Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

تمام سبزیاں، فروٹ، ڈرائی فروٹ، دالیں ان کے مزاج اور فوائد

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط

تمام سبزیاں، فروٹ، ڈرائی فروٹ، دالیں ان کے مزاج اور فوائد

سبزیوں کے مزاج اور فوائد
پھلوں، فروٹس کے مزاج اور فوائد
خشک میوہ جات کے مزاج اور فوائد
دالیں ان کے مزاج اور فوائد
کولڈ ڈرنکس، مشروبات کے مزاج اور انکے فوائد
دودھ گائے، بھینس، بکری کا مزاج اور فوائد
مصالحہ جات کے مزاج اور فوائد

تندر ستی ہزار نعمت ہے
 تند رستی ہزار نعمت ہے واقعی اگر انسان صحت مند او ر توانا ہو تو وہ ہر مشکل سے مشکل کام کو بھی کرنے کا پکا ارادہ کر لیتا ہے، وہ دین کا کام بھی زیادہ اور اچھے انداز سے کرسکتا ہے اور دنیا کے کام بھی احسن طریقے سے سرانجام دے سکتا ہے، لیکن بشرطیکہ وہ صحت مندہو اور صحت مند رہنے کے لیے آپ کو متوازن غذا کا استعمال اور جن اشیاء سے آپ کی صحت کو نقصان ہو سکتا ہے اُن سے پرہیز کرنا ضروری ہوگا۔جیسے بعض لوگوں کو’’سرد تاثیر رکھنے والی اشیاء کی ضرورت اور  گرم تاثیر رکھنے والی اشیاء کے کم استعمال کی ضرورت ہوتی ہے اور اسی طرح بعض لوگوں کو گرم تاثیر رکھنے والی اشیاء کی ضرورت اور  سرد تاثیر رکھنے والی اشیاء کے زیادہ استعمال سے بچنے کی ضرورت ہوتی ہے اسی لیے آپ کو اپنی صحت کے مطابق غذا استعمال کرنی چاہیے لیکن یہ اُس وقت ممکن ہوگا جب آپ روزمرہ زندگی میں استعمال ہونی والی اشیاء کے متعلق معلومات رکھتے ہونگے۔
(سبزیات) (Vegetables)
نام سبزی، تاثیر، فائدے، نقصان، رائے
کدو ، سرد تر
گرمی کے بخار میں مفید ہے،کدو شریف جگر اور دماغ کو فرحت دیتا ہے،پیشاب کے امراض میں بے حد مفید ہے،پیشاب کی جلن کو دورکرتا ہے بعض لوگ کدو شریف اور چنے کی دال ملا کر کھاتے ہیں یہ مناسب نہیں ہے،کدو شریف کو زیادہ پکانے سے بھی اس کی غذائیت کم ہوجاتی ہے اگر ممکن ہو توشوربے والے ہر سالن( خصوصاً گوشت )میں کدو شریف کے چند ٹکڑے ڈال لیا کریں ان شاء اللہ عزوجل کھانے کی تاثیر سرد ہ ہو جائے گی۔بلڈ پریشر اور خون کی گرمی کو ختم کرنے میں کدو شریف لاثانی ہے۔
آلو، سرد خشک
بچوں کی بڑھوتری کے لیے بہت مفید ہے،ہر عمر کے افراد کے لیے کھانا مناسب ہے 250 گرام سے زیادہ آلو کھانا نقصا ن دہ ہے،اس سے پیٹ میں گیس بہت زیادہ پیدا ہوتی ہے آلو جب بھی پکائیں تو اس کو چھلکے سمیت پکائیں،اور کھانے وقت چھلکا اُتار لیں ،اور کھاتے وقت نمک لگا کر کھانا زیادہ مفید ہے
بینگن، گرم خشک
امراض جگر میں بہت مفید ہے
گرم مزاج والے زیادہ استعمال نہ کریں انگاروں پر بھنا ہوا بینگن ریاحی امراض میں بہت مفید ہے
توری، سرد
بخار کے مریض کے لیے عمدہ غذا ہے یہ بھوک بڑھاتی اور جلد ہضم ہوتی ہے توری کو زیادہ دیر اور تیز شعلے پر پکانے سے اس کی غذائیت ختم ہو جاتی ہے توری، کدو شریف اور ٹماٹر مکس کر کے پکائیں تو زیادہ مفید رہے گا
شلغم ،گرم تر
نظر اور پیشاب کی جلن میں مفید ہے،کھانسی میں بھی مفید ہے،جوڑوں کے درد کو دور کرتا ہے گرم مزاج والوں کے لیے زیادہ استعما ل کرنا مناسب نہیں جن کے چہرے پر نکھار نہ ہو وہ شلغم استعمال کریں اس سے چہرے پر نکھار آتا ہے
بھنڈی، سرد تر
آنتوں کی خراش کو دور کرنے میں بہت مفید ہے کھانسی ،بدہضمی اور ریاحی امراض میں اس کا استعمال نہ کریں،قبض بھی کرتی ہے تیل کی بجائے گھی میں پکی ہوئی بھنڈی زیادہ مناسب ہے،تیل میںپکی بھنڈی طبعی اوصاف نہیں رکھتی
کریلا، گرم خشک

دیر سے ہضم ہوتے ہیں اور طبیعت میں چڑچڑا پن پیدا ہوتا ہے۔جن کے معدے اور جگر میں گرمی ہو وہ استعمال نہ کریں
جوسرمشین میں کریلے کا جوس نکال کرپیناشوگرکے مریض کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں
ہری مرچ، گرم خشک
تھوڑی مقدار میں کھانے سے آنکھوں کو فائدہ دیتی ہے گرم مزاج والوں کے لیے نقصان دہ ہے،زیادہ استعمال بھی نقصان دہ ہے
پالک، سرد
خون کی خرابی کو دور کرتا ہے ،وٹامن A اور C پایا جاتا ہے اس لیے جن کو کم سنائی دیتا وہ مناسب مقدار میں استعمال کریں جن کے معدے اور جگر میں گرمی ہو وہ پالک استعمال نہ کریں۔جن کو غصہ جلدی آتا ہو وہ بھی کم استعمال کریں پالک جلدی ہضم ہوتی ہے اس لیے مریض بھی اس کو استعمال کر سکتے ہیں
اروی، سرد تر
بدن کو موٹا کرتی اور طاقتور بناتی ہے،خشک کھانسی کو دور کرتی ہے اروی کا زیادہ استعمال نقصان دہ ہے ،پیٹ میں گیس پیدا ہوتی ہے یہ آلو کے مقابلے میں ڈیرھ گنا زیادہ مفید ہے اس لیے آلو کی بجائے اروی کھانا زیادہ مفید ہے
شکرقند، گرم تر
دماغی قوت کے لیے اچھی ہے، زیادہ کھانے سے انتڑیوں میں پھنس جاتی ہے جس سے پیٹ میں اپھارہ پیدا ہوتا ہے شکر قندی کھانے کے بعد سونف چبانا مفید ہے
چقندر، گرم
خون کی کمی ،قبض،پتھری اور بواسیر کے لیے مفید ہے، جن کی نبض تیز چلتی ہو اُن کے لیے نقصان دہ ہے
گوبھی، سرد خشک

پکی ہوئی کی نسبت کچی گوبھی کھانازیادہ فائدہ مند ہے، پیٹ میں گیس پیدا کرتی ہے، گوبھی کو اگر کم آنچ اور زیادہ نہ پکایا جائے تو اس کی غذائیت برقرار رہتی ہے

تر، سرد

معدے کا نظام درست رکھتی اور جلدی ہضم ہوتی ہیں زیادہ پکی ہوئی اور کڑوی تر کھانا مناسب نہیں تر کھانا کھانے سے پہلے کھانا زیادہ مناسب ہے
گاجر، گرم تر
گاجر نظر کی تقویت کے لیے مفید ہے،دل کو طاقت دیتی ہے اور دل کی گھبراہٹ کے لیے بہت مناسب ہے،معدے کو طاقت دیتی ہے گاجر کا زیادہ استعمال گرم مزاج رکھنے والوں کے لیے نقصان دہ ہے جن کی آنکھوں میں سوزش ہواُن کے لیے گاجر کاجوس بہت فائدہ مند ہے ،یہ نظر کو تیز بھی کرتا ہے،گاجر کے اندر بھورے رنگ کا ایک ’’کیل‘‘ ہوتا ہے اس کا استعمال مناسب نہیں ۔یہ بہت سخت ہوتا ہے
بند گوبھی، سرد تر
بند گوبھی ورمِ معدہ،سوزشِ معدہ اور معدے کے پھوڑے کے لیے مفید ہے پیٹ میں گیس پیدا کرتی ہے بند گوبھی کو سلاد کے طور پر استعمال کرنا زیادہ مناسب ہے
لہسن، گرم خشک
اگر لہسن کی گٹھلی گرم کر کے دانتوں کے درمیان رکھی جائے تو درد فوراً دور ہوجائے گا۔ اس کے استعمال سے منہ کی بدبو پیدا ہوتی ہے بہتر یہ ہے کہ اس کی تین چار گٹھلیاں سالن میں ڈال کر استعما ل کریں
پیاز، گرم خشک
پیاز پیس کر دہی اور شکر ملا کر کھانے سے گلے کی سوزش کو فائدہ پہنچتا ہے کچی پیازکھانے سے منہ میں بدبو پیدا ہوتی ہے لہذا پیاز کو نمک لگا کر پھر دھوکر استعمال کریں جن کو قبض کی شکایت وہ پیاز استعمال کریں کیونکہ اس کے کھانے سے رطوبتِ ہاضمہ پیدا ہوتی ہے اور یہ قبض کشاء ہے
ٹنڈا، سرد تر
ٹنڈا مرغوب غذاہے،پتھری کی تکلیف دور کرتا ہے،بدن کی خشکی اور گرمی کو دور کرتا ہے،جسم سے تزابی مادہ اور دیگر فاسد مادوں کو خارج کرتا ہے،پیشاب کی جلن کو دور کرتا ہے تیز آنچ پر پکانے سے ٹنڈے کے غذائی اجزاء کافی حد تک ضائع ہو جاتے ہیں جن کو قبض کی شکایت ہو وہ ٹنڈا بکثرت استعمال کریں ان شاء اللہ عزوجل فائدہ ہوگا،ٹنڈا خون کو بھی صاف کرتا ہے
مولی، گرم تر
مولی کدو کش کر کے نمک اور کالی مرچ لگا کر کھانے سے قبض دور ہوتی ہے، مولی کا زیادہ استعمال معدے کو نقصان دیتاہے،منہ میں بد بو پیدا ہوتی ہے، اگر مولی کھانا چاہیں تو کھانے کے ساتھ سلاد کے طور پر صرف چند ایک قتلس کھائیں زیادہ کھانے سے منہ سے بد بو آتی ہے۔
مٹر، سرد خشک
مٹر کھانے سے خون کی صفائی ہوتی ہے،قبض کے لیے مفید ہے کچی حالت میں کھانے سے دست لگ جانے کا اندیشہ ہے
مٹر کھانے سے چہرے پر شادابی آتی ہے،اور نکھار پیدا ہوتا ہے
پیٹھا، سرد تر
پیٹھا دل دماغ اور تمام جسم کو طاقت دیتا ہے جگر اور دل کی گرمی کو دور کرتا ہے،انسان کا وزن بڑھاتا ہے ،پیشاب کی جلن میں مفید ہے، سرد مزاج والے کم استعمال کریں، تپِ دق کے مریض کے لیے مفید ہے
کلفہ، سرد تر
خون کے جوش کو تسکین دیتا ہے،جگر اور معدے کی سوجن میں مفید ہے،پیشاب کی جلن اور گرمی کو دور کرتا ہے پالک اور کلفہ مکس کر کہ نہ پکایا جائے اس کا ساگ گرمی کے بخار،بواسیر ، جریان اور جگر کی گرمی میں مفید ہے
(پھل) (Fruit)
نام پھل، تاثیر، فائدے، نقصان، رائے
آلوبخارا، سرد تر
قبض کشاء ہے،جگر کی گرمی اور خون کے جوش اور گرمی کو دور کرتا ہے،اس کے باقاعدہ استعمال سے انسان کے چہرے کی زردی دور ہوجاتی ہے، آلوبخارا کھانے کے فوراً بعد دودھ پینا نقصان دہ ہے، یرقان کے مریض کے لیے آلو بخارا بہت مفید ہے
سیب، سرد خشک
دماغ کو تقویت دیتا ہے اور روح لطیف کرتا ہے، سیب چھلکا اُتار کر کھانا چاہیے کیونکہ اس کا چھلکا دیر سے ہضم ہوتا ہے اور دماغی نظام کے لیے مناسب نہیں، کمزور اور دبلے بدن کے لیے سیب بہت لاجواب پھل ہے ،جسم کو موٹا کرتا اور ہڈیوں کو مضبوط بناتا ہے،خشک کھانسی میں میٹھے سیب کھانا بہت مفید ہیں
آڑو، سرد تر
خون کی گرمی کو دور کرتا ہے دماغ کو طاقت دیتا ہے اور خون پیدا کرتا ہے کمزور ہاضمہ والوں کے لیے چھلکے سمیت کھانا نقصان دہ ہے، جسم میں خون پیدا کرتا ہے ،جریان اور بواسیر کے مرض کے لیے بہت مفید ہے
آم، گرم تر
دیسی آم کا فائدہ زیادہ ہوتا ہے ،خون پیدا کرتا ہے اور جگر اور معدے کو تقویت دیتا ہے، جن کے معدے ،جگر اور مثانے میں گرمی ہو وہ آم استعمال نہ کریں، آم کھانے کے ساتھ کھانا مناسب ہے یا پھر دوپہر کے بعد کھائیں ،آم کھانے کے بعد دودھ یا دودھ کی لسی پینے سے تازہ خون پیدا ہوتا ہے
مالٹا، سرد تر
خون کو صاف کرتا ہے،جسم اور ہڈیوں اور دانتوں کو تقویت دیتا ہے،مالٹا مزاج کی گرمی اور خشکی کو دور کرتا ہے
کھانسی ،سر درد اور زکام کی حالت میں مالٹے کا استعمال نقصان دہ ہے، مالٹے میں وٹامن  سی ہوتا ہے جو ہڈیوں اور دانتوں کو مضبوط بناتا ہے،مالٹے کے استعمال سے بد ہضمی بھی دور ہوتی ہے
تربوز، سرد تر
جلدی ہضم ہوتا ہے ۔اس کے بیج معدے میں موجود فاضل معدوں کو خارج کرتے ہیںدماغی گرمی کو دور کرتا ہے، تربوز کھانے کے بعد پانی پینا مناسب نہیں،کھٹا اور گلا ہوا تربوز کھانے سے ہیضہ ہوسکتا ہے۔سرد مزاج والوں کے لیے تربوز کھانا نقصان دہ ہے، تربوز جب بھی کھائیں ٹھنڈا کھائیں اور خالی پیٹ کھائیں ،کھانا کھانے سے پہلے تربوز کھانا بہت فائدہ مند ہے
خربوزہ، گرم تر
گرمی سے بچاتا ہے اور دل و دماغ کو تازگی بخشتا ہے،تربوز کھانے سے پہلے کھانا مفید ہے اور خربوزہ کھانے کے بعد کھانا مفید ہے، خربوزہ کھانے کے بعد پانی یا دودھ پینے سے ہیضہ ہوجا نے کا اندیشہ ہے، زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے خربوزے کو کاٹے بغیر برف میں رکھ دیں اور مناسب وقت کے بعد کاٹ کر کھائیں ۔کٹا ہوا خربوزہ برف میں رکھ کر کھانا مناسب نہیں
ٹماٹر، سرد تر
خون صاف کرتا ہے،غذا کو ہضم کرتا ہے،امراض جگر اور معدہ کے لیے مفید ہے، ٹماٹر کا چھلکاسخت ہوتا ہے لہذا اس کا چھلکا استعمال کرنا مناسب نہیں، ٹماٹر صحت کو قائم رکھنے والی غذاؤں کاسرتاج ہے،جراثیم سے بچنے کی قو ت پیدا کرتا ہے،کمزوری کو دور کرتا ہے
کھیرا، سرد تر
خون کی گرمی،آنتوں کی سوجن کو دور کرتا ہے،پیاس بجھاتا ہے،پتھری اور پیشاب کی جلن کو دور کرتا ہے، سرد مزاج والوں کے لیے غیر مفید ہے، کھیرے کو نمک لگاکرکھانے کے بعد کھائیں تواندر کی گرمی کو دور کرتا اورمزاج میں نرمی پیدا کرتا ہے ،جگرکے لیے بہت مفید ہے،قبض کشاء ہے
انناس، سرد تر
دل کو طاقت دیتا ہے،موسم گرما میں پیاس کی شدت کو تسکین دیتا ہے،گرم مزاج والوں کے لیے بہت مفید ہے، موٹے حضرات کم استعما ل کریں کہ اس سے جسم جلد موٹا اور فربہ ہوتا ہے، جن کو یرقان کی شکایت وہ اس کا لگاتار استعمال کریں کہ اس کے لگاتار استعمال سے یرقان دور ہوجاتا ہے
خوبانی، سرد تر
قبض کشاء ہے،سوزش معدہ اور معدہ کی سوزش کے لیے مفید ہے، سرد مزاج والے کم استعما ل کریں، خوبانی کا خیساندہ صفراوی بخار،اور معدے کی سوزش میں مفید ہے
کیلا، سرد خشک
کیلے کا کودا ایک اونس نمک لگا کھانا پیچس کے لیے مفید ہے، کیلا معدے میں بھاری پن پیداکرتا ہے،کچا کیلا کھانا مناسب نہیں، کیلے کے استعمال میں اس کا جوس زیادہ مناسب ہے
امرود ،گرم تر

قبض کے لیے مفید ہے،شہد کے ساتھ ملا کر کھانے سے دل، دماغ اور معدے کو طاقت دیتا ہے، پھیکے اور سخت امرود کھانے سے قبض ہوتی ہے لہذا امرود نرم کرکہ کھانے چاہیے۔، امرود کھانے کے بعد قبض کشاء اور خالی پیٹ کھانے سے قابض یعنی قبض کرتا ہے
انگور، گرم تر
انگور کے استعمال سے بال اور آنکھیںچمک دار ہوتی ہیں جلد صحت مند اور نرم رہتی ہے، گرم مزاج والوں کے لیے زیادہ استعمال نقصان دہ ہے، انگور کو ٹھنڈا کر کے کھانا زیادہ مناسب ہے،کم کھائیں کہ زیادہ کھانے سے دست لگ جانے کااندیشہ ہے
کھجور، گرم تر
یہ بہت زیادہ طاقت والا پھل ہے ،دل اور دماغ کو طاقت دیتا ہے، کھجور کا زیاد ہ استعمال جسم میں گرمی بڑھا دیتا ہے لہذا اس کوکم استعمال کیا جائے، جنرل کمزوری کے لیے 10عدد بادام اور 10کھجوردھو کر کھانا بہت مفید ہے
ناشپاتی، سرد خسک
ناشپاتی دست اور پیچس کے لیے کسی تحفہ سے کم نہیں
بخار کی حالت میں نقصان دہ ہے۔سرد مزاج والے بوڑھوں ،اور بلغمی مزاج والے کے لیے مناسب نہیں
کوشش کر کے میٹھی ناشپاتی کھائیں کہ ترش ناشپاتی دیر ہضم اور قابض ہے۔
انار، سرد تر
میٹھا انار خون پیدا کرتا ہے اور جگر کی تقویت کے لیے مفید ہے قبض کشاء ہونے کے ساتھ ساتھ پیشاب بھی جاری کرتا ہے، جن کو دست لگے ہوں اُن کے لیے انار کھانا نقصان دہ ہے، کابلی انار سب سے اچھا ہے،جن کو خشک کھانسی ہو اُن کے لیے انار کھانا بہت اچھا ہے انار کھانے سے چہرے میں نکھاآتا ہے اور چہرہ دلکش اور کھِلا ہوا نظر آتا ہے
جامن، سرد خشک
قبض کے لیے مفید اور ہاضمہ درست رکھتی ہے، سخت جامن کا زیادہ استعمال پھپھڑوں کے لیے نقسان دہ ہے اور اس سے تپ دق ہو جاتا ہے، جامن جب بھی کھائیں پکی ہوئی کھائیں اور نمک لگا کر کھائیں اس سے اس کا نقصان کم ہوجاتا ہے
بیر، سرد خشک
گرم مزاج والوں کے لیے بہت مفید ہیں،پیاس بجھاتا ہے، جن کے معدے ،جگر اور مثانے میں گرمی ہو وہ بیر زیادہ استعمال کریں
املی، سرد خشک
قے اور متلی کو روکنے کے لیے اس کا استعمال مفید ہے، زیادہ کھانے سے دانت خراب ہونے کا اندیشہ ہے، املی پانی میں ڈال کرپانی پینے سے دل کی گرمی دور ہوتی ہے،بے چینی کو دور کرتی ہے،طبیعت کو فرحت بخش بناتی ہے
شہتوت، کچا گرم تر ،پکا ہو ،سرد تر
گرمی ،پیاس،پیشاب کی بندش اور لو لگنے سے بچاؤ رہتا ہے،پکا ہو توت خوش ذائقہ ،ٹھنڈا اور گرمی کو دور کرتا ہے، کچا توت کھانے سے نقصان کا اندیشہ ہے، پکے ہوئے توت ٹھنڈے کر کے کھانے سے دل کو تسکین ہوتی ہے،اور مزاج میں نرمی پیدا ہوتی ہے
فالسہ، سرد تر
پیاس اور گرمی کو دور کرتا ہے،قوتِ ہاضمہ کو تیزکرتا ہے،بلغم کو خارج کرتا ہے، سرد مزاج والوں کے لیے نقصان دہ ہے، جن میں خون کی کمی ہو وہ فالسہ استعما ل کریں کیونکہ فالسہ نیا خون کافی مقدار میں پیدا کرتا ہے،گرمیوں میں اس کا شربت بہت مفید ہے
گنا، گرم تر
پیشاب کی بندش اور جلن میں مفید ہے،تیز مصالحہ جات اور تلی ہوئی چیزوں سے جو نقائص پیدا ہوتے ہیں گنے کے استعما ل سے وہ دور ہوجاتے ہیں ،گنے کے استعمال سے جسم کی تھکاوٹ دور ہوتی ہے اور جسم میں چستی آتی ہے، مشینوں سے نکالا ہو ا گنے کا رس دیر ہضم بھی ہوتا ہے اور نقصان دہ بھی کیونکہ اس میں صفائی نہیں ہوتی،گنے کے رس کی بجائے اس کی گنڈریاں کھانا زیادہ مفید ہے،اس سے رس بھی تازہ ملتا ہے اور دانت بھی مضبوط ہوتے ہیں
پپیتا، سرد تر
دل اور معدے کی سوزش ،جگر اور امراض دل کے لیے مفید ہے، سرد بلغمی مزاج والوں کے لیے نقصان دہ ہے، جن کو دائمی قبض ہو وہ ہر روز استعمال کریں۔کم میٹھا ہونے کی وجہ سے شوگر والے بھی استعما ل کر سکتے ہیں
لیچی ،تر سرد

یرقان کے مریضوں کے لیے بہت مفید ہے،لیچی ہاضمہ کو تیز کرتی ہے،دماغی کمزوری اور دل کی دھڑکن میں بہت زیادہ مفید ہے، لیچی بلغم کو بڑھاتی ہے اس لیے دمہ کے مریض استعمال نہ کریں، اس کے کھانے کے تقریباً 2گھنٹے بعد پانی پینا چاہیے ،پہلے پانی پینا نقصان دہ ہوسکتا ہے،ہاتھ پاؤں کی جلن میں بھی بہت مفید ہے
(خشک میوہ جات) (Dry Fruit)
نام میوہ۔ تاثیر، فائدے، نقصان، رائے
انجیر، گرم تر
سفید انجیرحلق کی سوزش،سینے کا بوجھ اورپھپھڑوں کی سوجن میں مفید ہے، بہت زیادہ استعمال کرنے سے نقصان کا اندیشہ ہے، جن کے سینے میں بلغم ہو وہ استعما ل کریں کیونکہ انجیر بلغم کو پتلا کر کہ خارج کرتا ہے،انجیر نہار منہ کھانے سے عجیب و غریب فائدے حاصل ہوتے ہیں
اخروٹ، گرم خشک
دماغی کمزوری کے لیے مفید ہے، گرم مزاج والوں کے لیے نقصان دہ ہے، اخروٹ کو مناسب مقدار میں استعمال کرنا چاہیے کیونکہ اس کے زیادہ استعمال سے منہ میں پھنسیاں پیدا ہوجاتی ہیں
بادام، گرم تر
دماغ اور بصارت کی تقویت کے لیے اس کا استعمال بہت مفید ہے ،دل کی کمزوری کے لیے موسمِ گرما میں اس کا شربت بنا کر پینا بہت مناسب ہے، سات سے گیارہ عدد بادام سے زیادہ کھانا نقصان دہ ہے،کیونکہ یہ بہت گرم ہوتا ہے اور اس سے کو لیسٹرول بھی بڑھ جاتا ہے، بادام ذرہ دیر سے ہضم ہوتا ہے اس لیے اگر اس کا چھلکا اتار کر اور نمک لگا کر کھائیں تو جلد ہضم ہو تا ہے
پستہ، سرد خشک، جو لوگ اسکو گرم خشک کہتے ہیں سراسر غلط ہے
دل کو طاقت دیتا اور بدن کو موٹا کرتا ہے،دماغی کمزریوں کے لیے بہت مفید ہے، پستہ گرم ہوتا ہے اس لیے گرم مزاج والے لوگ زیادہ استعمال نہ کریں
کشمش، گرم تر
دل کی کمزوری میں مفید ہے،دماغ کے کل اعضاء کو تقویت دیتی ہے،قبض کشاء ہے،بلغم کو دور کرتی ہے، جن کے جگر اور معدے میں گرمی ہو وہ کم استعمال کریں، خشک کھانسی کا بہترین علاج ہے،رات سونے سے پہلے41دانے، کشمش 7عدد بادام بسم اللہ شریف اور درود پاک پڑھ کر کھا لیں ان شاء اللہ  شفاء ملے گی
مونگ پھلی، سرد خشک
چمبل اور جلد کے تمام امراض کے لیے مونگ پھلی کے تیل کی مالش بہت مفید ہے، مونگ پھلی کے زیادہ استعمال سے کھانسی لگ سکتی ہے، مونگ پھلی کم مقدار میں کھائیں اور کھاتے وقت اس کے دانے سے لال رنگ کا چھلکا اُتار لیں یہ دیر ہضم ہوتا ہے
چھوٹی الائچی، گرم خشک
دل کو تقویت دیتی ہے، مسوڑوں اور دانتوں کے لیے مفید ہے، جن کو کھانسی یا پھپھڑوں کا مرض ہو اُن کے لیے اس کا استعمال نقصان دہ ہے، جب بھی کھانا کھائیں تو بعد میں ایک سے دو دانے کھا لیں اس سے قے ،متلی،رطوبتِ معدہ اور دماغی تکلیف کو فائدہ پہنچتا ہے
ناریل، گرم تر
خون پیدا کرتا ہے،فالج کے مریض کے لیے مفید ہے، ناریل میں چکنائی زیادہ ہوتی ہے اس لیے اس کا کم استعمال منا سب ہے، ناریل کا پانی پتھری کو آرام دیتا ہے،اور سخت ناریل کھانے کی بجائے کچی ناریل زیادہ مناسب ہے
چلغوزہ، گرم تر
جسمانی پٹھوں کو تقویت دیتا ہے،گردوں اور جگر کی بیماری میں مفید ہے،یہ دل کو طاقت دینے کے ساتھ ساتھ رگوں اور پٹھوں کو مضبوط کرتا ہے، کچا چلغوزہ استعمال نہیں کرنا چاہیے کہ یہ دیر ہضم ہوتا ہے اور اس سے بھوک بند ہوجاتی ہے،زیادہ کھانے سے بھی نقصان ہو سکتا ہے، بلڈ پریشر کے مریض استعمال کریں کہ یہ فالج کے اثر سے محفوط رکھتا ہے
ناریل، گرم تر
جسم کے تمام اعضاء کو تقویت دیتی ہے،جسم کو موٹا کرتی ہے، زیادہ استعمال نقصان دہ ہے،دیر ہضم ہے، جن کا معدے کمزور ہو وہ بہت کم استعمال کریں
تِل، گرم تر
تل چبانے سے دانت اور مسوڑھے مضبوط ہوتے ہیں،جسم صحت مند رہتا ہے اور چہرے پر چمک آتی ہے، گرم مزاج والے زیادہ استعمال نہ کریں، جن کو موسم سرمامیں زیادہ سردی لگتی ہواُن کے لیے تل کے لڈو بہت مفید ہیںیہ جسم میں طاقت پیدا کرتے ہیں اور اعصاب کو مضبوط بناتے ہیں
سونف، گرم خشک
کھانے کے بعد کھانے سے ہاضمہ درست کرتی ہے،اور گیس ختم کرتی ہے، گرم مزاج والے کم استعمال کریں، ہلکے گرم دودھ میں ایک دو چھوٹی الائچی اور ایک چمچ سونف ڈال کر مکس کر کے استعمال کریں بہت مفید رہے گا۔ان شاء اللہ
عناب، سرد تر
جگر ،معدے اور مثانے کی گرمی دور کرتے ہیں،اس کے استعمال سے چہرے پر نکھار آتا ہے، سرد مزاج والے کم استعمال کریں، اس کے استعمال کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ عناب کے15 دانے رات کو پانی میں بگھگو دیں اور اس کے ساتھ 5 دانے املی کے ڈال دیں صبح چینی یا شہد ڈال کر استعمال کریں  ان شاء اللہ بہت مفید رہے گا۔

زیرہ سفید، گرم خشک
معدے اور جگر کی آنتوں کو تقویت دیتا ہے،بلغم نکالنے میں مفید ہے،گردہ کی کمزوری میں مفید ہے،پیشاب کی رکاوٹ میں بہت فائدہ مند ہے، گرم مزاج والوں کے لیے زیادہ استعمال نقصان دہ ہے
کلونجی، گرم خشک
پیٹ درد اور پیٹ کے کیڑے مارنے کے لیے مفید ہے،کھانسی کے لیے بھی مفید ہے، شہد کے ساتھ استعمال کرنے سے پتھری ،گردہ اور مثانہ کے لیے بہت مفید ہے،ریاحی امراض میں اچھا ہے
جو  ، سرد خشک
جو شریف کے استعمال سے پیاس اور گرمی کم ہوتی ہے،تپ دق،کھانسی اور سر درد میں بہت مفید ہے، موسم گرما میں جو شریف کی روٹی بہت عمدہ غذا ہے،جسم میں سردی پیدا کرتی ہے،گرمی کے موسم میں ستو  کا شربت پینا بہت مفید اور پیاس کو بجھاتا ہے
مکئی، سرد خشک
بھونی ہوئی مکئی طاقت دیتی ہے اور ذائقہ دار ہے، مکئی خشک ہے اس لیے جن میں خشکی ہو وہ کم استعمال کریں، مکئی ابال کر کھانا زیادہ مناسب ہے
(مختلف اشیاء) (Other eatables)
تاثیر، فائدے، نقصان، رائے
چینی، گرم تر
کھانے کے بعد تھوڑی سی کھانے سے کھانا ہضم کرنے میں مدد دیتی ہے، زیادہ استعمال سے جگر خراب ہوتا ہے،اور بد ہضمی پیدا ہوتی ہے، شوگر کے مریض کے لیے چینی زہر قاتل ہے،لہذا شوگر کے مریض چینی استعمال نہ کریں
آٹا ، گندم کا، گرم خشک
جسم کو تقویت دیتاہے، موٹی اور کچی چپاتی کھانا نقصان د ہ ہے، سفید آٹے کی بجائے لال آٹا زیادہ اچھا اور جلد ہضم ہونے والا ہے ،یہ معدے کو تقویت بھی دیتا ہے،جبکہ سفید آٹا دیر ہضم ہوتا ہے
سوجی کا حلوہ، گرم تر
جسمانی طاقت میں مفید ہے
زیادہ کھانے سے پیٹ کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اورجگر کو بھی نقصان پہنچتا ہے، خالی پیٹ کھانے سے آنکھوں کو تقویت ملتی ہے لیکن کم مقدار میں
چائے، گرم خشک
چائے پینے سے تھکان دور ہوتی ہے،چستی آتی ہے اور کام کرنے کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے، چائے میں کوئی غذائیت نہیں ہوتی،چائے کے ساتھ نشاستہ والی اشیاء کیک،بسکیٹ اورپیسڑی وغیرہ اور تلی ہوئی اشیاء کھانے سے معدہ کمزور ہوجاتا ہے،ہائی بلڈ پریشر والوں کے لیے چائے بہت نقصان دہ ہے، چائے کا زیادہ استعما ل اتنا ہی نقصان دہ ہے جتنا شراب کا۔چائے کے زیادہ استعما ل سے مزاج میں چڑچڑاپن پیدا ہوتا ہے۔
گھی اور تیل، گرم تر
بدن کو طاقت دیتا ہے،خشکی کو کم کرتا ہے، دیر ہضم ہوتا ہے،معدے اور جگر کے لیے نقصان دہ ہے، گرم مزاج والوں کو چاہیے وہ بہت کم استعمال کریں
شہد، گرم تر
شہد ایک بڑی مفید،لذیذ اور صاف خون پیدا کرنیوالی غذا ہے،اس سے دل ودماغ کوتقویت ملتی ہے،جسم کے زیریلے اثرات زائل ہوجاتے ہیںاور جسم صحت مند رہتا ہے، گرم مزاج والے کم استعمال کریں، شہد استعمال کرنیکا مناسب طریقہ یہ ہے کہ اس کو پانی میں ڈال کر استعمال کیا جائے۔زیادہ گرم ہونے کی وجہ سے اکیلا کھانا مناسب نہیں ،شہد کے استعما ل سے جسم کی بلغم خارج ہوجاتی ہے،شوگر کے مریض شہد استعما ل نہ کریں
دہی، تر گرم
چہرے کی رنگت میںنکھار آتا ہے،اور کھانے کو ہضم کرنے میں مدد دیتی ہے، اگر ممکن ہو تو ہر کھانے کے تھوڑی سی دہی استعمال کریں ان شاء اللہ  معدے درست رہے گا۔

ساگودانہ، سرد خشک
کمزور مریضوں کے لیے مفید ہے،دودھ میں پکا کر چینی ملا کر کمزور مریضوں کے دینے سے فوراً جسم کو تقویت ملتی ہے اور بدن موٹا ہوتا ہے
پان، خشک گرم

جن کا بلڈپریشر لو رہتا ہو اُن کے لیے اس کا استعمال مفید ہے، زیادہ پان کھانے سے منہ کے کینسر ہونے کا اندیشہ ہے
اگر پان کھانا چائیں توخودبنا کر کھائیں تو مناسب ہے کیونکہ بازاری پان غیر مفید ہو تا ہے۔
انڈے، گرم تر
دل ودماغ کو تقویت دیتا اور جسم میں چونے کی کمی کو دور کرتا ہے،انڈے کی زردی خون پیدا کرتی ہے، گردے کی پتھری، بد ہضمی اور تیزابیت کی شکایت میں انڈا استعمال نہ کریں، انڈے کو جس قدر زیادہ ابالیں گے یہ اتنی ہی دیر سے ہضم ہوگا، لہذا انڈا اتنا ابالیں (پکائیں) کہ سفیدی جم جائے اور زردی نہ جمے
مرچ سرخ، گرم خشک
بچھو کے ڈنک پر اس کو پانی میں پیس کر لگا نے سے جلدی فائدہ ہوتا ہے، معدے میں جلن پیدا کرتی ہے اور معدے کے نظام کو خراب کرتی ہے، اگر ممکن ہو تو سالن میں لال مرچ بالکل نہ ڈالی جائے یہ بہت مناسب ہے،بلکہ ہری مرچ اور کالی مرچ سے کام چلا لیا جائے
گرم خشک : یعنی ایسی شے جس کی تاثیر گرم ہو اور اُس میں تیل یا چکنائی نہ ہو یا کم مقدار میں ہو (کلونجی،چھوٹی الائچی،پیاز)
گرم تر : یعنی ایسی شے جس کی تاثیر گرم ہو اور اُ س میں تیل یا چکنائی کی مناسب مقدار پائی جائے۔(پستہ،کشمش،چلغوزہ)
سرد خشک : ایسی شے جس کی تاثیر سرد ہو اور اُس میں تیل یا چکنائی نہ ہو یا کم مقدار میں ہو۔(جامن،بیر،جو)
سرد تر : ایسی شے جس کی تاثیر سرد ہو اور اس میں تیل یا چکنائی کی مناسب مقدار پائی جائے۔(ٹنڈا،مولی،خربوزہ)
پیپسی اور دوسرے کولڈ ڈرنکس (جن میں گیس ہوتی ہے )نہ پینا مناسب ہے خصوصاً خالی پیٹ کیونکہ ان میں تیزابیت ہوتی ہے خالی پیٹ پینے سے بہت نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
جن کو آم منع ہوں وہ آم کا ملک شیک بنا کر استعمال کرسکتے ہیں بشرطیکہ اس میں دودھ زیادہ مقدار میں ہو
کولڈ ڈرنکس اور دوسرے مشروبات کی بجائے ، لیموں کا شربت،  بہت مناسب ہے یہ مزاج میں نرمی پیدا کرتا ہے اور چڑچڑ اپن دور کرتا ہے
بسکیٹ،کیک ،چاکلیٹ اور اسی طرح کی دوسری بیکری کی اشیاء نہ استعمال کرنا مناسب ہے کیونکہ یہ معدے اور آنتوں میں جا کر چمٹ جاتے ہیں،جس سے معدے کا نظام متاثر ہوتا ہے
عام آدمی کے لیے مٹھائی کھانا (زیادہ مقدار میں)مناسب نہیں،مٹھائی صرف اُس کے لیے مفید ہے جسکا  شوگر لیول لو ہو
جن کے چہرے کی رنگت  زرد ہو وہ دہی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں
بکری کا دودھ : بکری عموماً خاردار،کڑوی اور کسیلی جڑی بوٹیاں کھاتی ہے،پانی کم پیتی ہے اور خوب بھاگتی دوڑتی ہے اس لیے اسکا دودھ لطیف،جلدی ہضم ہونے والا،خون صاف کرنے والاہوتا ہے۔بکری کا دودھ تپ دق کے جراثیم سے پاک ہوتاہے جبکہ گائے کے دودھ میں تپ دق کے جراثیم شامل ہوتے ہیں
گائے کا دودھ : گائے کا دودھ خوش ذائقہ اور جلدی ہضم ہونے والا ہوتا ہے،دل و دماغ اور پورے جسم کو تقویت دیتا ہے
بھینس کا دودھ : بھینس کا دودھ گائے کے دودھ کی نسبت زیادہ میٹھا اور زیادہ طاقتور ہوتا ہے بلغمی مزاج والے بھینس کا دودھ استعمال نہ کریں،بھینس کا دودھ دیر ہضم ہوتا ہے اس لیے دودھ پیتے بچوں کو گائے کا دودھ مناسب ہے جن کے چہرے پر ہر وقت چکنائی رہتی ہو وہ تھورڑا سا بیسن لیکر اُس میںسرسوں کا تیل اور تھوڑی سی ہلدی ملا کر گاڑھا سا پیسٹ بنا لیں اور اسکو اپنے چہرے پر مل لیں ۔تقریباً 26 منٹ کے بعد چہرے پر ملا ہوا پیسٹ اندر جذب ہوجائے گا، لگارتار 5دن تک یہ عمل کرنے سے ان شاء اللہ عزوجل چہرے کی ساری چکنائی دور ہوجائے گی
جن کا معدہ کمزور ہو وہ میٹھی اشیاء کم استعما ل کریں کہ میٹھی اشیاء دیر سے ہضم ہوتی ہیں
چاول سرد خشک، اورلوبیا سرد خشک،  دال چنا سرد خشک، دال ماش سرد خشک، دوال مونگ سرد تر، دال مسور سرد خشک، کالے چنے گرم خشک، سفید چنے خشک سرد، ثابت مسور گرم خشک، لہذا جن کے معدے،جگر اور مثانہ میں گرمی ہو اورخشکی بھی ہو وہ یہ اشیاء کم سے کم استعمال کریں

دوا خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

 

Read More

طب اسلامی -اپنے عہد سے ہزار سال آگے

اشاعت دین اور فروغ اسلام کے نہایت کم مدت میں مسلمانوں نے دنیا کے بیشتر ممالک کو نہ صرف فتح کرلیا بلکہ یورپی ممالک کے سرحدوں پربھی دستک دینے لگے ۔خلافت اول و دوم کے عہد میں اسلامی حکومت نے مقبوضہ ممالک کی ترقی نشو ونما و فروغ کا کام کیا بلکہ دنیا کے تمام علوم میں ایسی دست رس بہم پہنچائی کہ آج بھی دنیا ان کی ایجادات ،اختراع ،تحقیق اور تفتیشی کاموں سے فیض حاصل کررہی ہے ۔یہ وہ دور تھا جب مسلم علماءفقیہ ،سائنسداں،موجد ،ماہر طبیعات ،ماہر کیمیا اور طبیب حکمت میں نئی نئی ایجادات سے دنیا کو روشناس کرارہے تھے ۔یہی وہ دور تھا جب پوری یورپ جہالت اور لاعلمی کی سیاہ چادہ اوڑھے خواب غفلت میں تھا۔
۹ ویں صدی ہجری میں مسلمانوں کی حکومت میں بغداد ،قاہرہ اور کارڈوبا دنیا میں علم و دانش ،تجربہ و ایجاد ،اختراع ،تدوین ،تفتیش اور اعلی تعلیم کے لئے مشہور مقامات تھے جہاں سارے عالم اسلام سے طالب علم علم و ہنر کے حصول کے لئے یکجا ہورہے تھے ۔مسلمانوں کے خلیفہ کے زیر سر پرستی دنیا کے سارے علوم پر تحقیق و تفتیش کا کام جاری تھا۔ایجادات ،تجربات اور نئی نئی چیزوں کا اختراع ہو رہا تھا۔آج سے ہزار برس پہلے ان مقامات پر طب نے عملی طورپر وہ مقام حاصل کیا تھا جس کی آج کچھ نقالی کرکےے امریکہ مہذب اور ترقی یا فتہ ممالک میں سرفہرست ہے۔

اسلامی طبی علوم طلسمان اور دینی حدود سے باہر نکل کر سائنٹفک ریسرچ جدید ترین نظام اور اصولوں کو اختیار کررہے تھے۔ان طبی اداروں میں طب کی وہ جدید ترین سہولتیں فراہم کی گئی تھی جو آج کے سائنسی دور میں نہایت ترقی یا فتہ ممالک میں جذباتی طورپر اختیار کی گئی۔اعلی معیار کے اسپتالوں کی تعمیر ،کھلے روشن اور ہوا دار کمرے ،بڑے بڑے ہال،مختلف شعبوں میں ان کی تقسیم ،باہری مریضوں اور اندرونی مریضوں کے لئے ایک جدا نظام ،عورتوں کے لئے دواسازی کا الگ شعبہ ،تحقیق و تفتیش ،عرق سازی ،کثید و تقاطیر کے عمل کے لئے الگ شعبہ کا ہونا،جڑی بوٹیوں کے لئے بوٹانیکل گارڈن ،مریضوں کا ریکارڈ رکھنا،کیفیتوں کا اندراج اور خصوصی طورپر جراحی ،عمل جراحی ،اس کے آلات کی ایجاد اور مرہم سازی ودیگر بہت سارے نظام ایسے تھے جو مکمل طورپر دنیا کے کسی بھی ملک میں ان دنوں نہیں پائے جاتے ۔یہ بات حیر انگیز نہیں کہ جراحی ،علاج ،طب ،کیمیاگری،علم الابدان،نفسیاتی علاج،جسمانی امراض ،وائرس کی بیماریاں ،ان کا علاج ،کیشر،گیگرین ،وارم انخاع(مین جائی ٹیز)ٹی بی ،گردہ کی پتھری کا آپریشن ،آنکھ کے موتیا بند ،جالہ ،ماڑا و دیگر قسم کے آپریشنن وعلاج ان دنوں نہایت آسانی سے کئے جارہے تھے۔

جب پورا یورپ خصوصی طور پر لندن اور پیرس دھول اور کیچڑوں کا ڈھیر تھا تب بغداد،قاہرہ اور کارڈوبا کے اسپتالوں میں عورتوں اور مردوں کے لئے علیحدہ انتظام تھا۔بخار کے مریضوںکو ایسے کمروں میں رکھا جاتا جہاں جھرنوں اور فواروں سے ٹکر اکر سرد ہوا آتی ۔پاگلوں اور ذہنی و نفسیاتی امراض کے لئے شعبے جدا تھے۔مریضوں کو سکون کی خاطر کہا نیاں سنائی جاتی اور ہلکی موسیقی سے سکون فراہم کیا جاتا۔مریضوں کو اسپتال سے رخصت کے وقت رائج 5اشرفیاں دی جاتی ۔عورت نرس اور مرد تیمار دار مریضوں کی دیکھ ریکھ کے لئے ہوتے ۔ان اسپتالوں میں لائبریری ،کیمیا گری،دواسازی،تحقیق و تفتیش کے کام بھی کئے جاتے۔اسی زمانہ میں دیہی علاقوں میں علاج کے لئے اور معذور لوگوں کے علاج کے لئے سواری گاڑیوں پر متحرک اسپتالوں کا نظم تھا۔دواسازی کے اعلی معیار کے تحقیق کے لئے(ڈرگ کنٹرول)تفتیش کار (انسپیکٹر)مقرر کئے گئے تھے۔دواسازی (عطار)کرنے والوں کو حکومت کی طرف سے لائسنس دیاجاتا تھا۔طب کی تعلیم میں بھی مسلمانوں نے بیکٹیر یا لاجی،میڈیسن،اینتھیسیا سرجری،فارمیسی،روپ تھامولوجی،سائیکوتھیراپی،سائیکو سوماٹک جیسے امراض کی نہ صرف شناخت کی بلکہ ان کا علاج بھی کیا اور ان شعبوں کو ترقی کے بام عروج پر پہنچادیا۔

اسلامی حکومت حضور کے وصا ل کے صرف 80سال کے بعد مغرب میں اٹلاسٹک روشن سے مشرق میں چین تک پھیل چکا تھا۔اسپین میں اس نے 700سال تک حکومت کی ۔منگلولوں کے بربری قبضہ کے بعد بغداد کو (1258)میں جلاکر تمام کارناموں کو ختم کردیا گیا ۔اس طرح اسپین کی تہذیبی وراثت کو ڈھاکر ختم کردیا گیا۔لیکن اس کے باوجود بھی اسلامی حکومتوں نے 1000ہزار سال تک دنیا کے نہایت ترقی یافتہ اور مہذب ممالک کی حیثیت سے حکومت کی ۔اسی زمانہ میں یونانی طب حکمت و دیگر کتابوں کو یونانی سے عربی میں ترجمہ کیاگیا اور 10ویں صدی میں یہ کام دمشق ،قاہرہ اور بغداد میں بڑے پیمانہ پر کیاگیا اور اس طرح بغداد سائنسی علمی تحقیقی شہر کے حیثیت سے سارے دنیا میں نمایاں ہوکر ابھرا۔اسلامی ادویہ و طریقہ علاج اسلامی تہذیب کا منہ بولتا ثبوت ہے۔جو مسلم سائنسدانوں کا عظیم کارنامہ ہے اور آج بھی پورا یورپ ان کے علم سے فائدہ اٹھا رہاہے۔ کیمپ بل نے بہت اچھی بات کہی ”یورپین میڈیکل سسٹم بنیادی طورپر عربی ہے ۔عرب سائنسداں یورپین کے بہت قبل ذہین ترین لوگ رہے ہیں“۔

636ADمیں فارس کے شہر میں جندی شاپور میں مسلمانوں نے بڑ ی بڑی یونیورسٹی قائم کی تھی ۔جس میں اسپتال بھی شامل تھے۔بعد کے تمام اسلامی طبی کالج اسی بنیاد پر قائم کئے گئے ۔یہاں میڈیکل تعلیم نہایت اعلی درجہ کی اور سلسلہ وار تھی۔یہاں لیکچر اور تعلیم عملی طورپر ساتھ ساتھ دی جاتی ۔علی ابن العباس (494AD)کی یہ بات طالب علموں کے لئے آج بھی مشعل راہ ہے ۔انہوں نے میڈیکل طلبا سے کہا کہ انہیں مستقل طورپر اسپتال اور مریض گھروں میں جانا چاہئے ۔مریضوں کا خاص خیال رکھیں ۔ان کی کیفیت اور حالات کا جائزہ لیتے رہےں ۔مریضوں سے ان کے حالات دریافت کریں اور کیفیتوں کا علم حاصل کریں اور مقابلاتی جائزہ لیں کہ انہوں نے کیا سمجھا تھا اور حالات کیا ہیں۔رازی(841-926)نے طلباسے کہا کہ مریضوں کے کیفیت اور مرض جو انہوں نے پایا اس کے مابین فرق کا اندازہ لگائیں۔اس زمانہ میں رازی ۔ابن سینا(890-1037)اور ابن زہر(116AD)اسپتال کے نہ صرف ڈائریکٹر س تھے بلکہ میڈیکل کالج کے ڈین کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے۔مریضوں کی معالجاتی رپورٹ لکھی جاتی اور طلبا کو عملی تعلیم دی جاتی ،اس کے لئے رجسٹر مین ٹین کیا جاتا۔اس زمانہ میں صرف جندی میں بنیا دی سائنس کی تعلیم کے کئی جدا ادارے تھے۔بغداد میں لنگور کے جسم کی تشریح کے ذریعہ علم الابدان کی تعلیم دی جارہی تھی۔علقمی کے تجرباتی کتابوں کا مطالعہ جڑی بوٹیوں ان کے خواص کے لئے اور دواسازی کے لئے لازمی تھا۔بہت سارے اسپتالوں میں جڑی بوٹیوں کے لئے پودے اگانے کاانتظام تھا۔اس سے طلبا کو شناخت کرانا اور مریضوں کے لئے دواتیار کرنا مقصود تھا۔اس ابتدائی تعلیم کے بعد میڈیکل کے طلبا کو تجربوں کے لئے اسپتالوں میں لے جایا جاتا تھا۔یہ طلبا ایک نوجوان طبیب کے ساتھ ایک جماعت کی شکل میں اسپتال کے ابتدائی اصول و ضوابط سیکھتے اور کتابوں و لائبریری لیکچر اور دستاویزوں سے فیض حاصل کرتے ۔اس ابتدائی مرحلہ میں زیادہ تر تعلیم دواسازی ،اس کا متبادل اور ٹوکسی کولوجی کے متعلق کی جاتی تھی۔
طبی تربیت:

اس تعلیمی دور میں طلبا کو چھوٹے جماعتوں میں تقسیم کرکے نہایت تجربہ کار معالج اور طبیب کے ساتھ رکھا جاتا جہاں ان کے ساتھھ یہ وارڈ کا دورہ کرنا،مباحثہ ،تقریر اور جائزہ لینا سیکھتے ،انہیں تھیرا پیوٹکس اور پیتھولوجی کی تعلیم اس دوران دی جاتی ۔جیسے جیسے طلبا کے اندر تعلیمی صلاحیت میں اضا فہ ہوتاجاتا ہے،انہیں مرض کی تشخیص اور فیصلہ لینے کی اجازت دی جاتی ۔مرض کا مشاہدہ اور جسمانی جانچ پر زور دیا جاتا ۔مریض کی حالت ،فضلہ،درد کا مقام اور فطرت ،سوجن اور جسمانی ساخت ،جلد کی رنگت ،احساس ،سرد گرم،نم خشک جلد کی حالت ،تھلتھلا بدن ،زردسفید آنکھیں (یرقان)پشت کے بل جھک سکتا ہے یا نہیں (پھیپھڑوں کا مرض)ان باتوں پر بھی دھیان دیا جاتا۔وارڈ کی عملی تعلیم و تربیت کے بعد طلبا کو باہری مریضوں کو دیکھنے یعنی ان کے علاج کے لئے آﺅٹ وارڈ میں کردیاجاتا ۔یہ تشخیص کی رپورٹ اپنے معلم کو دیتے ۔بحث کے بعد دوا تجویز کی جاتی ۔مریض زیادہ خطرناک حالت میں ہوتا تو اسے داخل کرلیا جاتا ۔ہرایک مریض کا جدا ریکارڈ رکھا جاتا۔
تعلیمی نصاب :

ہر ایک میڈیکل اسکول میںنصاب تعلیم جدا جدا تھا۔مرض کی علالت پر اور اس کی شناخت پر زور دیا جاتا۔ابن سینا نے سب سے پہلے دماغی نخاع یعنی مین جائیٹیز کی شناخت کی ۔اس کے قبل اسے انفیکشن اور دماغی بیماری (نفسیاتی)سمجھا جاتا تھا۔ابن سینا نے اس بیماری کی علالت اور کیفیت اتنی وضاحت سے کی ہے کہ آج ہزار سال کزرنے کے بعد بھی اس میں کوئی رد وبدل نہیں ہوا ہے۔نصاب میں سرجری کو بھی شامل کیا گیا تھا۔طلبا تحصیل علم طب کے بعد کچھ ماہرین کے زیر نگرانی علم جراحی کا تجربہ حاصل کرتے ۔کچھ طلبا حفظان صحت کے امور میں مہارت حاصل کرتے ۔بہت سارے جراحی کے عمل جیسے ختنہ ،ویری کوس رگوں کی سرجری اور ہیمیر ی ہائڈ کا عمل سیکھتے ۔ارتھو پیڈکس کی تعلیم عام تھی۔ہڈی کے ٹوٹنے اور اس کے جوڑنے کے عمل کے لئے پلاسٹر آف پیرس کا استعمال شروع کردیا گیاتھا۔اس عمل کو 1852میں یورپ میں پھر سے عمل میں لایا گیا۔آنکھوں کے موتیا بند کا آپریشن عام تھا۔بچوں کی پیدائش کا معاملہ مڈ وائیوز کے حوالے تھا۔ابن سینا اور رازی نے سائیکوتھیراپی کی پریکٹس کی ۔طب کی تعلیم و تربیت کے بعد پریکٹس کرنے کے لئے لائسنس کی ضرورت لازمی تھی۔اس کے لئے ایک امتحان میں کامیاب ہونا لازمی تھا۔ایک سائنٹفک ایسوسی ایشن مسایہ فریقین اسپتال میں قائم کیا گیا تھا۔جہاں مریضوں کے بیماری اور حالات پر تبادلہ خیال ہوتا۔

931ADمیں ایک مریض کے انتقال ہونے کے بعد خلیفہ المقتدر نے اپنے خصوصی شاہی حکیم سفیان بن ثابت بن قرہ کو اس بات کے لئے تعینات کیا کہ وہ تمام معالجوں کا امتحان لیں اور مریضوں کو شفایاب کرنے کی صلاحیت کی جانچ کرکےے انہیںلائسنس دیں۔صرف بغداد میں حکمت کرنے والے 860حکیموں کی اسی کے بعد تمام اسپتالوں میں لائسنس تجویز کرنے والے ایک بورڈ کی تشکیل کی گئی ۔محتسب جو انسپیکٹر جنرل ہوتاتھا وہ اس کا سربراہ ہوتا۔یہ دوائیوں کے وزن اور ان کے معیار کی جانچ بھی کرتا (Drug Inspecto)فرماسسٹ انسپیکٹر مقرر کئے گئے۔جو آج کے امریکہ میں فوڈ ایند ڈرگ ایڈ منسٹریشن کا (FDA)کام ہے۔یہ اسلامی مملکت میں ہزار سال قبل کیا گیا تھا۔اسی طرح مغرب میں اسلامی حکومت کے ہزار سال کے بعد میڈیکل پریکٹس کرنے والوں کو لائسنس دینے کا نظم کیا گیا اور امریکہ میں امریکن بورڈ آف میڈیکل اسپیشل لیٹیز اسی نہج پر قائم کیا گیاہے۔جہاں میڈیسن ،سرجری ،ریڈیولوجی ،وغیر ہ کے ایپشیلیٹی کا طریقہ رائج ہے ۔اس کے باوجود یہ اسلامی طریقہ سے تحصیل کردہ ہے ۔آج بھی ابن سینا کی طب پر مستند کتاب ”قانون “کو پڑھے بغیر میڈیکل تعلیم مکمل نہیں۔
اسپتال :

اسلامی مملکت میں اسپتالوں نے کافی عروج حاصل کیا تھا۔یہاں مفت علاج کی سہولت تھی۔یہ حکومت کے زیر نگرانی چلاکرتے تھے ۔ان اسپتالوں میں مرد اور خواتین کے لئے وارڈ علیحدہ تھے۔ہرایک وارڈ میں خواتین نرس اور خدمتگا ر مر د عورت تیمار داری کے لئے موجود ہوتے تھے۔بخار ،زخمم ،انفیکشنن،مائنیا،آنکھ کی بیماریاں ،سردی سے ہونے والے امراض،ڈائریا،خواتین کی پیچیدہ ایامی بیماریاں و زچہ تمام وارڈ جدا جدا تھے۔صحتیاب ہورہے مریضوں کے لئے وارڈ بالکل جدا تھا۔مریضوں کو تازہ ہوا اور تازہ پانی مہیا کرایا گیاتھا۔ان اسپتالوں میں اسپتال کی دیکھ ریکھ کی تربیت میڈیکل طلبا کو وہاں رکھ کر (بورڈنگ کا نظام )کیاجاتا۔اسپتالوں میں کانفرنس ہال ہوتے ،قیمتی لائبریریاں ہوتیں جہا ں جدید ترین کتابیں موجود ہوتیں ۔حددرار کے مطابق تولم اسپتال جو قاہرہ میں 872 میں قائم کیاگیا تھا وہاں کی لائبریری میں ایک لاکھ کتابیں تھیں(آج سے ہزار سال قبل)یونیورسٹی اور اسپتالوں کی لائبریریاں بہت بڑی ہوتی تھیں ۔جیسے بغداد میں مستنصریہ یونیورسٹی کی لائبریری میں کتابوںکی 80ہزار جلد یں تھیں ۔کارڈوبا کی لائبریری میں چھ لاکھ کتابیں تھیں۔قاہرہ کی لائبریری میں دولاکھ کتابیں اور تریبولی کی لائبریری میں تین لاکھ کتابیں موجود تھیں۔اس کے علاوہ ہرایک حکیمم اور طبیب کے پاس نجی کتابوں کے بڑے ذخیرے موجود تھے۔یہ حالات اس زمانہ میںتھے جب چھا پہ خانہ نہیں تھے اور کتابیں نہایت کاوش محنت اور مشقت سے ہاتھوں سے تحریر کئے جاتے تھے۔

دنیا کی تاریخ میں اسپتالوں کے مریضوں کا ریکارڈ رکھنے کا طریقہ ان اسپتالوں نے رائج کیا ۔باہری اور داخلی مریضوں میں طریقہ علاج میں کوئی تفریق نہیںتھا۔تل تلونی اسپتال میں جن مریضوں کو بھر تی کیا جاتا اسپتال انہیںاپنا لباس مہیا کراتا اور وقت رخصت انہیں ان کا لباس اور قیمتی سامان پانچ سونے کی اضافی اشرفیون کے ساتھ دیتا۔تاکہ وہ کچھ دنو خود کفل رہ سکے ۔دمشق میںکوڑھ کے مریضوں کے لئے ایک شفاخانہ قائم تھا جب کہ اس کے چھ صدی بعد بھی یورپ میں کوڑھ کے مریضوں کو شاہی حکم پر زندہ جلادیا جاتا تھا۔تیونس کے قیروان کے اسپتال میں (830AD)ہرایک مرض کے وارڈ علیحدہ تھے۔انتطار گاہ اور نرس جو سوڈان سے تعلق رکھتی تھیں (عربی تاریخ کا یہ اول قدم ہے جس نے عورتوں کے بطور نرس باضابطہ طورپر اس پیشہ میں روشناس کرایا )ان اسپتالوں میں عبادت کے لئے بھی سہولتیں موجود تھیں۔بغداد کا العدودی اسپتال(981AD)بہترین آلہ جات اور نظم کے لئے مشہور تھا۔یہاں طلباکے رہائش اور انٹرنل شپ کاانتظام تھا۔۴۲معالج علاج معالجہ میںمشغول تھے۔عباسی خلافت کے ایک وزیرعلی ابن سینا نے سب سے پہلے قیدیوںکے علاج کے لئے حکیموںکو وزٹ کرنے کی تلقین کی۔اس دور تک یورپ جہالت کی تاریکی میں ڈوباہواتھا۔جب کہ بغداد ،قاہرہ اور کارڈوبا اعلی قسم کے اسپتال اعلی ترین طبی تعلیم اور طب کے میدان میںانتہائی وسعتوںپرتھا۔یہاں وہ کارنامے انجام دئے گئے جو آج ہزارسال کے بعدبھی انتہائی جدید ہیں۔ان اسپتالوں میںانسانی ہمدردی کا بول بالا تھا۔ذہنی دماغی مریضوںکاعلاج نہایت محبت اور ہمدردی سے کیا جاتا ۔مریضوںکے آرام کا ہر ممکن خیال رکھاجاتا۔

اسپتالوں کو بیمارستان کے نام سے دوحصوںمیں تقسیم کیاگیا۔ایک تو بڑی عمارتوں میںقائم تھا ۔دوسرا متحرک اسپتال سواری کو جانوروںکے ذریعہ کھینچا جاتا تھا جس کے ذریعہ دور دراز کے دیہی علاقوںکے مریضوں کا علاج کیا جاتا جو چلنے پھرنے سے معذور تھے یا شدید بیمار ۔اسی قسم کے متحرک اسپتال فوج میں استعمال کئے جاتے ۔اس میں خیمہ روزار ،الاجات نرس ،اردلی اور ڈاکٹرس کی پوری ٹیم ہوتی ۔یہ وبا پھیل جانے کی صورت میں اور دوردراز علاقوں میں علاج کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے۔
طب میں بیکٹیریا کی شناخت :

رازی نے بغداد میں اپنے قیام کے دوران بادشاہ کے حکم کے مطابق اسپتال کے لئے پرفضا مقام تلاش کرنے کے لئے سائنٹفک طریقہ اختیار کیا ۔انہوں نے گوشت کے بڑے بڑے ٹکرے شہر کے مختلف علاقوں میں ٹانگ دئےے۔دوتین دنوں کے بعد جس علاقہ کا گوشت سب سے کم خراب ہوا تھا اس علاقہ کو کم بیکٹیریا والا علاقہ قرار دے کر انہوں نے وہاں اسپتال قائم کئے۔ابن سینا نے سب سے پہلے بتایا کہ جسم سے نکلنے والی رطوبت زمین سے پیداہونے والی جراثیم سے متاثر ہوکر زہریلے مادے تیار کرتی ہےں۔ابن خطیمہ نے بتایا کہ انسان جراثیم سے ہروقت گھراہواہے اور یہ انسانی جسم میں داخل ہوکر انسان کو مریض بنادیتی ہیں۔۴۱ویں صدی کے وسط میں بلیک جسے کالی موت کے نام سے یاد کیا جاتاہے خدائی عتا ب کے طرح یورپ میں پھیلا ۔اس وقت میں ابن الخطیب (گراناڈا)نے جراثیم کے لئے کچھ مقامات کا تعین کیا اور کہا کہ اس کا ماخذاتحقیق و تفتیش و ثبوت و شواہد ہیں۔مریضوں کے جراثیم سے بیمار ہونے والے لو گ اس کا ثبوت ہیں۔جب کہ دور رہنے والے افراد محفوظ رہتے ہیں۔یہ جراثیم کپڑوں سے برتنوں سے اور ہوا سے منتقل ہوتے ہیں۔رازی نے چیچک کے متعلق سب سے پہلے تفصیل لکھی اور دو چیچک کا فرق و ان کا علاج تجویز کیا۔ابن سینا نے ٹی بی کے جراثیم کے منتقل ہونے کا نظریہ پیش کیا ۔انہوں نے سب سے پہلے زخموں کے علاج کے لئے شراب کا استعمال کیا ۔رازی نے زخموں کے لئے ریشمی ستور اور ہیمو اسٹیٹس کے لئے الکوحل کا استعمال کیا ۔اور اسے اینٹی ہیپٹک قرار دیا ۔
اینتھیسیا:

ابن سینا نے سب سے پہلے اینتھیسیا کو دوا کے طورپر استعمال کیا۔اور افیم کو طاقتور مخاضر (نشہ آور دوا)کے طورپر پیش کیا ۔اس سے کم طاقت کے نشہ کے لئے مینڈراگورا،پوستہ،ہیملوک،بھانگ،بیلا ڈونا،لیٹیوس سیڈ ،سرد پانی یا برف کا استعمال کیا جاتا ۔عرب طبیبوں نے سپوروفک اسپانچی کا استعمال سب سے پہلے کیا جو موجودہ اینتھیسیا کی ابتدائی شکل تھی۔اس پر ایرومیٹکس اور نارکوٹکس ڈال کر مریضوں کو سونگھایا جاتاتھا۔دراصل اس کا استعمال سرجری کی بڑھتی ہوئی قدروں کے تحت ترقی پذیر تھا۔اس زمانہ میں جب اسلامی ممالک سرجری کو ایک جدید ترین سائنس بتارہے تھے ،یورپ میں نشتر زنی کا کام حجام اور نیم حکیم کررہے تھے۔برٹن نے لکھا ہے کہ سرجری کے لئے اینتھیسیا کا استعمال مشرق میں صدیوں سے ہورہا تھا۔بہت بعد میں مغرب نے ایتھر اور کلوروفورم کا استعمال شروع کیا۔
سرجری :

رازی اول سائنس داں طبیب اور سرجنن ہے جس نے سرجری کے سیتور (وہ دھاگہ جسے جسم پر آپریشن کے بعد سلائی کی جاتی ہے)کی جگہ سیٹون اور تانت کا استعمال کیا ۔ابوالقاسم خلف بن عباس الزہراوی(930-1013AD)کو دنیا ئے اسلام کا اول موجد تسلیم کیا جاتا ہے جس نے 200سے زائد نشترزنی کے آلات ایجاد کئے ۔وہ خود بہت بڑے سرجن تھے ۔اپنی کتاب ’التصریف ‘میں میڈیکل کی تاریخ میں اول شخص کی حیثیت سے انہوں نے ہیموفیلیا کا تذکرہ کیا۔اسی کتا ب میں آلات جراحی کے استعمال کی وضاحت بھی کی ۔اس کتاب میں سرجری کے لئے علم الابدان (اناٹومی)کی تعلیم کو انہوں نے لازمی قرار دیا ۔ہمبرج سیلان خون کے لئے سب سے انہوں نے روئی کا استعما ل کیا جو ہڈی ٹوٹنے ،دانت نکالنے کے بعد اور پردہ¿ بکارت کے آپریشن یا زیادہ خون آنے کی صورت میں استعمال کیا گیا اور سب سے پہلی بار استعمال کیا گیا۔سرجری میں زہراوی نے گردہ کی پتھری نکالنے کے لئے پیشاب کے بلاڈر کے پاس آپریشن کرنے کی راہ دکھائی اور عورتوں کے لئے آپریشن کا مقا م لیتھو ٹومی کے پاس بتا یا ۔ویری کوس وینس کو بند کرنے کے لئے ان کی تفصیل آج بھی جدید تر سرجری معلوم ہوتی ہے۔ارتھو پیڈکس کے آپریشن کو انہوں نے رائج کیا۔ابن سینا کا کینسر کے لئے آپریشن کرنے کا اصول آج ہزار سال کے بعد بھی اتنا ہی اہم ہے ۔اسلامی سرجنوں نے تین طرح کی سرجری کو رائج کیا اور فروغ بھی دیا۔وسکولر ،جنرل اور ارتھوپیڈک۔پیٹ کا آپریشن عام تھا ۔آنکھوں کے تمام آپریشن کھلے عام با ٓسانی ہوتے تھے۔جگر کے پھوڑے کا علاج بنکچہ کے ذریعہ کیا جاتا تھا۔آج بھی سرجری کے آلات اور طریقہ کار وہی ہیں جو زہراوی نے ہزار سال پہلےے ایجاد کیا تھا۔دنیا کے اندر اس پرکم و بیش عمل ہورہاہے۔
دوائیاں،کیمیاسازی:

رازی و ہ اسلامی سائنسدان ہے جنہوں نے سب سے پہلے کئی مادہ کو ایک دوسرے سے جدا کیا اور ان کی تطہیر کی۔کئی کیمیاکو ایجاد کیا۔اس کے علاوہ تقطیر کیا اور کئی کیمیا کو بطوردوااستعمال کیا ۔پارہ کا بطور دوا بھی استعمال رازی ہی نے کیا اور پیشاب و مثانہ سے متعلق تمام بیماریوں کی دوائیں تجویز کی اور ان پر تحقیق کیا ۔ابن ظہر نے بہت ساری پیچیدہ بیماریوں کی تشخیص کی اور ان کا علاج تجویز کیا ۔اسی طرح الا شعث نے گیسٹرلی فیزیولوجی پر تحقیق کیا۔ابوشال المسیحی النفیس نے پلمونری سرکولیشن سے دنیا کو واقف کرایا۔
فارما کولوجی:

یوحنا بن مساویح (777-857AD)نے عالم اسلام میں سب سے پہلے عباسی خلیفہ کے زمانہ میںدوائیوں کے سائنٹفک استعمال اور سلسلہ وار استعمال کے متعلق تفصیل لکھی۔ان کے شاگر د حنین بن اسحاق العابدی نے اپنی کتاب المسائل حنین میں دوائیوں کی اثر انگیزی کی جانچ کا طریقہ بتایا۔خلیفہ المامون اور المحتشم کے زمانہ میں طب کی پریکٹس کے لئے امتحان پاس کرنا لازمی قرار پایا اور لائنسس کا استعمال شروع ہوا۔مرکبات مفرجات تقطیر تطہیر الکوحل سازی و ادویہ کی اعلی معیا ری ترکیبات رائج کی گئی ۔جس کے لئے موتی سونا مونگا عنبرمشک کاسیا املی آملہ مصبر لونگ ودیگر اشیاءکا استعمال بڑے پیمانہ پر کیا گیا۔ اس مقام پر فارماکولوجی کو ایک شعبہ کی حیثیت سے بڑے اور آزادانہ پیمانہ پر الگ قائم کیا جہاں جڑی بوٹیوں پر تحقیق کی جاتی ،ان کے خواص نکالے جاتے۔اور پینے کی دوائی تیار کی جاتی ۔گلاب کے عرق کشید کئے گئے۔سنترہ کے پھول سے رنگ او رلیموںو سنترہ کی خوشبو حاصل کی گئی۔
نفسیاتی علاج :

رازی اور ابن سینا نے سب سے پہلے ذہنی بیماریوں کے علاج کا سلسلہ شروع کیا ۔اس کے لئے جسمانی اور نفسیاتی حرکتوں کو رازی نے جسمانی نفسیاتی حرکتوں کی بنیاد پر علاج کا طریقہ نکالا ۔ اسی طرح سے گٹھیا ، لقوہ اور صدماتی فالج کا کامیاب نفسیاتی علاج کیا ۔رازی کے ہم عصر نجیب الدین محمد نے ذہنی بیماریوں کے کئی اقسام کی شناخت کی اور اس کی تفسیر لکھی انہوں نے ذہنی تناﺅ اور آکسیسس ، نےورو سس ، جنسی کمزوری جیسے امراض پر مکمل کتاب نفخئہ مالی خولیا اور قطریب ایک قسم کی مالی خولیا ہے اس تذکرہ بھی کیا ۔ساتھ میں دول قلب کی تفصیل بھی بیان کی ۔بن سینا نے جسمانی نفسیاتی امراض کو باہم ملاکر فروغ دیا ۔اور ان کی تشخیص جذباتی الجھن کے طور کی آٹھویں صدی میں مراقوکے فیص میں پاگل خانہ قائم کیا گیا عربوں نے بھی 750عیسوی میں قاہرہ ، دمشق اور ایلیپو میں پاگل خانے قائم کئے تھے ۔وہاں مریضوں کے لئے ہر طرح کی سہولیات فراہم کی گئی تھی ۔مریضوں کے ذہنی سکون کے لئے موسیقی کے ذریعہ علاج فراہم کیا جاتا تھا اس کے علاوہ ایکپوپیشنل تھیراپی کے لئے مریضوں کو گانا و موسیقی کے ذریعہ آرام پہنچایا جاتا نقالی مسخرہ پن اور ہسننی ہنسانے کے دوسرے پروگرام بھی پیش کئے جاتے ۔

ہزار سال قبل اسلامی اسپتال ان کی اعلیٰ معیار و اعلیٰ طریقہ کار وجود میں آچکے تھے ۔دوا سازی ، حکمت ،سرجری اور دیگر میدان میں نئی نئی ایجادات تحقیق و تفتیش کا کام عروج پر تھا ۔ بیماریوں کی تشخیص طریقہ علاج مرض ، وجوہات اس کے اسباب و عوامل پر غور فکر و تحقیق کے نتائج میں نئی نئی بیماریوں کا دریافت ہو چکا تھا ۔وائرس ، جراثیم ،اچھوت کی بیماریوں سے آگاہی ہو چکی تھی ۔سرجری اور نفسیاتی علاج کے وہ طریقہ اختیار کئے گئے تھے جنہوں نے بعد میں یوروپی ماہر نفسیات ، موجدوں ، سرجنوں اور معالجوں کی ہر قدم پر رہنمائی کی اور بنیاد کی صورت میں آج بھی ان کی افادیت برقرار ہے ۔