Alshifa Natural Herbal Pharma

انجیر و زیتون

انجیر و زیتون
انجیر و زیتون

انجیر و زیتون

اگر ان دونوں قسموں ( تین و زیتون) کو ان کے ابتدائی معنی پرمحمول کریں، یعنی معروف انجیر و زیتون پر، توپھر بھی یہ ایک پرمعنی قسم ہے کیونکہ :
” انجیر“ بہت زیادہ غذائی قدر و قیت کا حامل ہے، اور ہر سن و سال کے لئے ایک مقوی اور غذا سے بھر پورنوالہ ہے، جس میں چھلکا ، گٹھلی اور کوئی زائد چیز نہیں ہوتی۔
غذا کے ماہرین کہتے ہیں کہ :انجیر کو بچوں کے لئے طبیعی شکر کے طور پر استعمال کرایا جا سکتا ہے اور ورزش یامحنت مشقت کرنے والے اوربڑھاپے اور کمزوری میں مبتلا لوگ اپنی غذا کے لئے انجیر سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ ” افلاطون“ انجیر کو جذب کرنے والا اور نقصا ن دہ مادّوں کو دفع کرنے والا سمجھا جاتا تھا۔

” جالینوس“ نے انجیر سے پہلوانوں کے لئے ایک خاص قسم کی غذا تیار کی تھی ، روم اور قدیم یونان کے پہلوانوں کو بھی انجیر دئے جاتے تھے ۔
غذا شناس ماہرین کہتے ہیں کہ انجیر میں مختلف قسم کے بہت سے وٹامن اور شکر موجودہے۔ اور بہت سی بیماریوں میں اس سے ایک دوا کے طور پر فائدہ حاصل کیاجاسکتاہے۔ خاص طور پر انجیر اور شہد کو مساوی طور پر مخلوط کر دیں تو زخم معدہ کے لئے بہت ہی مفید ہے ۔ خشک انجیر کا کھانا دماغ کو تقویت دیتا ہے ، خلاصہ یہ ہے کہ انجیر میں معدنی عناصر کے وجود کی بناپر جو قوائے بدن اور خون میں اعتدال کا سبب بنتے ہیں انجیر ہر سن و سال او رہر قسم کے حالات میں غذا کے طور پر بہترین پھل ہے ۔
ایک حدیث میں امام علی بن موسی رضا علیہ السلام سے آیا ہے :
” التین یذھب بالبخر و یشد الفم و العظم، و ینبت الشعر ویذھب بالداء ولایحتاج معہ الی دواء و قال علیہ السلام : التین اشبہ شیء بنبات الجنة:
” انجیرمنہ کی بدبو کو دور کرتا ہے ، مسوڑھوں اور ہڈیوں کو مضبوط بناتا ہے ، بالوں کو ا ُ گاتاہے درد اور تکلیف کو بر طرف کرتا ہے۔ اور اس کے ہوتے ہوئے کسی دوا کی ضرورت نہیں ہے۔
اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ انجیر جنت کے پھلوں سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ ۱ ۲
باتی رہا ” زیتون“ تو اس کے بارے میں غذا شناس اور بڑے بڑے ماہرین جنہوں نے سالہا سال تک پھلوں کے مختلف خواص کامطالعہ کرنے میں اپنی عمریں صر ف کی تھیں ، زیتون اور اس کے تیل کی حد سے زیادہ اہمیت کے قائل ہیں ، اور وہ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ جو لوگ ہمیشہ صحیح و سالم رہنا چاہیں انہیں اس حیاتی اکسیر سے فائدہ اٹھانا چاہئیے۔
روغن زیتون انسا ن کے جگر کا پکا اور مخلص دوست ہے ۔ اور گردوں کی بیماریوں ، صفرادی پتھر یوںاور درد گردہ اور درد جگر کو دور کرنے اور خشکی کو رفع کرنے کے لیے بہت ہی موٴثر ہے۔
اسی بناء پر زیتون کے درخت کو قرآن مجید میں شجرہٴ مبارکہ کہا گیا ہے ۔
روغن زیتون بھی انواع و اقسام کے وٹامن سے سر شار ہے اور اس فاسفورس، سلفر، کیلشیم ،فیرم پوٹا شیم اور منگنز بھی پائی جاتی ہے ۔
وہ مرہم جو روغن زیتون اور لہسن کے ساتھ بنائی جاتی ہے گٹھیا کے دردوں کے لیے ،مفید بتائی جاتی ہے ، پِتّہ کی پتھری روغن زیتون کے کھانے سے ختم ہوجاتی ہے ۔ ۳
ایک روایت میں امیر المومنین علیہ السلام سے آیاہے :
” ما افقر بیت یاٴ تدمون بالخل و الزیت وذالک ادام الانبیاء“
” وہ گھر جس میں سرکہ اور زیتون سالن کے طور پر استعمال ہوتا ہے ، وہ کبھی کھانے سے خالی نہ ہوگااور یہ پیغمبروں کی غذا ہے “۔
اور ایک حدیث میں امام علی بن موسی رضا علیہ السلام سے آیاہے : ۴
”نعم الطعام الزیت: یطیب النکھة۔ ویذہب بالبلغم، و یصفی اللون، یشد العصب و یذھب الوصب، ویطفیء الغضب“:
”روغن زیتون ایک اچھی غذا ہے ، منھ کو خوشبودار کرتا ہے ، بلغم کو دور کرتا ہے ، چہرے کے رنگ کو صاف کرتا ہے ۔ او ر تر و تازہ بناتا ہے ، اعصاب کو تقویت دیتا ہے، بیماری، درد اور ضعف کو دور کرتا ہے ، اور غصہ کی آگ کو بجھا تا ہے “۔ ۵
ہم اس بحث کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک حدیث کے ساتھ ختم کرتے ہیں، آپ نے فرمایا:
”کلو الزیت و ادھنوا بہ فانہ من شجرة مبارکة“:
”روغن زیتون کھاوٴ اور بدن پر اس کی مالش کروکیونکہ یہ ایک مبارک درخت سے ہے۔ ۶
اس چار پر معنی قسموں کے ذکر کرنے کے بعد جواب قسم پیش کرتے ہوئے اس طرح فرماتا ہے : ” یقینا ہم نے انسان کو بہترین صورت اور نظام میں پیدا کیا ہے ،،۔ ( لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم)۔
” تقویم“کامعنی کسی چیز کو مناسب صورت، معتدل نظام اور شائستہ کیفیت میں لاناہے ۔ اور ا س کے مفہوم کی وسعت اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا نے انسان کو ہرلحاظ سے موزوں اور شائستہ پیدا کیاہے ، جسم کے لحاظ سے بھی ، اور روحانی و عقلی لحاظ سے بھی، کیونکہ اس کے وجود میں ہر قسم کی استعداد رکھی گئی ہے اور اسے ایک بہت ہی عظیم قوس صعودی کو طے کرنے کے لئے آمادہ کیا گیا ہے ، اور اس کے باوجود کہ انسان ایک ” جرم صغیر“ ہے ، عالم کبیر“ کو اس میں جگہ دی گئی ہے، اسے اس قدر استعدادیں اور شائسگیاں بخشی ہیں وہ ولقد کرمنا بنی اٰدم ”ہم نے بنی آدم کو کرامت و عظمت بخشی ہے “۔ ( سورہ اسراء آیہ۷۰)کی خلقت کے لائق ہو گیاہے ۔ وہی انسان جس کی خلقت کی تکمیل پر فرماتا ہے :فتبارک اللہ احسن الخالقین ”پس وہ خدا بہت ہی بزرگ و برتر اور برکتوں والا ہے جو بہترین خلق کرنے والا“! لیکن یہی انسان ان تمام امتیازات و اعزازات کے ہوتے ہوئے اگر حق کے راستے سے منحرف ہوجائے تو اس طرح سقوط کرتا ہے کہ ” اسفل السافلین“میں جا پہنچا ہے ، اس لیے بعد والی آیت میں فرماتا ہے : ” پھرہم اس پست ترین مراحل میں لوٹا دیتے ہیں “۔ ( ثم رددناہ اسفل سافلین )
کہتے ہیں کہ ہمیشہ بلند پہاڑوں کے ساتھ بہت ہی گہری گھاٹیاں ہوتی ہیں اور انسان کی اس تکامل و ارتقاء کی قوس صعودی کے ساتھ ہی ایک وحشت ناک قوس نزولی بھی نظر آتی ہے ایسا کیوں نہ ہو کیونکہ وہ ایک ایسا موجود ہے جو ہر قسم کی استعدادیں رکھتا ہے ، اگر وہ ان سے صلاح و درستی کے لئے فائدہ اٹھا ئے تو افتخار کی بلندترین چوٹی پر پہنچ جاتا ہے اور اگر ان تمام استعدادوں کو فساد اور خرابی کی راہ پر ڈال دے تو اس میں عظیم ترین مفسدہ پیدا کردیتا ہے ، اور طبیعی طور پروہ” اسفل السافلین“کی طرف کھینچتا چلا جاتا ہے ۔
لیکن بعد والی آیت میں مزید کہتا ہے“: مگروہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے اعمال ِ صالح انجام دیے ہیں وہ اس سے مستثنٰی ہیں ، کیونکہ ان کے لئے ایسا اجر و ثواب ہے جو ختم ہونے والا نہیں ہے “۔ (الا الذین اٰمنوا وعملو الصالحات فلھم اجر غیرممنون)۔
”ممنون“ ”من“ کے مادہ سے یہاں ختم ہونے یا کم ہونے کے معنی میںہے ، اسی بناء پر ” غیر ممنون“ دائمی اور ہرقسم کے نقص سے خالی اجرو ثواب کے معنی میں ہے ۔ اور بعض نے یہ کہا ہے کہ منت و احسان سے خالی مراد ہے ، لیکن پہلا معنی زیادہ مناسب نظر آتا ہے ۔
بعض نے ثم رددناہ اسفل سافلینکے جملہ کی بڑھاپے کے دور کے ضعف و ناتوانی اور حد سے زیادہ ہوش کی کمی کے معنی میں تفسیر کی ہے، لیکن اس صورت میں یہ بعد والی آیت کے استثناء کے ساتھ ساز گار نہیں ہے ۔ اس بناء پر قبل و بعد کی آیات کے مجموعہ کی طرف توجہ کرتے ہوئے وہی پہلی تفسیر ہی درست نظر آتی ہے ۔
بعد والی آیت میں اس ناشکرے اور معاد کے دلائل اور نشانیوں سے بے اعتناء انسان کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کیا سبب ہے کہ تو ان تمام دلائل کے باوجود روزِ جزا کی تکذیب کرتا ہے؟ ! (فما یکذبک بعد بالدین)۔
ایک طرف تو خود تیرے وجود کی ساخت اور دوسری طرف اس وسیع و عریض عالم کی عمارت اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ دنیا کی چند روزہ زندگی تیری خلقت اور اس عظیم جہان کی خلقت کا اصل ہدف نہیں ہوسکتی ۔
یہ سب کچھ وسیع تر اور کامل تر جہان کے لیے ایک مقدمہ ہے اور قرآن کی تعبیر میں ” نشاٴة اولیٰ“ خود” نشاٴة اخری کی خبر دیتی ہے ۔ تو پھرانسان متذکر کیوں نہیں ہوتا۔(ولقد علمتم النشاٴة الاولیٰ فلولا تذکرون)۔( واقعہ ۔ ۶۲)7
عالم نباتات ہمیشہ اور نئے سال نئے سرے سے موت و حیات کے منظر کو انسان کی آنکھ کے سامنے مجسم کرتا ہے اور جنینی دَور کی پے در پے خلقتیں ہر ایک معاد اور ایک نئی زندگی شمار ہوتی ہے۔ ان تمام چیزوں کے باوجودیہ انسان روز جزاء کا کس طرح انکار کرتا ہے ۔
جو کچھ ہم نے بیان کیاہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس آیت میں مخاطب نوعِ انسان ہے ، اور یہ احتمال کہ یہاں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
کی ذات مخاطب ہے اور مراد یہ ہے کہ معاد کے دلائل کے باوجود کون شخص یا کون سی چیز تیری تکذیب کرسکتی ہے ، بعید نظر آتاہے ۔
اور یہ بھی واضح ہو گیا کہ ” دین “ سے مراد یہاں آئین و شریعت نہیں ہے، بلکہ وہی جزا اورروزجزا ہے ۔ اس کے بعد والی آیت بھی اسی معنی کی گواہ ہے
جیسا کہ فرماتا ہے : ”کیا خدا بہترین حکم کرنے والا اور فیصلہ کرنے والا نہیں ہے “۔ (الیس اللہ باحکم الحاکمین)۔
اور اگر ہم دین کو کل شریعت اور آئین کے معنی میں لیں تو پھر آیت کا مفہوم و معنی اس طرح ہو گا،” کیا خدا کے احکام و فرامین سے سب سے زیادہ حکیمانہ اور قابل یقین نہیں ہیں “؟ یا یہ کہ انسان کے لئے خدا کی خلقت ہر لحاظ سے حکمت ، علم اور تدبیرکے ساتھ آمیختہ ہے ۔ لیکن جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے پہلا معنی زیادہ مناسب نظر آتاہے ۔
ایک حدیث میں آیاہے کہ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ| وسلم سورہ ” و التین “ کی تلاوت فرماتے تھے تو جیسے ہی آیہ” الیس اللہ باحکم حاکمین“ پر پہنچتے تھے تو فرماتے تھے ” بلی و انا علیٰ ذالک من الشاھدین“۔
خدا وندا ! تونے ہماری خلقت کو بہترین صورت میں قرار دیا ہے۔ ہمیں توفیق عطا فرماکہ ہمارا عمل اور ہمارے اخلاق بھی بہترین صورت میں ہوں ۔
بار الٰہا ! ایمان و عملِ صالح کی راہ کو طے کرنا تیرے لطف و کرم کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ ہم پر اس راہ میں اپنا لطف و کرم فرما۔

Leave a Comment

Scroll to Top