Alshifa Natural Herbal Pharma

پرہیز اور احتیاط کے بارے میں احکامات

علاج حقیقت میں دو چیزوں پر عمل کرنے کا نام ہے۔ ایک پرہیز، دوسرے حفظان صحت۔ تیسرے جب کبھی صحت کے گڑ بڑ ہونے کا خطرہ ہو تو مناسب استفراغ سے کام لیا جائے۔ الغرض طب کا دار و مدار انہی تین قواعد پر ہے۔ پرہیز دو طرح کے ہوتے ہیں۔
(1) ایسا پرہیز جس سے بیماری پاس نہ پھٹکے۔
(2) ایسا پرہیز جس سے مذید اضافہ بیماری نہ ہو بلکہ مرض جس حال میں ہے، کم از کم ایسی جگہ رہ جائے۔
پہلے پرہیز کا تعلق تندرستوں سے اور دوسرے کا مریضوں سے ہے۔ اس لئے کہ جب مریض پرہیز کرتا ہے تو اس کی بیماری بجائے بڑھنے کے رک جاتی ہے اور قوتوں کو اس کے دفاع کا موقع ملتا ہے۔ پرہیز کے سلسلے میں قرآن کی یہ آیت ہے۔ (مائدہ6)
“تم بیمار ہو یا سفر کر رہے ہو یا تم میں سے کوئی پاخانہ سے واپس ہو یا تم نے عورتوں سے جماع کیا ہو اور تم کو پانی میسر نہ ہو تو پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو۔“ یہاں مریض کو پانی سے پرہیز کی ہدایت ہے۔ اس لئے کہ مریض کو اس سے ضرر کا اندیشہ ہے۔ حدیث سے بھی پرہیز کی تائید ہوتی ہے۔
چنانچہ ام المنذر بنت قیس انصاریہ کی یہ حدیث میں ہے۔ آپ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے جو بیماری کی وجہ سے کمزور و ناتواں تھے۔ ہمارے یہاں کھجور کے خوشے لٹکے ہوئے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر اس کے کھانے میں مشغول ہو گئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اس سے چن کر کھانے لگے۔ اس پر پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا۔ “اے علی (رضی اللہ عنہ) ! تم بہت ناتواں ہو۔“ یہاں تک کہ حضرت علی نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ راویہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے جو اور چقندر کے آمیزش سے آش تیار کیا تھا۔ اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اسے لو، یہ تمہارے لئے بہت نفع بخش ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ مذکور ہے کہ اس میں لگ جاؤ کیونکہ یہ تمہارے لئے زیادہ مناسب ہے۔

سنن ابن ماجہ میں بھی حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے ایک روایت مذکور ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے روٹی اور کھجور رکھی ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ قریب آ جاؤ اور کھاؤ۔ میں نے ایک کھجور اٹھائی اور کھانے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کھجور کھا رہے ہو جبکہ تم کو آشوب چشم ہے۔ میں نے عرض کیا، اے اللہ عزوجل کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں دوسرے جانب سے کھا رہا ہوں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم مسکرا پڑے۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کھجور کے خوشوں سے چن کر کھجور کھانے سے اس لئے منع فرمایا کہ آپ مرض سے اٹھے تھے، لٰہذا آپ کا روکنا اور پرہیز کرانا اعلٰی درجے کی تدبیر تھی، اس لئے کہ دوالی تازہ کھجور کے ان خوشوں کو کہتے ہیں جو گھروں میں کھانے کے لئے لٹکائے جاتے ہیں۔ جیسے انگور کے خوشے لٹکائے جاتے ہیں اور پھل ایسے کمزور شخص کے لئے جو مرض سے ابھی اٹھا ہو، سرعت استحال اور ضعف طبیعت کی وجہ سے مضر ہوتا ہے۔ اس لئے کہ نقاہت کی وجہ سے کسی غذا کا جواز جو قسم پھل ہو، جلد ہی استحالہ ہو جاتا ہے اور طبیعت ضعف کی وجہ سے اس کا دفاع نہیں کر پاتی۔ اس لئے کہ اسے ابھی پہلی جیسے قوت حاصل نہیں ہوئی۔ دوسرے ابھی وہ بیماری کے اثرات مٹانے میں اور بدن سے پوری طرح اس کا ازالہ کرنے میں مشغول ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ تازہ کھجور میں ایک قسم کی کثافت ہوتی ہے جو معدے پر گراں ہوتی ہے۔ اس لئے کھجور کھانے کے بعد معدہ اس کی درستی اور طبیعت، اس کی اصلاح میں لگ جاتی ہے جبکہ طبیعت کو ابھی مرض کے آثار مٹانے کا پورے طور پر موقع نہیں ملا ہے۔ ایسی صورت میں یہ باقی کام یا تو ادھورا رہ جاتا ہے یا اس میں اضافہ ہو جاتا ہے لیکن جونہی آش جوو چقندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کھانے کا حکم فرمایا۔ اس لئے کہ یہ ناتواں و کمزور کے لئے بہترین غذا بھی ہے کیونکہ آش جو میں تبرید کے ساتھ غذائیت بھی ہوتی ہے اور لطیف و تلقین کی قوت بھی ہوتی ہے۔ طبیعت کو جو کمزور و ناتواں کے لئے بہت ضروری چیز ہے۔ خصوصاً جب ماء الشعرا اور چقندر کی جڑ کو پکار کر استعمال کیا جائے تو ضعف معدہ کے لئے نہایت عمدہ غذا ثابت ہوتی ہے اور اس سے ایسے اخلاط رونما ہوتے جس سے صحت کو کسی قسم کا خطرہ لاحق ہو۔

زید بن اسلم نے بیان کیا کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک مرض کو پرہیز کرایا۔ یہاں تک کہ مریض پرہیز کی سختی کی وجہ سے کھجور کی گھٹلیاں چوستا تھا۔ کھانا اس کے لئے بالکل ممنوع تھا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ پرہیز بیماری سے پہلے سب سے بہتر اور کار گر نسخہ ہے جس سے آدمی بیمار کم ہی ہوتا ہے۔ اگر بیمار ہو جائے تو پرہیز سے یہ نفع ہوتا ہے کہ مرض میں زیادتی اور اس کے پھیلنے پر قدغن لگ جاتی ہے اور مرض بڑھنے نہیں پاتا۔

حارث بن کلدہ کا قول ہے کہ سب سے بڑا علاج پرہیز ہے۔ اطباء کے نزدیک پرہیز کا مطلب یہ ہے کہ تندرست کو ضرر سے بچانا ایسا ہی ہے جیسے مریض اور ناتواں و کمزور کے لئے مضر چیز کا استعمال کرانا۔ مرض کے سبب سے جو شخص کمزور و ناتواں ہو گیا ہو، اسے پرہیز سے بہت زیادہ نفع ہوتا ہے۔ اس لئے کہ اس کی طبیعت مرض کے بعد ابھی پوری طرح سنبھل نہیں پاتی اور قوت ہاضمہ بھی ابھی کمزور ہی ہوتی ہے۔ نیز طبیعت میں قبولیت و صلاحیت ہوتی ہے اور اعضاء ہر چیز لینے کے لئے مستعد رہتے ہیں۔ اس لئے مضر چیزیں استعمال کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ مرض کو دوبارہ دعوت دی جائے۔ یہ مرض کی ابتدائی صورت سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے

Leave a Comment

Scroll to Top