Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

طلاق

طلاق(۵۲۳)ابن عمر  روایت ہے فرمایا رسول اللهنے حلال چیزوں میں سب سے بری چیز طلاق ہے۔ (ابوداؤد)
(۵۲۴)ثوبان سے روایت ہے فرمایا رسول اللهنے جو عورت بے وجہ اپنے شوہر سے طلاق چاہے اس پر جنت حرام ہے۔ (احمد۔ ترمذی۔ ابوداؤد۔ ابن ماجہ۔ دارمی)
(۵۲۵)محمود بن بسید سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو اکھٹی تین طلاقیں دیں جب رسول اللهنے سنا تو غضب ناک ہو کر فرمایا الله تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ کھیلا جاتا ہے حالانکہ میں تمہارے درمیان ابھی موجود ہوں۔ (نسائی)
ممانعت(۵۲۶)عبدالله بن مسعود سے مروی ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے پھر کسی سے کہے تو اس عورت سے نکاح کر کے طلاق دیدے تاکہ میرے لئے اس سے نکاح کرنا جائز اور
حلال ہوجائےاور وہ دوسرا شخص ایسا ہی کرے یعنی نکاح کر کے طلاق دیدے تو ایسے دونوں شخصوں پر رسول اللهنے لعنت فرمائی ہے۔ (دارمی۔ ابن ماجہ)
مسئلہ(جب کوئی شخص اپنی عورت کو تین طلاق دیدے تو پھر اس عورت سے نکاح درست نہیں جب تک وہ عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے اگر دوسرا شوہراس کو چھوڑےدے تو پہلے کو نکاح کرلینا درست ہوگا، لیکن اس نیت سے نکاح کرنا کہ پہلے شوہر کو وہ عورت حلال ہوجائے تو اب نکاح فاسد اور حرام ہے۔)
تشریح (طلاق کی دو قسمیں ہیں، ایک رجعی دوسری بائن۔ رجعی طلاق یہ ہے کہ ایک بار طلاق دی پھر عدت یعنی طُہر پورے ہونے سے قبل رجوع کرلیا، اگرتین طُہر گزر جائیں اور رجوع نہ کیا جائے تو پھر یہ طلاق بائن ہوجائے گی یعنی پھر رجوع نہیں ہوسکتا۔ رجعی طلاق دوبار ہوسکتی ہے یعنی ایک بار طلاق دی پھر مدت کے دن پورے ہونے سے قبل رجوع کرلیا، دوسری بار طلاق دی اور عدت کے ایام پورے ہونے سے قبل رجوع کر لیا، اب پھر اگر تیسری بار طلاق دی تو رجوع جائز نہیں کیونکہ طلاق بائن ہوگئی تاوقتیکہ کوئی دوسرا شخص نکاح کر کے طلاق نہ دے یا وہ عورت بیوہ ہوجائے تو بعد عدت پہلے شوہر سے نکاح ہوسکتا ہے)
محمد بن مسلمہ انصاری کی بیٹی سے رافع بن خدیج کا نکاح ہوا تھا جب رافع کی بیوی یعنی محمد بن مسلمہ انصاری کی بیٹی پر بڑھاپا چھا گیا تو رافع بن خدیج نےایک جوان عورت سے نکاح کر لیا اور نئی بیوی کی طرف زیادہ مائل ہوگئے۔ بڑھیا بیوی نے طلاق مانگی رافع نے طلاق دے دی پھر جب عدت گزرنے لگی تو رجعت کرلی مگر میلان نئی بیوی کی طرف ہی رہا، چند روز بعد بڑی بیوی نےپھر طلاق مانگی، رافع نے ایک طلاق دیدی جب ایام ختم کے قریب قریب پہنچے رجوع کرلیا مگر رغبت و میلان اسی چھوٹی بیوی کی طرف رہا۔ بڑی بیوی نے پھر چند روز کے بعد طلاق کی خواہش کی، تب رافع بن خدیج نے کہا تجھے کیا منظور ہے اب ایک طلاق رہ گئی ہے اگرتو اسی حال سے میرے پاس رہ سکتی ہے تو رہ اور بالکل قطع تعلق چاہتی ہے تو پھر تیسری طلاق بھی دے دوں گا، بیوی نے آخر انجام پر نظز ڈالتے ہوئے کہا مجھے اسی حال میں رہنا منظور ہے، رافع نے اسے رکھ لیا اور طلاق نہ دی، اگرچہ مرد پر عورتوں کے ساتھ عدل سے برتاؤ کرنا فرض ہے لیکن جب عورت خود اپنا حق ہمبستری چھوڑنے پر راضی ہوجائے تو مرد پر کچھ گناہ نہیں، رسول اللهحضرت سودہ کی رضامندی سے ان کی باری میں حضرت عائشہ کے پاس رہا کرتے تھے۔)
(نکاح کے بعد اگر عورت سے ہم بستری نہ کی ہو، اور طلاق کی نوبت آئے تو ایک ہی طلاق سے طلاق بائن قرار پاتی ہے اگر بعد نکاح ہم بستری ہو چکی تو پھر تین بار کی طلاقوں سے طلاق بائن ہوتی ہے۔ حضرت علی کرم الله وجہ  سے مروی ہے کہ جو شخص اپنی عورت سے کہے کہ تو مجھ پر حرام ہے تو تین طلاق پڑجائیں گے۔ اگر کوئی مرد اپنی عورت کو طلاق دے اور عورت کے دن یعنی تین طہر گزر جائیں تو طلاق بائن ہوجائے گی۔ اگر کوئی شخص ایک ہی جلسے میں تین طلاق دے تو ایک ہی طلاق ہوگی پھر جب عدت کے دن یعنی طہر گزر جائیں گے اس عرصے میں رجعت نہ کی ہوگی تو طلاق ہوجائے گی۔
ایک جلسہ میں ایک طلاق دے یا تین یا سو طلاق یا ہزار طلاق وہ ایک ہی طلاق ہوگی۔ اگر کوئی شخص طلاق بائن ہی دینا چاہے تو ہر طہر میں تین طلاق دیا کرے مگر اس طہر میں ہم بستری نہ کرے جب تین طہر گزریں گے تو تین طلاق پوری ہوجائیں گی۔
جب عورت کچھ مال شوہر کو اس شرط پر دے کہ وہ اس کو طلاق دے دے اور خاوند تین طلاق ایک ہی دفعہ اس کو دیدے تو تین طلاق پڑجائیں گے۔ کیونکہ خلع سے طلاق بائن ہوجاتی ہے پھر رجوع نہیں ہوسکتا جب کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کر ے اور خلوت صحیحہ ہوجائے تو مہر واجب ہوگیا۔ اگر خلوت صحیحہ کے بعد کوئی شخص طلاق دے تو پورا مہرا ادا کرنا ہوگا۔ اگر کوئی شخص بعد نکاح قبل صحبت اپنی منکوحہ کو طلاق دے اور مہر مقرر ہوچکا ہو تو نصف مہر واجب الادا ہوگا ۔اگر مہر مقرر نہ ہو تو مہر مثل واجب ہوگا۔ مہر مثل اسے کہتے ہیں جو اس مرد اور عورت کے خاندان میں مقرر کیا جاتا ہو۔ مہر کے حق دار منکوحہ یا منکوحہ کے جائز ورثا ہیں۔
(کوئی عورت طلاق کے بعد ایام عدت یعنی تین طہر گزرنے سے قول کسی سے نکاح ثانی نہیں کرسکتی طلاق اور خلع کی عدفت ایک ہی ہے یعنی طہر)
خلع(۵۲۷)ابن عباس سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس کی بیوی رسول اللهکی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یارسول اللهثابت بن قیس پر مجھ کو غصہ نہیں ہے اور نہ اس کے خلق اور دین میں کوئی عیب ہے مگر مجھ کو اس سے محبت نہیں ہے فرمایا کیا تو اس کا وہ باغ جو اس نے مہر میں دیا ہے۔ واپس کردے گی؟؀ اس نے کہا ہاں۔ رسول اللهنے ثابت کو بلا کر فرمایا تیری اس بیوی حبیبہ بنت سہل نے جو کچھ الله تعالیٰ کو منظور تھا مجھ سےکہا، تو اپنا باغ لے لے اور اس سے قطع تعلق کرلے۔ انہوں نے اپنا مال لے لیا اور حبیبہ اپنے میکے میں بیٹھ رہیں۔ (موطا۔ بخاری)
یہ پہلا خلع تھا، اس کو خلع کہتے ہیں کہ خاوند عورت سے کچھ مال لے کر اس کو چھوڑے دے، اگر عورت جتنا خاوند نے اس کو دیا ہے اس سے زیادہ خاوند کو دے کر اپنا پیچھا چھڑائے تو اس میں کچھ قباحت یا کراہت نہیں۔
جو عورت مال دے کر اپنا پیچھا چھڑائے تو پھر اپنے خاوند سے مل نہیں سکتی کیونکہ خلع سے طلاق بائن ہوتی ہے جس کے بعد رجعت نہیں ہوسکتی)
(۵۲۸)ابوہریرہ سے روایت ہے فرمایا رسول اللهنے شوہروں کی نافرمانی کرنے والی اور بے وجہ خلع کا مطالبہ کر نے والی عورتیں منافق ہیں۔ (نسائی)
مسئلہ(جوان العمر عورت کا شوہر نامرد ہو یا کسی خبیث بیماری میں مبتلا ہو۔ جیسے برمن ۔ جذام۔ جنون۔ آتشک۔ سوزاک۔ بواسیر۔ گندہ دہنی اور عورت برداشت نہ کرستی ہو یا جنسی خواہشات و جذبات پر قابو نہ پاسکتی ہو یا شوہر ضروریات زندگی پوری نہ کرتا ہو اور ظلم بیجا کا خوگر ہو تو خلع کا مطالبہ کرسکتی ہے اور اس کا یہ مطالبہ جائز ہوگا۔)
(اگر کوئی شخص اس خیال سے کہ عورت کو ترکہ نہ پہنچے اپنی بیماری کی حالت میں طلاق دے کر مرجائے تو جب تک وہ عورت عقد ثانی نہ کرے تر کہ کی وارث ہوتی ہے۔ عبدالرحمٰن بن عوف نے مرض الموت میں اپنی بیوی کو طلاق دی تھی۔ ان کی وفات کے بعد ان کی مطلقہ بیوی کو حضرت عثمان نے ترکہ میں سے حصہ دلایا اگر بیماری کی حالت میں ایسی عورت کو طلاق دے کر مرجائے جس سے صحبت نہ کی ہو۔ تو اس کو آدھا مہر اور ترکہ ملے اور عدت لازم نہ آئے گی۔ اور اگر مریض جمع کے بعد طلاق دے کر مرے تو مطلقہ کو پورا پورا مہر ملے گا اور عدت لازم ہوگی۔)
(مرد کو لاز م ہے کہ طلاق کے ساتھ عورت کو بطور سلوک کچھ دے اپنی حیثیت اور استطاعت کے مطابق حیض کی حالت میں طلاق دینا ممنوع ہے۔ عبدالله بن عمر نے اپنی عورت کو حیض کی حالت میں طلاق دی تھی رسول اللهنے فرمایا جب تک حیض سے پاک نہ ہو۔ طلاق جائز نہیں جب طہر شروع ہو تو طلاق دو تاکہ تین طہر پورے ہونے پر طلاق بائن ہوجائے تین قروء کی جو مدت مقرر ہے جس سے تین طہر مراد ہیں۔ جب شروع طہر میں طلاق دی جائے تو تیسرا حیض شروع ہونے پر طلاق بائن ہوجائے گی اور تعلق منقطع ہوجائے گا پھر تو مرد عورت کا وارث ہوگا اور نہ عورت مرد کی وارث ہوگی اور نہ رجعت ہوسکے گی۔
(مطلقہ کی عدت تین ماہ، بیوہ کی عدت چار ماہ دس مقرر ہے۔)
مطلقہ اگر حاملہ یا ایّام عدت شوہر کے گھر میں گزارے تو اس کا نفقہ خاوند پر ہے۔ حاملہ کا نفقہ وضع حمل تک اور غیر حاملہ کا نفقہ تاختم عدت ہے۔
طلاق کے بعد عورت مختار ہے چاہے تو عدت کے دن خاوند کے گھر گزارے یا اپنے عزیزوں میں چلی جائے۔ اگر خاوند مطلقہ بیوی پر ظلم و تشدد نہ کرے اور عدت کے ایّام میں مطلقہ کی ضروریات زندگی مہیا کرسکے تو عورت کے لئے اسی گھر میں عدت گزارنا بہتر ہے جس گھر میں طلاق ہوئی ہے۔ بشرطیکہ جان و آبرو کا خطرہ نہ ہو)
(بیوہ)عورت کو بھی اسی مکان میں عدت گزارنی چاہیے۔ جہاں اس کے شوہر نے وفات پائی ہو اگر کوئی عذر پیش آئے۔ جیسے مکان کا اکیلا ہونا یا کرایہ مکان ادا نہ کرسکنا یا لڑائی جھگڑا ہونا یا کوئی اچانک حادثہ کا پیش آنا تو اس مکان سے اٹھ جانا درست ہے۔
(مطلقہ یا بیوہ اگرحاملہ ہوتووضع حمل کے بعد عدت ختم ہوجاتی ہے۔ کیونکہ عدت کی غرض و غایت حمل کا ظاہر ہونا ہی ہے۔)
ہدایت (ایّام حمل میں مجامعت سے یا شیر خورانی کے ایّام میں حمل قرار پانے سے جنبین پر اثر پڑتا ہے)
مسئلہ(۵۲۹)حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی رضی الله عنہم سے روایت ہے کہ اگر کسی عورت کا شوہر گم اور لاپتہ ہوجائے تو چار برس انتظار کرے اور پھر چار ماہ دس دن عدت کر کے چاہے تو نکاح کرلے۔ عقد ثانی کے بعد اگر مفقود الخبر شوہر واپس آجائے تو عورت کا حق دار نہ ہوگا یعنی اسے عورت پر کچھ اختیار نہ ہوگا۔ (موطا)
(اگر کوئی متاہل مرد یا عورت اسلام سے منحرف ہو کر مرتد ہوجائے یا کلمات کفر و شرک علانیہ ارادتاً زبان پر لائے تو نکاح رجوع فسخ ہوجاتا ہے بشرطیکہ دونوں میں سے کوئی ایک راہ راست پر ہو اور دوسرا گمراہ، بعد توبہ و ادائے کفارہ رجوع کر سکتے ہیں کیونکہ تبدیلی مذہب یا الحاد و بے دینی سے نکاح فسخ ہوتا ہے طلاق نہیں پڑتی۔)
(اگر کوئی مرد نکاح کے کچھ عرصہ بعد کسی سبب سے ازکار رفتہ یعنی ناکارہ نامرد ہوجائے تو علاج کے لئے ایک برس کی مہلت دی جائے اس عرصہ میں صحت یاب نہ ہو تو عورت کی درخواست پر مسلمان حاکم یا قاضی تفریق کردینے کا مجاز ہوگا۔)
(بیوہ کے لئے ایام عدت میں بناؤ سنگار کرنا منع ہے)
ایلاء (کوئی مرد قسم کھائے کہ میں اپنی عورت سے ہم بستری نہ کروں گا۔ اس کو ایلاء کہتے ہیں، اگر ایلاء کو چار ماہ سے زائد گزر جائیں تو ایک طلاق پڑجائے گی، اس طلاق کی عدت یعنی تین طہر پورے ہونے سے قبل رجعت ہوسکتی ہے قسم توڑنے کا کفارہ لازم ہوگا۔ اگر ایلاء کے چار ماہ اور عدت کے تین ماہ گزر جائیں اور اس عرصہ میں رجوع نہ کیا جائے تو طلاق بائن پڑ جائے گی پھر رجعت نہیں ہو سکتی۔
اگر ایلاء کو چار ماہ کا عرصہ نہ گزرے تو طلاق نہ پڑے گی اس عرصہ میں اگر ہم بستری کرے تو قسم کا کفارہ ادا کرنا لازم ہوگا کم ازکم تین روزے یادس یا چھ مسکین کی دعوت طعام یا ایک بکری کی قربانی کا صدقہ)
ظِہار (اپنی عورت کے کسی عضو کو اپنی ماں یا بہن یا بیٹی کے اعضا سے تشبیہ دینے کو ظہار کہتے ہیں ظہار بدترین گناہ ہے، ظہار واقع ہوتے ہی عورت حرام ہوجاتی ہے جب تک ظہار کا کفارہ ادا نہ کرے طلاق معلق رہے گی۔)
ظہار کاکفارہ ہے ایک بردہ آزاد کرنا یا دو ماہ مسلسل روزے رکھنا یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا اگر ظہار کے بیہودگی سے صرف عورت کو ضرر پہنچانا مقصود ہو اورکفارہ ادا کرنے کی نیت نہ تو ایلا ہوجائے گا۔
لعان(۵۳۰)عبدالله بن عمر سے روایت ہے کہ ایک شخص نے لعان کیا اور اپنے لڑکے کو کسی غیر کا کہا، رسول اللهنے دونوں میں تفریق کرادی اور لڑکے کو ماں کے حوالے کردیا۔ (موطا)
(شرعی اصطلاح میں لعان اس کو کہتے ہیں کہ کوئی مرد اپنی عورت پر زنا کی تہمت لگائے تو قاضی یا مسلمان حاکم میاں بیوی کا حلفیہ بیان لے کر تفریق کرادے۔
جب کوئی مرد اپنی عورت پر زنا کی تہمت لگائے تو اس کو چار گواہ عینی پیش کرنا ہوگا اگر گواہ نہ لاسکے تو حاکم آخری فیصلہ کے لئے دونوں سے حلفیہ بیان لے گا، دونوں میں ہر ایک کو چار بار الله کی قسم کھا کر پانچویں بار یہ کہنا ہوگا کہ دونوں میں سے جو جھوٹا ہو اس پر الله کا قہر وغضب نازل ہو۔ اس کے بعد حاکم یا قاضی باہم تفریق کرادے گا۔ پھر میاں بیوی آپس میں کبھی نکاح نہیں کرسکتے۔ کیونکہ لعان کے فیصلہ کے بعد تفریق مدّت العمر کے لئے ہوتی ہے۔ اگر بعد ان کے مردو خود کو جھٹلائے تو اس پر حدقذف پڑے گی اور جنبین یا مولود کا نسب اس سے ملادیا جائے گا۔)
ہدایت(۵۳۱)ابوہریرہ سے روایت ہے فرمایا رسول اللهنے جو عورت زنا کا بچہ جنے اور اس کو اپنے خاوند کی طرف منسوب کردے وہ جنت میں داخل نہ ہوگی۔ اور مرد انکار کرے اپنے بچہ کا یہ جانتے اور یقین رکھتے ہوئے کہ وہ بچہ درحقیقت اسی کا ہے تو الله تعالیٰ اس کو اگلے اور پچھلے لوگوں میں رسوا کرے گا اور قیامت کے دن اس کو دیدار الٰہی نصیب نہ ہوگا۔ (ابوداؤد۔ نسائی۔ دارمی۔)
(۵۳۲)ابن عمر سے روایت ہے رسول اللهنے لعان کرنے والے سے فرمایا کہ تم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے،اب تیرا اس عورت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ یہ تفریق دائمی ہے اور یہ عورت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تجھ پر حرام ہے۔ اس شخص نے عرض کیا یارسول اللهمیرا دیا ہوا مہر اورمال فرمایا اگر تو اپنے دعوے میں سچا ہے مہر اور مال ہم بستری کے بدلے میں گیا اور اگر تیرا دعویٰ جھوٹا ہے مہر کا واپس لینا تجھ سے بہت بعید ہے۔ (بخاری و مسلم)
(۵۳۳)ابوہریرہ سے روایت ہے ایک دیہاتی رسول اللهکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری بیوی نے ایک سیاہ فام بچہ جنا ہے جو میرے نطفہ سے نہیں۔ رسول اللهنے فرمایا کیا تیرے پاس اونٹ ہیں عرض کیا ہاں، فرمایا ان کے بالوں کا رنگ کیسا ہے؟ عرض کیا سرخ، فرمایا سرخ اونٹوں کے بچے خاکستری رنگ کے کیسے پیدا ہوگئے؟ عرض کیا کوئی رنگ ہے جس نے ان کو خاکی رنگ بنادیا، فرمایا شاید اسی رنگ نے تیرے بچہ میں کالا رنگ پیدا کردیا ہو، (بخاری و مسلم)
(محض رنگ کا فرق موجب شبہ نہیں ہوسکتا)
(۵۳۴)سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے فرمایا رسول اللهنے جو شخص اپنے باپ کے سوا کسی دوسرے کی طرف خود کو منسوب کرے اس پر جنت حرام ہے۔ (بخاری و مسلم)
کفران نعمت(۵۳۵)ابوہریرہ سے روایت ہے فرمایا رسول اللهنے اپنے حقیقی باپوں سے اعراض نہ کرو یعنی ان کے نسب سے خود کو بیگانہ اور غیر نہ بناؤ اس لئے کہ جس شخص نے اپنے باپ کے نسب سے اعراض کیا اس نے کفران نعمت کیا۔، (بخاری و مسلم)
(کفران نعمت کی سزا جہنم ہے)
سوگ(۵۳۶)ام حبیبہ ، ام عطیہ ، زینب بن حجش سے روایت ہے فرمایا رسول اللهنے کوئی مسلمان عورت کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ نہ کرے مگر شوہر کے مرنے پر چار مہینے دس دن تک ایام مدت میں سوگ کیاجائے اور ان دنوں میں نہ تو رنگین کپڑے پہنے اور نہ مہندی و سرمہ لگائے۔ (بخاری و مسلم)
ہدایت(۵۳۷)عمرو بن شعیب روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے رسول الله کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میرا بیٹا جس کو میں نے پالا پرورش کیا۔ مدتوں میرا پیٹ اس کا برتن رہا۔ میری چھاتی اس کی مشک رہی اور میں گود اس کا گہوارہ، اب اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے اور وہ مجھ سے اس کو چھین لینا چاہتا ہے رسول اللهنے فرمایا جب تک تو دوسرا نکاح نہ کرے اس کی پرورش کی زیادہ مستحق ہے۔ (ابوداؤد)
(۵۳۸)ابوہریرہ سے روایت ہے ایک عورت نے رسول اللهکی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ میرا شوہر چاہتا ہے کہ میرے بیٹے کو لے جائے حالانکہ اب وہ اس قابل ہوا ہے کہ میری خدمت کر ے اور مجھے نفع پہنچائے۔ رسول اللهنے باپ اور بیٹے کو طلب فرما کر لڑکے سے فرمایا یہ تیرا باپ ہے اور یہ تیری ماں ہے ان میں سے جس کے پاس تو رہنا پسند کرے اس کا ہاتھ پکڑ لے، لڑکے نے ماں کا ہاتھ پکڑ لیا اور وہ اس کو لے گئی۔ (ابوداؤد۔ نسائی۔ دارمی)
(لڑکے کو اختیار دیا گیا چاہے ماں کے پاس رہے یا باپ کے پاس رہے)
(۵۳۹)حضرت عائشہ سے روایت ہے رسول اللهکی خدمت میں ایک عورت نے عرض کیا کہ میرا شوہر نہایت بخیل آدمی ہے مجھ کو اس قدر نہیں دیتا جو میرے اور میری اولاد کے مصارف کے لئے کافی ہو، اگر میں اس کے مال میں سے بقدر ضرورت اس طرح نکال لوں کہ اس کو خبر نہ ہو تو جائز ضروریات پوتی ہو سکتی ہیں۔ رسول اللهنےفرمایا جب وہ مالدار ہے اور اہل و عیال کی جائز ضروریات پوری نہیں کرتا تو بقدر ضرورت تو اس کے مال میں سے لے لیا کرو اوراپنے اور اس کی اولاد کے شرعی حق کے برابر خرچ کر لیا کر۔ (بخاری و مسلم)
(۵۴۰)جابر بن سمرہ سے روایت ہے فرمایا رسول اللهنے جب الله تعالیٰ تم سے کسی کو مال عطا فرمائے تو اس کو چاہیے کہ اپنی ذات اور اپنے گھر والوں پر خرچ کرے۔ (مسلم)
(۵۴۱)ابو موسیٰ سے روایت ہے رسول اللهنے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو باپ اور بیٹے کے درمیان جدائی ڈالے یا دو بھائیوں کو علیحدہ علیحدہ کردے۔ (ابن ماجہ۔ دارقطنی)