Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

گوشت کی پہچان

گوشت کی پہچان
چونکہ گوشت ایک مکمل غذا ہے، اس لئے جب کوئی اسے مسلسل ترک کر دے تو اس کو لحمیات کی کمی ہوتی ہے اور سبزیوں میں موجود کم غذائی عناصر سے مطلوبات حاصل کرنے کی کوشش میں آنتوں کا حجم بڑھ جاتا ہے اور پیٹ بڑا ہو جاتا ہے۔گوشت کی  پہچان : گائے ۔ بیل
گوشت کا رنگ: سرخ
چربی کا رنگ: زرد اور خشک
گوشت کی پہچان: بکری
گوشت کا رنگ: ہلکا سرخ
چربی کا رنگ: سفیدگوشت کی پہچان: بھیڑ ۔ دنبہ
گوشت کا رنگ: ہلکا سرخ
چربی کا رنگ: سفید۔ دنبہ کے گوشت کے اندر بھی چربی کے ریشے ملتے ہیں۔

گوشت کی پہچان: بھینس
گوشت کا رنگ: گہرا سرخ
چربی کا رنگ: سفید

گوشت کی پہچان: اونٹ
گوشت کا رنگ: سرخ
چربی کا رنگ: ہلکا زرد

گوشت کی پہچان: گھوڑا
گوشت کا رنگ: گہرا سرخ
چربی کا رنگ: سفید مگر زردی مائل

گوشت کی پہچان: وہیل مچھلی
گوشت کا رنگ: نہایت گہرا سرخ
چربی کا رنگ: سیال

گوشت کی پہچان: انسان
گوشت کا رنگ: گلابی
چربی کا رنگ: سنہری زرد

 

Read More

وضو سے متعدد امراض کا علاج

وضو سے متعدد امراض کا علاج
وضو کا مطلب صرف جسمانی پاکیزگی نہیں بلکہ روحانی پاکیزگی بھی ہے ہمارے شعبہ روحانیت نے مشاہدہ کیا ہے کہ جن خواتین و حضرات نے باوضو رہنے کی پابندی کی ہے وہ ذہنی پراگندگی سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔اس سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ جسم کی صفائی اور پاکیزگی ذہن کو بھی پاک اور صاف رکھ سکتی ہے۔ وضو ایک ایسا عمل ہے جو کسی بھی مذہب میں نہیں پایا جاتا۔ اس کے ذریعے سے بدن کے وہ حصے صاف ہوتے ہیں یا یوں کہیے کہ وضو محافظ ہے ان راستوں کا جن کے ذریعے صحت کا دشمن بدن میں داخل ہوتا ہے۔
جدید تحقیق کے مطابق بہت سی بیماریوں کا سبب جراثیم ہیں یہ جراثیم ہمیں چاروں اطراف سے گھیرے ہوئے ہیں ہوا زمین الغرض استعمال کی ہر چیز پر یہ مسلط ہیں۔ جسم انسانی کی حیثیت ایک قلعہ کی مانند ہے کوئی دشمن اس میں داخل نہیں ہو سکتا سوائے زخموں یا سوراخوں کے۔ منہ اور ناک کے سوراخ ہر وقت جراثیم کی زد میں ہیں اور ہمارے ہاتھ ان جراثیم کو اندر لے جانے میں مدد کرتے ہیں وضو کی بدولت ہم نہ صرف ان سوراخوں کو بلکہ اپنے جسم کے ہر حصے کو جو کپڑے سے ڈھکا ہوا نہیں ہے اور آسانی سے ان جراثیم کی آماجگاہ بن سکتا ہے، دن میں کئی بار دھوتے ہیں اس طرح وضو بہت سے امراض سے بچاؤ کی عمدہ تدبیر ہے۔ قدرت کا یہ عجیب سر بستہ راز ہے کہ انسان کے اندر بجلی پیدا ہوتی رہتی ہے اور پورے جسم میں دورہ کر کرے پیروں کے ذریعہ ارتھ ہو جاتی ہے۔تو جب بندہ وضو کرتا ہے تو روشنیوں کا بہاؤ عام راستہ سے ہٹ کر اپنی راہ تبدیل کر لیتا ہے وضو کے ساتھ ہمارے اعضاء سے برقی روئیں نکلنے لگتی ہیں اور اس عمل سے جسمانی اعضاء کو ایک نئی طاقت اورق وت حاصل ہوتی ہے۔

آپ کو یہ معلوم کرکے حیرت ہو گی کہ ایک خاص وقت کا وضو اندرون جسم کے ایک خاص عضو پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر ظہر کے وقت کے وضو کا اثر خاص طور پر قلب و دماغ پر زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ اسی طرح وضو کا اثر اندرونی اعضاء پر بھی ہونے سے جسم کا اکثر اندرونی بیماریوں پر اعصاب کا کنٹرول مضبوط ہوتا رہتا ہے جس کی وجہ سے عضلات بدن میں چستی اور طاقت قائم رہتی ہے جس کو حیاتیاتی توازن کہا جاتا ہے

 

Read More

نیند نہ آنے کا علاج

نیند نہ آنے کا علاج
سونے سے پہلے وضو کرو۔ (بخاری) اور اس کے بعد پوری سورہ اخلاص اور سورہ فلق اور سورہ ناس کو پڑھ کر دونوں ہاتھ پر دم کریں اور تمام بدن پر پھیریں۔ (بخاری)
سونے سے پہلے یہ دعاء ضرور پڑھیں۔
اللھم باسمک اموت واحی۔ (بخاری و مسلم)
جس کو نیند نہ آتی ہو وہ کم از کم ایک پوری سورہ النساء کی تلاوت کرے اور پھر وجعلنا نومکم سباتا کو بار بار پڑھے انشاءاللہ عزوجل جلدی ہی نیند آ جائے گی۔

چہل قدمی کی اہمیت

تاجدار انبیاء کی مبارک تعلیمات میں آرام طلبی کو کبھی دخل نہیں رہا

ذات گرامی باوجود سینکڑوں جانثاروں کے اپنا کام خود اپنے دست مبارک سے انجام دیتے دودھ دہو لیتے، کپڑا سی لیتے، خادم کے ساتھ آٹا پیس لیتے، بازار سے سودا خود لا دیتے، صحابہ کی عیادت فرماتے، جنازوں میں شرکت فرماتے۔تاجدار مدینہ کی رفتار مبارک کے بارے میں آتا ہے۔ آپ سے زیادہ تیز رفتار میں کوئی نہیں دیکھا۔ (شمائل ترمذی ص 88 )

ہمت اور قوت سے پاؤں اٹھاتے، عورتوں کی طرح پاؤں زمین پر گھسیٹ کر نہیں چلتے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا اونچائی سے اتر رہے ہیں۔

سست رفتاری میں نہ جسم میں دوران خون تیز ہوتا ہے نہ چستی پیدا ہوتی ہے بلکہ بیماروں کی رفتار ہوگی یا شاہانہ نوابی چال۔

آج کے دور میں ہم بہت زیادہ آرام طلبی کا شکار نظر آتے ہیں بلکہ چند گز کے فاصلے پر جانے کیلئے بھی سواری اختیار کرتے ہیں۔ اس لئے آج اکثریت پیٹ کے امراض میں مبتلا ہو چکی ہے۔ ہر وقت ملائم گدوں پر بیٹھے رہنا یا ائیرکنڈیشنڈ کمروں میں آرام کرنا صحت کیلئے انتہائی نقصان دہ ہے۔ قیمتی اور عُمدہ چیزیں خواہ کتنی ہی کھائی جائیں مگر وہ ہضم نہ ہوں تو سب بیکار ہیں بلکہ الٹا طبیعت پر بوجھ ہو جاتی ہیں۔ یہ آرام طلبی اور کاہلی کی وجہ سے ہے۔

نظام دوران خون کو درست رکھنے کا راز چلنے پھرنے میں مضمر ہے۔ چلنے پھرنے سے ہمارے زیریں جسم کی پرورش ہوتی ہے اور قلب کو اپنے قدرتی وظائف انجام دینے میں مدد ملتی ہے اور اگر اس حصہ (زیریں) کے اعصاب کام نہ کریں تو خون ہمارے پیروں اور پیٹ میں جمع ہونے لگتا ہے اور دل کو ان حصوں سے خون کو نکالنے کیلئے معمول سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور اس طرح صورتحال بد سے بدتر ہوتی چلی جاتی ہے۔

انسان کے جسم کی بناوٹ کچھ ایسی ہی ہے کہ اسے ہر وقت اس دوسرے دل (اعصابی امداد) کی ضرورت پڑتی ہے۔

بہت سی تحقیقات کے بعد سائنس دان اور ماہرین طب اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ قلب کے مریضوں کیلئے چلنا پھرنا نہایت ضروری ہے۔ زیریں اعصاب کے حرکت میں آنے سے قلب کا بار بڑی حد تک کم ہو جاتا ہے۔ چہل قدمی سے دوران خون پر اچھا اثر پڑتا ہے اور دل کو اس سے متعلق تکلیف نہیں ہوتی۔

چہل قدمی سے ان مریضوں کو بھی فائدہ ہوتا ہے جن کی نبض معمول سے زیادہ چلتی ہے اور جنہیں فشار خون یا ہائی بلڈ پریشر کی شکایت ہے۔ یہ خیال غلط ہے کہ صرف تیز تیز چلنے سے ورزش ہوتی ہے اور فائدہ ہوتا ہے۔ کھڑے رہنے اور راستہ چلنے سے بھی فائدہ ہوتا ہے جیسے نماز میں ہلکی ورزش بار بار مفید ہوتی ہے اور آپ کے قلب کا فعل تیز اور خون کا دباؤ دونوں معمول پر آ جاتے ہیں۔

آج آرام طلبی نے ہمیں سواری کے بغیر چلنے پھرنے سے روک دیا پھر اگر پیٹ کے عوارض فربہی اور اختلاج قلب جیسے امراض زیادہ پیدا ہو جائیں تو تعجب کی کیا بات ہے۔

آج کل سرجن آپریشن کے بعد چند ہی گھنٹے بعد مریض کو چند قدم چلنے کی تاکید کرتے ہیں ایسا کرنے سے دوران خون تیز ہو جاتا ہے اور مریض تیزی سے صحت یاب ہونے لگتا ہے ہاضمہ میں بھی مدد ملتی ہے اور قبض نہیں ہونے پاتا۔

اگر انسان چلتا پھرتا رہے تو اس کا وزن بھی حد سے تجاوز نہیں کرے گا لیکن اگر باقاعدگی سے چہل قدمی، چلنا پھرنا جاری رکھیں تو آپ کا وزن معقول حد سے تجاوز بھی نہ ہوگا اگر وزن بڑھنا شروع ہو تو غذا کو کم کرنے کے علاوہ چلنا پھرنا بہترین علاج ہے۔

دن بھر بیٹھے رہنے یا دن میں سونے سے آپ کے جسم میں جتنے اضافی حرارے یا کیلورینز جمع ہو جاتے ہیں۔ انہیں جلانے کا بہترین طریقہ بھی چلنا پھرنا ہے ایک گھنٹہ چلنے پھرنے سے آپ کا جسم تین سو حرارے صرف کرتا ہے اور آپ کو فربہ ہونے سے بچاتا ہے۔

وضو اور سائنس

وضو اور سائنس
الحمدللہ رب العٰلمین والصلوٰۃ والسلام علی سیدالانبیاء والمرسلین اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ عزوجل کے محبوب، دانائے غیوب، منزہ عن العیوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ عظمت نشان ہے، “اللہ عزوجل کی خاطر آپس میں محبت رکھنے والے جب باہم ملیں اور مصافحہ کریں اور نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر درود پاک پڑھیں تو ان کے جدا ہونے سے پہلے دونوں کے اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔“ (مسند ابی یعلی رقم الحدیث 2951 ج3 ص95 طبقۃ دارالکتب بیروت)
صلوا علی الحبیب! صلی اللہ تعالٰی علٰی محمد، صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
قبول اسلام کا عجیب سبب
ایک صاحب کا بیان ہے، میں نے بیلجیئم میں یونیورسٹی کے ایک طالب علم کو اسلام کی دعوت دی۔ اُس نے سوال کیا وضو میں کیا کیا سائنسی حکمتیں ہیں ؟ میں لاجواب ہو گیا۔ اُس کو ایک عالم کے پاس لے گیا لیکن اُن کو بھی اس کی معلومات نہ تھیں۔ یہاں تک کہ ایک صاحب نے اُس کو وضو کی کافی خوبیاں بتائیں مگر دن کے مسح کی حکمت بتانے سے وہ بھی قاصر رہے۔ وہ چلا گیا۔ کچھ عرصے کے بعد آیا اور کہنے لگا، ہمارے پروفیسر نے دورانِ لیکچر بتایا، “اگر گردن کی پشت اور اطراف پر روزانہ پانی کے چند قطرے لگا دئیے جائیں تو ریڑھ کی ہڈی اور حرام مغز کی خرابی سے پیدا ہونے والے امراض سے تحفظ حاصل ہو جاتا ہے۔“ یہ سن کر وضو میں گردن کے مسح کی حکمت میری سمجھ میں آگئی لٰہذا میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں اور وہ مسلمان ہو گیا

صلوا علی الحبیب! صلی اللہ تعالٰی علٰی محمد، صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلممغربی جرمنی کا سیمینار
مغربی ممالک میں مایوسی یعنی (Depression) کا مرض ترقی پر ہے دماغ فیل ہو رہے ہیں۔ پاگل خانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ نفسیاتی امراض کے ماہرین کے یہاں مریضوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ مغربی جرمنی کے ڈپلومہ ہولڈر ایک فیصل آبادی فزیو تھراپسٹ کا کہنا ہے، مغربی جرمن میں ایک سیمینار ہوا جس کا موضوع تھا “مایوسی (Depression) کا علاج ادویات کے علاوہ اور کن کن طریقوں سے ممکن ہے۔“ ایک ڈاکٹر نے اپنے مقالے میں یہ حیرت انگیز انکشاف کیا کہ “میں نے ڈپریشن کے چند مریضوں کے روزانہ پانچ بار منہ دھلائے کچھ عرصے بعد ان کی بیماری کم ہوگئی۔ پھر ایسے ہی مریضوں کے دوسرے گروپ کے روزانہ پانچ بار ہاتھ، منہ اور پاؤں دھلوائے تو مرض میں بہت افاقہ ہو گیا۔ یہی ڈاکٹر اپنے مقالے کے آخر میں اعتتراف کرتا ہے، “مسلمانوں میں مایوسی کا مرض کم پایا جاتا ہے کیونکہ وہ دن میں کئی مرتبہ ہاتھ، منہ اور پاؤں دھوتے یعنی وضو کرتے ہیں۔“
صلوا علی الحبیب! صلی اللہ تعالٰی علٰی محمد، صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلموضو اور ہائی بلڈ پریشر
ایک ہارٹ اسپیشلسٹ کا بڑے وثوق کے ساتھ کہنا ہے، “ہائی بلڈ پریشر کے مریض کو وضو کراؤ پھر اس کا بلڈ پریشر چیک کرو لازماً کم ہوگا۔ ایک مسلمان ماہ نفسیات ڈاکٹر کا قول ہے “نفسیاتی امراض کا بہترین علاج وضو ہے۔“ مغربی ماہرین نفسیاتی مریضوں کو وضو کی طرح روزانہ کئی بار بدن پر پانی لگواتے ہیں۔

وضو اور فالج
وضو میں ترتیب وار اعضاء دھو جاتے ہیں یہ بھی حکمت سے خالی نہیں۔ پہلے ہاتھوں کو پانی میں ڈالنے سے جسم کا اعصابی نظام مطلع ہو جاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ چہرے اور دماغ کی رگوں کی طرف اس کے اثرات پہنچتے ہیں۔ وضو میں پہلے ہاتھ دھونے پھر کلی کرنے پھر ناک میں پانی ڈالنے پھر چہرہ اور دیگر اعضاء دھونے کی ترتیب فالج کی روک تھام کیلئے مفید ہے۔ اگر چہرہ دھونے اور مسح کرنے سے آغاز کیا جائے تو بدن کئی بیماریوں میں مبتلا ہو سکتا ہے۔

مسواک کا قدر دان
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! وضو میں متعدد سنتیں ہیں اور ہر سنت محزنِ حکمت ہے۔ مسواک ہی کو لے لیجئے! بچہ بچہ جانتا ہے کہ وضو مین مسواک کرنا سنت ہے اور اس سنت کی برکتوں کا کیا کہنا! ایک بیوپاری کا کہنا ہے، “سوئیزلینڈ میں ایک نو مسلم سے میری ملاقات ہوئی۔ اس کو میں نے تحفہ میں مسواک پیش کی۔ اُس نے خوش ہوکر اسے لیا اور چوم کر آنکھوں سے لگایا، اور اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ اُس نے جیب سے ایک رومال نکالا اس کی تہ کھولی تو اس میں سے تقریباً دو انچ کا چھوٹا سا مسواک کا ٹکڑا بدآمد ہوا۔ کہنے لگا، مییر اسلام آوری کے وقت مسلمانوں نے مجھے یہ تحفہ دیا تھا۔ میں بہت سنبھال سنبھال کر اس کو استعمال کر رہا تھا یہ ختم ہونے کو تھا لٰہذا مجھے تشویش تھی کہ اللہ عزوجل نے کرم فرمایا اور آپ نے مجھے مسواک عنایت فرما دی۔ پھر اُس نے بتایا کہ ایک عرصے سے میں دانتوں اور مسوڑھوں کی تکلیف سے دوچار تھا۔ ہمارے یہاں کہ ڈینٹسٹ سے ان کا علاج بن نہیں پڑ رہا تھا۔ میں نے اس مسواک کا استعمال شروع کیا تھوڑے ہی دنوں میں مجھے افاقہ ہو گیا میں ڈاکٹر کے پاس گیا تو وہ حیران رہ گیا اور پوچھنے لگا، میری دوا سے اتنی جلدی مرض دور نہیں ہوسکتا سوشو کوئی اور وجہ ہوگی۔ میں نے جب ذہن پر زور دیا تو خیال آیا کہ میں مسلمان ہو چکا ہوں اور یہ ساری برکت مسواک ہی کی ہے۔ جب میں نے ڈاکٹر کو مسواک دکھائی تو وہ حیرت سے دیکھتا رہ گیا۔
صلوا علی الحبب! صلی اللہ تعالٰی علٰی محمد، صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم

قوت حافظہ کیلئے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہمارے پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم مسواک کا بے حد اہتمام فرماتے۔ مسلم شریف (ج1 ص128 طبعۃ افغانستان ) میں ہے، “آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام جب گھر میں داخل ہوتے تو سب سے پہلے مسواک کرتے۔“ ابو داؤد (رقم الحدیث 57 ج1 ص36 طبعٰ دار احیاء التراث العربی) میں ہے، “آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم جب نیند سے بیدار ہوتے تو مسواک کرتے۔“ میرے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی مسواک استعمال فرمائی اور اپنے غلاموں کو بھی مسواک استعمال کرنے کی ترغیب دلائی۔ مسند امام احمد (رقم الحدیث 5869 ص438 طبعۃ دارالفکر بیروت ) میں ہے، “تم مسواک کو لازم پکڑ لو کہ یہ منہ کوپاک کرنے والی اور رب تعالٰی کو راضی کرنے والی ہے۔“ اس میں بیمشار دینی و دنیوی فوائد ہیں۔ مسواک میں متعدد کیمیاوی اجزاء ہیں جو دانتوں کو ہر طرح کی بیماری سے بچاتے ہیں۔ حضرت مولٰی مشکل کشا علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہ الکریم، حضرت عطاء رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کا فرمان عالیشان ہے، “مسواک سے قوت حافظہ بڑھتی، درد سر دور ہوتا اور سر کی رگوں کو سکون ملتا ہے، اس سے بلغم دور، نظر تیز، معدہ درست اور کھانا ہضم ہوتا ہے، عقل بڑھتی بچوں کی پیدائش میں اضافہ ہوتا، بڑھاپا دیر میں آتا اور پیٹھ مضبوط ہوتی ہے۔“ (ملخصاً حاشیہ الطحطاوی ص68 طبعۃ قدیمی کتب خانہ کراچی )

منہ کے چھالے
اطباء کا کہنا ہے، “بعض اوقات گرمی اور معدہ کی تیزابیت سے منہ میں چھالے پڑ جاتے ہیں اور اس مرض سے خاص قسم کے جراثیم منہ میں پھیل جاتے ہیں۔ اس کیلئے منہ میں تازہ مسواک ملیں اور اس سے لعاب کو کچھ دیر تک منہ کے اندر پھراتے رہیں۔ اس طرح کئی مریض ٹھیک ہو چکے ہیں۔“

ٹوتھ برش کے نقصانات
ماہرین کی تحقیق کے مطابق “80 فیصد امراض معدہ اور دانتوں کی خرابی سے پیدا ہوتے ہیں۔“ عموماً دانتوں کی صفائی کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے مسوڑھوں میں طرح طرح کے جراثیم پرورش پاتے پھر معدے میں جاتے اور طرح طرح کے امراض کا سبب بنتے ہیں۔ یاد رہے! ٹوتھ برش مسواک کا نعم البدل نہیں۔ بلکہ ماہرین نے اعتراف کیا ہے۔ (1) جب برش کو ایک بار استعمال کر لیا جاتا ہے تو اُس میں جراثیم کی تہ جم جاتی ہے پانی سے دھلنے پر بھی وہ جراثیم نہیں جاتے بلکہ وہیں نشوونما پاتے رہتے ہیں۔ (2) برش کے باعث دانتوں کی اوپری قدرتی چمکیلی تہ اتر جاتی ہے۔
(3) برش کے استعمال سے مسوڑھے آہستہ آہستہ اپنی جگہ چھوڑتے جاتے ہیں جس سے دانتوں اور مسوڑھوں کے درمیان خلاء (Gap) پیدا ہو جاتا ہے اور اس میں غذا کے ذرات اٹکتے، سڑتے اور جراثیم اپنا گھر بناتے ہیں اس سے دیگر بیماریوں کے علاوہ آنکھوں کے طرح طرح کے امراض بھی جنم لیتے ہیں۔ اس سے نظر کمزور ہو جاتی ہے بلکہ بعض اوقات آدمی اندھا ہو جاتا ہے۔

مسواک کس طرح استعمال کریں
آپ کے دل میں ہو سکتا ہے یہ خیال آئے کہ میں تو برسوں سے مسواک استعمال کرتا ہوں مگر میرے تو دانت اور پیٹ دونوں ہی خراب ہیں۔ میرے بھولے بھالے اسلامی بھائی! اس میں مسواک کا نہیں آپ کا اپنا قصور ہے۔ میں سگ مدینہ عفی عنہ اس نتیجےپر پہنچا ہوں کہ آج شاید لاکھوں میں سے کوئی ایک آدھ ہی ایسا ہو جو صحیح اصولوں کے مطابق مسواک استعمال کرتا ہو، ہم لوگ اکثر جلدی جلدی دانتوں پر مسواک مل کر وضو کرکے چل پڑتے ہیں۔ یعنی یوں کہئے کہ ہم مسواک نہیں بلکہ “رسم مسواک“ ادا کرتے ہیں۔ (1) مسواک کی موٹائی چھنگلیا یعنی چھوٹی انگلی کے برابر ہو۔ (2) مسواک ایک بالشت سے زیادہ لمبی نہ ہو۔ (3) اس کے ریشے نرم ہوں کہ سخت ریشے دانتوں اور مسوڑھوں کے درمیان خلاء (Gap) کا باعث بنتے ہیں۔ (4) مسواک تازہ ہو تو خوب ورنہ پانی کے گلاس میں بھگو کر نرم کر لیں۔ (5) اس کے ریشے روزانہ کاٹتے رہیں کہ ریشے اُس وقت تک کارآمد رہتے ہیں جب تک ان میں تلخی باقی رہے۔ (6) دانتوں کی چوڑائی میں مسواک کریں۔ (7) جب بھی مسواک کریں کم از کم تین بار کریں۔ ( 8 ) ہر بار دھو لیا کریں۔ (9) مسواک سیدھے ہاتھ میں اس طرح لیں کہ چھنگلیا اس کے نیچے اور بیچ کی تین انگلیاں اوپر اور انگوٹھا سرے پر ہو۔ (10) چت لیٹ کر مسواک کرنے سے تلی بڑھ جانے اور (11) مٹھی باندھ کر کرنے سے بواسیر ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ (12) مستعمل مسواک کے ریشے اور جب یہ ناقابل استعمال ہو جائے تو پھینک نہ دیں کہ یہ آلہء ادائے سنت ہے۔ کسی جگہ احتیاط سے رکھ دیں یا دفن کر دیں یا سمندر میں ڈال دیں۔ (ماخوذ از بہار شریعت حصہ2 ص17 طبعۃ مکتبہ رضویہ کراچی)

ہاتھ دھونے کی حکمتیں
وضو میں سب سے پہلے ہاتھ دھوئے جاتے ہیں اس کی حکمتیں ملاحظہ ہوں۔ مختلف چیزوں میں ہاتھ ڈالتے رہنے سے ہاتھوں میں مختلف کیمیاوی اجزاء اور جراثیم لگ جاتے ہیں اگر سارا دن ہاتھ نہ دھوئے جائیں تو ہاتھ جلد ہی ان جلدی امراض میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ (1) ہاتھوں کے گرمی دانے (2) جلدی سوزش (3) ایگزیما (4) پھپھوندی کی بیماریاں (5) جلد کی رنگت تبدیل ہو جانا وغیرہ۔ جب ہم ہاتھ دھوتے ہیں تو انگلیاں کے پوروں سے شعائیں (Rays) نکل کر ایک ایسا حلقہ بناتی ہیں جس سے ہمارا اندرونی برقی نظام متحرک ہو جاتا ہے اور ایک حد تک برقی رو ہمارے ہاتھوں میں سمٹ آتی ہے اس سے ہمارے ہاتھوں میں حُسن پیدا ہو جاتا ہے۔

کلی کرنا کی حکمتیں
پہلے ہاتھ دھو لئے جاتے ہیں جس سے وہ جراثیم سے پاک ہو جاتے ہیں ورنہ یہ کلی کے ذریعہ منہ میں اور پھر پیٹ میں جاکر متعدد امراض کا باعث بن سکتے ہیں۔ غذا کے ذرات اور ہوا کے ذریعے لاتعداد مہلک جراثیم ہمارے منہ اور دانتوں میں لعاب کے ساتھ چپک جاتے ہیں چنانچہ وضو مین مسواک اور کلیوں کے ذریعہ منہ کی بہترین صفائی ہو جاتی ہے۔ اگر منہ کو صاف نہ کیا جائے تو ان امراض کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ (1) ایڈر کہ اس کی ابتدائی علامات میں منہ کا پکنا بھی شامل ہے۔ (2) منہ کے کناروں کا پھٹنا۔ (3) منہ اور ہونٹوں کی دادقوبا (Moniliassis)
(4) منہ میں پھوپھوندی کی بیماریاں اور چھالے وغیرہ نیز روزہ نہ ہو تو غرغرہ کرنا بھی سنت ہے اور پابندی کے ساتھ غرغرے کرنے والا کوے بڑھنے (Tonsil) اور گلے کے بہت سارے امراض حتٰی کہ گلے کے کینسر سے محفوظ رہتا ہے۔

ناک میں پانی ڈالنے کی حکمتیں
پھیپھڑوں کو ایسی ہوا درکار ہوتی ہے جو جراثیم، دھوئیں اور گردو غبار سے پاک ہو اور اس میں 80 فیصد رطوبت یعنی تری ہو اور جس کا درجہء حرارت 90 درجہ فارن ہائٹ سے زائد ہو۔ ایسی ہوا فراہم کرنے کیلئے اللہ عزوجل نے ہمیں ناک کی نعمت سے نوازا ہے۔ ہوا کو مرطوب یعنی نم بنانے کیلئے ناک روزانہ تقریباً چوتھائی گیلن نمی پیدا کرتی ہے۔ صفائی اور دیگر سخت کام نتھنوں کے بال سر انجام دیتے ہیں۔ ناک کے اندر ایک خورد بین (Microscopic) جھاڑو ہے۔ اس جھاڑو میں غیر مرئی یعنی نظر نہ آنے والے روئیں ہوتے ہیں جو ہوا کے ذریعے داخل ہونے والے جراثیم کو ہلاک کر دیتے ہیں۔ نیز ان غیر مرئی رؤوں کے ذمے ایک اور دفاعی نظام بھی ہے جسے انگریزی میں Lysoziun کہتے ہیں، ناک اس کے ذریعے سے آنکھوں کو Infestion سے محفوظ رکھتی ہے۔ الحمدللہ عزوجل! وضو کرنے والا ناک میں پانی چڑھاتا ہے جس سے جسم کے اس اہم ترین آلے ناک کی صفائی ہو جاتی ہے اور اپنی کے اندر کام کرنے والی برقی رو سے ناک کے اندرونی غیر مرئی رؤوں کی کارکردگی کو تقویت پہنچتی ہے اور مسلمان وضو کی برکت سے ناک کے بیمشار پیچیدہ امراض سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ دائمی نزلہ اور ناک کے زخم کے مریضوں کیلئے ناک کا غسل (یعنی وضو کی طرح ناک میں پانی چڑھانا) بے حد مفید ہے۔

چہرہ دھونے کی حکمتیں
آج کل فضاؤں میں دھوئیں وغیرہ کی آلودگیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ مختلف کیمیاوی مادے سیسہ وغیرہ میل کچیل کی شکل میں آنکھوں اور چہرے وغیرہ پر جمتا رہتا ہے۔ اگر چہرہ نہ دھویا جائے تو چہرے اور آنکھیں کئی امراض سے دوچار ہو جائیں ایک یورپین ڈاکٹر نے ایک مقالہ لکھا جس کا نام تھا، Eye, Water, Health اس مین اس نے اس بات پرز ور دیا کہ “اپنی آنکھوں کو دن میں کئی بار دھوتے رہو ورنہ تمہیں خطرناک بیماریوں سے دوچار ہونا پڑیگا۔“ چہرہ دھونے سے منہ پر کیل نہیں نکلتے یا کم نکلتے ہیں۔ ماہرین حُسن و صحت اس بات پر مفتق ہیں کہ ہر طرح کے Cream اور Lotion وغیرہ چہرے پر داغ چھوڑتے ہیں۔ چہرے کو خوبصورت بنانے کیلئے چہرے کو کئی بار دھونا لازمی ہے۔ “امریکن کونسل فار بیوٹی“ کی سرکردہ ممبر “بیچر“ نے کیا خوب انکشاف کیا ہے کہتی ہے “مسلمانوں کو کسی قسم کے کیمیاوی لوشن کی حاجت نہیں وضو سے انکا چہرہ دھل کر کئی بیماریوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔“ محکمہء ماحولیات کے ماہرین کا کہنا ہے، “چہرے کی الرجی سے بچنے کیلئے اس کو بار بار دھونا چاہئیے۔“ الحمدللہ عزوجل! ایسا صرف وضو کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ الحمدللہ عزوجل! وضو میں چہرہ دھونے سے چہرے کا مساج ہو جاتا، خون کا دوراں چہرے کی طرف رواں ہو جاتا، میل کچیل بھی اتر جاتا اور چہرے کا حُسن دوبالا ہو جاتا ہے۔

اندھا پن سے تحفظ
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! میں آنکھوں کے ایک ایسے مرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں جس میں آنکھوں کی رطوبت اصلیہ یعنی اصلی تری کم یا ختم ہو جاتی اور مریض آہستہ آہستہ اندھا ہو جاتا ہے۔ طبی اصول کے مطابق اگر بھنوؤں کو وقتاً فوقتاً تر کیا جاتا رہے تو اس خوفناک مرض سے تحفظ حاصل ہو سکتا ہے۔ الحمدللہ عزوجل! وضو کرنے والا منہ دھوتا ہے اور اس طرح اس کی بھنویں تر ہوتی رہتی ہیں۔ جو خوش نصیب اپنے چہرے پر داڑھی مبارک سجاتے وہ سنیں، ڈاکٹر پروفیسر جارج ایل کہتا ہے، “منہ دھونے سے داڑھی میں الجھے ہوئے جراثیم پہ جاتے ہیں۔ جڑ تک پانی پہنچتے سے بالوں کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں۔ خلال (کی سنت ادا کرنے کی برکت) سے جوؤں کا خطرہ دور ہوتا ہے۔ مذید داڑھی میں پانی کی تری کے ٹھہراؤ سے گردن کے پٹھوں، تھائی رائیڈ گلینڈ اور گلے کے امراض سے حفاظت ہوتی ہے۔“

کہنیاں دھونے کی حکمتیں
کہنی پر تین بڑی رگیں ہیں جن کا تعلق بالواسطہ دل، جگر اور دماغ سے ہے اور جسم کا یہ حصہ عموماً ڈھکا رہتا ہے اگر اس کو اپنی اور ہوا نہ لگے تو متعدد دماغی اور اعصابی امراض پیدا ہو سکتے ہیں۔ وضو میں کہنیوں سمیت ہاتھ دھونے سے دل، گر اور دماغ کو تقویت پہنچے گی اور انشاءاللہ عزوجل وہ امراض سے محفوظ رہیں گے۔ مذید یہ کہ کہنیوں سمیت ہاتھ دھونے سے سینے کے اندر ذخیرہ شدہ روشنیوں سے براہِ راست انسان کا تعلق قائم ہو جاتا ہے اور روشنیوں کا ہجوم ایک بہاؤ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس عمل سے ہاتھوں کے عضلات یعنی کل پُرزے مذید طاقور ہو جاتے ہیں۔

مسح کی حکمتیں
سرا ور گردن کے درمیان “حبل الورید“ یعنی شہ رگ واقع ہے اس کا تعلق ریڑھ کی ہڈی اور حرام مغز اور جسم کے تمام تر جوڑوں سے ہے۔ جب وضو کرنے والا گردن کا مسح کرتا ہے تو ہاتھوں کے ذریعے برقی رونکل کر شہ رگ میں ذخیرہ ہو جاتی ہے اور ریڑھ کی ہڈی سے ہوتی ہوئی جسم کے تمام اعصابی نظام میں پھیل جاتی ہے اور اس سے اعصابی نظام کو توانائی حاصل ہوتی ہے۔

پاگلوں کا ڈاکٹر
ایک صاحب کا بیان ہے “میں فرانس میں ایک جگہ وضو کر رہا تھا۔ ایک شخص کھڑا بڑے غور سے مجھے دیکھتا رہا۔ جب میں فارغ ہوا تو اُس نے مجھ سے پوچھا، “آپ کون اور کہاں کے وطنی ہیں ؟“ میں نے جواب دیا، میں پاکستان مسلمان ہوں۔ پوچھا پاکستان میں کتنے پاگل خانے ہیں ؟ اس عجیب و غریب سوال پر میں چونکا مگر میں نے کہہ دا، دو چار ہوں گے۔ پوچھا، ابھی تم نے کیا کیا ؟ میں نے کہا، وضو۔ کہنے لگا، کیا روزانہ کرتے ہو ؟ میں نے کہا، ہاں بلکہ پانچ وقت۔ وہ بڑا حیران ہوا۔ اور بولا، میں Mental Hospital مین سرجن ہوں اور پاگل پن کے اسباب کی تحقیق میرا مشغلہ ہے میری تحقیق یہ ہے کہ دماغ سے سارے بدن میں سگنل جاتے ہیں اور اعضاء کام کرتے ہیں ہمارا دماغ ہر وقت Fulid (مائع) کے اندر Float (یعنی تیرنا) کر رہا ہے۔ اس لئے ہم بھاگ دوڑ کرتے ہیں اور دماغ کو کچھ نہیں ہوتا اگر وہ کوئی Rigid (سخت) شے ہوتی تو اب تک ٹوٹ چکی ہوتی۔ دماغ سے چند باریک رگیں Conductor (موصل) بن کر ہمارے گردن کی پشت سے سارے جسم کو جاتی ہیں۔ اگر بال بہت بڑھا دئیے جائیں اور گردن کی پشت کو خشک رکھا جائے تو ان رگوں یعنی (Conductor) میں خشکی پیدا ہو جانے کا خطرہ کھڑا ہو جاتا ہے اور بارہا ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کا دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور وہ پاگل ہو جاتا ہے لٰہذا میں نے سوچا کہ گردن کی پشت کو دن میں دوچار بار ضرور تر کیا جائے ابھی میں نے دیکھا کہ ہاتھ منہ دھونے کے ساتھ ساتھ گردن کے پیچھے بھی آپ نے کچھ کیا ہے۔ واقعی آپ لوگ پاگل نہیں ہو سکتے۔“ مذید یہ کہ مسح کرنے سے لو لگنے اور گردن توڑ بخار سے بھی بچت ہوتی ہے۔

پاؤں دھونے کی حکمتیں
پاؤں سب سے زیادہ دھول آلود ہوتے ہیں۔ پہلے پہل
(Infection) پاؤں کی انگلیوں کے درمیانی حصہ سے شروع ہوتا ہے۔ وضو میں پاؤں دھونے سے گردو غبار اور جراثیم بہ جاتے ہیں اور بچے کھچے جراثیم پاؤں کی انگلیوں کے خلال سے نکل جاتے ہیں جس سے نیند کی کمی، دماغی خشکی، گھبراہٹ اور مایوسی (Depression) جیسے پریشان کن امراض دور ہوتے ہیں۔

وضو کا بچا ہوا پانی
وضو کا بچا ہوا پانی پینے میں شفاء ہے۔ اس سلسلے میں ایک مسلمان ڈاکٹر کا کہنا ہے۔ (1) اس کا پہلا اثر مثانے پر پڑتا، پیشان کی رکاوٹ دور ہوتی اور خوب کھل کر پیشاب آتا ہے۔ (2) اس سے ناجائز شہوت سے خلاصی حاصل ہوتی ہے۔ (3) جگر، معدہ اور مثانے کی گرمی دور ہوتی ہے۔ کسی برتن یا لوٹے سے وضو کیا ہو تو اُس کا بچا ہوا پانی قبلہ رو کھڑے ہوکر پینا مستحب ہے۔ (تبیین الحقائق ج1 ص44 طبعۃ دارالکتب بیروت)

انسان چاند پر
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! وضو اور سائنس کا موضوع چل رہا تھا اور آج کل سائنسی تحقیقات کی طرف لوگوں کا زیادہ رجحان ہے بلکہ کئی لوگ ایسے بھی اس معاشرے میں پائے جاتے ہیں جو انگریز محققین اور سائنسدانوں سے کافی مرعوب ہوتے ہیں۔ ایسوں کی خدمت میں عرض ہے کہ بہت سارے حقائق ایسے ہیں جن کی تلاش میں سائنسدان آج سر ٹکرا رہے ہیں اور میرے میٹھے میٹھے آقا مکی مدنی مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ان کو پہلے ہی بیان فرما چکے ہیں۔ دیکھئے اپنے دعوے کے مطابق سائنسدان اب چاند پر پہنچے ہیں مگر میرے پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم آج سے تقریباً 1400 سال پہلے چاند سے بھی وراء الوراء تشریف لے چکے ہیں۔ حضور سیدی اعلٰیحضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ کی یاد میں برسوں پہلے ایک مشاعرہ میں شرکت کا موقع ملا تھا۔ جس میں حدائق بخشش سے یہ “مصرعِ طرح“ رکھا گیا تھا۔
سر وہی سر جو ترے قدموں ہی قربان گیا
حضرت صدر الشریعہ مصنف بہارِ شریعت مولانا امجد علی صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے شہزادے مفسر قرآن حضرت علامہ عبدالمصطفٰی ازہری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اس مشاعرہ میں اپنا جو کلام پیش کیا تھا اس کا ایک شعر ملاحظہ ہو۔
کہتے ہیں سطح پر چاند کی انسان گیا
عرشِ اعظم سے وراء طیبہ کا سلطان گیا
یعنی انسان تو دعوٰی کر رہا ہے کہ میں چاند پر پہنچ گیا۔ ارے چاند تو بہت قریب ہے میرے میٹھے مدینے کے عظمت والے سلطان، شہنشاہ زمین و آسمان رحمتِ عالمیان صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم معراج کی رات چاند کو بہت ہی پیچھے چھوڑتے ہوئے عرشِ اعظم سے بھی بہت اوپر تشریف لے گئے۔

نور کا کھلونا
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! سائنسدان جس چاند پر پہنچنے کا دعوٰی کر رہا ہے وہ چاند تو میرے پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے تابع فرمان ہے۔ چنانچہ الخصائص الکبرٰی (ج1 ص91 دارالکتب العلمیۃ بیروت) میں ہے، “سلطان دو جہاں صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے چچاجان حضرت سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں، میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی، یارسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم! میں نے آپ (کے بچپن شریف میں آپ) میں ایسی بات دیکھی جو آپ کی نبوت پر دلالت کرتی تھی اور میرے ایمان لانے کے اسباب میں سے یہ بھی ایک سبب تھا۔ چنانچہ، “میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم گہوارے (یعنی پنگھوڑے) میں لیٹے ہوئے چاند سے باتیں کر رہے تھے اور جس طرف آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم انگلی سے اشارہ فرماتے چاند اُسی طرف ہو جاتا تھا۔“ فرمایا، “میں اس سے باتیں کرتا تھا اور وہ مجھ سے باتیں کرتا تھا اور مجھے رونے سے بہلاتا تھا اور میں اس کے گرنے کی آواز سنتا تھا جب وہ عرشِ الٰہی عزوجل کے نیچے سجدے میں گرتا تھا۔
چاند جھک جاتا جدھر انگلی اٹھاتے مہد میں
کیا ہی چلتا تھا اشاروں پر کھلونا نور کا
کھیلتے تھے چاند سے بچپن میں آقا اس لئے
یہ سراپا نور تھے وہ تھا کھلونا نور کا

معجزہ شقء القمر
کفار مکہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ جادو کا اثر اجرام فلکی پر نہیں ہوتا تو چونکہ وہ اپنے زعم باطل میں سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو معاذاللہ عزوجل جادوگر سمجھتے تھے اس لئے ایک روز جمع ہوکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نشانِ نبوت طلب کیا۔ فرمایا، کیا چاہتے ہو ؟ کہنے لگے، اگر آپ سچے ہیں تو چاند کے دو ٹکڑے کرکے دکھائیے۔ آپ نے فرمایا، آسمان کی طرف دیکھو اور اپنی انگلی سے چاند کی طرف اشارہ فرمایا تو وہ دو ٹکڑّے ہوگیا۔ فرمایا، “گواہ رہو! انہوں نے کہا، “محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ہماری نظر بندی کر دی ہے۔ اللہ تبارک و تعالٰی پارہ27، سورۃ القمر کی پہلی اور دوسری آیت میں ارشاد فرماتا ہے۔
اقتربت الساعۃ النشق القمر ہ وان یروا ایۃ یعوضوا ویقولوا سحر مستمر ہ
ترجمہء کنزالایمان:- قریب آئی قیامت اور شق ہو گیا چاند اور اگر دیکھیں کوئی نشانی تو منہ پھیرتے اور کہتے ہیں یہ تو جادو ہے چلا آتا۔ (ماخوذ از تفسیر البحر المحیط ج8 ص171 طبعۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت)

صرف اللہ عزوجل کیلئے
طب ظنیات پر مبنی ہے۔ سائسنی تحقیقات بھی حتمی نہیں ہوتیں۔ بدلتی رہتیں ہیں۔ ہاں اللہ و رسول عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے احکامات اٹل ہیں وہ نہیں بدلیں گے۔ ہمیں سنتوں پر عمل طبی فوائد کیلئے نہیں صرف رضائے الٰہی عزوجل کی خاطر کرنا چاہئیے۔ لٰہذا اس لئے وضو کرنا کہ میرا بلڈ پریشر نارمل ہو جائے یا میں تازہ دم ہو جاؤں گا یا ڈائٹنگ کیلئے روزہ رکھنا تاکہ بھوک کے فوائد حاصل ہوں۔ سفرِ مدینہ اس لئے کرنا کہ آپ و ہوا تبدیل ہو جائے گی۔ گھر اور کاروباری جھنجھٹ سے کچھ دن سکون ملے گا۔ یا دینی مطالعہ اس لئے کرنا کہ میرا ٹائم پاس ہو جائے گا۔ اس طرح کی نیتوں سے اعمال بجا لانے والوں کو ثواب کہاں سے ملے گا ؟؟ اگر ہم اللہ عزوجل کو خوش کرنے کیلئے کریں تو ثواب بھی ملے گا اور ضمناں اس کے فوائد بھی حاصل ہو جائیں گے۔ لٰہذا ظاہری اور باطنی آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے وضو بھی ہمیں اللہ عزوجل کی رضا کیلئے ہی کرنا چاہئیے۔ حضرت سیدنا امام محمد غزالی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ “احیاء العلوم“ (ج1 ص160 طبعۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت) میں فرماتے ہیں، “جب وضو سے فارغ ہوکر نماز کی طرف متوجہ ہو تو غور کرے کہ جسم کے وہ حصے جن پر لوگوں کی نظر پڑتی ہے ان کی ظاہری پاکیزگی تو حاصل کرلی ہے اب دل جو کہ اللہ تعالٰی کے دیکھنے کی جگہ ہے اس کو پاک کئے بغیر اللہ تعالٰی سے مناجات کرنے میں حیاء کرنی چاہئیے۔ دل کی طہارت توبہ کرنے اور بُری عادتیں ترک کرنے سے ہوتی ہے اور اچھے اخلاق اپنانا زیادہ بہتر ہے۔ ظاہری پاکی حاصل کرکے باطنی طہارت سے محروم رہنے والے کی مثال اُس شخص کی سی ہے جس نے بادشاہ کو اپنے یہاں تشریف لانے کی دعوت دی اور اُس کے خیر مقدم کیلئے گھر کے باہری حصے پر رنگ و روغن کیا مگر اندرونی حصے کی صفائی کی کوئی پرواہ نہ کی اور اسے نجاستوں سے لتھڑا ہوا چھوڑ دیا تو ایسا شخص انعام و اکرام کا نہیں بلکہ بادشاہ کے غصے اور ناراضگی کا مستحق ہے۔“
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یاد رکھئے! سنت کو سائنس کی تحقیق کی حاجت نہیں میرے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی سنت سائنس کی محتاج نہیں اور ہمارا مقصود اتباع سائنس نہیں اتباع سنت ہے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ جب یورپین ماہرین برسہا برس کی عرق ریزی کے بعد رزلٹ کا دریچہ کھولتے ہیں تو انہیں سامنے مسکراتی نور برساتی سنت مصطفوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہی نظر آتی ہے۔ دنیا میں لاکھ گھومئے، جتنا چوہے عیش و عشرت کیجئے، اونچے اونچے مکانات تعمیر کروائیے۔ خوشی و شادمانی کا چاہے جتنا بھی سامان مہیا کر لیجئے مگر آپ کو سکون قلب میسر نہیں آئے گا سکونِ قلب صرف و صرف یادِ خدا عزوجل میں ملے گا۔ دل کا چین عشق سرور کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے ہی حاصل ہوگا۔ دنیا و آخرت کی راحتیں سائنسی آلات T.V اور V.C.R کے روبرو نہیں اتباع سنت میں ہی نصیب ہوں گی۔ اگر آپ واقعی میں دونوں جہاں کی بھلائیاں چاہتے ہیں تو نمازوں اور سنتوں کو مضبوطی سے تھام لیں اور انہیں سیکھنے کیلئے دعوتِ اسلامی کے مدنی قافلوں میں سفر کرنا اپنا معمول بنا لیجئے۔ ہر اسلامی بھائی نیت کرے کہ میں زندگی میں کم از کم ایک بار یکشمت 12 ماہ میں 30 دن اور ہر ماہ 3دن سنتوں کی تربیت کے مدنی قافلے میں سفر کیا کروں گا۔ انشاءاللہ عزوجل

طب نبوی کی اہمیت و افادیت

طب نبوی کی اہمیت و افادیت
تاجدار انبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے تندرستی کی بقا اور بیماریوں کے علاج سے متعلق بڑی اہمیت کی لازوال ہدایات ارشاد فرمائی ہیں۔ محدثین نے کتاب الطب کے عنوان سے حدیث کی ہر کتاب میں علیٰحدہ ابواب مزین کئے ہیں۔ عبدالملک بن حبیب اندلسی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے امراض سے متعلق ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو الطب النبوی کے نام سے دوسری صدی ہجری میں علیٰحدہ مرتب کیا۔ ان کے بعد امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد محمد بن ابو بکر رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ہمعصر ابو نعیم اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں جنہوں نے تیسری صدی کے اوخر میں طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے مجموعے مرتب کئے جن کی اکثر روایات انہوں نے راویوں سے خود حاصل کیں۔ آئمہ اہل بیت میں علی بن موسٰی رضا اور امام کاظم بن جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے اسی موضوع پر رسائل لکھ کر شہرت دوام پائی۔
چوتھی صدی میں محمد بن عبداللہ فتوح الحمیدی، عبدالحق الاشیلی، حافظ السخاوی رحمہم اللہ اور حبیب نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ نے طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مجموعے اپنی ذاتی کوششوں سے مرتب کئے مگر ناقدری علم سے یہ سارے مجموعے اب ناپید ہیں۔ البتہ ان کے حوالے اس زمانے کی دوسری کتابوں میں ملتے ہیں۔
ساتویں سے نویں صدی ہجری کے دوران ابی جعفر المستغفری، ضیاء الدین المدسی، السید مصطفٰی للتیفاشی، شمس الدین البعلی، کحال ابن طبر خان، محمد بن احمد ذہبی رحمہم اللہ تعالٰی علیہ، جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اور عبدالرزاق بن مصطفٰی الانطاکی نے ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے گلدستے بنائے۔ ان سب کی کاوشیں اب زیور طبع سے آراستہ ہوکر موجودہ دور میں موجود ہیں۔ البتہ ابن قیم کا مجموعہ سب سے ضخیم، ثقہ اور مقبول ہے۔
حالیہ برسوں میں طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر کئی اہم تصانیف منظر عام پر آئی ہیں۔ ان میں بڑی محنت اور عقیدت کے ساتھ احادیث کے معنی و مفہوم کو بیان کرکے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے علاج کے طریقوں کو اپنانے کی ترغیب دی گئی ہے۔ یہ کتابیں مسلمانوں کیلئے یقیناً اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ ایسی کتب ایمان کو تقویت اور علم میں اضافے کا سبب بھی بنتی ہیں۔
یورپ کے غیر مسلم مؤرخین کا خیال ہے اور جسے سائنس کی تاریخ کی بیشتر کتابوں میں پڑھا جا سکتا ہے کہ ساتویں صدی سے دنیائے اسلام میں طبی سائنس سے دلچسپی اور زبردست فروغ کی اصل وجہ تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ طبی ہدایات تھیں جو انہوں نے عام مسلمانوں کو دیں اور جن پر پوری امت نے صدق دل سے عمل کیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ساتویں صدی اور اس سے قبل کے مروجہ جھاڑ پھونک اور جادو ٹونا جیسے علاجوں سے ہٹ کر مسلمان دوا پر اتنا زور کیونکر دیتے اور دنیا کے بہترین ہسپتالوں کی بنیاد بغداد، دمشق، قاہرہ، غرناطہ، قرطبہ، اشبلییہ وغیرہ میں کیوکر پڑتی اور یونانی طب کی بنیادوں پر اسلامی طب کی اہمیت کو ساری دنیا ماننے پر کیونکر مجبور ہوتی اور مسلمان اطباء کی ،القانون، اور،الحاوی، جیسی تصنیفات کو یورپ کی میڈیکل یونیورسٹیوں میں چھ سو سال سے زیادہ عرصہ تک کیونکر پڑھایا جاتا۔
ساتویں صدی اور اس سے قبل افریقہ اور ایشیا کے سارے علاقوں میں جہاں رومیوں یا بازنطینیوں کا اقتدار تھا، طب سے شدید نفرت پائی جاتی تھی اور دینی اعتبار سے کسی مرض کے لئے دوا کے استعمال کو نامناسب تصور کیا جاتا تھا۔ مرض پر قابو پانا یا اس سے چھٹکارا دلانا طبیب کا کام نہ تھا بلہ یہ فریضہ کاہنوں، جادوگروں یا پھر عبادت گاہوں میں رہنے والے دینی رہنماؤں کا تھا۔
علاج معالجہ کے سلسلے میں یورپ کا حال فارس، عراق، شام اور مصر سے زیادہ خراب تھا۔ وہاں تو سوائے جادو ٹونا اور گنڈہ تعویذ کے مرض سے نجات پانے کا کوئی دوسرا طریقہ ہی نہ تھا۔ طبعی علاج کرنے والے سزا کے مستحق قرار دئیے جاتے۔
امراض کیلئے کسی طبعی علاج کو غیر ضروری سمجھنا ایک ایسا طرز فکر تھا جو رومن سلطنت میں عام تھا اور کہا جاتا تھا کہ یہی منفی طرز عمل اس کے زوال کا سبب بنا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک زبردست ملیریا کی وباء نے رومن سلطنت کی کافی آبادی کو موت سے ہمکنار کر دیا۔ لاکھوں افراد دماغی اور جسمانی اعتبار سے مفلوج ہوگئے۔
سلطنت کا ڈھانچہ گرنے لگا لیکن صورتحال پر قابو پانے کیلئے کوئی طبعی طریقہ نہ اپنایا گیا کیونکہ ایسا کرنے سے دین کی مخالفت سمجھی جاتی تھی۔
غرضیکہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث فرما ہوئے تو اس دور میں سارا عالم بالعموم اور عرب دنیا بالخصوص طب یا طبی علم سے بے خبر ہی نہ تھی بلکہ اس پر اعتقاد کو دین کی ضد تصور کرتی تھی۔ پانچویں صدی عیسوی قبل مسیح کا یونانی علم تاریکیوں میں کھو چکا تھا۔ بقراط کا کوئی نام لیوا نہ تھا۔ ایسے دور میں نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طب، دوا اور امراض کے تدارک کیلئے طبعی طرز علاج کو اپنانے کا حکم صادر فرمایا۔ بامعنی دعاء کا اجازت عطا فرمائی لیکن بے معنی جھاڑ پھونک کی مخالفت فرمائی۔ دعاء سے قبل مناسب دوا کا راستہ اپنانے کی نتلقین فرمائی۔ مرض کو اور مرض کے علاج دونوں کو تقدیر الٰہی سے تعبیر فرمایا۔

جسمانی درد کا علاج

جسمانی درد کا علاج
حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے درد کی شکایت کی جو وہ اپنے جسم میں پاتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘ اپنا ہاتھ اپنے جسم میں درد کی جگہ پر رکھ۔ پھر تین مرتبہ بسم اللہ شریف پڑھ کر سات دفعہ یہ کلمات کہہ۔ اعوذ بعذۃ اللہ وقدرتہ من شرما اجدو احاذر۔ ترجمہ : “میں اللہ عزوجل کی عزت و قدرت کے ساتھ پناہ طلب کرتا ہوں۔ ہر اس چیز کی برائی سے جو میں پاتا ہوں اور اس سے ڈرتا ہوں۔عثمان بن ابی العاص کہتے ہیں کہ میں نے اسی طرح کیا تو اللہ تبارک و تعالٰی نے میری تکلیف دور فرمادی۔ مسلم شریف

شہد

شہد دنیا کی قدیم ترین دواؤں اور غذاؤں میں سے ایک ہے۔
اللہ تعالٰی نے شہد کو “شفاء کا مظہر“ قرار دیا ہے۔ عرصے سے روایت چلی آ رہی ہے کہ دنیا میں اولین سانس لینے کے بعد (مسلمان) بچے کی زبان پہلی بار جس ذائقے سے آشنا ہوتی ہے۔ وہ شہد ہے۔ طبیب بھی نوازئیدہ بچوں کو دودھ کے ساتھ شہد دینے کی تاکید کرتے ہیں۔ تمام اطباء شہد کو بہترعین دوا اور ٹانک تسلیم کرنے پر متفق ہیں گویا شہد کئی بیماریوں کا موثر علاج ہے شوگر کی کمی اور حرکت قلب بند ہو جانے سے روکنے کیلئے شہد اکسیر ہے “برٹش فارما کوبیا“ کے مطابق کھانسی کے بعض شربت شہد سے بنائے جاتے ہیں۔ نہار منہ شہد کھانا یا پینا معدے، جگر، گردوں کی اصلاح کیلئے مفید ہے۔
شہد جسم سے فاسد مادوں کو نکالنے کے علاوہ زہریلے اثرات سے بھی بچاتا ہے۔ جگر کی قوت اور دانتوں کی مظبوطی کیلئے شہد بہترین ٹانک ہے۔ کسی بھی نوعیت کے وبائی مرض میں چند تولہ شہد ٹھنڈے پانی میں ملا کر علی الصبح پینا مفید ہے۔ جلدی امراض میں شہد کی افادیت مسلم ہے۔ شہد استعمال کرنے سے حافظہ عمدہ ہوتا ہے۔ یورپ میں شہد سے مٹھائیاں اور بسکٹ بنتے ہیں۔ افزائش حسن میں شہد کا کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔ بقول “بو علی سینا“ چہرے کی شگفتگی اور ملاحت کو بڑھاپے میں بھی قائم رکھنے کیلئے شید “طلسمی اثرات“ رکھت ہے۔ شہد کھاتے رہنے والے کے چہرے کی کشش و جاذبیت کبھی کم نہیں ہوتی“۔ پس شہد شیر خوار بچوں کی ہی طاقتور غذا نہیں بلکہ شہد کا مسلسل استعمال جسم کے بڑھاپے سے بچاکر طاقت کو بحال رکھتا ہے۔
طبیب بھی نوائیدہ بچوں کو دودھ کے ساتھ شہد دہنے کی تاکید کرتے ہیں۔ تمام اطباء شہد کو بہترین دوا اور ٹانک تسلیم کرنے پر متفق ہیں گویا شہد کئی بیماریوں کا موثر علاج ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے سوائے موت کے کسی بھی مرض کو بغیر علاج کے خلق نہیں کیا۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے ہر بیماری کی جڑ سر کا درد ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے جب تک بھوک نہ لگے کھانا مت کھائو اور اسی طرح جب کچھ بھوک ہو تو کھانے سے ہاتھ کھینچ لو۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے انسان کا معدہ تمام بیماریوں کا مرکز ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے ہر علاج کا بنیادی اصول درد اور بیماری کی جگہ کو گرم رکھنا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے اللہ تعالیٰ اس دستر خوان کو پسند فرماتا ہے جس کے اردگرد کھانے والے زیادہ سے زیادہ ہوں۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے گرم کھانے میں برکت کم ہوتی ہے اسکے برعکس ٹھنڈے کھانے میں برکت زیادہ ہوتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کھانا کھاتے وقت اپنے جوتوں کو اتار دیا کرو کیونکہ یہ بہترین طریقہ ہے اس سے پیروں کو سکون ملتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے جو لوگ اپنے نوکروں کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں جنت ایسے لوگوں کی مشتاق ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے بازار یا مجمع عام میں کھانا ایک قسم کی ذلت ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے برکت کھانے کے درمیان رکھی گئی ہے اس لیے کھانے کے دوران کھانے سے ہاتھ مت کھینچو۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کھانے کے بعد اپنے دانتوں میں خلال کرو کیونکہ خلال ایک قسم کی پاکیزگی ہے اور پاکیزگی ایمان کا جزو ہے اور ایمان مومن کے ساتھ جنت میں ہو گا۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے ایک ہی دستر خوان پر مختلف غذائیں کھانے سے اجتناب کرو کیونکہ اسطرح کی غذا بابرکت نہیں ہوتی۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص بھوکا ہوتے ہوئے اپنی عزت نفس کی خاطر اپنی بھوک کو دوسروں سے چھپائے تو اللہ تعالیٰ اسکے لیے ایک سال کا حلال رزق مقرر فرما دیتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے جو کوئی اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمانوں کی عزت کرے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے جو کم کھاتا ہے روز قیامت اسکا حساب بھی ہلکا ہو گا۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے پینے والی چیزوں کو کھڑے ہو کر پینے سے اجتناب کرو۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے سحر کو بیدار ہو جائو تا کہ آسمانوں کی برکت کو پالو۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے تمہاری غذا میں بہترین غذا روٹی اور پھلوں میں بہترین پھل انگور ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے روٹی کو چھری سے مت کاٹو جس طرح اللہ نے اسے محترم قرار دیا ہے تم بھی اسی طرح اسکا احترام کرو۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے پیاس کی حالت میں پانی کو گھونٹ گھونٹ کر کے پیو ایک دم سے ہرگز نہ پیو۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے جن لوگوں کو زیادہ کھانے اور پینے کی عادت کی ہوتی ہے وہ سنگ دل ہوتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے جس حد تک ہو سکے بھیڑ کا گوشت استعمال کرو۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص صرف پھل کھائے تو وہ کوئی نقصان نہیں اٹھائے گا۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے شہد بہترین غذا ہے یہ دل کو تروتازگی عطا کرتی ہے اور حافظے کو قوی کرتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے حمل کے بعد عورت کو پہلی غذا کھجوریں دیں۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کھجور کو ناشتے میں کھائو تاکہ تمہارے اندرونی جراثیم کا خاتمہ ہو جائے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے انجیر قولج کے مرض کی دوا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے نئے پھلوں میں بہت فوائد ہوتے ہیں نئے پھل کھانے سے جسم تندرست ہو جاتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے خربوزہ جنت کا پھل ہے لہٰذا اسکے کھانے سے غفلت نہ کرو۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے پھل کو چھری سے ٹکڑے کرنے کی بجائے دانتوں سے کھانے میں زیادہ بہتر ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے خربوزہ مثانے کو صاف کرتا ہے ، معدے کو ہلکا کرتا ہے جسم کی جلد کو تروتازہ رکھتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے انار کا رس جسم کے اندرونی حصے کو صاف کرتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے ترنج(بڑا لیموں) دل اور دماغ کو قوت دیتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے انجیر تقرس اور بواسیر کے مریضوں کیلئے بہت مفید ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کشمش صفرا کو ابھرنے سے روکتی ہے اور بلغم کو کم کرتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کدو کھائو کیونکہ یہ سبزی دماغ کو قوت دیتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے جب نوح علیہ السلام غم کا شکار ہوئے تو اللہ کی وحی ہوئی کہ کھیر کھائو۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے دن میں ایک بار نرگس کا پھول سونگھو اگر ممکن نہ ہو تو ہفتے میں، ایک ماہ میں ،ایک سال میں اور یہ بھی ممکن نہ ہو تو پھر زندگی میں ایک بار ضرور سونگھو اس سے جزام، برص اور جنون کے مرض سے محفوظ رہو گے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے اپنے دسترخوان کو سبزی سے زینت دو اسلیے کہ سبزی دسترخوان سے شیاطین کو دور کر دیتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے جس نئے شہر میں بھی جائو تو وہاں کی سبزی کھائو بیماری سے بچ جائو گے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے شب معراج مجھے اور میری امت کو خون فصد کرانے کی تاکید کی گئی۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے اجوائن کثرت سے استعمال کرو کیونکہ یہ عقل کی تقویت کے لیے انتہائی مئوثر ہے۔


Read More