Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

گڑماربوٹی ذیابیطس کا علاج

گڑماربوٹی ذیابیطس کا علاج
ذیابیطس دو قسم کی ہوتی ہے ایک قسم کو سادہ ذیابیطس کا نام دیا گیا ہے اور دوسری قسم کو شکری ذیابیطس کہا جاتا ہے۔ سادہ ذیابیطس میں شکر پیشاب میں نہیں ہوتی مگر باقی علامات وہی ہوتی ہیں جو شکر والی ذیابیطس کی ہوتی ہیں۔ مثلاً بار بار پیاس لگنا‘ منہ خشک رہنا‘ بار بار پانی پینا اور بار بار پیشاب آنا۔ اعضاءشکنی اور شدید ضعف کا احساس جسم کے بعض حصوں کا سن ہونا وغیرہ اس میں بھی ہوتا ہے جبکہ ذیابیطس شکری میں یہ تمام علامات تو ہوتی ہی ہیں مگر اس میں شکر بھی پیشاب میں آتی ہے اور خون کے معائنہ میں بھی شکر کی مقدار نارمل سے زیادہ ہوتی ہے۔
گڑما ربوٹی ان دونوں قسم کی بیماریوں میں بلا شبہ و بلالحاظ یکساں طورپر مفید پائی گئی ہے بلکہ ایک اور مرض جسے سلسل البول کہتے ہیں جس میں پیشاب کی زیادتی ہو جاتی ہے اس میں بھی اس بوٹی کو نہایت کامیابی کے ساتھ استعمال کروایا جا چکا ہے۔
یہ بات عام مشاہدے میں ہے کہ ذیابیطس شکری میں اس بوٹی کے مناسب استعمال سے پیشاب اور خون میں شکر کی مقدار گھٹ جاتی ہے۔ پیشاب کا بار بار آنا اور پیاس لگنا کم ہو جاتا ہے۔ گڑما ر بوٹی کا ذیابیطس میں مفید ہونا قدیم زمانے سے اطباءکے علم میں ہے اور دو مختلف فارمولوں کے تحت اس بوٹی کو مریضوں کو استعمال کرواتے رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فارما کولوجی گڑمار بوٹی کی بھی وہی ہے جو اس قبیل کی دوسری ادویات کی ہے یعنی خون میں شکر کی مقدار کو گھٹانا فرق صرف یہ ہے کہ گڑمار بوٹی دوا ہے اور دوسری ادویات کیمیکل ہیں جنہیں ڈرگ کہا جاتا ہے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ گڑمار بوٹی کو ٹوٹل الکلائیڈز کے طور پر استعمال کروایا جاتا ہے۔ ذیابیطس کے مریض کے بدن پر جو سخت قسم کے پھوڑے نکلتے ہیں ان کو بھی فائدہ دیتی ہے۔ ایک مریض کے پیشاب کا وزن 1030 تھا مگر پندرہ دن اس دوا (گڑمار بوٹی) کے استعمال سے 1013 رہ گیا پھر پندرہ روز دوا کا استعمال ترک کرنے پر 1017 ہو گیا ایک ہفتہ پھر یہ دوا استعمال کی گئی تو 1015 ہو گیا اس مقام پر شکر بھی بہت کم ہو گئی“۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بوٹی کے یہ فوائد جدید دور کی ادویہ ہی کی طرح سے عارضی ہیں یا اس سے کچھ مستقل فائدہ بھی ہوتا ہے کیونکہ بعض اطباءنامدار نے گڑمار بوٹی کو ذیابیطس کے علاج اور تدابیر میں شامل نہیں کیا اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے علم میں اس مرض کیلئے کوئی دوسری بہتر تدبیر یا دواہو۔ گڑمار بوٹی کیا ہے؟
طبی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ گڑمار بوٹی پہاڑوں کے دامن میں پیدا ہونے والی بوٹی ہے اس کی بہت سی شاخیں ہوتی ہیں اس کا پتا ایک بند انگشت سے دو بند انگشت تک ہوتا ہے چوڑائی لمبائی سے کچھ ہی کم ہوتا ہے اور پتے کا رنگ ہرا یا سبز نہیں ہوتا بلکہ بادامی ہوتا ہے اس پتے کا مزہ تلخی مائل ہوتا ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہر کڑوی چیز ذیابیطس میں مفید ہے جیسا کہ عام لوگوں کے ذہن میں ہے۔ تجربہ میں آیا ہے کہ اس کے پتوں کی بہ نسبت اس کی لکڑی میں اجزائے موثرہ زیادہ ہوتے ہیں اور اس کی قوت دوسری عام بوٹیوں کی بہ نسبت کئی سال تک قائم رہتی ہے۔
ایک خاص پہچان یہ لکھی ہے کہ اس بوٹی پر پھلیاں لگتی ہیں جو تقریباً ڈھائی انچ تک لمبی ہوتی ہیں ان کو توڑ نے پر اندر سے چیپ دار رطوبت سی بھی نکلتی ہے مگر ان پھلیوں میں روئی سی بھری ہوئی ہوتی ہے دنیا بھر میں گڑ مار بوٹی ڈیرہ دون کی سب سے زیادہ اچھی تسلیم کی گئی ہے۔ ایک مرتبہ راقم السطور نے ڈیرہ دون کی گڑمار بوٹی کی لکڑی کو منہمیں ڈال کر چبا لیا تھا پورا دن کھانے پینے کی چیزوں کا مزہ محسوس نہ ہوا میٹھی چیزیں پھیکی معلوم ہوتی تھیں غالباً اسی لیے اسے گڑمار بوٹی کہا جاتا ہے اس کے برعکس بازار میں عام دستیاب ہو نے والی گڑمار بوٹی کی لکڑی کو چبایا تو معمولی سی میٹھی چیز کھانے کے بعد دن بھر اس کی مٹھاس منہ سے نہ گئی اسی طرح بہت مرتبہ ایسا ہوا کہ گڑمار بوٹی سے ذیابیطس کی دوائی بنائی سب مریضوں کو فائدہ ہوا۔ دوبارہ بازا ر سے گڑمار بوٹی منگوا کر دوا بنائی مریضوں کو استعمال کروائی کسی کو کچھ فائدہ نہ ہوا بلکہ اکثر کی شکر میں اضافہ ہو گیا۔ یہ شکایت اطباءکو عام ہے کہ معیاری دوائیں بازار میں دستیاب نہیں ہیں بلکہ ایک اور المیہ یہ ہے کہ دو ا  کچھ مانگیں ملتا کچھ ہے ۔دواﺅں کا کاروبار جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے وہ الف کے نام لٹھ سے واقف نہیں نہ انہیں ایک ہی دوا کے مختلف ناموں پر عبور ہے نہ شناخت پر۔ جن مستند اطباءنے مطب کے بجائے پنسار خانے کھولے ہوئے ہیں ان کا بھی یہی حال ہے بلکہ اب تو یہ ہو رہا ہے کہ ہمارے دیکھتے دیکھتے بہت سے دواﺅں کے نام رہ گئے ہیں دوائیں غائب ہو گئی ہیں۔یہ تفصیل اس لیے لکھنی پڑی کہ قاری کی نظر ادھر بھی رہے اور دوا خریدتے وقت ہوشیار رہے۔ حکیم نجم الغنی نے لکھا ہے کہ گڑمار بوٹی کے خواص میں سے ہے کہ اگر اسے چبا لیں تو پھر شکر مصری یا گڑ یا کوئی اور چیز جو میٹھی ہو منہ میں ڈالیں تو پھیکی معلوم ہو تی ہے حقیقت یہ ہے کہ یہ بوٹی سانپ کے کاٹے میں بھی بہت مفید ثابت ہوئی ہے اور ایک اور زہر یلا جانور جسے سکھپرا کہا جاتا ہے جس کے کاٹے کا کوئی علاج نہیں ہے۔ یہ بوٹی اس کے کاٹے کا بھی تریاق ہے۔ بعض تجربہ کاروں نے یہ بات معلوم کی ہے کہ جند بید ستر کی طرح گڑمار بوٹی بھی افیون کا تریاق ہے
 

Read More

تمباکو نوشی سے ذیابیطس

تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بالواسطہ تمباکو نوشی کرنے والوں کے ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
پندرہ سال پرمحیط امریکی تحقیق سے ان تمام سابقہ دعوؤں کی تائید ہوتی ہے کہ تمباکونوشی کرنےوالے افراد میں گلوکوز برداشت نہ کرنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے جو ذیابیطس کے مرض کی شروعات ہیں۔ چار ہزار پانچ سو بہتر افراد کو شامل تحقیق کیا گیا۔
تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ تمباکو نوشی کرنے والوں کے ساتھ رہنے والے افراد میں بھی
قدرے کم پیمانے پر مگر ذیابیطس میں مبتلا ہونے کے خطرات دیکھے گئے۔
برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں تجویز دی گئی ہے کہ تمباکو نوشی کے زہریلے اثرات سے انسانی لبلبہ بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ لبلبہ انسانی جسم میں انسولین کی مقدار کو متوازن رکھنے کا کام کرتا ہے۔
تحقیق کے سربراہ پروفیسر تھامس ہوسٹن نے جن کا تعلق برمنگھم ویٹرنز افئیرز میڈیکل سینٹر، البامہ سے ہے، محقیقین کے ساتھ مل کر تمباکو نوشی کرنے والے، اسے چھوڑنے والے، تمباکو نوشی کے دھویں سے متاثر ہونے والے اور ایسے لوگ جنہوں نے کبھی تمباکو نوشی نہیں کی پر تحقیق کی۔
تحقیق کاروں نے یہ پتہ لگانے کی کوشش کی کہ کتنے افراد کے جسموں میں گلوکوز کو برداشت نہ کرنے کی کیفیت ہے۔
تمباکو نوشی کرنے والے افراد کے جسم میں گلوکوز کو برداشت نہ کرنے کی کیفیت بہت زیادہ تھی اور ان میں سے بائیس فیصد افراد میں پندرہ سال کے عرصے کے دوران یہ کیفیت پیدا ہوئی۔
تحقیق میں شامل سترہ فیصد ایسے افراد جنہوں نے کبھی تمباکو نوشی نہیں کی لیکن وہ ایسے افراد کے ساتھ رہے جو تمباکو نوشی کرتے تھے، چنانچہ ان افراد میں بھی گلوکوز کو برداشت نہ کرنے کی کیفیت دیکھی گئی۔ ان کا موازنہ ان بارہ فیصد افراد سے کیا گیا جنہوں نے کبھی تمباکو نوشی نہیں کی یا ایسے افراد کے ساتھ نہیں رہے ان میں بھی محقیقین کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہونے کے خطرات پائےگئے۔
تمباکو نوشی سے ذیابیطس کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے
تحقیق دانوں کا کہنا ہے کہ تمباکو نوشی کرنے والوں کے ساتھ رہنا بھی ذیابیطس میں مبتلا ہونے کے ایک اہم عنصر کے طور پر سامنے آیا ہے اور اگر مزید تحقیق سے مذکورہ خدشے کی تصدیق ہو گئی تو پالیسی ساز اس بارے میں حاصل نتائج کو ’پیسو سموکنگ‘ کے بارے میں قانون سازی کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔
برطانیہ میں ذیابیطس کی ماہر ذو ہیریسن کا کہنا ہے’ہم سب یہ بات جانتے ہیں کہ تمباکو نوشی کرنا یا اس کے دھوئیں میں رہنا خطرناک ہے‘۔
ان کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کی شرح میں وقت کے ساتھ بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور ہمارے معمولات زندگی اس سلسلے میں اہم عنصر ہیں اور اگر موجودہ صورت حال برقرار رہی تو بہت جلد ہم لوگوں میں آنکھوں کی بینائی کا کم ہونا یا پھر نوجوانوں میں ذیابیطس کی وجہ سے جسمانی اعضاء کو کاٹنے کا سلسلہ دیکھیں گے۔
تمباکو نوشی کے عمل کی حمایت کرنے والےگروہ ’فارسٹ‘ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کے بہت سے عوامل ہیں۔ بالواسطہ تمباکو نوشی کے بارے میں بہت سی متضاد رپورٹیں ہیں لیکن ابھی تک کسی قسم کا کوئی ثبوت نہیں کہ بالواسطہ تمباکو نوشی کا صحت پر کوئی اثر پڑتا ہے۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ کسی کو زبردستی تمباکو نوشی کرنے والے افراد کے ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا اور اسی مقصد کے لیے فارسٹ گروپ نے تمباکو نوشی کے لیے ایک حصہ مقرر کرنے کے لیے رائے عامہ کو ہموار کیا تاکہ دھویں سے ان افراد کو بچایا جا سکے جو خود تمباکو نوشی نہیں کرتے۔

ذیابیطس کا علاج

ذیابیطس کا علاج
صرف متوازن غذا اور ورزش
سے ہی ممکن نہیں ہےامریکہ میں ذیابیطس پر کنٹرول کر نے سے متعلق ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ چینی اور چکنائی کے استعمال سے خون میں شکر کی مقدار بڑھ سکتی ہے جس سے دل پر حملے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ جبکہ متوازن خوراک کے ذریعے خون میں شکر کی سطح کم کی جاسکتی ہے۔
ذیابیطس کی دوا استعمال کرنے کے باوجود بیریڈو کے خون میں شکر کی مقدار زیادہ تھی۔چنانچہ وہ اس بارے میں کیے جانے والے قومی سطح کے ایک مطالعاتی پروگرام میں شامل ہوگئے۔ ڈاکٹر جیمز فلی سٹا ،فونکس کے ایک میڈیکل سینٹر میں اس تحقیق پر کام کررہے ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ خون میں شکر کی مقدار کم کرنے کے لیے شوگر کے بعض مریضوں کو اضافی دواؤں کی ضرورت ہوتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ان مریضوں کے علاج کی خاطر ضروری تھا کہ ان کےکچن سے بہت سی چیزیں باہر پھینک دی جائیں۔

بیریڈو باقاعدگی سے ذیابیطس کی دوائیں کھاتے ہیں اور اس باقاعدگی کی وجہ وہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ میرے والد کا انتقال 50 سال کی عمر میں ہوا۔ میرا بھائی 49 سال میں چل بسا اور میری عمر 60 سال ہے۔ میں مزید زندہ رہنا چاہتا ہوں۔میں مرنا نہیں چاہتا۔

ڈیوک یونیورسٹی کے ایک طبی ماہر ڈاکٹر ایرک ویسٹ مین کا کہنا ہے کہ وہ اس بارے میں فکر مند ہیں کہ امریکہ میں خون میں شکر کی صحت مند مقدار کی اب پروا نہیں کی جارہی۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ ٹائپ ٹو دیابیطس کو نارمل رکھنا چاہتے ہیں تو خون میں گلوکوز کی مقدارکو سختی سے قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے۔

تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دوا کی زیادہ مقدار خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ ڈاکٹر ویسٹ مین کا کہنا ہے کہ ہمیں خوراک پر زیادہ تحقیق کرنی چاہیے۔

ڈاکٹر میری ورنن کا، جو ذیابیطس پر ایک کتاب کی مصنفہ بھی ہے ، کہنا ہے کہ امریکن ڈیبے ٹیز ایسوسی ایشن نے کاربوہائیڈ ریٹ کی بہت زیادہ مقدار کی سفارش کی ہے۔ ایشن کا کہنا ہے کہ آپ کے جسم کو درکار کیلوریز کا پچاس سے ساٹھ فی صد کاربوہائیڈ ریٹس سے حاصل ہونا چائیے۔

ڈاکٹر ویسٹ مین اور ڈاکٹر ورنن یہ سفارش کرتے ہیں کہ وہ اپنی کیلوریز کا صرف دس فی صد چینی سے حاصل کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ سبز پتوں والی چیزیں اور بہت سی چکنائی استعمال کریں۔ جس سے آپ کو بلڈشوگر کم کرنے کی دواؤں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ مگر چکنائی کے زیادہ استعمال پراکثر ڈاکٹروں کو اعتراض ہے۔

چاہے مریض جسم کو درکار کیلوریز کے لیے دس فی صد کاربوہائیڈ ریٹس استعمال کریں یا 50 فی صد،مگر ذیابیطس پر مطالعاتی پروگرام سے وابستہ ڈاکٹر فلی سٹا کا کہنا ہے کہ شوگر کے زیادہ تر مریض صرف خوراک پر انحصار نہیں کرسکتے۔

میں ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ وہ ڈاکٹر جو ورزش اور خوراک کے ذریعے ذیابیطس کا علاج پر یقین رکھتے ہیں ، ان کے مریضوں میں سے اکثر کا بلڈشوگر کنٹرول میں نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر ورنن کا کہنا ہے کہ شوگر کے مریضوں کو کم کاربوہائیڈریٹس والی خوراک پرسختی سے عمل کرنا چاہیے۔

’ڈپریشن ،مردوں میں ذیابیطس کی وجہ‘

سویڈش محققین کا کہنا ہے کہ تھکاوٹ، ڈپریشن اور نیند کی کمی مردوں میں ذیابیطس کا مریض بننے کے امکانات میں اضافہ کرتے ہیں۔

محققین کا دعوٰی ہے کہ وہ مرد جنہیں زیادہ نفسیاتی دباؤ کا سامنا ہوتا ہے ان میں ٹائپ ٹو ذیابیطس ہونے کے امکانات دیگر مردوں کے مقابلے میں دوگنا ہوتے ہیں۔ محققین کے مطابق ممکنہ طور پر ذہنی دباؤ ہارمونز پر دماغ کے کنٹرول پر اثرانداز ہوتا ہے۔
اس تحقیق کے دوران 1938 سے 1957 کے درمیان پیدا ہونے والے 2127 مردوں اور 3100 خواتین کا معائنہ کیا گیا تاہم خواتین میں اس قسم کے کوئی اشارے نہیں ملے۔

سائنسدانوں نے تحقیق کے دوران صحیح گلوکوز لیول کے حامل افراد سے ان میں ذہنی دباؤ، تھکن، ڈپریشن اور انسومینیا کی علامات کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور پھر آٹھ سے دس برس کے وقفے کے دوران ان افراد میں ذیابیطس کی موجودگی کی جانچ کی گئی۔

اس جانچ سے یہ پتہ چلا کہ وہ افراد جنہیں نفسیاتی دباؤ کا زیادہ سامنا رہا ان میں ذیابیطس کے مریض بننے کا امکان دیگر افراد کے مقابلے میں دوگنا سے بھی زیادہ تھا۔ تحقیق کے دوران جن خواتین کے ٹیسٹ کیے گئے ان میں اس قسم کا کوئی ربط دیکھنے میں نہیں آیا۔

اس تحقیق میں شامل سویڈش پروفیسر اینڈرز اکبوم کا کہنا ہے کہ یہ بات پہلے سے ہی سب جانتے ہیں کہ ذہنی دباؤ اور ڈپریشن دل کی بیماری کی وجہ بن سکتا ہے لیکن اب انہیں ذیابیطس کی اہم وجہ بھی سمجھا جا سکتا ہے۔

یاد رہے کہ برطانیہ میں اس وقت قریباً تیئیس لاکھ افراد ایسے ہیں جن میں ذیابیطس کے مرض کی تشخیص ہوئی ہے اور ایک اندازے کے مطابق پانچ لاکھ افراد ایسے بھی ہیں جو ذیابیطس کا شکار ہیں تاہم انہوں نے ابھی اس کی تشخیص نہیں کروائی۔

پالک ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مفید

ذیابیطس کے مریضوں کو دل کے دورے سے بچانے میں پالک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ نیو ساؤتھ اور چین میں جانوروں پر کی گئی تحقیق کے بعد سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ پالک میں موجود فولک ایسڈ دل کے پٹھوں کو ان نقصانات سے بچاتا ہے جو خون میں شکر کی مقدارکے زیاد ہونے کے باعث دل کے پٹھوں تک پہنچتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ڈاکٹرز ۔ حاملہ خواتین کو باقاعدگی کے ساتھ گولیوں کیصورت میں فولک ایسڈ لینے کی ہدایت کرتے ہیں تا کہ شکم مادہ میں موجودہ بچہ کو ریڑھ کی ہڈیوں کے نقائص سے محفوظ رہ سکے لیکن اب سائنسدانوں نے اپنے تجربات میں فولک ایسڈ کی یہ خوبی بھی
دیکھی ہے کہ اس سے ذیابیطس کے مریضوں کے دل کے پٹھوں کے خلیات کو نئی زندگی مل سکتی ہے۔ یاد رہے کہ ذیابیطس کے مریضوں میں ہارٹ فیل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جسکی وجہ سے (Diabetic Cardiomyopathy)ہوتی ہے جس سے دل کے پٹھے بیمار اور کمزور ہو جاتے ہیں۔

زیادہ آلو کھانے سے ذیابیطس کامرض لاحق ہو سکتاہے

طبی ماہرین نے آلو اور آلو کے چپس کے زیادہ استعمال کو سخت خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آلو کھانے سے ذیابیطس کا مرض لاحق ہو سکتا ہے۔ خواتین کو آلو کھانے سے ذیابیطس کا خطرہ زیادہ نوٹ کیا گیا ہے جبکہ مردوں میں نسبتاً کم ہاورڈ یونیورسٹی امریکہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ آلو صحت مند غذا ہے مگر اس کے بہت زیادہ استعمال سے معدے اور جگر کے افعال میں گڑ بڑ ہو جاتی ہے جس سے ذیابیطس کے مرض کو پھیلنے کیلئے راہ ہموار ہو جاتی ہے۔ آلو میں موجود گلوکوز لبلبے کے افعال کومتاثر کرنے لگتی ہے جس سے ذیابیطس کا مرض باقاعدہ ہو جاتا ہے۔ اس تحقیق میں ۵۸ہزار آلو کے شائقین مردوں اور خواتین کا تجزیہ کیا گیا تھا۔ طبی ماہرین نے آلو کے چپس کو سب سے زیادہ خطر ناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ چپس کی شکل میں اس کے خطرات ۵۶فیصد تک چلے جاتے ہیں۔