Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

کھانسی اور چھینک کی بے احتیاطی سے امراض

کھانسی اور چھینک کی بے احتیاطی سے امراض

ڈاکٹر اور اطباء نہ صرف ناک کی صفائی پر زور دیتے ہیں بلکہ اس کی صفائی کے طور طریق میں بھی احتیاط اور سلیقہ کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ اس لئے کہ بے موقع اور بے جا، جا بجا تھوکنا اور ناک صاف کرنا نہ صرف ایک گھناؤنا منظر پیش کرتا ہے جو اناڑی پن کا ثبوت ہے۔ بلکہ نہایت خطرناک نتائج کا حامل ہونے کی وجہ سے ایسی بے احتیاطی سے کھانسنے چھینکنے اور ناک صاف کرنے سے جو باریک باریک ذرات و قطرات اور مواد یکلخت نکل پڑتے ہیں وہ دوسرے تندرست انسانوں تک مختلف امراض کے پھیلانے کا سبب بن جاتے ہیں اس کو سائنس کی زبان میںOrop Let Infection کہا جاتا ہے۔

چنانچہ ڈاکٹر سیل نے سوشل میڈیسن صفحہ 160 میں اس حقیقت کو دہرایا ہے کہ Orop Let Infection  سے بچنے کیلئے چھینک اور جمائی کے وقت رومال اور دستی وغیرہ کا استعمال کریں اور بے اضتیاطی کے خطرناک نتائج کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ جذام کے مریضوں کی ناک کی رطوبت میں جذام کے جراثیم خارج ہوتے رہتے ہیں جس کو ناروے کے سائنس دان منشن نے 1984ء میں دریافت کیا۔پوسٹ گریجویٹ ایجوکیشن اینڈ ریسرچ نے تحقیق کیا ہے کہ نہ صرف کھٹمل اور جوئیں بلکہ مچھر بھی جذام کو پھیلانے کا سبب بنتے ہیں اور ایک تحقیق کے مطابق کھانسنے اور چھینکنے سے یہ موذی مرض فروغ پاتا ہے۔

الیکٹرونک مائیکرو اسکوپ (برقی فوٹو گرافی) کے ذریعہ چھینک کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوا کہ ایک سلنڈر میں گیارہ لاکھ ذرات ہوا میں خارج ہوتے ہیں۔ محققین نے معلوم کیا کہ ان ذرات میں 19000 جراثیمی نو آبادیت قائم ہو سکنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور اس کے ذرات 13 تا 30 فٹ فاصلے تک پھیلتے ہیں اور نصف گھنٹہ تک فضاء میں تیرتے رہتے ہیں۔

اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام نے چھینکنے کے بعد الحمدللہ کا حکم دیا ہے تا کہ ہم کسی وہم یا غلط خیالات میں نہ پڑیں بلکہ ہر حال میں اپنے خالق اور مالک کا شکریہ ادا کریں کہ اس نے ہمیں معمولی چھینک کے ذریعہ لاکھوں جراثیم سے اور آنے والی پریشانیوں اور بیماریوں سے محفوظ فرما دیا۔

چھینک کے خطرہ سے بچنے کا طریقہ

ڈاکٹر ارون روس امریکہ اپنے ایک مقالہ میں لکھتا ہے رضا کارانہ طور پر چھینک کے رخ پر قابو رکھنے کو چھینک سے متعلق کوشش کرنا چاہئیے تاکہ امراض کے خلاف جنگ میں اہم مناسب ہتھیار کا کام دے سکے۔ (ماخوذ از ہیرالڈآف ہیلتھ 1981ء )

تقابلی مطالعہ

حیرت ہے کہ چھینک کے ان گنت خطرات سے موثر طور پر بچنے کی اسلام نے جو ہدایات دی ہیں وہ آج بھی آسان و اعلٰی مکمل اور بے حد موثر ہیں اور ان خطرات سے بچنے کیلئے اور چارہ کار ہی نہیں ہے۔

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے چھینک کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا جس وقت تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم چھینکتے تو اپنے چہرہ انور کو ہاتھ یا کپڑے سے ڈھانک لیتے اور اپنی آواز کو پست فرما لیتے۔

آپ خود غور فرمائیں کہ ایسے زمانہ میں جب کہ دنیا تہذیب و تمدن سے بالکل نا آشنا تھی بلکہ جاہلیت کے اندھیروں میں غرق تھی ایسی سائینٹیفک سادہ و فطری اور صحت کے بنیادی اصولوں پر مکمل تعلیمات ایک زبردست اور غیر فانی معجزہ سے کم نہیں تو اور کیا ہے۔

احکام کا موازنہ

مندرجہ بالا ریسرچ مقالہ میں ڈاکٹر ارون روس (امریکہ) چھینک کے وقت سمت کی اہمیت دیتا ہے تاکہ اس طرح چھینک سے تعدیہ امراض کا انسداد عمل میں آ سکے لیکن تاجدار مدینہ رحمت دو عالم طبیب اعظم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اس سے کہیں بہتر فوری عمل موثر اور فطرتاً آسان اور باگزیر سائینٹیفک حسب ذیل نمونہ پیش کر دیا ہے کہ۔

 منہ کو ہاتھ یا کپڑے سے ڈھانک دیا جائے۔

2۔ آواز جو بھی دبا کر پست کیا جائے جس سے چھینکنے والے کے منہ سے ذرات بہت ہی کم خارج ہوں گے اور جو کچھ بھی خارج ہوں گے وہ کپڑے یا ہاتھ تک محصور ہو کر رہ جائیں گے اور فضا میں پھیل کر امراض کے پھیلنے کا سبب نہیں بنیں گے۔

۔ آواز کو پست کرنے سے آواز اوطار الصوت LRRYNX بھی کم متاثر ہوں گے اور آواز پر اثر نہیں پڑے گا

چہل قدمی کی اہمیت

تاجدار انبیاء کی مبارک تعلیمات میں آرام طلبی کو کبھی دخل نہیں رہا

ذات گرامی باوجود سینکڑوں جانثاروں کے اپنا کام خود اپنے دست مبارک سے انجام دیتے دودھ دہو لیتے، کپڑا سی لیتے، خادم کے ساتھ آٹا پیس لیتے، بازار سے سودا خود لا دیتے، صحابہ کی عیادت فرماتے، جنازوں میں شرکت فرماتے۔تاجدار مدینہ کی رفتار مبارک کے بارے میں آتا ہے۔ آپ سے زیادہ تیز رفتار میں کوئی نہیں دیکھا۔ (شمائل ترمذی ص 88 )

ہمت اور قوت سے پاؤں اٹھاتے، عورتوں کی طرح پاؤں زمین پر گھسیٹ کر نہیں چلتے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا اونچائی سے اتر رہے ہیں۔

سست رفتاری میں نہ جسم میں دوران خون تیز ہوتا ہے نہ چستی پیدا ہوتی ہے بلکہ بیماروں کی رفتار ہوگی یا شاہانہ نوابی چال۔

آج کے دور میں ہم بہت زیادہ آرام طلبی کا شکار نظر آتے ہیں بلکہ چند گز کے فاصلے پر جانے کیلئے بھی سواری اختیار کرتے ہیں۔ اس لئے آج اکثریت پیٹ کے امراض میں مبتلا ہو چکی ہے۔ ہر وقت ملائم گدوں پر بیٹھے رہنا یا ائیرکنڈیشنڈ کمروں میں آرام کرنا صحت کیلئے انتہائی نقصان دہ ہے۔ قیمتی اور عُمدہ چیزیں خواہ کتنی ہی کھائی جائیں مگر وہ ہضم نہ ہوں تو سب بیکار ہیں بلکہ الٹا طبیعت پر بوجھ ہو جاتی ہیں۔ یہ آرام طلبی اور کاہلی کی وجہ سے ہے۔

نظام دوران خون کو درست رکھنے کا راز چلنے پھرنے میں مضمر ہے۔ چلنے پھرنے سے ہمارے زیریں جسم کی پرورش ہوتی ہے اور قلب کو اپنے قدرتی وظائف انجام دینے میں مدد ملتی ہے اور اگر اس حصہ (زیریں) کے اعصاب کام نہ کریں تو خون ہمارے پیروں اور پیٹ میں جمع ہونے لگتا ہے اور دل کو ان حصوں سے خون کو نکالنے کیلئے معمول سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور اس طرح صورتحال بد سے بدتر ہوتی چلی جاتی ہے۔

انسان کے جسم کی بناوٹ کچھ ایسی ہی ہے کہ اسے ہر وقت اس دوسرے دل (اعصابی امداد) کی ضرورت پڑتی ہے۔

بہت سی تحقیقات کے بعد سائنس دان اور ماہرین طب اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ قلب کے مریضوں کیلئے چلنا پھرنا نہایت ضروری ہے۔ زیریں اعصاب کے حرکت میں آنے سے قلب کا بار بڑی حد تک کم ہو جاتا ہے۔ چہل قدمی سے دوران خون پر اچھا اثر پڑتا ہے اور دل کو اس سے متعلق تکلیف نہیں ہوتی۔

چہل قدمی سے ان مریضوں کو بھی فائدہ ہوتا ہے جن کی نبض معمول سے زیادہ چلتی ہے اور جنہیں فشار خون یا ہائی بلڈ پریشر کی شکایت ہے۔ یہ خیال غلط ہے کہ صرف تیز تیز چلنے سے ورزش ہوتی ہے اور فائدہ ہوتا ہے۔ کھڑے رہنے اور راستہ چلنے سے بھی فائدہ ہوتا ہے جیسے نماز میں ہلکی ورزش بار بار مفید ہوتی ہے اور آپ کے قلب کا فعل تیز اور خون کا دباؤ دونوں معمول پر آ جاتے ہیں۔

آج آرام طلبی نے ہمیں سواری کے بغیر چلنے پھرنے سے روک دیا پھر اگر پیٹ کے عوارض فربہی اور اختلاج قلب جیسے امراض زیادہ پیدا ہو جائیں تو تعجب کی کیا بات ہے۔

آج کل سرجن آپریشن کے بعد چند ہی گھنٹے بعد مریض کو چند قدم چلنے کی تاکید کرتے ہیں ایسا کرنے سے دوران خون تیز ہو جاتا ہے اور مریض تیزی سے صحت یاب ہونے لگتا ہے ہاضمہ میں بھی مدد ملتی ہے اور قبض نہیں ہونے پاتا۔

اگر انسان چلتا پھرتا رہے تو اس کا وزن بھی حد سے تجاوز نہیں کرے گا لیکن اگر باقاعدگی سے چہل قدمی، چلنا پھرنا جاری رکھیں تو آپ کا وزن معقول حد سے تجاوز بھی نہ ہوگا اگر وزن بڑھنا شروع ہو تو غذا کو کم کرنے کے علاوہ چلنا پھرنا بہترین علاج ہے۔

دن بھر بیٹھے رہنے یا دن میں سونے سے آپ کے جسم میں جتنے اضافی حرارے یا کیلورینز جمع ہو جاتے ہیں۔ انہیں جلانے کا بہترین طریقہ بھی چلنا پھرنا ہے ایک گھنٹہ چلنے پھرنے سے آپ کا جسم تین سو حرارے صرف کرتا ہے اور آپ کو فربہ ہونے سے بچاتا ہے۔

بالوں کو سیاہ رکھنے کا طریقہ

بالوں کو سیاہ رکھنے کا طریقہ
رات کو زیتون کا تیل روزانہ سر اور داڑھی کے بالوں پر لگائیں۔ انشاءاللہ عزوجل بال تقریباً سیاہ ہو جائیں گے  اور ہمیشگی کرنے سے ہمیشہ سیاہ رہیں گے اس کے علاوہ سر کے تمام امراض مثلاً آدھے سر کا درد، سر کا درد اور خشکی وغیرہ کا بہترین علاج ہے پورے جسم پر ہفتہ میں کم از کم ایک دن مالش کرنے سے جسمانی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔

حکم علاج اور اس کی ضرورت

حکم علاج اور اس کی ضرورت
بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بیماری کا علاج کرنا خلاف توکل خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ ان کی غلطی ہے کیونکہ توکل اس چیز کا نام نہیں کہ انسان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے اور کہے کہ ہر کام خود بخود ہو جائے گا۔ البتہ بعض بزرگان دین کے واقعات اس سے مستثنٰی ہیں اور وہ صرف انہی کا درجہ اور حصہ ہے۔
خود سرکار مدینہ، راحت قلب سینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے توکل کے ساتھ ساتھ عمل کا حکم بھی فرمایا بلکہ عملاً ایسا کرکے دکھایا۔ مثلاً میدان جنگ میں بنفس نفیس تشریف لے گئے۔ کفار سے مقابلہ فرمایا اور اللہ عزوجل پر بھروسہ کیا۔ یوں نہیں کیا کہ مدینہ طیبہ میں تشریف فرما رہے اور بغیر عمل کے توکل کیا ہو
حضت اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کی “یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہم دوا کیا کریں ؟“ فرمایا۔ “ہاں! اللہ عزوجل کے بندو، دوا استعمال کیا کرو کیونکہ اللہ تعالٰی نے کوئی بیماری پیدا نہیں کی مگر اس کیلئے شفاء پیدا فرمائی ہے۔ سوائے ایک بیماری کے اور وہ بڑھاپا ہے۔ (امام احمد، ترمذی، ابی داؤد)
حق یہ ہے کہ دوا کرنا بھی تقدیر الٰہی سے ہے۔ حضور سرور کائنات سے کسی نے عرض کیا کہ کیا علاج کرنا تقدیر الٰہی کو لوٹا سکتا ہے تو اس پر تاجدار رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، کہ علاج بھی تو تقدیر الٰہی سے ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے کوئی بیماری نہیں اتاری مگر اس کیلئے شفاء بھی نازل فرمائی (مشکوٰۃ شریف)
مندرجہ بالا احادیث مبارکہ سے پتہ چلا کہ ہر بیماری جو پیدا کی گئی ہے، اس کا علاج بھی پیدا کیا گیا ہے۔ اس لئے بیماری کا علاج نہ کرنا گناہ ہے۔ تدبیر کرنا انسان کا فرض ہے۔ تقدیر قدرت کے ہاتھ میں ہے۔ شافی مطلق صرف اللہ تعالٰی کی ذات ہے۔ دوائیں اور معالج حصول شفاء کا ذریعہ ہیں۔
تاجدار رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے علاج و معالجہ کیلئے جو ہدایات عطا فرمائیں، ان پر خود بنفس نفیس عمل کرکے امت کیلئے مثالیں قائم فرما دیں۔ مختلف مواقع پر ضروری طبی مشورے دئیے۔ سنن ابو داؤد میں ایک روایت بیان ہوئی ہے جس کی رو سے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ کو سینہ میں شدید درد کی شکایت ہوئی تو حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ان کی عیادت کو تشریف لے گئے۔ وہاں پہنچ کر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے حال معلوم کیا اور حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سینہ پر اپنا مرمریں ہاتھ رکھا۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کا فرمانا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ شریف رکھنے سے ان کے سینے میں ٹھنڈک محسوس ہوئی، گویا وہ ٹھیک ہو گئے۔ ظاہر ہے کہ ایک پیغمبر اپنی امت کے کسی بیمار فرد پر ہاتھ رکھ دے تو اس کا کیا سوال کہ وہ مریض فوراً صحت یاب نہ ہو جائے اور یہ معجزہ کسی نبی علیہ السلام یا کسی پیغمبر کیلئے مشکل بات بھی تو نہیں لیکن تاجدار انبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اس موقع پر کسی معجزاتی علاج کو ضروری نہ سمجھتے ہوئے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو طبعی علاج کا مشورہ دیتے ہیں۔ یہ مشورہ یقیناً آئندہ نسلوں کیلئے پیغام ثابت ہوتا ہے۔آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ چونکہ انہیں (سعد رضی اللہ عنہ کو) دل کی تکلیف (دورہ) ہے۔ اس لئے اچھی طبیب سے رجوع کیا جائے اور جس طبیب سے رجوع کرنے کا مشورہ مرحمت فرماتے ہیں وہ حارث بن کلدہ نامی شخص تھا جو ثقیف کا باشندہ تھا۔ اس نے طب کا فن ایران کے مشہور شہر شاپور میں حاصل کیا تھا اور عقیدہ کے اعتبار سے یہودی تھا۔ ابن ابی حاتم نے نقل کیا ہے کہ اس نے اسلام قبول نہ کیا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اس کے یہودی ہونے اور ماہر فن سے خوب واقف تھے۔
غرضیکہ حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کا علاج حارث کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ وہ صحت یاب ہو جاتے ہیں اور ایک عرصہ تک اسلامی افواج کی قیادت فرماتے ہیں۔ عراق و فارس کی مہم کامیابی سے کرتے ہیں۔ یہ واقعہ ابو داؤد شریف کی حدیث میں ہے۔
اس حدیث کا اگر غور سے مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ یہ حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کیلئے صرف ایک مشورہ ہی نہیں ہے بلکہ پوری امت کیلئے پیغام ہے کہ جب بھی کوئی فرد کسی شدید مرض میں مبتلا ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے قریب کے کسی ماہر طبیب سے رجوع کرے۔ طبیب کا صرف ماہر ہونا شرط ہے۔ اس کا دین اور نسل اور قومیت کیا ہے، اس کا کوئی واسطہ علاج سے نہیں ہے۔
آج کی دنیا میں یہ مشورہ لوگوں کو نیا نہ معلوم پڑے لیکن ساتویں صدی کے پس منظر میں جبکہ طب اور طبیب کے کوئی معنی نہ تھے، اس مشورہ کو انقلابی طبی مشورہ کے علاوہ کچھ نہیں سمجھا جا سکتا۔
طبیب سے رجوع کرنے کی ہدایت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا کوئی ایک ہی واقعہ نہیں بلکہ اس ضمن میں کئی احادیث مبارکہ ملتی ہیں۔ مثلاً ایک موقع پر حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کو حارث بن کلدہ نے جو نسخہ تجویز کیا، اسے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے پسند فرمایا۔ یہ واقعہ فتح مکہ کے بعد کا ہے اور یوں بیان ہوا ہے۔
“مکہ معظمہ کی فتح کے بعد حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ بیمار ہوئے تو حکیم حارث بن مکدہ نے ان کیلئے “فریقہ“ تیار کرنے کا مشورہ دیا جس میں تھا۔ کھجور، جو کا دلیا اور میتھی پانی میں ابال کر مریض کو نہار منہ شہد ملا کر گرم گرم پلایا جائے۔ جب یہ نسخہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اسے پسند فرمایا اور مریض کو شفاء ہوگئی۔“
بعض احادیث سے اس بات کا واضح طور اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ جب بھی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے کسی مریض کیلئے طبیب سے رجوع کرنے کی ہدایت سنتے تو قدرے تعجب میں پڑ جاتے اور کبھی دریافت بھی کر لیتے کہ “آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم یہ فرماتے ہیں۔“ چنانچہ حضرت عمر بن دینار کی سند سے ایک حدیث اس طرح بیان ہوئی ہے۔ ترجمہ:۔ “نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ایک مریض کی عیادت کیلئے تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ طبیب کو بلا کر انہیں دکھاؤ۔ ایک شخص نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کیا آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔“ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ہاں۔ (الجوزی طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم)
امام مالک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی موطا میں اسی موضوع پر ایک حدیث حضرت زید بن اسلم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے جس کے مطابق نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے مبارک دور میں ایک شخص کو زخم آگیا تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی خواہش پر طبیب کو بلایا گیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا۔ “یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کیا طب میں بھی خیر ہے۔ (قعال اوفی الطب خیر یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے بیماری نازل کی ہے۔ اسی نے اس کی دوا بھی نازل کی ہے۔
طب میں خیر کا مقام موطا کی اس حدیث کے علاوہ دیگر احادیث میں بھی ملتا ہے جو بخاری، مسلم وغیرہ میں درج ہیں جن کا ذکر اسی عنوان کے ابتداء میں ہے۔
کسی مرض کیلئے دوا کا صحیح اور ضروری استعمال ہر انسان کا فرض ہے لیکن دوا سے شفاء بخشنا اللہ عزوجل کی مرضی پر منحصر ہے۔ اس لئے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا۔
ترجمہ: “جب دوا کے اثرات بیماری کی مائیت سے مطابق رکھیں تو اس وقت اللہ عزوجل کے حکم سے شفاء ہوتی ہے۔“ (راوی حضرت جابر رضی اللہ عنہ بن عبداللہ۔ مسلم)
احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے صاف نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ دعاء سے قبل مریض یا اس کے متعلقین پر واجب ہے کہ وہ صحیح دوا کا انتظام کریں اور انسان کی یہی خواہش نئی دواؤں کی ایجاد کی محرک بنتی ہے۔ جو شخص دوا کیلئے کوشاں رہتا ہے اور اسے حاصل کرنے کیلئے جد و جہد کرتا ہے، وہ مرض میں افاقہ یا اس سے ازالہ کا مستحق ہوتا ہے اور جو کسی مرض کو لاعلاج سمجھ کر عمل اور کوشش و جستجو سے کنارہ کش ہو جاتا ہے، اللہ تعالٰی اس کی مدد نہیں فرماتا۔ اس لئے تو پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
ترجمہ: “خدا عزوجل نے کوئی بیماری ایسی نہیں بھیجتی جس کیلئے شفاء نہ رکھی ہو۔ جس نے جاننا چاہا اسے بتایا اور جس نے پروا نہ کی، اسے ناواقف رکھا۔“ (راوی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، مسند احمد، نسائی)
طب نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے ضمن میں نہ جانے کتنی احادیث ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم چاہتے تھے کہ ہر انسان مرض کے ظاہر ہونے کے فوراً بعد اس کے تدارک کیلئے طبی طریقہ اپنائے۔ پھر دعاء کیلئے ہاتھ اٹھائے۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی زندگی مبارکہ کے نہ جانے کتنے واقعات بیان ہوئے ہیں جن کے مطابق جب بھی کوئی شخص حاضر ہوتا اور کسی مرض کی شکایت کرتا تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم یا تو کوئی اسے دوا بتاتے یا کسی طبیب سے رجوع کرنے کا مشورہ ارشاد فرماتے۔
حضرت ام قیس رضی اللہ تعالٰی عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ وہ اپنے بیٹے کو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لے گئیں۔ بیٹے کے حلق میں تکلیف تھی اور تکلیف رفع کرنے کیلئے اس کا گلا دبایا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے لڑکے کو دیکھ کر قدرے ناگواری سے فرمایا۔ “اپنی اولاد کو حلق دبا کر اذیت نہ دو۔ عود الہندی استعمال کرو۔“ (بخاری)
اسی موضوع پر ایک دوسری حدیث اس طرح ہے۔
نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے یہاں داخل ہوئے تو ان کے پاس ایک بچہ تھا جس کے منہ اور کان سے خون نکل رہا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کیا ہے۔ جواب ملا کہ بچہ عذرہ ہے۔ حضور تاجدار رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ “اے خواتین! تم پر افسوس ہے کہ اپنے بچوں کو یوں قتل کرتی ہو۔ کسی بچہ کو حلق کا عذرہ ہو یا اس کے سر میں درد ہو تو قچط الہندی کو رگڑ کر اسے چٹا دو۔“ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے اس پر عمل کروایا اور بچہ تندرست ہوگیا۔ (راوی حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ بن عبداللہ۔ مسلم)
کتنے غور اور فکر کا مقام ہے کہ تاجدار رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے پاس لوگ آتے ہیں۔ اپنی تکالیف بتاتے ہیں اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ان کو طبعی علاجوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ کبھی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کلونجی کے استعمال پر زور دیتے تو کبھی سناء اور کاسنی کے طبی فوائد بیان فرماتے۔ کھجور کے استعمال کو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم صحت کیلئے انتہائی مفید بتاتے۔ غذا کے طور پر سرکہ اور شہد کے فوائد سے آگاہ فرماتے۔ زیتون اور مسواک کے نفع کی اطلاع دیتے۔ ان دواؤں کو تجویز کرنے کے علاوہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم مختلف دواؤں کا علم حاصل کرنے کی تلقین فرماتے۔ گویا کہ ہر دوا جو تجربہ سے نفع بخش ثابت ہو، اس کے استعمال کی جانب آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم متوجہ ہونے کا مشورہ عطا فرمایا۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے حجامت کے طریقوں (پچھنے لگوانا) اور فصد کھلوانے کے طریقوں سے بوقت ضرورت فائدہ اٹھانے کیلئے بھی کہا۔ زخم کے مندمل کرنے کیلئے داغ لگانے کی بھی اجازت دی لیکن اس تکلیف دہ طریقوں سے جہاں تک ہو سکے، پرہیز کی بھی تاکید فرمائی اور فرمایا کہ وہ بذات خود اس علاج کو پسند نہیں فرماتے ہیں۔
جراحی آج کل انتہائی ترقی یافتہ علم سمجھا جاتا ہے اور علاج میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ حالانکہ دور قدیم اور از منہ وسطٰی میں اسے عزت و وقار کے ساتھ نہ دیکھا جاتا تھا لیکن آنحضرت نے کئی موقعوں پر جب دوا کو بے اثر محسوس کیا تو جراحی کا مشورہ فرمایا۔ اس سلسلہ کی دوا احادیث الجوزی نے اپنی کتاب طب نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں شامل کی ہیں۔ پہلی حدیث جو حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ نبی کریم ایک شخص کی عیادت کو تشریف لے گئے۔ مریض کی پشت پر ورم تھا۔ جس میں مواد پڑ گیا تھا۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ “اس کی جراحی کر دو۔“ چنانچہ اس مریض کی جراحی کر دی گئی اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ میں عمل جراحی کے دوران موجود تھا اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم مشاہدہ کرتے رہے۔
الجوزی نے دوسری جو حدیث بیان کی ہے، وہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جس کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ایک طبیب کو مریض کا پیٹ شق کرکے پانی نکالنے کا حکم فرمایا۔ جراحی کے متعلق یہ دونوں احادیث حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا جراحی کیلئے ضرورت اور اجازت کا اشارہ دیتی ہیں۔ ان ہی اشاروں کی روشنی میں مسلمان طبیبوں نے عمل جراحی میں اتنی ترقی کی کہ گردہ کی پتھری وغیرہ کے کامیاب آپریشن کئے۔ سائنس کے مؤرخین کا بھی خیال ہے کہ بارہویں صدی کے بعد ابوالقاسم زہراوی اور ابن زہر جیسے جید سرجنوں کے توسط سے ہی یورپ میں علم جراحی کو فروغ حاصل ہوا اور اسے ایک باعزت فط کا درجہ دیا گیا ورنہ اس سے قبل تو جراحی ایک قابل نفرت کام تصور کیا جاتا تھا جسے صرف حجام انجام دیتے تھے۔

پان گٹکے کی تباہ کاریاں

پان گٹکے کی تباہ کاریاں
از شیخ طریقت، امیر اہلسنت، بانیء دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوالبلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہافسوس! آج کل پان، گٹکا، خوشبودار سونف سپاری مین پوڑی اور سگریٹ نوشی وغیرہ عام ہے۔ اگر خدانخواستہ آپ ان میں سے کسی چیز کے عادی ہیں تو ڈاکٹر کے کہنے پر بصد ندامت چھوڑنا پڑ جائے اس سے قبل میٹھے محبوب کی امت کے ادنٰی غمخوار سگ مدینہ عفی عنہ کی درد بھری درخواست مان کر چھوڑ دیجئے۔بعض اوقات  گٹکے سے منہ لال کئے ہوئے دیکھ کر دل جلتا ہے، اور جب کوئی آکر بتاتا ہے کہ میں نے پان، گٹکا یا سگریٹ کی عادت ترک کر دی ہے تو دل خوش ہوتا ہے۔ امت کی خیر خواہی کے جذبے کے تحت عرض ہے، بکثرت پان، گٹکا وغیرہ کھانے والے کا سب سے پہلے منہ متاثر ہوتا ہے۔ ایک اسلامی بھائی جنہوں نے گٹکا کھا کھا کر منہ لال کیا ہوا تھا ان سے میں نے (یعنی سگ مدینہ عفی عنہ نے) منہ کھولنے کو کہا تو بمشکل تھوڑا سا کھول پائے، زبان باہر نکلانے کی درخواست کی تو صحیح طرح سے نہ نکال سکے۔ پوچھا، منہ میں چھالا ہو گیا ہے ؟ بولے، جی ہاں۔ میں نے ان کو پان بند کر دینے کا مشورہ عرض کیا۔ الحمدللہ عزوجل انہوں نے مجھ غریب کی بات مان کر گٹکا کھانے کی عادت ترک کر دی۔ ہر پان یا گٹکا کھانے والا اپنے منہ کا اسی طرح ضرور امتحان لے۔ کیونکہ اس کا زیادہ استعمال منہ کے نرم گوشت کو سخت کر دیتا ہے جس کے سبب منہ پورا کھولنا اور زبان ہونٹوں کے باہر نکالنا دشوار ہو جاتا ہے، نیز چونے کا مسلسل استعمال منہ کی جلد کو پھاڑ کر چھالا بنا دیتا ہے اور یہی منہ کا السر ہے، ایسے شخص کو چھالیہ، گٹکا، مین پوڑی اور پان وغیرہ سے فوراً جان چھڑا لینی چاہئے ورنہ یہی السر آگے چل کر معاذاللہ عزوجل کینسر کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
پان گٹکا اور پیٹ کا کینسر
یہ بھی غور فرمائیے کہ جو چونا منہ کے گوشت کو کاٹ سکتا ہے وہ پیٹ کے اندر جاکر نہ جانے کیا کیا تباہی مچاتا ہو گا! چونا آنتوں اور معدے میں بھی بعض اوقات کٹ لگا دیتا ہے۔ فوری طور پر اس کا پتا نہیں چلتا۔ جب السر حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے تب کہیں معلوم ہوتا ہے۔ یہی السر آگے بڑھ کر پیٹ کے کینسر کا بھیانک روپ دھار سکتا ہے۔
پان یا گٹکا اور گلے کا کینسر
پان یا گٹکا کھانے والے کی پہلے پہل آواز میں خرابی پیدا ہوتی اور گلا بیمار ہو جاتا ہے، اگر وہ اس تکلیف کو تنبیہ (Notice) تصور کرکے پان یا گٹکا سے باز نہیں آتا تو بڑھتے بڑھتے معاذاللہ عزوجل گلے کے کینسر (Throat Cencer) تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے گلے کے کینسر کے مریضوں میں سے 60 فیصد سے لیکر 70 فیصد تعداد پان یا گٹکا کھانے والوں کی ہوتی ہے۔
یااللہ عزوجل ! ہم سب سے ہمیشہ کیلئے راضی ہو اور پان، گٹکے اور تمباکونوشی وغیرہ کی تباہ کاریوں سے بچائے۔
اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم

جلد کی خشکی اور جسم کی تھکاوٹ کا علاج

جلد کی خشکی اور جسم کی تھکاوٹ کا علاج
 زیتون کے تیل سے بڑھ کر کوئی اور تیل نہیں اگر آپ کو خشکی ہے تو آپ روزانہ زیتون کے تیل کی مالش کریں انشاءاللہ عزوجل چند ہی دنوں میں خشکی ختم ہو جائے گی اور جسمانی تھکاوٹ دور کرنے میں بھی زیتون کے تیل کی مالش لاجواب چیز ہے

چہرے کے بدنما داغ اور جھائیوں کا علاج

چہرے کے بدنما داغ اور جھائیوں کا علاج
ہلدی پتھر پرپانی کے ساتھ رگڑ کر دو تین بارداغوں پر لگائیں کہ داغ جلد اچھے ہوجائیں گے
سنگترے کے چھلکے اتار کرسکھالیں پھر ان کو باریک پیس کرابٹن کی طرح استعمال کریں داغ دھبے دور ہو جائیں گے

  لیموں کے چھلکے پیس کردودھ میں ملا کر رات کو لگانے سے داغ دھبے دور ہوجاتے ہیں
  لیموں، نارنگی اور شہد کو ملا کر صبح و شام لگانے سے جھائیاں ختم ہو جاتی ہیں

بڑھے پیٹ کا علاج

بڑھے پیٹ کا علاج
پیٹ بڑھنا بھی ایک خطرناک بیماری ہے۔ کھانا کھانے کے فوراً بعد پانی نہ پینا چاہئیے۔ نیز کھانے کے بعد فوراً سو جانا بھی اس مرض کو جنم دیتا ہے۔ زیادہ مرغن غزائیں اور اس کے ساتھ آرام طلبی بھی موٹاپا اور پیٹ بڑھاتی ہے۔
کم کھانے میں بے شمار فوائد ہیں۔ لٰہذا ایک تہائی کھانا، ایک تہائی پانی اور ایک حصہ سانس کیلئے ہونا چاہئیے۔ کیونکہ معدہ میں پانی، غذا اور رطوبتوں کے عمل سے کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس بنتی ہے اور یہ معدہ کے اوپر والے حصے میں آجاتی ہے اگر معدہ کے اس حصہ کو بھی خوارک سے بھر دیا جائے تو گیس کیلئے جگہ نہ ہوگی یہ عمل معدہ کی بہت سی بیماریوں کا باعث اور سانس میں دشواری اور پیٹ بڑھنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اسکا روحانی علاج یہ ہے کہ نماز پابندی سے پڑھیں۔ کیونکہ یہ ورزش بھی ہے۔

تھکن کا علاج

تھکن کا علاج

حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو تاجدار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے تھکن کا یہ علاج بتایا تھا۔ سوتے وقت 33 مرتبہ سبحان اللہ 33 مرتبہ الحمدللہ اور 34 مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔ (بخاری و مسلم)  دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد تھوڑی دیر آرام کریں۔

لیموں کا شربت شکر ڈال کر پینے سے تھکن دور ہو جاتی ہے۔

بے چینی اور بے خوابی کا علاج

بے چینی اور بے خوابی کا علاج
بے چینی اور بے خوابی کی کیفیت میں رات کو نیند نہ آنا، تمام رات کروٹیں بدلتے ہی گزار دینا ایک تکلیف دہ مرض ہے۔ اس مرض کی شکایت حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بارگاہ رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں کی۔ انہوں نے عرض کیا، یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم مجھے رات بھر نیند نہیں آتی۔ تاجدار انبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ جب سونے کا ارادہ کرو تو یہ دعاء پڑھو۔
اللٰھُمَ رَبِ السَمٰوٰتِ السَبعِ وَمَا اَظِلَت وَرَبِ الاَرضَینَ وَمَا اَخَلَت وَرَبِ الشَیَاطِینَ وَمَا اَضَلَت کُن لِی جَاراً مِن شَرِ خَلقِکَ کُلِھِم جَمِیعاً اَن یَفرِطُ عَلٰی اَحَدٍ مِن ھُم اَو یَنبَغِی عَلٰی عِزجَائَکَ وَجَلَ ثَنَاءَکَ وَلاَ اِلٰہَ حَیرُکَ (مدارج النبوۃ ۔ جلد اول)یہ دعاء مبارک اور ایسی دوسری دعائیں جو کوئی نہ پڑھنا جانتا ہو، کاغذ پر لکھوا کر اپنے پاس رکھے۔ اس کی دلیل حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی وہ حدیث ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے خوف و پریشانی سے بے خوابی کے لئے انہیں یہ کلمات تلقین فرمائے تھے کہ پڑھا کرو۔اَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَامَۃِ مِن غَضبِہ وَعِقَابِہ شَرِ عِبَادِہ مِن ھَمَزَاتِ الشَیَاطِینَ اَن یَحضُرُونَ ہ

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ ان بچوں کو جو سمجھدار ہوتے، یہ دعا سکھاتے اور جو بچے ناسمجھ ہوتے، یہ دعاء کاغذ کے ٹکڑوں پر لکھ کر ان کے گلے میں لٹکا دیتے۔ (مدارج النبوۃ جلد اول)