لوگ نشے کے عادی کیوں بنتے ہیں ؟

لوگ نشے کے عادی کیوں بنتے ہیں ؟

اس کی چند ایک وجویات درج ذیل ہیں۔کاروباری پریشانیاں
جن لوگوں کے کاروبار میں نقصان ہو جائے تو ان حالات میں راتوں کی نیند اڑ جاتی ہے اور ایسے لوگ سکون آور ادویہ کا استعمال شروع کر دیتے ہیں یا کسی عزیز کا انتقال یا محبت میں ناکامی پر غم کو دور کرنے کیلئے بعض افراد سکون آور ادویہ کا استعمال کرتے ہیں اور رفتہ رفتہ عادی ہو جاتے ہیں۔
صدمہ کا نفسیاتی علاج جو اسلام نے بتایا ہے اگر اس پر عمل کیا جائے تو دل کو سکون اور تسلی آ جاتی ہے سرکاردوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ رنج یا دکھ پہنچے تو کہو اناللہ وانا الیہ راجعون، ان الفاظ میں اس زخم کا مرہم ہے جو صدمہ سے لگا ہو نیز اور بھی ایسی دعائیں کتابوں میں مذکور ہیں۔ کئی ناکام سیاستدان بھی نشے کے میدان میں اتر آتے ہیں۔بری سو سائٹی
نشہ کے پھیلانے میں برے دوست سب سے بڑا سبب ہیں، جو شخص تمباکونوشی کرتا ہو فضول خرچ اور آوارہ ہو ایسا شخص دوستی کے قابل نہیں۔ اس سے تو کوسوں دور بھاگنا چاہئیے۔ سکولوں اور کالجوں کے علاوہ ہر محلے اور گلی میں بدقسمتی سے ایسے چند نشئی ہوتے ہیں جن کو نشہ کی لت ہوتی ہے یہ اپنے سے کم عمر کے لوگوں کو دوست بنا کر انھیں بھی اس کی رغبت دلاتے ہیں شروع میں اپنے پاس سے یہ مفت نشہ فراہم کرتے ہیں لیکن بعد میں جب دیکھتے ہیں کہ یہ عادی ہو چکا ہے پھر اپنے اخراجات بھی اس کی جیب سے پورے کرتے ہیں۔

جنسی وجوہات
جنسی عیاشی کیلئے نشہ کا استعمال بہت زیادہ کیا جاتا ہے۔ نشہ آور اشیاء چونکہ بےحس کر دیتی ہیں اور ان سے وقتی طور پر امساک بڑھ جاتا ہے اس لئے بعض لوگ ایسی اشیاء کا استعمال کرتے ہیں نیز بعض حکیم بھی جنسی مریضوں کو ایسی ادویات دیتے ہیں ان ادویہ سے ان کے اعضائے جنسی دن بدن نیم مردہ ہو جاتے ہیں اور ان کی جنسی طاقت بالکل ختم ہو جاتی ہے نشہ کے عادی افراد میں ہیجڑے پیدا ہونے کی شرح بہت زیادہ ہے۔

ناسازگار حالات اور ذہنی پریشانیاں
بعض لوگ اتنے حساس ہوتے ہیں کہ ذرا سی بات بھی انھیں بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے معمولی پریشانی سے عہدہ برآ نہیں ہو پاتے۔ ہر شخص کو زندگی کے سفر میں قدم قدم پر کسی نہ کسی پریشانی اور الجھن سے واسطہ پڑتا ہے۔ جن لوگوں کی قوت ارادی مضبوط ہوتی ہے وہ بڑے حوصلے کے ساتھ ناسازگار حالات سے عہدہ برآ ہوتے ہیں لیکن نازک طبیعت کے مالک ان پریشانیوں کو ذہن پر سوار کر لیتے ہیں ہر وقت سوچ بچار میں کھوئے رہتے ہیں تنہائی پسند ہو جاتے ہیں اور نشہ آور ادویات میں سکون تلاش کرتے ہیں زندگی سے بیزاری اور موت کی خواہش ان میں پیدا ہو جاتی ہے عملی کام کرنے سے کتراتے ہیں اور نشہ کی دنیا میں اپنا جہاں آباد کر لیتے ہیں جن تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ملازمت نہیں ملتی وہ بھی اس مرض کا شکار ہو جاتے ہیں۔

بطور فیشن یا شوقیہ
بعض لوگ دوسروں کو دیکھا دیکھی بطور فیشن نشہ پینا شروع کر دیتے ہیں اور بڑے خاص انداز سے کش لگاتے ہیں اور بڑے فخر سے اپنے ہمنواؤں سے کہتے ہیں کہ آج میں نے اتنی پی ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ نشہ کا مریض عام آدمی سے اتنے فوائد بیان کرتا ہے کہ دوسرا آدمی بطور تجربہ وہی نشہ استعمال کرنے لگ جاتا ہے۔

تجسس
یہ فطرت انسانی ہے کہ جس چیز سے اسے روکا جائے اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ کام ضرور کرکے دکھائے ٹی وی پر اشتہارات اور اخبارات کے صفحات پر ہیروئن اور منشیات کا ہر روز تذکرہ سننے سے بعض لوگ اس کے منفی اثرات لیتے ہیں۔ بس یہی سوچ انھیں لے ڈوبتی ہے آج کل چھوٹے بچے بھی نشہ آور چیزوں کے ناموں سے واقف ہیں بعض غیر ملکی فلمیں اس رجحان کو فروغ دیتی ہیں اس لئے بہت سے لوگ محض تجسس کی بناء پر اس کے عادی ہو رہے ہیں۔

والدین کی غفلت
جو والدین اپنی اولاد پر کڑی نظر نہیں رکھتے اپنی اولاد کی مناسب نگرانی نہیں کرتے اولاد کو شتر بےمہار کی طرح چھوڑ دیتے ہیں ان کی اولاد سگریٹ نوشی سے ابتداء کرکے ہیروئن کے سٹیج پر جا پہنچتی ہے بعض لوگ اپنی نشہ کی چیزیں اولاد کے ذریعے منگواتے ہیں جس سے اولاد بھی اس راہ پر چل نکلتی ہے اگر آپ کو اولاد کی زندگی کی فکر ہے تو ان سے سگریٹ بھی نہیں منگوانے چاہئیں وگر نہ کل کو اگر وہ سگریٹ پئے گا تو آپ اسے روک نہیں سکیں گے کیونکہ آپ کا کردار اس کے سامنے ہوگا۔
والدین کا کام جہاں اولاد کیلئے خوارک، لباس اور ان کی دیگر ضروریات پوری کرنا ہے وہاں یہ بھی آپ پر فرض ہے کہ ان کی اخلاقی تربیت بھی کریں وگر نہ وہی اولاد بد اخلاقی اور نشہ کی ذلت میں ڈوب کر ایک دن آپ کے گریبان میں ہاتھ ڈالے گی۔

Share this post

Leave a Reply