Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

Herbs for Good Health, آزمودہ بہترین دیسی ٹانک

Herbs for Good Health,آزمودہ بہترین دیسی ٹانک

ایک آزمودہ کار معالج کے سینے کے راز آپ کے لئے

جوارش خشخاش
ھو الشافی : خشخاش سفید ایک سیر کو اچھی طر ح رگڑ کر ڈیڑھ سیر گھی میں بریا ں کریں بعد ازاں کھویا شیر گاﺅ ڈیڑھ پا ﺅ بریا ں کر کے ملا ئیں اور مغز بادام مغز ناریل مقثر تازہ ، مویز منقی ، خرما ، زنجیل، کلونجی ، کشنیز ، ہر ایک 5 تولہ باریک کر کے شامل کریں ۔ پھر 3 سیر کھا نڈ عمدہ کے قوام میں مخلو ط کر کے جوارش بنائیں۔ خوراک:۔ دو تولہ سے چا رتولہ تک ہر صبح مگر بنانے سے چار پانچ روز بعد استعمال کرنا چاہیے۔
فوائد: نزلہ اور ضعف ِ دما غ کے لیے یہ نسخہ عجیب و غریب ہے ۔

حب حیات
ھو الشافی : فلفل دراز ، میٹھا تیلیا ، فلفل گرد۔ گندھک املہ سار مصفےٰ۔ سوہا گہ شگفتہ ہر ایک ایک تولہ ، شنگرف رومی دوتولہ میٹھا تیلیا کو ٹکڑے بنا کر چوبیس گھنٹے پانی میں بھگو کر نکال لیں ۔ شنگر ف کو لیمو ں کے پانی میں پیس کر خشک کر لیں۔ بعد ازاں سب کوجلا کر اچھی طر ح باریک کرکے آبِ ادرک میں پیس کر مونگ کے برابر گولیا ں بنا لیں ۔
ترکیب استعمال :  چھوٹے بچے کو دو دو گو لیا ں جوان کو چار چار گولیا ں صبح و شا م مندرجہ ذیل جوشاندہ کے ساتھ استعمال کروائیں ۔
جو شاندہ
خوب کلا ں پانچ ما شہ ، گاﺅ زبان چار ما شہ ، پریساﺅشان تین ماشہ ، عنا ب سات دانہ ، تخم کندر چار ماشہ، مویز منقی پانچ دانے جو ش دے کر صبح وشام پلایا کریں ۔ اگر دانے نہ نکلے ہوں یا کم نکلے ہوں تو اس میں انجیر ایک دو عدد شامل کرلیا کریں ۔
فوائد: چیچک و خسرہ کی ہر حالت میں مفید ہے خاص کر دانوں کو جب کہ وہ اندر ہو گئے ہوں ۔ انشاءاللہ ضرور بالضرور کامیا بی ہو گی میں ہمیشہ اس نسخہ کو استعمال کرتا ہوں۔

کاسنی سستا ہربل ٹانک

کاسنی سستا ہربل ٹانک
کاسنی دنیا بھر کے گرم ممالک کی ایک خودروجڑی بوٹی ہے۔ موسم بہار کی یہ خوبصورت جڑی بوٹی خود بخود پھلنا پھولنا شروع ہو جاتی ہے اور گرمی بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی اور پروان چڑھتی جاتی ہے۔ کاسنی کی دریافت کا سہرا یونانی حکیموں کے سر ہے۔ اس لئے اس جڑی بوٹی کی کاشت اور پرداخت میں ہمیشہ مشرق کے حکیموں کا ہاتھ رہا اور وہی اس قیمتی جڑی بوٹی کے دوائی اور شفائی فوائد سے زیادہ بہرہ مند ہوتے ہیں۔ مئی اور جون کے دنوں میں کاسنی کے خوشنما اور آسمانی رنگ کے پھول عجب بہار دکھاتے ہیں مگر مغرب میں کاسنی پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ کاسنی کے پتے پالک کی طرح چوڑے اور کٹاﺅ دار ہوتے ہیں۔ یہ جڑ سے چوڑے اور کونے پر تکون بناتے ہوئے باریک ہوتے جاتے ہیں۔ کاسنی ایک زود اثر غذا اور دوا ہے۔ اسے جڑی بوٹی اور سلاد کی حیثیت سے بھی استعمال کیا جاتا ہے اس کے نباتاتی اور کیمیائی اجزاءیہ ہیں۔
ایک سو گرام پتوں میں رطوبت 93فیصد، پروٹین 1.7 فیصد چکنائی0.1فیصدریشے 0.9فیصد، کاربوہائیڈریٹ 4.3 فیصد۔کاسنی میں معدنی اور حیاتینی اجزاءمثلاً فولاد، کیلشیم، پروٹین ،فاسفورس، تھایامین، ریبو فلاوین، نایاسین اور وٹامن سی شامل ہیں۔ اسکی غذائی خصوصیت 20کیلوریز ہے۔کاسنی کے پتوں کے علاوہ جڑوں میں بھی قدرت نے شفا بخش اجزاءرکھے ہیں۔ اسکے بیجوں میں خوشبودار تیل ہوتے ہیں جبکہ جڑوں میں پوٹاشیم نائٹریٹ اور سلفیٹ، گوند کے علاوہ تلخ مادے ہوتے ہیں۔ کاسنی کے پھولوں میں ایک خاص قسم کا گلوکوسائیڈ اور کڑوا مادہ ہوتا ہے۔ کاسنی تقریباً دو ہزار سال قبل مسیح میں کاشت ہوئی تھی۔ قدیم یونانی اور رومن اسکی افادیت سے آگاہ تھے اور معالجین خاص اور عام امراض میں اسے استعمال کرتے تھے۔کاسنی کے پھولوں سے بنی ہوئی چائے جلد کے نکھار اور نشوونما کیلئے استعمال ہوتی تھی۔شفائی اثرات
کاسنی کا خاص فعل اندرونی اعضاءکے سدے کھولنا ،انکا ورم دور کرنا اور مساموں کو کھول کر بدن کے زہروں کو دور کرنا ہے۔ ہمارے بدن کا سب سے بڑا غدود جگر ہے۔ ہر دم خون صاف کرتا اور صفراوی رطوبت کو خون سے جدا کر کے پتے میں ذخیرہ کرتا ہے۔ جب جگر میں ورم ہو جائے، ہاتھ پیر سوکھ جائیں، پیٹ میں پانی جمع ہو جانے سے جلندھر بیماری ہو جائے یا گردے خراب ہونے سے آنکھیں پھولی اور سوجی ہوئی نظر آئیں تو کاسنی اس کا شافی علاج ہے۔ورم، یرقان اور جلندھر کا علاج
اگر پیشاب کی وجہ سے گردوں پر ورم آجائے اور زہریلے مادے صاف نہ کریں اور آنکھوں میں بھی ورم کے آثار ہوں تو ان سب کے لئے کاسنی کے پتوں کا پانی ایک چھٹانک سے تین چھٹانک تک شکر سرخ یا شربت بزوری ملا کر صبح کے وقت پلانے سے ایک دو ہفتوں میں فائدہ ہو گا۔

دل کی دھڑکن
دل زور زور سے دھڑکنے لگے اور دھڑکن سے چلنا پھرنا مشکل ہو جائے، کمزوری میں زیادتی ہو جائے تو سبز کاسنی ڈیڑھ چھٹانک، سبز دھینا ایک تولہ دونوں کا پانی نکال کر گاجر کے مربے کے شیرے سے میٹھا کر کے اس کے ساتھ کشتہ صدف صادق دورتی سے چار رتی تک چند روز تک استعمال کرنے سے خدا کے فضل سے دل کو صحت ہو گی۔ اگر دھڑکن تیز ہو تواس وقت برادہ صندل سفید کے ساتھ دل کے مقام پر لیپ کرنے سے فوراً تسکین ہو جاتی ہے۔

حیض کی بندش
کاسنی کے بیجوں کا جوشاندہ پینے سے عورتوں کے حیض میں باقاعدگی پیدا ہوتی ہے۔

دمہ کے لئے مفید دو
ماحولیاتی آلودگی کے باعث دمہ کا مرض دن بدن بڑھ رہا ہے۔ اس مرض کا سستا علاج کاسنی میں پوشیدہ ہے۔ گاجر، اجمود اور کاسنی کے جوس ملا کر پینے سے دمہ میں افاقہ ہوتا ہے البتہ اس کے ساتھ نشاستہ دار غذائیں اور دودھ ترک کرنا پڑتا ہے۔ کاسنی کی خشک جڑوں کا سفوف نصف چائے کا چمچ شہد کے ساتھ ملا کر روزانہ تین بار کھانے سے سانس کی بیماریوں سے نجات ملتی ہے۔

خون کی کمی
خون کی کمی کے مرض میں مبتلا افراد کے لئے کاسنی کو اجمود اور اجوائین کے ساتھ ملا کر استعمال کیا جائے تو یہ مرض ختم ہو جاتا ہے اور صحت مند خون پیدا ہوتا ہے۔

دوا خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

 

آم کھائیں بے شمار فائدے

 آم کھائیں بے شمار فائدے

آم کا شمار برصغیر کے بہترین پھلوں میں ہوتا ہے، اس لیے یہ پھلوں کا بادشاہ کہلاتا ہے۔ اسے برصغیر کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ آم اپنے ذائقے، تاثیر، رنگ اور صحت بخشی کے لحاظ سے تمام پھلوں سے منفرد ہے اور چوں کہ خوب کاشت ہوتا ہے، اس لیے یہ سستا اور سہل الحصول بھی ہے۔ اس کی سینکڑوں اقسام ہیں۔ برصغیر کو آم کا گھر بھی کہتے ہیں۔ فرانسیسی مورخ ڈی کنڈوے کے مطابق برصغیر میں آم چار ہزار سال قبل بھی کاشت کیا جاتا تھا۔ آج کل جنوبی ایشیاءکے کئی ممالک میں بھی بڑے پیمانے پر اسے کاشت کیا جاتا ہے۔
ویسے تو آم کی متعدد اقسام ہیں جن کا ذکر آگے چل کر آئے گا تاہم دو قسمیں عام ہیں۔ تخمی اور قلمی، کچا آم جس میں گٹھلی نہیں ہوتی، کیری کہلاتا ہے اور اس کا ذائقہ ترش ہوتا ہے۔ البتہ پکا ہواآم شیریں اور کبھی کھٹ میٹھا ہوتا ہے۔ پکے ہوئے تخمی آم کا رس چوسا جاتا ہے اور قلمی کو تراش کر کھایا جاتا ہے۔ آم قلمی ہو یا تخمی بہر صورت پکا ہوا لینا چاہیے۔ یہ رسیلا ہونے کی وجہ سے پیٹ میں گرانی پیدا نہیں کرتا اور جلد جزو بدن ہوتا ہے۔ پکا ہوا رسیلا میٹھا آم اپنی تاثیر کے لحاظ سے گرم خشک ہوتا
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آم کے استعمال کے بعد کچی لسی پینے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ اس طرح آم کی گرمی اور خشکی جاتی رہتی ہے۔ جو لوگ کچی لسی (دودھ میں پانی ملا ہوا) استعمال نہیں کرتے ان کے منہ میں عام طور پر چھالے ہو جانے یا جسم پر پھوڑے پھنسیاں نکل آنے کی شکایت ہو جاتی ہے۔ آم کے بعد کچی لسی استعمال کرنے سے وزن بھی بڑھتا ہے اور تازگی آتی ہے۔ معدے، مثانے اور گردوں کو طاقت پہنچتی ہے۔ آم کا استعمال اعضائے رئیسہ دل، دماغ اور جگر کیلئے مفید ہے۔ آم میں نشاستے دار اجزا ہوتے ہیں جن سے جسم موٹا ہوتا ہے۔ اپنے قبض کشا اثرات کے باعث اجابت بافراغت ہوتی ہے۔اپنی مصفی خون تاثیر کے سبب چہرے کی رنگت کو نکھارتا ہے۔ ماہرین طب کی تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ آم تمام پھلوں میں سے زیادہ خصوصیات کا حامل ہے اور اس میں حیاتین ”الف “اور حیاتین ”ج “ تمام پھلوں سے زیادہ ہوتی ہے۔کچا آم بھی اپنے اندر بے شمار غذائی و دوائی اثرات رکھتا ہے۔ اس کے استعمال سے بھوک لگتی ہے اور صفرا کم ہوتا ہے۔ موسمی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے لو کے اثرات سے بچاتا ہے البتہ ایسے لوگ جن کو نزلہ، زکام اور کھانسی ہو ان کو یہ ہرگز استعمال نہیں کرنا چاہیے۔آم تمام عمر کے لوگوں کیلئے یکساں مفید ہے۔ جو بچے لاغر اور کمزور ہوں ان کیلئے تو عمدہ قدرتی ٹانک ہے۔ اسے حاملہ عورتوں کو استعمال کرنا چاہیے، یوں بچے خوب صورت ہوں گے۔ جو مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں، اگر آم استعمال کریں تو دودھ بڑھ جاتا ہے۔ یہ خوش ذائقہ پھل نہ صرف خون پیدا کرنے والا قدرتی ٹانک ہے بلکہ گوشت بھی بناتا ہے اور نشاستائی اجزا کے علاوہ فاسفورس، کیلشیم، فولاد، پوٹاشیم اور گلوکوز بھی رکھتا ہے۔ اسی لیے دل، دماغ اور جگر کیساتھ ساتھ سینے اورپھیپھڑوں کیلئے بھی مفید ہے البتہ آم کا استعمال خالی پیٹ نہیں کرنا چاہیے۔ بعض لوگ آم کھانے کے بعد گرانی محسوس کرتے ہیں اور طبیعت بوجھل ہو جاتی ہے۔ انہیں آم کے بعد جامن کے چند دانے استعمال کرنے چاہئیں، جامن آم کا مصلح ہے۔

آم کی مختلف اقسام
یوں تو آم کی بے شمار اقسام سامنے آچکی ہیں مگر پاکستان میں بکثرت پیدا ہونے والی اقسام درج ذیل ہیں:
دسہری
اس کی شکل لمبوتری، چھلکا خوبانی کی رنگت جیسا باریک اور گودے کے ساتھ چمٹا ہوتا ہے۔ گودا گہرا زرد، نرم، ذائقے دار اور شیریں ہوتا ہے۔

چونسا
یہ آم قدرے لمبا، چھلکا درمیانی موٹائی والا ملائم اور رنگت پیلی ہوتی ہے۔ اس کا گودا گہرا زرد، نہایت خوشبودار اور شیریں ہوتا ہے۔ اس کی گٹھلی پتلی لمبوتری، سائز بڑا اور ریشہ کم ہوتا ہے۔ اس کی ابتدا ملیح آباد (بھارت) کے قریبی قصبہ ”چونسا“ سے ہوئی۔

انور رٹول
اس کی شکل بیضہ نما ہوتی ہے اور سائز درمیانہ ہوتا ہے۔ چھلکا درمیانہ، چکنا اور سبزی مائل زرد ہوتا ہے۔ گودا بے ریشہ، ٹھوس، سرخی مائل زرد، نہایت شیریں، خوشبودار اور رس درمیانہ ہوتا ہے۔ اس کی گٹھلی درمیانی، بیضوی اور نرم، ریشے سے ڈھکی ہوتی ہے۔ اس قسم کی ابتدا میرٹھ (بھارت) کے قریب قصبہ ”رٹول“ سے ہوئی۔

لنگڑا
یہ آم بیضوی لمبوترا ہوتا ہے۔ اس کا چھلکا چکنا، بے حد پتلا اور نفیس گودے کے ساتھ چمٹا ہوتا ہے۔ گودا سرخی مائل زرد، ملائم، شیریں، رس دار ہوتا ہے۔ الماس: اس کی شکل گول بیضوی ہوتی ہے اور سائز درمیانہ، چھلکا زردی مائل سرخ، گودا خوبانی کے رنگ جیسا ملائم، شیریں اور ریشہ برائے نام ہوتا ہے۔

فجری
یہ آم بیضوی لمبوترا ہوتا ہے۔ فجری کا چھلکا زردی مائل، سطح برائے نام کھردری ، چھلکا موٹا او نفیس گودے کے ساتھ لگا ہوتا ہے۔ گودا زردی مائل، سرخ، خوش ذائقہ، رس دار اور ریشہ برائے نام ہوتا ہے۔ اس کی گٹھلی لمبوتری موٹی اور ریشے دار ہوتی ہے۔

سندھڑی
آم بیضوی اور لمبوترا ہوتا ہے۔ اس کا سائز بڑا، چھلکا زرد، چکنا باریک گودے کیساتھ چمٹا ہوتا ہے۔ گودا شریں، رس دار اور گٹھلی لمبی اور موٹی ہوتی ہے۔ اصلاًمدراس کا آم ہے۔

گولا
یہ شکل میں گول ہوتا ہے۔ سائز درمیانہ، چھلکا گہرا نارنجی اور پتلا ہوتا ہے۔ گودا پیلا ہلکا ریشے دار اور رسیلا ہوتا ہے۔ گٹھلی بڑی ہوتی ہے۔

مالدا
یہ آم سائز میں بہت بڑا ہوتا ہے، مگر گٹھلی انتہائی چھوٹی ہوتی ہے۔ چھلکا پیلا اور پتلا ہوتا ہے۔
نیلم
اس آم کا سائز درمیانہ اور چھلکا درمیانہ، موٹا اور پیلے رنگ کا چمکتا ہوا ہوتا ہے۔ سہارنی: سائز درمیانہ اور ذائقہ قدرے میٹھا ہوتا ہے۔

دوائی استعمالات
تمام پھل موسمی تقاضے پورا کرنے کی صلاحیتوں سے مالامال ہیں۔ چونکہ آم موسم گرما کا پھل ہے اور موسم گرما میں دھوپ میں باہر نکلنے سے لو لگ جاتی ہے، لو لگنے کی صورت میں شدید بخار ہو جاتا ہے۔ اس لیے لو کے اثر کو ختم کرنے کیلئے کچا آم گرم راکھ میں دبا دیں۔ نرم ہونے پر نکال لیں۔ اس کا رس لے کر ٹھنڈے پانی میں چینی کے ساتھ ملا کر استعمال کرائیں۔ لو لگنے کی صورت میں تریاق کا کام دے گا۔ آم کے پتے، چھال، گوند، پھل اور تخم سب دوا کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ آم کے پرانے اچار کا تیل گنج کے مقام پر لگانے سے بالچر کو فائدہ ہوگا۔ آم کے درخت کی پتلی ڈالی کی لکڑی سے روزانہ مسواک کرنے سے منہ کی بدبو جاتی رہے گی۔ خشک آم کے بور کا سفوف روزانہ نہار منہ چینی کے ساتھ استعمال کرنا مرض جریان میں مفید ہے۔جن لوگوں کو پیشاب رکنے کی شکایت ہو، آم کی جڑ کا چھلکا برگ شیشم دس دس گرام ایک کلو پانی میں جوش دیں۔ جب پانی تیسرا حصہ رہ جائے تو ٹھنڈا کرکے چینی ملا کر پی لیں۔ پیشاب کھل کر آئے گا۔ ذیابیطس کے مرض میں آم کے پتے جو خود بخود جھڑ کرگر جائیں، سائے میں خشک کرکے سفوف بنا لیں۔ صبح و شام دو دو گرام پانی سے استعمال کرنے سے چند دنوں میں فائدہ ہوتا ہے۔ نکسیر کی صورت میں آم کے پھولوں کو سائے میں خشک کرکے سفوف بنا لیں اور بطور نسوار ناک میں لینے سے خون بند ہو جاتا ہے۔ جن لوگوں کے بال سفید ہوں، آم کے پتے اور شاخیں خشک کرکے سفوف بنا لیں۔ روزانہ تین گرام یہ سفوف استعمال کیا کریں۔ کھانسی، دمہ اور سینے کے امراض میں مبتلا لوگ آم کے نرم تازہ پتوں کا جوشاندہ، ارنڈی کے درخت کی چھال ‘سیاہ زیرے کے سفوف کے ساتھ استعمال کریں۔ آم کی چھال قابض ہوتی ہے اور اندرونی جھلیوں پر نمایاں اثر کرتی ہے، اس لیے سیلان الرحم (لیکوریا)، آنتوں اور رحم کی ریزش، پیچش، خونی بواسیر کیلئے بہترین دوا خیال کی جاتی ہے۔ ان امراض میں آم کے درخت کی چھال کا سفوف یا تازہ چھال کا رس نکال کر اسے انڈے کی سفید ی یا گوند کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ کیری کے چھلکے کو گھی میں تل کر شکر ملا کر کھانے سے کثرت حیض میں فائدہ ہوتا ہے۔ یہ چھلکا مقوی اور قابض ہوتا ہے۔آم کی گٹھلی کی گری قابض ہوتی ہے۔ چونکہ اس میں بکثرت گیلک ایسڈ ہوتا ہے‘ اس لئے پرانی پیچش‘ اسہال‘ بوا سیر اور لیکوریا میں مفید ہے۔ پیچش میں آنوﺅں کو روکنے کیلئے گری کا سفوف دہی کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ نکسیر بند کرنے کیلئے گری کا رس ناک میں ٹپکایا جاتا ہے۔آم برصغیر پاکستان وہندوستان کا مشہور و معروف ہردلعزیز اور مقبول ترین پھل ہے۔ نہایت خوش رنگ ، خوش ذائقہ ، لذیذ اور خوشبودار۔ اپنی شیریں اور حلاوت کی وجہ سے پوری دُنیا میں سب سے زیادہ پسند کیا جانے والا یہی پھل ہے۔ دور حاضر میں مصر ، سوڈان ، برازیل ، برما ، فلپائن ، انڈونیشیا ، سری لنکا ، تھائی لینڈ ، فلوریڈا ، آسٹریلیا ، میکسیکو ، یمن ، اور عمّان وغیرہ میں آم کی کاشت ہورہی ہے۔ لیکن اب بھی دنیا کا 75 فیصد آم برِصغیر پاکستان و ہندوستان میں ہوتا ہے۔
مختلف نام
اردو ۔۔۔ آم
پیجابی ۔۔۔ انب
سندھی ۔۔۔ آمو
فارسی ۔۔۔ انبہ
عربی ۔۔۔ انبج
ترکی ۔۔۔ منگواغ
فرانسیسی ۔۔۔ انبو
جرمنی ۔۔۔ مینگو بام

آم کا درخت
درخت کی اونچائی تقریباً ساٹھ ستر فٹ ہوتی ہے ۔ دس بارہ سال کے بعد پھلنا پھولنا شروع ہوتا ہے ۔ پتے چھ انچ سے 9 انچ تک لمبے اور نوکیلے ہوتے ہیں ۔ اپنی ابتدائی بہار میں‌بہت اچھے اور زیادہ پھل دیتا ہے مگر جوں‌جوں عمر زیادہ ہوتی جاتی ہے، پھلوں میں‌بھی کمی واقع ہوتی جاتی ہے۔ نیز اوّل سال اچھے اور بکثرت پھل لگتے ہیں ۔ دوسرے سال کم بعض اوقات پھلتے ہی نہیں۔

ذائقہ
بہت خام آم کا ذائقہ کسیلا ۔ اوسط درجے میں‌بہت زیادہ ترش اور پختہ حالت میں‌بدرجہ غایت شیریں‌ہوتا ہے۔

آم کی قِسمیں
قلمی اور تخمی یہ دو بڑی آم کی قسمیں ہیں ۔ پھر ان میں‌سے ہرایک مزے ، شکل وصورت اور مقامِ پیدائش کے اعتبار سے بیسیوں‌قسم کا ہوتا ہے۔
بعض مشہور آموں کے نام درج ذیل ہیں
مالدہ ۔ انور رٹول ۔ چونسہ ۔ لنگڑا ۔ پرنس ۔ سفیدہ ۔ دسہری ۔

آم کے غذائی اجزاء : فی صد
وٹامن اے 48ء
وٹامن سی ۔ 13ء0
آبی اجزاء ۔ 1ء86
پروٹین (لحمی اجزاء) ۔ 6ء5
چکنائی ۔ 61ء0
فولاد ۔ 63ء0
معدنی نمکیات ۔ 93ء0
چونا ۔ 1 ء4

Read More