طب اسلامی -اپنے عہد سے ہزار سال آگے

طب اسلامی -اپنے عہد سے ہزار سال آگے

اشاعت دین اور فروغ اسلام کے نہایت کم مدت میں مسلمانوں نے دنیا کے بیشتر ممالک کو نہ صرف فتح کرلیا بلکہ یورپی ممالک کے سرحدوں پربھی دستک دینے لگے ۔خلافت اول و دوم کے عہد میں اسلامی حکومت نے مقبوضہ ممالک کی ترقی نشو ونما و فروغ کا کام کیا بلکہ دنیا کے تمام علوم میں ایسی دست رس بہم پہنچائی کہ آج بھی دنیا ان کی ایجادات ،اختراع ،تحقیق اور تفتیشی کاموں سے فیض حاصل کررہی ہے ۔یہ وہ دور تھا جب مسلم علماءفقیہ ،سائنسداں،موجد ،ماہر طبیعات ،ماہر کیمیا اور طبیب حکمت میں نئی نئی ایجادات سے دنیا کو روشناس کرارہے تھے ۔یہی وہ دور تھا جب پوری یورپ جہالت اور لاعلمی کی سیاہ چادہ اوڑھے خواب غفلت میں تھا۔

۹ ویں صدی ہجری میں مسلمانوں کی حکومت میں بغداد ،قاہرہ اور کارڈوبا دنیا میں علم و دانش ،تجربہ و ایجاد ،اختراع ،تدوین ،تفتیش اور اعلی تعلیم کے لئے مشہور مقامات تھے جہاں سارے عالم اسلام سے طالب علم علم و ہنر کے حصول کے لئے یکجا ہورہے تھے ۔مسلمانوں کے خلیفہ کے زیر سر پرستی دنیا کے سارے علوم پر تحقیق و تفتیش کا کام جاری تھا۔ایجادات ،تجربات اور نئی نئی چیزوں کا اختراع ہو رہا تھا۔آج سے ہزار برس پہلے ان مقامات پر طب نے عملی طورپر وہ مقام حاصل کیا تھا جس کی آج کچھ نقالی کرکےے امریکہ مہذب اور ترقی یا فتہ ممالک میں سرفہرست ہے۔

اسلامی طبی علوم طلسمان اور دینی حدود سے باہر نکل کر سائنٹفک ریسرچ جدید ترین نظام اور اصولوں کو اختیار کررہے تھے۔ان طبی اداروں میں طب کی وہ جدید ترین سہولتیں فراہم کی گئی تھی جو آج کے سائنسی دور میں نہایت ترقی یا فتہ ممالک میں جذباتی طورپر اختیار کی گئی۔اعلی معیار کے اسپتالوں کی تعمیر ،کھلے روشن اور ہوا دار کمرے ،بڑے بڑے ہال،مختلف شعبوں میں ان کی تقسیم ،باہری مریضوں اور اندرونی مریضوں کے لئے ایک جدا نظام ،عورتوں کے لئے دواسازی کا الگ شعبہ ،تحقیق و تفتیش ،عرق سازی ،کثید و تقاطیر کے عمل کے لئے الگ شعبہ کا ہونا،جڑی بوٹیوں کے لئے بوٹانیکل گارڈن ،مریضوں کا ریکارڈ رکھنا،کیفیتوں کا اندراج اور خصوصی طورپر جراحی ،عمل جراحی ،اس کے آلات کی ایجاد اور مرہم سازی ودیگر بہت سارے نظام ایسے تھے جو مکمل طورپر دنیا کے کسی بھی ملک میں ان دنوں نہیں پائے جاتے ۔یہ بات حیر انگیز نہیں کہ جراحی ،علاج ،طب ،کیمیاگری،علم الابدان،نفسیاتی علاج،جسمانی امراض ،وائرس کی بیماریاں ،ان کا علاج ،کیشر،گیگرین ،وارم انخاع(مین جائی ٹیز)ٹی بی ،گردہ کی پتھری کا آپریشن ،آنکھ کے موتیا بند ،جالہ ،ماڑا و دیگر قسم کے آپریشنن وعلاج ان دنوں نہایت آسانی سے کئے جارہے تھے۔

جب پورا یورپ خصوصی طور پر لندن اور پیرس دھول اور کیچڑوں کا ڈھیر تھا تب بغداد،قاہرہ اور کارڈوبا کے اسپتالوں میں عورتوں اور مردوں کے لئے علیحدہ انتظام تھا۔بخار کے مریضوںکو ایسے کمروں میں رکھا جاتا جہاں جھرنوں اور فواروں سے ٹکر اکر سرد ہوا آتی ۔پاگلوں اور ذہنی و نفسیاتی امراض کے لئے شعبے جدا تھے۔مریضوں کو سکون کی خاطر کہا نیاں سنائی جاتی اور ہلکی موسیقی سے سکون فراہم کیا جاتا۔مریضوں کو اسپتال سے رخصت کے وقت رائج 5اشرفیاں دی جاتی ۔عورت نرس اور مرد تیمار دار مریضوں کی دیکھ ریکھ کے لئے ہوتے ۔ان اسپتالوں میں لائبریری ،کیمیا گری،دواسازی،تحقیق و تفتیش کے کام بھی کئے جاتے۔اسی زمانہ میں دیہی علاقوں میں علاج کے لئے اور معذور لوگوں کے علاج کے لئے سواری گاڑیوں پر متحرک اسپتالوں کا نظم تھا۔دواسازی کے اعلی معیار کے تحقیق کے لئے(ڈرگ کنٹرول)تفتیش کار (انسپیکٹر)مقرر کئے گئے تھے۔دواسازی (عطار)کرنے والوں کو حکومت کی طرف سے لائسنس دیاجاتا تھا۔طب کی تعلیم میں بھی مسلمانوں نے بیکٹیر یا لاجی،میڈیسن،اینتھیسیا سرجری،فارمیسی،روپ تھامولوجی،سائیکوتھیراپی،سائیکو سوماٹک جیسے امراض کی نہ صرف شناخت کی بلکہ ان کا علاج بھی کیا اور ان شعبوں کو ترقی کے بام عروج پر پہنچادیا۔

اسلامی حکومت حضور کے وصا ل کے صرف 80سال کے بعد مغرب میں اٹلاسٹک روشن سے مشرق میں چین تک پھیل چکا تھا۔اسپین میں اس نے 700سال تک حکومت کی ۔منگلولوں کے بربری قبضہ کے بعد بغداد کو (1258)میں جلاکر تمام کارناموں کو ختم کردیا گیا ۔اس طرح اسپین کی تہذیبی وراثت کو ڈھاکر ختم کردیا گیا۔لیکن اس کے باوجود بھی اسلامی حکومتوں نے 1000ہزار سال تک دنیا کے نہایت ترقی یافتہ اور مہذب ممالک کی حیثیت سے حکومت کی ۔اسی زمانہ میں یونانی طب حکمت و دیگر کتابوں کو یونانی سے عربی میں ترجمہ کیاگیا اور 10ویں صدی میں یہ کام دمشق ،قاہرہ اور بغداد میں بڑے پیمانہ پر کیاگیا اور اس طرح بغداد سائنسی علمی تحقیقی شہر کے حیثیت سے سارے دنیا میں نمایاں ہوکر ابھرا۔اسلامی ادویہ و طریقہ علاج اسلامی تہذیب کا منہ بولتا ثبوت ہے۔جو مسلم سائنسدانوں کا عظیم کارنامہ ہے اور آج بھی پورا یورپ ان کے علم سے فائدہ اٹھا رہاہے۔ کیمپ بل نے بہت اچھی بات کہی ”یورپین میڈیکل سسٹم بنیادی طورپر عربی ہے ۔عرب سائنسداں یورپین کے بہت قبل ذہین ترین لوگ رہے ہیں“۔

636ADمیں فارس کے شہر میں جندی شاپور میں مسلمانوں نے بڑ ی بڑی یونیورسٹی قائم کی تھی ۔جس میں اسپتال بھی شامل تھے۔بعد کے تمام اسلامی طبی کالج اسی بنیاد پر قائم کئے گئے ۔یہاں میڈیکل تعلیم نہایت اعلی درجہ کی اور سلسلہ وار تھی۔یہاں لیکچر اور تعلیم عملی طورپر ساتھ ساتھ دی جاتی ۔علی ابن العباس (494AD)کی یہ بات طالب علموں کے لئے آج بھی مشعل راہ ہے ۔انہوں نے میڈیکل طلبا سے کہا کہ انہیں مستقل طورپر اسپتال اور مریض گھروں میں جانا چاہئے ۔مریضوں کا خاص خیال رکھیں ۔ان کی کیفیت اور حالات کا جائزہ لیتے رہےں ۔مریضوں سے ان کے حالات دریافت کریں اور کیفیتوں کا علم حاصل کریں اور مقابلاتی جائزہ لیں کہ انہوں نے کیا سمجھا تھا اور حالات کیا ہیں۔رازی(841-926)نے طلباسے کہا کہ مریضوں کے کیفیت اور مرض جو انہوں نے پایا اس کے مابین فرق کا اندازہ لگائیں۔اس زمانہ میں رازی ۔ابن سینا(890-1037)اور ابن زہر(116AD)اسپتال کے نہ صرف ڈائریکٹر س تھے بلکہ میڈیکل کالج کے ڈین کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے۔مریضوں کی معالجاتی رپورٹ لکھی جاتی اور طلبا کو عملی تعلیم دی جاتی ،اس کے لئے رجسٹر مین ٹین کیا جاتا۔اس زمانہ میں صرف جندی میں بنیا دی سائنس کی تعلیم کے کئی جدا ادارے تھے۔بغداد میں لنگور کے جسم کی تشریح کے ذریعہ علم الابدان کی تعلیم دی جارہی تھی۔علقمی کے تجرباتی کتابوں کا مطالعہ جڑی بوٹیوں ان کے خواص کے لئے اور دواسازی کے لئے لازمی تھا۔بہت سارے اسپتالوں میں جڑی بوٹیوں کے لئے پودے اگانے کاانتظام تھا۔اس سے طلبا کو شناخت کرانا اور مریضوں کے لئے دواتیار کرنا مقصود تھا۔اس ابتدائی تعلیم کے بعد میڈیکل کے طلبا کو تجربوں کے لئے اسپتالوں میں لے جایا جاتا تھا۔یہ طلبا ایک نوجوان طبیب کے ساتھ ایک جماعت کی شکل میں اسپتال کے ابتدائی اصول و ضوابط سیکھتے اور کتابوں و لائبریری لیکچر اور دستاویزوں سے فیض حاصل کرتے ۔اس ابتدائی مرحلہ میں زیادہ تر تعلیم دواسازی ،اس کا متبادل اور ٹوکسی کولوجی کے متعلق کی جاتی تھی۔
طبی تربیت:

اس تعلیمی دور میں طلبا کو چھوٹے جماعتوں میں تقسیم کرکے نہایت تجربہ کار معالج اور طبیب کے ساتھ رکھا جاتا جہاں ان کے ساتھھ یہ وارڈ کا دورہ کرنا،مباحثہ ،تقریر اور جائزہ لینا سیکھتے ،انہیں تھیرا پیوٹکس اور پیتھولوجی کی تعلیم اس دوران دی جاتی ۔جیسے جیسے طلبا کے اندر تعلیمی صلاحیت میں اضا فہ ہوتاجاتا ہے،انہیں مرض کی تشخیص اور فیصلہ لینے کی اجازت دی جاتی ۔مرض کا مشاہدہ اور جسمانی جانچ پر زور دیا جاتا ۔مریض کی حالت ،فضلہ،درد کا مقام اور فطرت ،سوجن اور جسمانی ساخت ،جلد کی رنگت ،احساس ،سرد گرم،نم خشک جلد کی حالت ،تھلتھلا بدن ،زردسفید آنکھیں (یرقان)پشت کے بل جھک سکتا ہے یا نہیں (پھیپھڑوں کا مرض)ان باتوں پر بھی دھیان دیا جاتا۔وارڈ کی عملی تعلیم و تربیت کے بعد طلبا کو باہری مریضوں کو دیکھنے یعنی ان کے علاج کے لئے آﺅٹ وارڈ میں کردیاجاتا ۔یہ تشخیص کی رپورٹ اپنے معلم کو دیتے ۔بحث کے بعد دوا تجویز کی جاتی ۔مریض زیادہ خطرناک حالت میں ہوتا تو اسے داخل کرلیا جاتا ۔ہرایک مریض کا جدا ریکارڈ رکھا جاتا۔
تعلیمی نصاب :

ہر ایک میڈیکل اسکول میںنصاب تعلیم جدا جدا تھا۔مرض کی علالت پر اور اس کی شناخت پر زور دیا جاتا۔ابن سینا نے سب سے پہلے دماغی نخاع یعنی مین جائیٹیز کی شناخت کی ۔اس کے قبل اسے انفیکشن اور دماغی بیماری (نفسیاتی)سمجھا جاتا تھا۔ابن سینا نے اس بیماری کی علالت اور کیفیت اتنی وضاحت سے کی ہے کہ آج ہزار سال کزرنے کے بعد بھی اس میں کوئی رد وبدل نہیں ہوا ہے۔نصاب میں سرجری کو بھی شامل کیا گیا تھا۔طلبا تحصیل علم طب کے بعد کچھ ماہرین کے زیر نگرانی علم جراحی کا تجربہ حاصل کرتے ۔کچھ طلبا حفظان صحت کے امور میں مہارت حاصل کرتے ۔بہت سارے جراحی کے عمل جیسے ختنہ ،ویری کوس رگوں کی سرجری اور ہیمیر ی ہائڈ کا عمل سیکھتے ۔ارتھو پیڈکس کی تعلیم عام تھی۔ہڈی کے ٹوٹنے اور اس کے جوڑنے کے عمل کے لئے پلاسٹر آف پیرس کا استعمال شروع کردیا گیاتھا۔اس عمل کو 1852میں یورپ میں پھر سے عمل میں لایا گیا۔آنکھوں کے موتیا بند کا آپریشن عام تھا۔بچوں کی پیدائش کا معاملہ مڈ وائیوز کے حوالے تھا۔ابن سینا اور رازی نے سائیکوتھیراپی کی پریکٹس کی ۔طب کی تعلیم و تربیت کے بعد پریکٹس کرنے کے لئے لائسنس کی ضرورت لازمی تھی۔اس کے لئے ایک امتحان میں کامیاب ہونا لازمی تھا۔ایک سائنٹفک ایسوسی ایشن مسایہ فریقین اسپتال میں قائم کیا گیا تھا۔جہاں مریضوں کے بیماری اور حالات پر تبادلہ خیال ہوتا۔

931ADمیں ایک مریض کے انتقال ہونے کے بعد خلیفہ المقتدر نے اپنے خصوصی شاہی حکیم سفیان بن ثابت بن قرہ کو اس بات کے لئے تعینات کیا کہ وہ تمام معالجوں کا امتحان لیں اور مریضوں کو شفایاب کرنے کی صلاحیت کی جانچ کرکےے انہیںلائسنس دیں۔صرف بغداد میں حکمت کرنے والے 860حکیموں کی اسی کے بعد تمام اسپتالوں میں لائسنس تجویز کرنے والے ایک بورڈ کی تشکیل کی گئی ۔محتسب جو انسپیکٹر جنرل ہوتاتھا وہ اس کا سربراہ ہوتا۔یہ دوائیوں کے وزن اور ان کے معیار کی جانچ بھی کرتا (Drug Inspecto)فرماسسٹ انسپیکٹر مقرر کئے گئے۔جو آج کے امریکہ میں فوڈ ایند ڈرگ ایڈ منسٹریشن کا (FDA)کام ہے۔یہ اسلامی مملکت میں ہزار سال قبل کیا گیا تھا۔اسی طرح مغرب میں اسلامی حکومت کے ہزار سال کے بعد میڈیکل پریکٹس کرنے والوں کو لائسنس دینے کا نظم کیا گیا اور امریکہ میں امریکن بورڈ آف میڈیکل اسپیشل لیٹیز اسی نہج پر قائم کیا گیاہے۔جہاں میڈیسن ،سرجری ،ریڈیولوجی ،وغیر ہ کے ایپشیلیٹی کا طریقہ رائج ہے ۔اس کے باوجود یہ اسلامی طریقہ سے تحصیل کردہ ہے ۔آج بھی ابن سینا کی طب پر مستند کتاب ”قانون “کو پڑھے بغیر میڈیکل تعلیم مکمل نہیں۔
اسپتال :

اسلامی مملکت میں اسپتالوں نے کافی عروج حاصل کیا تھا۔یہاں مفت علاج کی سہولت تھی۔یہ حکومت کے زیر نگرانی چلاکرتے تھے ۔ان اسپتالوں میں مرد اور خواتین کے لئے وارڈ علیحدہ تھے۔ہرایک وارڈ میں خواتین نرس اور خدمتگا ر مر د عورت تیمار داری کے لئے موجود ہوتے تھے۔بخار ،زخمم ،انفیکشنن،مائنیا،آنکھ کی بیماریاں ،سردی سے ہونے والے امراض،ڈائریا،خواتین کی پیچیدہ ایامی بیماریاں و زچہ تمام وارڈ جدا جدا تھے۔صحتیاب ہورہے مریضوں کے لئے وارڈ بالکل جدا تھا۔مریضوں کو تازہ ہوا اور تازہ پانی مہیا کرایا گیاتھا۔ان اسپتالوں میں اسپتال کی دیکھ ریکھ کی تربیت میڈیکل طلبا کو وہاں رکھ کر (بورڈنگ کا نظام )کیاجاتا۔اسپتالوں میں کانفرنس ہال ہوتے ،قیمتی لائبریریاں ہوتیں جہا ں جدید ترین کتابیں موجود ہوتیں ۔حددرار کے مطابق تولم اسپتال جو قاہرہ میں 872 میں قائم کیاگیا تھا وہاں کی لائبریری میں ایک لاکھ کتابیں تھیں(آج سے ہزار سال قبل)یونیورسٹی اور اسپتالوں کی لائبریریاں بہت بڑی ہوتی تھیں ۔جیسے بغداد میں مستنصریہ یونیورسٹی کی لائبریری میں کتابوںکی 80ہزار جلد یں تھیں ۔کارڈوبا کی لائبریری میں چھ لاکھ کتابیں تھیں۔قاہرہ کی لائبریری میں دولاکھ کتابیں اور تریبولی کی لائبریری میں تین لاکھ کتابیں موجود تھیں۔اس کے علاوہ ہرایک حکیمم اور طبیب کے پاس نجی کتابوں کے بڑے ذخیرے موجود تھے۔یہ حالات اس زمانہ میںتھے جب چھا پہ خانہ نہیں تھے اور کتابیں نہایت کاوش محنت اور مشقت سے ہاتھوں سے تحریر کئے جاتے تھے۔

دنیا کی تاریخ میں اسپتالوں کے مریضوں کا ریکارڈ رکھنے کا طریقہ ان اسپتالوں نے رائج کیا ۔باہری اور داخلی مریضوں میں طریقہ علاج میں کوئی تفریق نہیںتھا۔تل تلونی اسپتال میں جن مریضوں کو بھر تی کیا جاتا اسپتال انہیںاپنا لباس مہیا کراتا اور وقت رخصت انہیں ان کا لباس اور قیمتی سامان پانچ سونے کی اضافی اشرفیون کے ساتھ دیتا۔تاکہ وہ کچھ دنو خود کفل رہ سکے ۔دمشق میںکوڑھ کے مریضوں کے لئے ایک شفاخانہ قائم تھا جب کہ اس کے چھ صدی بعد بھی یورپ میں کوڑھ کے مریضوں کو شاہی حکم پر زندہ جلادیا جاتا تھا۔تیونس کے قیروان کے اسپتال میں (830AD)ہرایک مرض کے وارڈ علیحدہ تھے۔انتطار گاہ اور نرس جو سوڈان سے تعلق رکھتی تھیں (عربی تاریخ کا یہ اول قدم ہے جس نے عورتوں کے بطور نرس باضابطہ طورپر اس پیشہ میں روشناس کرایا )ان اسپتالوں میں عبادت کے لئے بھی سہولتیں موجود تھیں۔بغداد کا العدودی اسپتال(981AD)بہترین آلہ جات اور نظم کے لئے مشہور تھا۔یہاں طلباکے رہائش اور انٹرنل شپ کاانتظام تھا۔۴۲معالج علاج معالجہ میںمشغول تھے۔عباسی خلافت کے ایک وزیرعلی ابن سینا نے سب سے پہلے قیدیوںکے علاج کے لئے حکیموںکو وزٹ کرنے کی تلقین کی۔اس دور تک یورپ جہالت کی تاریکی میں ڈوباہواتھا۔جب کہ بغداد ،قاہرہ اور کارڈوبا اعلی قسم کے اسپتال اعلی ترین طبی تعلیم اور طب کے میدان میںانتہائی وسعتوںپرتھا۔یہاں وہ کارنامے انجام دئے گئے جو آج ہزارسال کے بعدبھی انتہائی جدید ہیں۔ان اسپتالوں میںانسانی ہمدردی کا بول بالا تھا۔ذہنی دماغی مریضوںکاعلاج نہایت محبت اور ہمدردی سے کیا جاتا ۔مریضوںکے آرام کا ہر ممکن خیال رکھاجاتا۔

اسپتالوں کو بیمارستان کے نام سے دوحصوںمیں تقسیم کیاگیا۔ایک تو بڑی عمارتوں میںقائم تھا ۔دوسرا متحرک اسپتال سواری کو جانوروںکے ذریعہ کھینچا جاتا تھا جس کے ذریعہ دور دراز کے دیہی علاقوںکے مریضوں کا علاج کیا جاتا جو چلنے پھرنے سے معذور تھے یا شدید بیمار ۔اسی قسم کے متحرک اسپتال فوج میں استعمال کئے جاتے ۔اس میں خیمہ روزار ،الاجات نرس ،اردلی اور ڈاکٹرس کی پوری ٹیم ہوتی ۔یہ وبا پھیل جانے کی صورت میں اور دوردراز علاقوں میں علاج کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے۔
طب میں بیکٹیریا کی شناخت :

رازی نے بغداد میں اپنے قیام کے دوران بادشاہ کے حکم کے مطابق اسپتال کے لئے پرفضا مقام تلاش کرنے کے لئے سائنٹفک طریقہ اختیار کیا ۔انہوں نے گوشت کے بڑے بڑے ٹکرے شہر کے مختلف علاقوں میں ٹانگ دئےے۔دوتین دنوں کے بعد جس علاقہ کا گوشت سب سے کم خراب ہوا تھا اس علاقہ کو کم بیکٹیریا والا علاقہ قرار دے کر انہوں نے وہاں اسپتال قائم کئے۔ابن سینا نے سب سے پہلے بتایا کہ جسم سے نکلنے والی رطوبت زمین سے پیداہونے والی جراثیم سے متاثر ہوکر زہریلے مادے تیار کرتی ہےں۔ابن خطیمہ نے بتایا کہ انسان جراثیم سے ہروقت گھراہواہے اور یہ انسانی جسم میں داخل ہوکر انسان کو مریض بنادیتی ہیں۔۴۱ویں صدی کے وسط میں بلیک جسے کالی موت کے نام سے یاد کیا جاتاہے خدائی عتا ب کے طرح یورپ میں پھیلا ۔اس وقت میں ابن الخطیب (گراناڈا)نے جراثیم کے لئے کچھ مقامات کا تعین کیا اور کہا کہ اس کا ماخذاتحقیق و تفتیش و ثبوت و شواہد ہیں۔مریضوں کے جراثیم سے بیمار ہونے والے لو گ اس کا ثبوت ہیں۔جب کہ دور رہنے والے افراد محفوظ رہتے ہیں۔یہ جراثیم کپڑوں سے برتنوں سے اور ہوا سے منتقل ہوتے ہیں۔رازی نے چیچک کے متعلق سب سے پہلے تفصیل لکھی اور دو چیچک کا فرق و ان کا علاج تجویز کیا۔ابن سینا نے ٹی بی کے جراثیم کے منتقل ہونے کا نظریہ پیش کیا ۔انہوں نے سب سے پہلے زخموں کے علاج کے لئے شراب کا استعمال کیا ۔رازی نے زخموں کے لئے ریشمی ستور اور ہیمو اسٹیٹس کے لئے الکوحل کا استعمال کیا ۔اور اسے اینٹی ہیپٹک قرار دیا ۔
اینتھیسیا:

ابن سینا نے سب سے پہلے اینتھیسیا کو دوا کے طورپر استعمال کیا۔اور افیم کو طاقتور مخاضر (نشہ آور دوا)کے طورپر پیش کیا ۔اس سے کم طاقت کے نشہ کے لئے مینڈراگورا،پوستہ،ہیملوک،بھانگ،بیلا ڈونا،لیٹیوس سیڈ ،سرد پانی یا برف کا استعمال کیا جاتا ۔عرب طبیبوں نے سپوروفک اسپانچی کا استعمال سب سے پہلے کیا جو موجودہ اینتھیسیا کی ابتدائی شکل تھی۔اس پر ایرومیٹکس اور نارکوٹکس ڈال کر مریضوں کو سونگھایا جاتاتھا۔دراصل اس کا استعمال سرجری کی بڑھتی ہوئی قدروں کے تحت ترقی پذیر تھا۔اس زمانہ میں جب اسلامی ممالک سرجری کو ایک جدید ترین سائنس بتارہے تھے ،یورپ میں نشتر زنی کا کام حجام اور نیم حکیم کررہے تھے۔برٹن نے لکھا ہے کہ سرجری کے لئے اینتھیسیا کا استعمال مشرق میں صدیوں سے ہورہا تھا۔بہت بعد میں مغرب نے ایتھر اور کلوروفورم کا استعمال شروع کیا۔
سرجری :

رازی اول سائنس داں طبیب اور سرجنن ہے جس نے سرجری کے سیتور (وہ دھاگہ جسے جسم پر آپریشن کے بعد سلائی کی جاتی ہے)کی جگہ سیٹون اور تانت کا استعمال کیا ۔ابوالقاسم خلف بن عباس الزہراوی(930-1013AD)کو دنیا ئے اسلام کا اول موجد تسلیم کیا جاتا ہے جس نے 200سے زائد نشترزنی کے آلات ایجاد کئے ۔وہ خود بہت بڑے سرجن تھے ۔اپنی کتاب ’التصریف ‘میں میڈیکل کی تاریخ میں اول شخص کی حیثیت سے انہوں نے ہیموفیلیا کا تذکرہ کیا۔اسی کتا ب میں آلات جراحی کے استعمال کی وضاحت بھی کی ۔اس کتاب میں سرجری کے لئے علم الابدان (اناٹومی)کی تعلیم کو انہوں نے لازمی قرار دیا ۔ہمبرج سیلان خون کے لئے سب سے انہوں نے روئی کا استعما ل کیا جو ہڈی ٹوٹنے ،دانت نکالنے کے بعد اور پردہ¿ بکارت کے آپریشن یا زیادہ خون آنے کی صورت میں استعمال کیا گیا اور سب سے پہلی بار استعمال کیا گیا۔سرجری میں زہراوی نے گردہ کی پتھری نکالنے کے لئے پیشاب کے بلاڈر کے پاس آپریشن کرنے کی راہ دکھائی اور عورتوں کے لئے آپریشن کا مقا م لیتھو ٹومی کے پاس بتا یا ۔ویری کوس وینس کو بند کرنے کے لئے ان کی تفصیل آج بھی جدید تر سرجری معلوم ہوتی ہے۔ارتھو پیڈکس کے آپریشن کو انہوں نے رائج کیا۔ابن سینا کا کینسر کے لئے آپریشن کرنے کا اصول آج ہزار سال کے بعد بھی اتنا ہی اہم ہے ۔اسلامی سرجنوں نے تین طرح کی سرجری کو رائج کیا اور فروغ بھی دیا۔وسکولر ،جنرل اور ارتھوپیڈک۔پیٹ کا آپریشن عام تھا ۔آنکھوں کے تمام آپریشن کھلے عام با ٓسانی ہوتے تھے۔جگر کے پھوڑے کا علاج بنکچہ کے ذریعہ کیا جاتا تھا۔آج بھی سرجری کے آلات اور طریقہ کار وہی ہیں جو زہراوی نے ہزار سال پہلےے ایجاد کیا تھا۔دنیا کے اندر اس پرکم و بیش عمل ہورہاہے۔
دوائیاں،کیمیاسازی:

رازی و ہ اسلامی سائنسدان ہے جنہوں نے سب سے پہلے کئی مادہ کو ایک دوسرے سے جدا کیا اور ان کی تطہیر کی۔کئی کیمیاکو ایجاد کیا۔اس کے علاوہ تقطیر کیا اور کئی کیمیا کو بطوردوااستعمال کیا ۔پارہ کا بطور دوا بھی استعمال رازی ہی نے کیا اور پیشاب و مثانہ سے متعلق تمام بیماریوں کی دوائیں تجویز کی اور ان پر تحقیق کیا ۔ابن ظہر نے بہت ساری پیچیدہ بیماریوں کی تشخیص کی اور ان کا علاج تجویز کیا ۔اسی طرح الا شعث نے گیسٹرلی فیزیولوجی پر تحقیق کیا۔ابوشال المسیحی النفیس نے پلمونری سرکولیشن سے دنیا کو واقف کرایا۔
فارما کولوجی:

یوحنا بن مساویح (777-857AD)نے عالم اسلام میں سب سے پہلے عباسی خلیفہ کے زمانہ میںدوائیوں کے سائنٹفک استعمال اور سلسلہ وار استعمال کے متعلق تفصیل لکھی۔ان کے شاگر د حنین بن اسحاق العابدی نے اپنی کتاب المسائل حنین میں دوائیوں کی اثر انگیزی کی جانچ کا طریقہ بتایا۔خلیفہ المامون اور المحتشم کے زمانہ میں طب کی پریکٹس کے لئے امتحان پاس کرنا لازمی قرار پایا اور لائنسس کا استعمال شروع ہوا۔مرکبات مفرجات تقطیر تطہیر الکوحل سازی و ادویہ کی اعلی معیا ری ترکیبات رائج کی گئی ۔جس کے لئے موتی سونا مونگا عنبرمشک کاسیا املی آملہ مصبر لونگ ودیگر اشیاءکا استعمال بڑے پیمانہ پر کیا گیا۔ اس مقام پر فارماکولوجی کو ایک شعبہ کی حیثیت سے بڑے اور آزادانہ پیمانہ پر الگ قائم کیا جہاں جڑی بوٹیوں پر تحقیق کی جاتی ،ان کے خواص نکالے جاتے۔اور پینے کی دوائی تیار کی جاتی ۔گلاب کے عرق کشید کئے گئے۔سنترہ کے پھول سے رنگ او رلیموںو سنترہ کی خوشبو حاصل کی گئی۔
نفسیاتی علاج :

رازی اور ابن سینا نے سب سے پہلے ذہنی بیماریوں کے علاج کا سلسلہ شروع کیا ۔اس کے لئے جسمانی اور نفسیاتی حرکتوں کو رازی نے جسمانی نفسیاتی حرکتوں کی بنیاد پر علاج کا طریقہ نکالا ۔ اسی طرح سے گٹھیا ، لقوہ اور صدماتی فالج کا کامیاب نفسیاتی علاج کیا ۔رازی کے ہم عصر نجیب الدین محمد نے ذہنی بیماریوں کے کئی اقسام کی شناخت کی اور اس کی تفسیر لکھی انہوں نے ذہنی تناﺅ اور آکسیسس ، نےورو سس ، جنسی کمزوری جیسے امراض پر مکمل کتاب نفخئہ مالی خولیا اور قطریب ایک قسم کی مالی خولیا ہے اس تذکرہ بھی کیا ۔ساتھ میں دول قلب کی تفصیل بھی بیان کی ۔بن سینا نے جسمانی نفسیاتی امراض کو باہم ملاکر فروغ دیا ۔اور ان کی تشخیص جذباتی الجھن کے طور کی آٹھویں صدی میں مراقوکے فیص میں پاگل خانہ قائم کیا گیا عربوں نے بھی 750عیسوی میں قاہرہ ، دمشق اور ایلیپو میں پاگل خانے قائم کئے تھے ۔وہاں مریضوں کے لئے ہر طرح کی سہولیات فراہم کی گئی تھی ۔مریضوں کے ذہنی سکون کے لئے موسیقی کے ذریعہ علاج فراہم کیا جاتا تھا اس کے علاوہ ایکپوپیشنل تھیراپی کے لئے مریضوں کو گانا و موسیقی کے ذریعہ آرام پہنچایا جاتا نقالی مسخرہ پن اور ہسننی ہنسانے کے دوسرے پروگرام بھی پیش کئے جاتے ۔

ہزار سال قبل اسلامی اسپتال ان کی اعلیٰ معیار و اعلیٰ طریقہ کار وجود میں آچکے تھے ۔دوا سازی ، حکمت ،سرجری اور دیگر میدان میں نئی نئی ایجادات تحقیق و تفتیش کا کام عروج پر تھا ۔ بیماریوں کی تشخیص طریقہ علاج مرض ، وجوہات اس کے اسباب و عوامل پر غور فکر و تحقیق کے نتائج میں نئی نئی بیماریوں کا دریافت ہو چکا تھا ۔وائرس ، جراثیم ،اچھوت کی بیماریوں سے آگاہی ہو چکی تھی ۔سرجری اور نفسیاتی علاج کے وہ طریقہ اختیار کئے گئے تھے جنہوں نے بعد میں یوروپی ماہر نفسیات ، موجدوں ، سرجنوں اور معالجوں کی ہر قدم پر رہنمائی کی اور بنیاد کی صورت میں آج بھی ان کی افادیت برقرار ہے ۔

Share this post

Leave a Reply