Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

یہ ایک نہایت ہی خوفناک متعدی مرض ہے۔یہ مائیکو بیکٹیریم ٹیوبر کلوسس نامی جرثومے سے پیدا ہوتا ہے۔یہ جراثیم جسم کے کسی بھی حصے پر کسی بھی عضو پر حملہ آور ہو سکتے ہیں لیکن پھیپڑے زیادہ تر اسکا نشانہ بنتے ہیں۔تپ دق کو ٹی بی،سل اور دق بھی کہتے ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کا کوئی بھی ملک اس بیماری سے محفوظ نہیں ہے اور یہ دنیا میں موت کا سب سے بڑا سبب ہے۔پاکستان میں تقریبا دو لاکھ سے زائد افراد ہر سال ٹی بی میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ غربت اور مرض کے بارے میں لاعلمی اور علاج سے لاپروائی ہے۔پاکستان میں اس مرض سے تقریبا   30,000 افراد ہر سال موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔جو شخص علاج نہیں کرواتا وہ زیادہ سے زیادہ دو سے تین سال زندہ رہ سکتا ہے مگر انتہائی کرب میں اور اسی دوران وہ شخص ١٥ سے ٢٠ افراد کو ٹی بھی کا مریض بنا دیتا ہے ماضی میں یہ مرض انتہائی مہلک سمجھا جاتا تھا کیونکہ علاج صحیح معنوں میں دستیاب نہیں تھا یا پھر لوگوں کی دسترس سے باہر تھا لیکن فی زمانہ ٹی بی قابل علاج مرض ہے۔سرکاری سطح پر ایلوپیتھی طریقہ علاج میں بھی اسکا مکمل علاج موجود ہے لیکن اس بات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ ٹی بی کا علاج بروقت کروایا جائے اور مکمل طور پر کروایا جائے۔
ٹی بی کیسے پھیلتی ہے؟
ٹی بی قدیم ترین بیماریوں میں سے ایک ہے۔یہ مرض مائیکوبیکٹیریم ٹیوبرکلوسس سے پھیلتا ہے۔ٹی بی زیادہ تر پھیپڑوں کو متاثر کرتی ہے۔لیکن یہ جسم کے تمام اعضا کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔مثلا ریڑھ کی ہڈی ،جوڑ اور دماغ وغیرہ۔پھیپھڑوں کی ٹی بی سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ٹی بی کا پھیلاو
ٹی بی کا مرض زیادہ تر ہوا کے ذریعے سے پھیلتا ہے۔جب ایک مریض کھانستا ہے۔بات چیت کرتا ہے تو ٹی بی کر جراثیم دوسروں کے منہ میں جاکر ٹی بھی کا مرض پیدا کرتے ہیں۔ایک شخص جو مریض سے زیادہ قریب ہے اسے مرض کے ہونے کا زیادہ خطرہ ہے۔ایک ہی جگہ زیادہ لوگوں کا رہنا اور صفائی کے ناقص انتظامات ٹی بی پھیلانے میں زیادہ مددگار ہوتے ہیں۔ٹی بی کی پہچان
ہلکا بخار اور رات کو ٹھنڈے پسینے کا آنا۔
کھانسی جو مسلسل آئے ،کبھی کبھی تھوک میں خون کا آنا۔
وزن میں کمی۔
بھوک میں کمی
سینے میں درد
دیگر تکالیف اگر کوئی دوسرا عضو مبتلا ہو تو۔

سب سے زیادہ خطرہ کسکو ہہے؟
وہ لوگ جو مریض کے قریبی رشتہ دار ہیں اور ان میں قوت مدافعت کم ہے۔وہ لوگ جو خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔وہ مریض جو علاج نہیں کرواتا ہے دوسروں کے لیے مصیبت بن سکتا ہے۔وہ لوگ جو ایڈز جیسی موذی بیماری میں مبتلا ہیں ،انہیں ٹی بی ہونے کے زیادہ موقع ہیں۔وہ لوگ جنکی شوگر بڑھی ہوئی ہو۔

مرض کی تشخیص کیسے کرتے ہیں؟

بلغم کا ٹیسٹ سب سے زیادہ معتبر سمجھا جاتا ہے۔
ڈاکٹر ایکسرے سے بھی مدد لے سکتا ہے۔
خون کے مختلف ٹیسٹ سے بھی تشخیص میں کافی مدد ملتی ہے۔

اگر ٹی بی کا علاج نہ کیا جائے تو؟

بغیر علاج کے مریض کی زیندگی چند سالوں کی رہ جاتی ہے۔ایک ایسا مریض جسکا علاج نہین ہوا ہوتا وہ دوسروں کے لیے مسلسل خطرہ ہوتا ہے کیونکہ ایک مریض جس کے بلغم میں جراثیم ہوتے ہیں ہر سال تقریبا ١٥ سے ٢٠ نئے مریض بنا دیتا ہے اسلیے ضروری ہے کہ ایسے مریضوں کا علاج کیا جائے۔

تمام ادویات کھانا کیوں ضروری ہے؟

اگر تمام ادویات بتائے ہوئے طریقے کے مطابق لی جایئں تو ٩٥٪ چانسس ہوتے ہیں کہ مریض ٹھیک ہو جائےگا۔جب ادویات شروع کی جاتی ہیں تو چند ہی ہفتوں میں مریض اپنے آپ کو بہتر محسوس کرنے لگتا ہے۔لیکن اسکا یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ وہ ٹھیک ہو گیا ہے کیونکہ چھپے ہوئے جراثیم اب بھی اسکے جسم میں ہوتے ہیں اور ادویات چھوڑنے کی صورت میں یہ دوبارہ بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔اسلیے ادویات کا باقاعدہ استعمال ضروری ہے جب تک ڈاکٹر کی ہدایت ہو۔

کیا ٹی بی کی ادویات کے مضر اثرات بھی ہوتے ہیں؟

متلی اور الٹی کا ہونا ایک عام سی بات ہے لیکن ادویات کے استعمال سے ہفتے دو ہفتے میں جسم عادی ہو جاتا ہے اور پھر یہ کیفیت ختم ہو جاتی ہے۔کبھی کبھار خارش اور جوڑوں میں درد کی شکایت بھی مریض کر سکتا ہے۔اسلیے کہ سکتے ہیں کہ ٹی بھی کی ادویات بلکل بے ضرر اور محفوظ ہیں۔

ایک مریض دوسروں کو کسطرح محفوظ رکھ سکتا ہے؟؟

جب مریض کھانسے یا چھینکے تو منہ کو کپڑے سے ڈھانپ لے۔
علاج کے پہلے دو سے چار ہفتے بچوں سے دور رہے۔
چند ہفتے کام یا پڑھائی کے لیے نا جایئں۔
کمرے کو ہوادار رکھیں۔
کمرے میں روشنی کا مناسب انتظام ہو۔
اپنے بچوں کو پیدائش کے پہلے ہفتے میں بی سی جی کا ٹیکہ لگوایئں۔
ادویات کا کورس مکمل کریں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا طریقہ کار ہے کہ مریض ٹی بی کی ادویات کسی کی زیر نگرانی کھائے۔ٹی بی سے اسی وقت محفوظ رہا جا سکتا ہے جب تمام مریض ادویات کا مکمل کورس کریں۔ جیسے ہی علامات ظاہر ہوں بغیر ڈرے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔علاج کے دوران ادویات نہ چھوڑی جایئں۔ٹی بی کے مریض کی خوراک کا خاص خیال رکھا جائے۔

 

Leave a Reply