نامرد حضرات خودکشی یا بیوی کے قتل کی بجائے اپناعلاج کریں

نامرد حضرات خودکشی یا بیوی کے قتل کی بجائے اپناعلاج کریں

نامردی
Coward

نامرد حضرات خودکشی یا بیوی کے قتل کی بجائے اپناعلاج کریں

جب سے دنیا وجود میں آئی ہے اور انسان جسمانی خواہشات کی تکمیل کی لذت سے آشنا ہوا ہے تب سے ہی یہ سلسلہ جاری ہے۔ جب سے وہ سماجی اور جائز ازدواجی بندھنوں میں باندھا جانے لگا مرد اور عورت ایک دوسرے کی ملکیت سمجھے جانے لگے۔ مرد کو عورت کا محافظ مانا اور اس کی ضروریات کی تکمیل کا ذمہ دار بھی۔ روٹی‘ کپڑا اور مکان کے ساتھ ساتھ اس کے جسمانی تقاضوں کی تکمیل بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔ جب وہ اس میں ناکام رہتا ہے تو نہ صرف اس کا اپنا گھر بکھر جاتا ہے بلکہ معاشرے میں بھی بگاڑ آنے لگتا ہے۔ کیونکہ اپنے شوہر سے آسودگی حاصل کرنے میں ناکام عورتوں کی پہلے نگاہیں بھٹکنے لگتی ہیں اور پھر وہ خود بھی بے راہ روی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ بہت کم عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنے شوہر کی کمزوری کو برداشت کرلیتی ہیں اور اپنی بربادی کو مقدر کا حصہ سمجھ کر زندگی گذار لیتی ہے۔ مگر مرتے دم تک اس کے پاس اس کے شوہر کی عزت نہیں رہتی۔ بیشتر خواتین مرد کی کمزوری کی وجہ سے وہ خود بھی کئی نسوانی امراض کا شکار ہوجاتی ہیں اور جو مرد کمزور ہوتے ہیں وہ خود بھی احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں اور اپنی کمزور چھپانے

کےلئے کبھی غصہ، کبھی چڑچڑاپن کبھی تھکن اور کبھی دہشت کا سہارا لےتے ہیں۔ میاں بیوی کے جھگڑوں کی ایک وجہ جسمانی آسودگی کا فقدان بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کمزوری پیدائشی ہوتی ہے یا وقتی‘ یہ قابل علاج ہے یا نہیں۔ اگر قابل علاج ہے تو پھر تاخیر کس بات کی۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ راجہ مہاراجاﺅں، شاہوں اور نوابوں، امراءاور جاگیرداروں کو بھی ان مسائل کا سامنا رہا۔ حالانکہ ان کے پاس دولت کی فراوانی رہی۔ مکمل غذائیں کو استعمال کرتے اس کے باوجود ان کے ازواجی زندگی ناکام رہی۔ ہوسکتا ہے کہ اس کی ایک وجہ ان کی عیش و عشرت کی زندگی رہی ہو۔ جیسا کہ نواب واجد علی شاہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سات سال کی عمر سے اس نے عیاشی کی اور 18یا 20سال کی عمر میں وہ ناکارہ ہوچکے تھے۔ اسی طرح زار روس (کمیونسٹ حکومت سے پہلے حکمران شاہی خاندان) کی ملکہ راسپوتین کی داشتہ بن گئی تھی کیونکہ روس کا شاہ اس کے تقاضوں کی تکمیل سے قاصر تھا۔ ایسا حال بیشتر امراءاور جاگیرداروں کا ہے جو خود عیش و عشرت کی زندگی گذارتے ہیں اور ان کی قانونی بیویاں اپنی آسودگی معمولی ملازمین سے حاصل کرنے کےلئے مجبور رہتی ہیں۔ کئی دولت مند گھرانوں کی بیٹیاں ڈرائیورس، رکشہ رانوں، تانگابانوں کے ساتھ فرار ہوگئیں۔ کبھی اپنی کمزوری پر پردہ ڈالنے کےلئے مرد بیویوں کو یا تو موت کے گھات اتار دیتے یا پھر اس کی بے راہ روی کو جان بوجھ کر بھی نظر انداز کردیتے۔ جب بدنامی کا خوف طاری ہوجاتا ہے تو خود کشی بھی کرلیتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ نامرد دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک پیدائشی اور دوسرے ایک مقررہ وقت کے بعد مختلف خراب عادتوں کی وجہ سے ہوجاتے ہیں۔ پیدائشی طور پر جو لڑکے کمزور ہوتے ہیں ان کا پتہ چلانا مشکل ہوتا ہے مگر پیشاب کے دھار سے تجربہ کار لوگ اس کا اندازہ لگالیتے ہیں۔ مگر صحیح طور پر اس کا پتہ لڑکے سن بلوغ تک پہنچنے کے بعد ہی چلایا جاسکتا ہے بشرطےکہ اس کے مادہ تولید کا تجزیہ کیا جائے۔ عام طور پر بعض لڑکے بچپن سے ہی زنانہ صفات کے حامل ہوتے ہیں۔ انہیں لڑکیوں میں بیٹھنے، ان کے ساتھ کھیلنے کی عادت ہوتی ہے۔ اگر کسی گھر میں لڑکیوں کی کثرت ہو تو ان کی عادتوں کا اثر اس پر پڑسکتا ہے۔ مثال کے طور پر لب و لہجہ زنانی ہوجاتا ہے‘ ان کی شباہت اختیار کرلی جاتی ہے۔ آج کل تو کان میں بالی اور ہاتھوں میں کڑے اور سر کے بالوں میں پن لگانے یا عورتوں کی پونی ٹیل کا رواج عام ہوگیا ہے۔ اگر ان عادتوں کے اختیار کرنے والے لڑکوں کی ہسٹری شیٹ کا جائزہ لیا جائے تو اس میں سے 95فےصد لڑکے ایبنارمل ملیںگے جن میں سے بیشتر ہم جنس پرست ثابت ہوںگے۔ لڑکوں میں اگر زنانہ صفات پیدا ہورہی ہیں تو وہ مذہبی اور اخلاقی تعلیم سے دوری کا نتیجہ ہے کیونکہ ابتداءہی سے تلقین کی گئی ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں کو چاہے ان کے درمیان کتنا ہی قریبی رشتہ کیوں نہ ہو دور رکھنا چاہئے۔

اگر ایک مخصوص عمر میں آنے کے باوجود اگر اس لڑکے کی عادتیں تبدیل نہ ہوں تو اس کا طبی معائنہ کروالینا چاہئے اور اگر وہ قابل علاج ہے تو اس میں کسی شرم و جھجھک کے بغیر تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ کیونکہ بعد میں زمانہ کے سامنے رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ جس لڑکی سے اس کی شادی کی جائے گی وہ اس لڑکی پر سراسر ظلم کے مماثل ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ہر مرض کے ساتھ اس کا علاج بھی پیدا کیا ہے۔ آج کل تو میڈیکل سائنس اس قدر ترقی کرچکی ہے کہ پیدائشی طور پر نامردوں کا بھی علاج ممکن ہے۔ حال ہی میں اپولو ہاسپٹل میں نامردی کا کامیاب علاج ہوا ہے۔ ہر طرےقہ علاج میں اس کا علاج ممکن ہے صرف ہمت کی ضرورت ہے کیونکہ عام طور پر اپنی یا اپنی اولاد کی کمزوری کو جانتے ہوئے بھی ڈاکٹر، حکیم یا وید سے بھی ظاہر کرنے میں ہم جھجھک محسوس کرتے ہیں اور یہی جھجھک پورے خاندان کو لے ڈوبتی ہے۔ لڑکوں کی نگرانی سات سال کی عمر سے ان کی شادی ہونے تک کرنی چاہئے کیونکہ عمر کے مختلف ادوار میں وہ مختلف عادتوں کے شکار ہوتے ہیں۔ اگر ان پر نظر رکھی جائے بچوں کی صحت اور جوانی ان کی ازدواجی زندگی اور گھر کی خوشیاں سلامت رہ سکتی ہیں۔ بچوں کی عادتوں پر کنٹرول والدین کی ذمہ داری ہے۔ تمباکو نوشی، گٹکا، الکحل، نشیلی ادویات اور رات دیر گئے تک جاگنے سے بھی جنسی کمزوری پیدا ہوسکتی ہے۔ کیونکہ ان سب سے اعصاب نظام متاثر ہوتا ہے اور اعصاب جب تک پُرسکون اور قوی نہ ہوں جنسی توانائی ممکن نہیں۔ غذائی عادتیں، صحت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ مرغن اور مسکن غذاﺅں سے بھی کئی امراض پیدا ہوتے ہیں جو جنسی کمزوری کا سبب بنتے ہیں۔ سادہ غذائیں، سبزیاں، حلال گوشت، مچھلی دودھ اور انڈے جنسی توانائی عطا کرتے ہیں۔ بشرطیکہ اعتدال سے استعمال کئے جائیں۔ فاسٹ فوڈ قسم کے خوراک بھی نقصاندہ ہے۔

کمزوری کا علاج اسی دن ہوسکتا ہے جس دن آپ کو احساس ہوجائے کہ آپ کمزور ہیں۔ مرض کا پتہ چل جانے کا مطلب ہے کہ اس کا علاج ہوگےا۔ صحیح تشخیص تجربہ کار حکیم وید یا ڈاکٹر سے کروائی جائے اور ان کی ہدایت پر سختی کے ساتھ عمل کےا جائے تو کھوئی ہوئی خوشیاں لوٹ آسکتی ہیں۔ شادی کے بعد رسوا ہونے سے بہتر ہے کہ شادی سے پہلے ہی اپنا میڈیکل چیک اَپ کرواکر پوری دیانتداری کے ساتھ اپنا علاج کروانا چاہئے۔ جب بیرون ملک سفر کےلئے ہم چیک اَپ کرواتے ہیں تو زندگی کے طویل ازدواجی سفر کےلئے تیاری کیوں نہیں کرتے۔ اگر شادی کے بعد کسی وجہ سے مرد کمزور ہوجائے اور عام طور پرحالات پریشانیوں، بلڈ پریشر، ذیابطیس کی وجہ سے یہ ممکن ہے تو ایک سمجھدار اور صابر بیوی اپنے شوہر کے کھوئے ہوئے اعتماد کو بحال کرنے میں بہت بڑا رول ادا کرسکتی ہے۔ مرد کی کمزوری پر لعن و طعن کرنے سے خود اس کی اپنی زندگی بھی اجیرن ہوسکتی ہے۔ اس کے بجائے وہ اپنے شوہر کو اینڈرولوجسٹ یا کسی مستند تجربہ کار حکیم سے تشخیص کروائے۔ بہت جلد وہ صحت یاب ہوسکتا ہے۔

والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے لڑکوں کی شادی سے پہلے کسی شرم و جھجھک کے بغیر ان سے ان کی صحت سے متعلق مکمل معلومات حاصل کرے اور جان بوجھ کر اپنے لڑکوں اور ہونے والی بہو کو جہنم میں نہ ڈھکیلیں۔ اگر کسی وجہ سے لڑکے قابل علاج نہ رہیں تو انہیں شادی کےلئے زبردستی نہ کریں کیونکہ اپنے بیٹے کے سہرے کے پھول دےکھنے کی آرزو میں وہ بہو کا کفن دیکھنے یا کبھی کبھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ جاتے ہیں۔ ہم یہی کہیںگے کہ اگر آپ شادی نہیں کرنا چاہتے تو خدارا صاف صاف اپنے حالات اپنے والدین سے کہہ دیں یا پھر اپنا علاج کروائیں اگر اپنے شہر میں علاج سے شرم محسوس ہوتی ہے تو دوسرے شہر جاکر کرائیں۔ آج کل تو انٹرنیٹ کے ذریعہ بھی تشخیص ممکن ہے ویب کیمروں کے ذریعہ کونسلنگ کی جارہی ہے اور ہوم ڈیلیوری کے ذریعہ میڈیسن بھی دستیاب ہیں۔ جو لوگ خود کو شادی شدہ زندگی میں کمزور محسوس کرتے ہیں وہ بجائے اپنی بیوی کے سامنے شرمندہ ہونے کے ڈاکٹر ےا حکیم کے سامنے جرات کے ساتھ اپنی کمزوری کا اظہار کرے اور اپنی کمزوری دور کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں کیونکہ اگر آپ اپنی بیوی کے سامنے شرمندہ ہیں تو ساری دنےا آپ کی عزت کرے تب بھی بےکار ہے۔

Share this post

Leave a Reply