Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

جنسی مسائل اور الجھی ازدواجی زندگی

 

جنسی مسائل اور الجھی ازدواجی زندگی

(صرف مردوں کے لیے)

زندگی کی ساری راحتیں اور مسرتیں صحت وتندرستی کے ساتھ ہیں، صحت نہیں تو نہ کھانے پینے کا کوئی مزہ نہ سیر و تفر یح کا کوئی لطف، نہ عزیزوں اور دوستوں کی انجمن آرائی سے کوئی خوشی اور نہ بیوی بچوں کے درمیان کوئی راحت، زندگی اپنی ساری آسائشوں کے باوجود دردِمجسم بن کررہ جاتی ہے، کون ہے جو جانتے بوجھتے زندگی بھر کے اس عذاب کو مول لینے کے لیے تیارہو۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں صحیح معنوں میں صحت مند وتندرست لوگوں کاتناسب بہت حقیر ہے، ہر طرف زردچہرے پچکے گال اور نحیف ولاغر جسم، زندہ لاشوں کی صورت میں چلتے پھرتے نظرآتے ہیں، سکون ومسرت کی دولت سے محرومی نے ہر ایک کوزندگی سے بیزار کررکھاہے، خصوصیت کے ساتھ عورتوں میں تو سومیں ایک بھی ایسی نہیں ملتی جو یہ دعویٰ کرسکے کہ وہ کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا نہیں ہے
یہ ایک عظیم قومی مسئلہ ہے لیکن ہمارے یہاں شاید سب سے کم توجہ اگر کسی چیز کی طرف دی گئی ہے تو وہ یہی مسئلہ ہے اور اس کا نتیجہ نہایت خطرناک شکل میں اب ہمارے سامنے آرہاہے۔ گھریلو زندگی کا امن وسکون غارت ہوگیا ہے، آمدنی کا ایک کثیر حصہ ڈاکٹروں حکیموں کی نذر ہوجاتاہے، گھروں میں عورتوں کی بیماری سے گھر کاشیرازہ درہم برہم ہوتاہے، بچوں کی دیکھ بھال اورتربیت کی طرف توجہ نہیں دی جاسکتی اور اولاد ماں کے پیٹ سے ہی طرح طرح کے امراض ساتھ لے کر پیدا ہوتی ہے، مردوں کی بیماری گھر کواقتصادی تباہی میں مبتلا کرتی ہے، بچوں کا مستقبل تاریک ہوجاتاہے اور بحیثیت مجموعی قومی تعمیر وترقی کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے، اس مسئلہ کا مفصل اور ہر جہتی جائزہ لینا تو اُن لوگوں کا کام ہے، جوانسانی جسم کی مشینری کی تمام جزئیات پر گہری نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے بعض پہلو ایسے بھی ہیں جن پر روزمرہ کے مشاہدات وتجربات کی روشنی میں ہم جیسے عامی بھی کچھ نہ کچھ رائے قائم کرتے اور اظہار خیال کرسکتے ہیں میرا مشاہدہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں بہت سے روگ محض اس لیے جانوں کو چٹ کر جاتے ہیں کہ لوگ اپنی خوراک اوراپنی جنسی زندگی کے بارے میں بعض نہایت بنیادی معلومات وحقائق سے ناآشنا اور بے بہرہ رہتے ہیں اور لاعلمی وجہالت کے سبب ایسی اعتدالیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ کہ اُن کی جسمانی مشینری کے سارے کل پُرزے ڈھیلے ہوجاتے ہیں، اور وہ اپنی عمر سے بہت بوڑھے ہوکر ناکارہ ہوجاتے ہیں، عورتیں گھریلو مُسرت سے حقیقتاً کبھی آشناہی نہیں ہوپاتیں کیونکہ ازدواجی زندگی میں قدم رکھنے سے پہلے ہی وہ طرح طرح کے عوارض میں مبتلا ہوتی ہیں جن کی والدین کوخبر بھی نہیں ہونے پاتی اور شادی کے بعد پتہ چلتاہے کہ جس کو صحت مند تصورکیاجاتاتھا اس کی جان کو کیسے کیسے مہلک اورپرانے روگ لگے ہوئے تھے۔لیکن یہ صورت حالات ہمیشہ سے یوں ہی نہیں ہے بلکہ اب سے صرف پچاس ساٹھ سال پہلے حالات بالکل مختلف تھے اس وقت نہ لوگوں کی صحت کا ایسا تباہ حال تھا اور نہ ہر ایک اپنی جان سے بیزار نظر آتاتھا، اس وقت خاندانی نظام کی گرفت مضبوط اوربزرگوں کی رہنمائی اور ان کے تجربہ سے فائدہ اٹھانے کی ساری سہولتیں موجود تھیں۔ خاندانی روایات کا پاس واحترام اور حفظ مراتب کالحاظ کیاجاتاتھا، گھر کے بڑے بوڑھے اپنی عمر بھر کے تجربات بلکہ پشت ہاپشت سے سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی نصیحتوں اورہدایات کی روشنی میں گھر کے نظام کو چلاتے تھے اور یہ نظام زندگی کے سارے معاملات پر اس طرح محیط اور حاوی ہوتاتھا کہ گھر کے افراد کے صبح سے شام تک کے ساتھ معمولات ایک قاعدے اور ضابطے کے پابند ہوجاتے تھے۔ اس ضابطہ بندی میں جسمانی ذہنی اور اخلاقی صحت کے سارے بنیادی اصول اور اس سلسلے کی ضروری احتیاطیں اس طرح سمودی جاتی تھیں کہ کسی خارجی امداد کی احتیاج ہی باقی نہ رہتی تھی انقلابات زمانہ کے طفیل آج نہ تو خاندانی نظام کی شیرازہ بندی باقی رہی اور نہ وہ بزرگ ہی رہے جو زندگی کی پر پیچ راہوں میں انتہائی شفقت ورحمت کے ساتھ ہماری رہنمائی اور ہمارے معمولات زندگی کی ضابطہ بندی کرتے تھے، نئی پود کو سرے سے گھر کی درس گاہ ہی نصیب نہیں ہوتی، مرد سارادن معاش کے کولھو میں بیلوں کی طرح جتے رہتے ہیں اور رات کو جب تھکے ماندے گھر آتے ہیں تو انہیں اپنی سُدھ بُدھ نہیں رہتی، عورتیں الگ بیماری اوربچوں کی ریں ریں میں گھر سے بیزار اور موت کی طلبگار رہتی ہیں، ایسے میں کسی کو بچوں کی طرف نہ توجہ کا موقع نصیب ہوتاہے نہ ذہن اس لائق رہتے ہیں، والدین کی اپنی زندگی کسی ضابطہ کی پابند نہیں رہتی تو بچوں کی زندگی میں باقاعدگی کیوں کر پیدا ہو جو جی چاہتا ہے اور جب جی چاہتاہے، کھاتے اور مناسب نگرانی ورہنمائی نہ ہونے کے سبب اُن کی نہ صرف جسمانی صحت تباہ برباد ہوتی ہے بلکہ ذہنی وجنسی صحت بھی بے اعتدالی کی نذر ہوجاتی ہے، اور موقع پرست نیم حکیم اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر ایسے لوگوں کوخوب خوب بیوقوف بناتے اوران کی رہی سہی صحت کو بھی تباہ کرڈالتے ہیں
یہ ہے وہ صورت حال جو یہ تقاضہ کرتی ہے کہ ہمارے ارباب فکروفن اس طرف توجہ دیں اور اس خلاءکوپُر کریں جوخاندانی نظام میں انتشار اور بڑے بوڑھوں کے تجربہ ورہنمائی سے محرومی کی وجہ سے پیدا ہو رہاہے
اس سلسلے میں ہماری سب سے بڑی کمزوری جنسی مسائل ومعاملات ہیں، ایک طرف اخلاقی حدود اوراحترام اورشرم وحیا کی بچی کچھی روایات کااثر یہ ہے کہ ہم دنیا زمانے کے ہرمسئلے پرزبان کھول سکتے ہیں اور قلم اٹھاسکتے ہیں، لیکن یہ موضوع ایسا شجر ممنوع ہے کہ اُس کی طرف ادنیٰ سا اشارہ بھی طبائع لطیف پرگراں گزرتاہے، اُدھر اسی تصویر کا دوسرارُخ یہ ہے کہ سینما فحش لڑیچر اور روز افزوں عُریانی جذبات جنسی میں بے پناہ اشتعال پیدا کرکے ناقابلِ تصور بے اعتدالیوں اور برائیوں کا دروازہ کھول چکی ہے اورانجان وناتر اشیدہ نئی پودنتائج وعواقب سے بے خبربڑی تیزی کے ساتھ تباہی کے غار کی طرف پیش قدمی کررہی ہے
اب ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو ہم بے جاقسم کی شرم میں پڑے رہیں اورزندگی کے اس ہم پہلو کو راز سربستہ ہی رکھنے پر مصررہیں تاکہ ہم خود بھی اس کارگہ حیات میں ایک رازبن کرتاریخ کے اوراق میں مستور ہوجائیں اوریایہ ہم حالات کے چیلنج کوپورے عزم واعتماد کے ساتھ قبول کریں اور نئی نسل کی اس طرح ذہنی تربیت کریں کہ جنس اس کے لیے راز سربستہ نہ ہو بلکہ زندگی میں بھی وہ اپنے بُرے اور بھلے میں امتیاز کرنے کے قابل ہوجائے اور اُسے یہ معلوم ہو کہ اُسے کن چیزوں کوقبول واختیار کرناچاہیے اور کن چیزوں میں احتیاط واجتناب کی روشنی اختیار کرنی چاہیے، ہوسکتاہے کہ بعض لوگ اور احباب کویہ بُری انوکھی سی بات معلوم ہولیکن میرے نزدیک جب قرآن مجید میں انسان کی جنسی زندگی کے بارے میں ضروری پہلو کاذکر آسکتاہے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان فیض ترجمان نے ان مسائل کی عقدہ کشائی میں کسی بے جاتکلف سے کام نہیں لیا تو ہمارے لیے کیا اس معاملے میں اُن کااسوہ،مشعل راہ نہیں ہوسکتا، اخلاقی ضوابط کاپورا احترام ہوناچاہیے، حیااورشرم کوکماحقہ، ملحوظ رکھا جا نا چاہیے، لیکن ان معاملات میں ہمیں اپنے لیے من گھڑت قاعدے اورضابطے بنانے صحیح نہیں اور ان مسائل پرہمارے اہل علم وفن قرآن وحدیث کے اسلوب بیان کا ابتاع کرتے ہوئے نئی پود کی تعلیم وتربیت کابڑا کام کرسکتے ہیں، یقیناً یہ کام بڑا مشکل ہے اور شاید اسی وجہ سے آج تک اس سے اجتناب وپرہیز بھی کیاگیا ہے لیکن اب وہ مرحلہ آگیا ہے کہ وقت کے چلینج کوقبول کرنا ہی پڑے گا۔ اوران مسائل کو بھی موضوع فکر ونظر بنانا ہی ہوگا

دوا خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

 

ازدواجی طاقتوں کے مشورے

ازدواجی طاقتوں کے مشورے
تحریر حکیم محمد عرفان

جو خوراک ہم روزمرہ میں کھاتے ہیں وہی معدہ میں کیمیائی طریقہ سے تحلیل ہو کر صاف وصالح خون پیدا کرتی ہے۔ اسی خون سے وہ جوہر پیدا ہوتا ہے۔ جو زندگی کی بنیاد اور جوانی کی لذتوں کا خزانہ تصور کیا جاتا ہے۔ اگر یہ خوراک ایسی ہوگی کہ اس سے تازہ خون کثیر مقدار میں نہ پیدا ہو سکے تو اس سے یقینی طور پر قوت مردمی کو نقصان پہنچے گا لیکن اگر یہی خوراک اپنے اندر ایسے اجزاءرکھتی ہو جن سے صاف اور تازہ خون باافراط پیدا ہو تو قوت مردمی کو اس سے نفع پہنچنا ایسا ہی یقینی ہے جیسا کہ سورج کی شعاعوں کے دنیا میں ادھر ادھر بکھرنے سے اجالے کا ہو جانا۔ جو غذائیں دل ودماغ، جگر اور معدہ کو تقویت دیتی ہیں وہ قوت باہ میں اضافہ کرتی ہیں اور اس کے برخلاف جو غذائیں اعضائے رئیسہ کو کمزور کرتی ہیں وہ قوت مردمی کو تباہ وبرباد کر دیتی ہیں۔

قابض غذائیں
وہ غذائیں قوت مردمی کے لئے از حد نقصان دہ ہیں۔ جو قبض پیدا کریں۔ قبض سے معدہ کا فعل تباہ وبرباد ہو جاتا ہے۔ قبض کی وجہ سے معدے کے بخارات دماغ کو چڑھتے ہیں تو اس سے وہ احساس شہوت مضمحل ہو جاتا ہے۔ جس سے باہ میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔ اس کے متعلق کوئی اصول مقرر نہیں کیا جا سکتا کہ فلاں غذا یقینا قابض ہے اور فلاں نہیں۔ مختلف انسانوں کے مزاج اور قوت ہاضمہ کی قوتیں مختلف ہیں۔ جو چیزیں طبی اصول کے مطابق قابض شمار کی جاتی ہیں، تجربہ ثابت کرتا ہے کہ بعض لوگوں پر ان کا کوئی قابض اثر نہیں ہوتا پھر ان تمام چیزوں کی تشریح کے لئے ان صفحات میں کوئی گنجائش بھی نہیں ہے جو طبی طور پر قبض پیدا کرنے کی ذمہ دار ٹھہرائی گئی ہیں۔ اس لئے مختصر طور پر اتنا ذہن نشین کر لیجئے کہ کوئی غذا بھی جو کسی انسان کے لئے قابض ثابت ہوتی ہے۔ وہ قابل ترک ہے خواہ وہ کتنے ہی مقوی اثرات کی حامل بتائی جاتی ہو۔ طبی طور پر چنا اور ارد بہترین مقوی باہ دالیں ہیں۔ لیکن جن لوگوں کو یہ قبض میں مبتلا کر دیتی ہوں۔ ان کو یہ باوجودمقوی باہ ہونے کے بھی سخت نقصان پہنچائیں گی۔ اس لئے ان کے مقوی باہ فوائد کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی قوت کو برقرار رکھنے کے شائقین کو ان سے نسبتاً کمزور دالیں کھا لینا زیادہ بہتر ہو گا۔

گرم مصالحہ جات
آج کل ہر خواص وعوام کا رجحان طبع چٹپٹی اور مصالحہ دار چیزوں کی طرف بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ اس لئے یہ واضح کر دینا نہایت ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ بعض تیز اور مصالحہ دار چیزیں محرک باہ ہوتی ہیں لیکن اصولی طور پر ہر ایک تیز محرک باہ چیز قوت باہ کو نقصان پہنچاتی ہے۔اس اصول کے ماتحت یہ احتیاط رکھنی چاہئے کہ حتی الوسع بہت زیادہ مصالحہ دار اور چٹپٹی چیزوں سے احترازکیا جائے لیکن جہاں باہ کو تحریک دینے کی ضرورت ہو اور کوئی سخت گرم دوانہ کھلائی جا رہی ہو۔ مریض کا مزاج بادی ہو یا بلغمی ہو وہاں گرم مصالحہ نہایت مفید ثابت ہو گا۔

زیرہ باہ کو کمزور کرتا ہے
زیرہ سیاہ وسفید اگرچہ قوت ہاضمہ کے لئے نہایت مفید ہیں لیکن اسکا زیادہ استعمال باہ کےلئے نقصان دہ ہے۔ قوی الباہ شخص اگر زیرہ کو دو تین تولہ کی مقدار میں روزانہ صبح گھوٹ کر پیئے تو دو تین ہفتوں کے بعد ہی کمزوری محسوس کریگالیکن اسکا اثر طبیعت کے مطابق ہوتا ہے۔

دھنیاکا زیادہ استعمال نقصان دہ
خشک دھنیا گرم مصالحہ کا ایک بہت بڑا جزو ہے۔ سبز دھنیا بھی چھونک وغیرہ لگانے کے لئے بہت کثرت سے استعمال میں لایا جاتا ہے لیکن بہت کم لوگ اس راز سے واقف ہیں کہ دھنیا باہ کے لئے از حد مضر ہے۔ سبز دھنیا خشک دھنیے سے بھی زیادہ غیر مفید ہے۔ اگر سبز یا خشک دھنیا ایک یا دو تولہ کی مقدار میں گھوٹ کر پلایا جائے تو اچھے خاصے قوی پیکر مرد کو دو تین ہفتوں میں نامرد بنا دیتا ہے۔

گرم مصالحہ کے اجزا
گرم مصالحہ میں دار چینی، سونٹھ، تیزپات اور بڑی الائچی بہت مفید اجزاہیں۔ دار چینی دماغ کے لئے نہایت اکسیری فوائد رکھتی ہے اور باہ کو ہیجان میں لاتی ہے۔ سونٹھ بھی مرکز تناسل میں تحریک پیدا کرنے کے لئے بے نظیر چیز ہے۔ تیز پات اور بڑی الائچی بھی مقوی باہ اثر رکھتی ہیں۔ ان چیزوں کے دیگر فوائد دانستہ نظر انداز کر دیئے گئے ہیں۔ بعض لوگ گرم مصالحہ میں لونگ بھی شامل کرتے ہیں۔ کوئی شبہ نہیں کہ لونگ ایک مفید جزو ہے لیکن دار چینی، سونٹھ وغیرہ کے ہوتے ہوئے اس بات کی ضرورت نہیں کہ لونگ گرم مصالحہ میں شامل کر کے اس کی تاثیر کو اور بھی زیادہ گرم اور ایک حد تک مضر بنا دیا جائے۔ لونگ کے ایک دو دانے بھی صبح وشام استعمال کرنا گرمی پیدا کر سکتے ہیں لہٰذا میری رائے میں لونگ گرم مصالحہ میں کبھی استعمال نہ کیا جائے۔

لہسن اور پیاز
ہندوؤں کے معزز اور قدیم روش کے پابند گھرانوں میں لہسن اور پیاز کو سخت قابل نفرت سمجھا جاتا ہے۔ یوپی کے بعض برہمن، کھشتری اور بنئے تو ان کے نام سے بھی گھبراتے ہیں بعض گھرانوں میں پیاز استعمال ہوتا ہے لیکن لہسن کو تو چھونا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر یہ ایک سخت غلط فہمی اور طبی اصولوں سے ناواقفیت کا ایک افسوسناک مظاہرہ ہے۔ ہندوئوں کے رشیوں اور منیوں کے بنائے ہوئے آیورویدک گرنتھوں میں لہسن کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لہسن اور پیاز دونوں چیزیں ازحد محرک اور مقوی باہ ہیں۔ کچا پیاز کھانا شائد باہ کے لئے زیادہ مفید ہو لیکن اس کا چھونک لگانا صحت بخش بھی ہے۔ کچے پیاز میں چند ایک تیزابی مادے ایسے ہوتے ہیں جو مضر صحت ہوتے ہیں لیکن پکانے سے ان کی پورے طور پر اصلاح ہوجاتی ہے۔ پیاز کے صحت بخش اور مقوی باہ اثرات زمانہ قدیم سے تسلیم ہوتے چلے آئے ہیں۔ مصر قدیم تہذیب کا گہوارہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے اہرام بناتے وقت کارکن کثیر مقدار میں پیاز استعمال کرتے تھے اور اسے جسمانی قوت اور صحت کے لئے نہایت مفید مانتے تھے۔ لہسن پیاز سے بھی زیادہ مقوی باہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے مقوی باہ اثرات نہایت ہی نمایاں اور قابل محسوس ہیں۔ اگر سالم نخود کی دال کو موسم سرما میں چھ ماشہ سے ایک تولہ تک لہسن کا چھونک لگا کر کوئی بلغمی مزاج کا شخص دو تین ہفتے لگاتار استعمال کرتا رہے تو باہ کو اس قدر غیر معمولی تقویت حاصل ہوتی ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ آیورویدک فن طب میں ایسے بیسیوں مقوی باہ نسخے درج ہیں۔ جن کا جزو اعظم لہسن ہے۔ لہسن پٹھوں کو از حد قوت دیتا ہے۔ بادی اور بلغمی امراض کا قلع قمع کرتا ہے۔ اس کے اس قدر فوائد ہیں کہ اگر ان کا تفصیل سے بیان کیا جائے تو کئی صفحے درکار ہیں۔ اس لئے صرف اسی قدر لکھنے پر اکتفا کیا جاتا ہے کہ لہسن اور پیاز کے استعمال کرنے سے منہ سے ناگوار سی بو آتی ہے مگر اس کا علاج نہایت آسان ہے۔ تھوڑا سا قند سیاہ (گڑ) سونف یا ایک الائچی منہ میں رکھ لینے سے بدبو رفع ہو جاتی ہے۔
صبح جلدی اٹھیں اور آج کے دن کیلئے اپنا مقصد سوچیں۔ آپ کی سوچ کچھ اس طرح ہونی چاہئے۔ ”آج میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اپنے چال چلن کا خود مالک ہوں گا۔ آج میں اپنا کام کسی کو کہے بغیر خود کرنے کی کوشش کرونگا۔ اپنا کام اس طریقے سے انجام دونگا کہ کسی کو مجھ پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔

دوا خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal