطوبتیں خارج ہوتی رہتی ہیں جو کے شریانوں کو تنگ اور سخت کرتی ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا:’ ہمارے خیال میں اس تحقیق سے لوگوں کو یہی پیغام ملنا چاہیے کہ کہ وہ کمر کے گرد چکنائی جمع ہونے کے بارے میں اوائل عمری سے ہی محتاط رہیں کیونکہ ایک ہموار پیٹ کے مقابلے میں ذرا سا بڑھا ہوا پیٹ بھی ہمیں امراض قلب کے خطرات سے دوچار کر دیتا ہے۔‘

ماضی میں کی جانی والی تحقیق میں کہا جاتا رہا ہے کہ عورتوں میں پینتیس انچ جبکہ مردوں میں چالیس انچ کی کمر سے اس قسم کے امراض پیدا ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں لیکن حالیہ تحقیق کے مطابق عورتوں کے لیے بتیس انچ اور مردوں کے لیے سینتیس انچ کی کمر بھی خطرناک ہو سکتی ہے۔