Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

گندم کے کھیتوں میں پائے جاتے ہیں? جو شریف شعیر

گندم کے کھیتوں میں پائے جاتے ہیں? جو شریف ۔ شعیر

خوردنی اجناس میں جو ایک عام سی جنس ہے۔ یہ گندم کے کھیتوں میں پائے جاتے ہیں اور گندم سے پہلے پک جاتے ہیں۔ عربی اور فارسی میں انہیں شعیر اور انگریزی میں Barley کہتے ہیں۔

barley-jou

اگرچہ یہ کاشت کئے جاتے ہیں مگر اس کی خودرو قسم بھی پائی جاتی ہے۔
تاجدار انبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو جو بہت پسند تھے۔ یوں تو عرب میں ستو گندم سے بھی بنائے جاتے ہیں مگر ان کو جو سے بنے ستو پسند تھے۔
حضرت یوسف بن عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے جو کی روٹی کا ٹکڑا لیا۔ اس کے اوپر کھجور رکھی اور فرمایا کہ یہ اس کا سالن ہے اور کھالیا۔ (ابو داؤد شریف)
جو کوٹ کر انہیں دودھ میں پکانے کے بعد مٹھاس کیلئے اس میں شہد ڈالا جاتا ہے۔ اسے تلبینہ کہتے ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے اہل خانہ میں سے جب کوئی بیمار ہوتا تھا تو حکم ہوتا تھا کہ اس کے لئے جو کا دلیہ تیار کیا جائے۔ پھر فرماتے تھے کہ بیمار کے دل سے غم کو اتار دیتا ہے اور اس کی کمزوریوں کو اتار دیتا ہے جیسے کہ تم میں سے کوئی اپنے چہرے کو پانی سے دھو کر اس سے غلاظت اتار دیتا ہے

ابن ماجہ
اس سے معلوم ہوا دلیا مریض کو مسلسل اور بار بار دینا اس کی کمزوری کو دور کرتا ہے اور اس کے جسم میں بیماری کا مقابلہ کرنے کی استعداد پیدا کرتا ہے۔
جو کا دلیا مریض کو کھلانے سے قوت حاصل ہوتی ہے۔ ابن القیم نے جو کے پانی کو پکانے کا جس نسخہ بیان کیا ہے۔ اس کے مطابق جو لے کر ان سے پانچ گنا پانی ان میں ڈالا جائے۔ پھر انہیں اتنا پکایا جائے کہ پانی دودھیا ہو جائے اور اس کی مقدار میں کم از کم ایک چوتھائی کی کمی آ جائے۔ اس غرض کیلئے اگر ثابت جو استعمال کرنے کی بجائے جو کا دلیہ استعمال کیا جائے تو جو سے حاصل ہونے والے فوائد اور زیادہ ہو جائیں گے۔ یہ امر صریح ہے کہپکنے کے بعد جو کا پانی فوری اثر کرکے طبیعت کو بشاش بناتا ہے۔ جسم کو کمزوری کا مقابلہ کرنے کیلئے غذا مہیا کرتا ہے۔ اگر اسے گرم گرم پیا جائے تو اس کا فوری اثر شروع ہوکر جسم میں حرارت پیدا کرتا، مریض کے چہرے پر شگفتگی لاتا ہے۔

پیٹ کی جملہ سوزشوں کا علاج
جو کے چار بڑے چمچے 2/1 2 اونس چار سیر پانی میں اتنی دیر پکاتے جائیں کہ پانی کی نصف رہ جائے۔ یہ پانی آنتوں اور معدہ کی سوزش، بخاروں کی تپش، پیشاب کی جلن، مقعد کے ناسور کی جلن اور گردوں کی سوزش میں مفید ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا روایت فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ “گردے کا مرکز اس کی جان ہے۔ اگر اس میں سوزش ہو جائے تو جس کا گردہ ہے، اسے بڑی اذیت ہوتی ہے۔ اس کا علاج ابلے ہوئے پانی میں شہد ملاکر کیا جائے۔ پانی کو ابالتے وقت اگر اس میں جو بھی شامل کرلیں تو فوائد سر گنا ہو جائیں گے۔ یہ لذیذ شرابت گردوں کی ہمہ اقسام کی سوزشوں، مثانہ کی سوزش اور معدہ کے السر میں کسی بھی دوائی سے زیادہ مفید اور فوری طور پر مؤثر پایا گیا ہے۔
بھارتی ماہرین نے زچہ کے دستوں میں جو کے ساتھ مسور کی دال ابال کر یا یخنی میں جو ڈال کر دینا کمزوری کیلئے بھی مفید بیان کیا ہے۔ انہوں نے معدہ، آنتوں اور گلے کی سوزش کیلئے یہ نسخہ مجرب بیان کیا ہے۔
انجیر خشک 2/1 2 اونس
منقی 2/1 2 اونس
سفوف ملٹھی 2 چمچے
جو کا پانی 2 سیر
سادہ پانی 1سیر
جب یہ پانی پکنے پر آدھا رہ جائے تو اتار کر چھان لیں۔ آدھ پیالی چائے والی گرم گرم دی جائے۔ یہ نسخہ ایک تاریخی نسخے سے حاصل کیا معلوم ہوتا ہے۔ مکہ معظمہ میں جب حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ ابن وقاص بیمار ہوئے تو ان کیلئے حکیم حارث بن کلدہ نے ایک نسخہ کیا جسے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے مشورہ کے بعد اس طرح تیار کیا گیا تھا، انجیر خشکی، ملٹھی، میتھرے، شہد، پانی۔
یہ فریقہ مریض کو نہار منہ گرم گرم پلایا جاتا ہے۔ بھارت ماہرین کے نسخہ میں جوکی آمیزش ہے جبکہ اس نسخہ میں میتھرے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے انجیر اور منقی کو بیک وقت دینے سے منع فرمایا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھارتی نسخہ میں اکثر مریضوں کو اسہال شروع ہو جاتے ہیں۔ (طب نبوی اور جدید سائنس)

پیشاب کے جملہ عوارض کا علاج
پیشاب میں خون اور پیپ کے مریضوں میں وجہ کوئی بھی ہو، مناسب علاج کے ساتھ جو کا پانی اگر شہد ڈال کر پلایا جائے تو یہ تکلیف پندرہ روز میں ختم ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات یہی طریقہ پتھری نکالنے کا باعث بھی ہوا۔

کولیسٹرول کم کرنے کا علاج
اب یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ گئی ہے کہ جو کا دلیا (تلبنیہ) کھانے سے خون کی کولیسٹرول کم ہو جاتی ہے۔ متعدد تجربات کے بعد جو کا دلیہ کھانے سے دل کے دورے کا خدشہ کم ہو جاتا ہے اور خون کی کولیسٹرول کم ہو جاتی ہے۔ دل کے ہر مریض کو بلڈ پریشر سمیت نہار منہ جو کا دلیہ شہد ڈال کر دیا جائے تو نتائج شاندار ہوتے ہیں۔ بہرحال تلبنیہ دل کے تمام مسائل کا مکمل علاج ہے۔

ویدک طب میں جو ہر تجربات

ویدک طب میں اسے بھاری پن کو کم کرنے والا، چہرے کو نکھارنے والا، پیٹ کو کم کرنے والا قرار دیا ہے۔ بدن کو مضبوط کرتا ہے۔ چونکہ یہ جلد ہضم ہو جاتا ہے، اس لئے کمزوری اور بدہضمی سے ہوا نکالنا اور ملین ہے۔ اس کا گرم پانی پینے سے گلے کی سوزش میں کمی آتی ہے۔ اس کا مریدہ قابض دواؤں کے ساتھ دست روکتا ہے۔ جو کا آٹا گوندھ کر اس میں چھاچھ ملاکر پینے سے صفراوی قے۔ پیاس کی شدت اور معدہ کی سوزش میں فائدہ ہوتا ہے۔
اطباء نے اعصابی دردوں، اورام، سوزشوں اور خارش کی مختلف اقسام میں جو کے استعمال کو مفید بتایا ہے۔ جو کا آٹا سرکہ میں گوندھ کر ہر قسم کی خارش میں لگانا مفید ہے۔ سر کی پھپھوندی کو دور کرتا ہے۔ جو کے آٹے کو شہد کے پانی میں دوندھ کر لیپ کریں تو بلغمی اورام تحلیل ہوتے ہیں۔ سفر جل (بہی) کا چھلکا اتار کر اسے جو اور سرکہ کے ساتھ پیس کر جوڑوں کے درد اور اعصابی دردوں پر لگانا نفع آور ہے۔ جو کے ساتھ تخم ضیاپن پیس کر پلورسی پستان کے درد میں لگانا مفید ہے۔ جو اور گیہوں کی بھوسی کو پانی میں ابال کر اس پانی سے کلیاں کریں تو دانت کا درد جاتا رہتا ہے۔ جو کے بارے میں حکماء نے بڑے اہم تجربے کئے ہیں۔ بو علی سینا نے لکھا ہے کہ جو کھانے سے خون پیدا ہوتا ہے۔ وہ معتدل، صالح، اور کم گاڑھا ہوتا ہے۔ فردوس الحکمت میں لکھا ہے کہ جو کوئی اس کے وزن سے پندرہ گنا پانی میں اتنی دیر ہلکی آگ پر پکایا جائے کہ تیسرا حصہ اڑ جائے۔ یہ پانی جسم کی تقریباً ایک سو بیماریوں میں مفید ہے۔ شمس الدین ثمرقندی اسے فوائد کے لحاظ سے گندم سے کم درجہ دیتا ہے مگر گندم سے فضیلت دیتا ہے کہ جسم کی گرمی اور تپش کو کم کرتا ہے۔

دواء خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

 

طب میں دار چینی ڈھیروں بیماریوں کی معالج

cinnamon

طب میں دار چینی ڈھیروں بیماریوں کی معالج
طب مشرق میں اسے دل‘ دماغ اور جگر کے لیے تقویت بخش قرار دیا گیا ہے۔کاسر ریاح ہے خفقان ختم کرتی اور اسہال و پیچش میں فائدہ دیتی ہے اخلاط فاسد کی اصلاح کرتی ہے‘ روغن دار چینی میں روئی کا تر کیا ہوا پھاہا لگانے سے دانت درد ختم ہوجاتا ہے
گرم مصالحہ جات میں دار چینی جسے ہمارے ہاں خواتین سالن کو خوش ذائقہ بنانے کیلئے بھی عام استعمال کرتی ہیں ادویاتی اثرات کے لحاظ سے بھی اہم ہے۔طب مشرق میں اسے دل‘ دماغ اور جگر کے لئے تقویت بخش قرار دیا گیا ہے۔قوت باہ اور بصر کیلئے مفید ہے۔ خفقان ختم کرتی اور اسہال و پیچش میں فائدہ دیتی ہے۔ اخلاط فاسدہ کی اصلاح کرتی ہے۔ ہوائی نالیوں سے بلغم نکالتی ہے۔ آواز صاف کرکے سینے کے بوجھ کو کم کرتی ہے۔ غذا کے ہاضمہ میں مدد دیتی ہے۔ قے کو روکتی ہے‘ نظر کو بہتر بناتی ہے۔ بقراط کہتا ہے کہ دار چینی عفونت پیدا نہیں ہونے دیتی۔ جدید طبی سائنسی تحقیق کے مطابق دار چینی میں فراری تیل موجود ہے اسکے علاوہ ایک کیمیائی مادہ ٹے نین‘ شکر‘ گوند کے علاوہ روغن دار چینی میں ایک جزو موثرہ کے علاوہ قلیل مقدار میں فلیڈرین اور پاٹینن پائے جاتے ہیں۔ اس طرح اسہال اورپیچش میں اس کا فائدہ تسلیم کیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں جو دار چینی استعمال ہوتی ہے اس میں ٹے نین کا جزو بہت کم ہے اسلئے یہ کاسر ریاح تو ہے مگر قابض نہیں ہے۔
مقدار خوراک:دار چینی کی مقدار خوراک 1 تا 2 گرام سفوف ہے اسکا منہ کے راستہ استعمال کرایا جائے تو معدہ اور آنتوں پر اثرانداز ہوکر اپنے فراری روغن کے باعث جلد جزو بدن بنتی ہے۔
بدہضمی
کھانا صحیح طور پر ہضم نہ ہونا‘ پیٹ پھولنا‘ ریاحوں کا بھر جانا یا پھر بھوک صحیح طور پر نہ لگنا ایسی صورتوں میں دار چینی کے تین سے پانچ قطرے روغن میں ضرورت کے مطابق دار چینی میں ملا کر نیم گرم پانی سے دیدیں، فائدہ ہوتا ہے۔دانت درد
روغن دار چینی میں روئی کا تر کیا ہوا پھاہا لگانے سے دانت درد ختم ہوجاتا ہے۔دودھ ہضم نہ ہونا
بعض لوگوں کو دودھ ہضم نہیں ہوتا اور کہتے ہیں کہ دودھ بادی کرتا ہے اور اس سے ریاح پیدا ہوتی ہے ایسے لوگ ایک لٹر دودھ میں دار چینی پیس کر ۳گرام ڈال لیں اور جوش دے کر پی لیں اس سے نہ صرف دودھ ہضم ہوگا بلکہ قوت ہاضمہ بھی بڑھے گی۔دمہ اور کھانسی
جن لوگوں کو کھانسی اور دمہ کی شکایت ہے وہ دار چینی پیس کر 1.1گرام شہد دو دو چمچے صبح‘شام کھائیں۔کاسرریاح
ریاحوں کے اخراج کیلئے دار چینی کا جواب نہیں ایسی صورت میں دار چینی منہ میں رکھ کر چبائی جائے اور سالن میں ڈال کر استعمال کی جائے۔

الرجک نزلہ‘ زکام
ماحولیاتی آلودگی خصوصاً فضائی آلودگی کی وجہ سے نزلہ زکام اور چھینکیں آنے کا عارضہ عام ہوگیا ہے بعض لوگوں کو صبح ہوتے ہی ناک سے پانی بہنا شروع ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگوں کیلئے یہ نسخہ بہت مفید ہے۔

ھو الشافی
برگ بنفشہ چھ گرام‘ تخم میتھی چھ گرام اور دارچینی تین گرام پیس کر آدھے گلاس پانی میں جوش دے کر چھان کر صبح نہار منہ پندرہ بیس یوم تک پینا مفید ہے۔
سفوف ہاضم و مقوی معدہ:دار چینی‘ سونٹھ‘ دانہ الائچی خورد‘ ہم وزن پیس کر قبل غذا دوپہر شام ایک سے تین گرام تازہ پانی سے استعمال کرنے سے نظام ہضم کی اصلاح ہی نہ ہوگی بلکہ معدہ بھی مضبوط ہوگا۔
دار چینی اور سہاگہ ہم وزن پیس کر صبح ‘ شام 3-3 گرام تازہ پانی سے دیا جائے۔ یہ نسخہ وضع ولادت کے انتہائی قریب استعمال کرایا جائے۔

بواسیر
بواسیر میں دار چینی کا ضماد لگانا مفید ہے۔

ہچکی
مصطگی کیساتھ ملا کر جوش دیکر پینے سے ہچکی کو فائدہ ہوتا ہے۔
درد سر بارد
دار چینی کا لیپ کرنا مفید ہے۔

کینسر
مانچسٹر (برطانیہ ) کے ہسپتال میں ڈاکٹر جے جے کرنی نے سرطان کے مریضوں کو زیادہ مقدار میں دار چینی کا استعمال کرایا تو خاطر خواہ نتائج سامنے آئے۔

عرق
دار چینی کا عرق سریع الاثر ہوتا ہے قوت ہاضمہ کیلئے بہت مفید ہے ریاحوں کو خارج کرتا ہے یرقان میں مفیدہے۔

دار چینی سے ذیابیطس کا علاج
میری لینڈ امریکہ سائنسدانوں نے دار چینی کے جوہر سے ذیابیطس کا علاج کرنے کا تجربہ کیا ہے ۔ تحقیق کے حوالے سے رپورٹ نشر کی ہے کہ خون میں شکر کی مقدار کنٹرول کرنے والے خلیے جب اپنی مخصوص صلاحیت کھودیتے ہیں تو ذیابیطس کا مرض لاحق ہوجاتا ہے۔ رچرڈ سن نے خلیوں کی صلاحیت کو دار چینی کے جوہر سے بہتر بنایا ہے۔

دواء خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

 

دل کی بیماری میں علاج شہد اور دارچینی سے

دل کی بیماری میں علاج شہد اور دارچینی سے

دیسی گھریلو ٹوٹکے

شہد اور دارچینی کا مرکب بہت ساری بیماریوں کو دور کر سکتا ہے۔شہد بغیر کسی سائیڈ افیکٹ کے بہت سی بیماریوں کا علاج کر سکتا ہے۔نئے دور کی جدید تحقیق نے یہ بات ثابت کی ہے کہ شہد تمام بیماریوں کے علاج میں مفید ثابت ہوتا ہے ۔یہاں تک کہ اگر اسے ایک مخصوص مقدار میں شوگر کے مریض بھی لیں تو انکے لیے بھی یہ فائدہ مند ہے۔ہفت روزہ ورلڈ نیوز ،(کینیڈا کا ایک جریدہ ہے ) اسکے جنوری 18 ،1995 کے شمارے میں مندرجہ ذیل بیماریوں کی لسٹ شائع ہوئی جنکا علاج شہد اور دارچینی سے عین ممکن ہے۔

دل کی بیماری میں
شہد اور دارچینے کا پیسٹ بنایئں اور اسے روٹی یا ڈبل روٹی پر جام ،جیلی کی بجائے لگایئں اور روزانہ کھایئں۔یہ کلسٹرول کو کم کرتا ہے شریانوں میں سے اور دل کے دورے سے بچاتا ہے۔جنھیں دل کا دورہ پہلے بھی پڑ چکا ہو وہ بھی اگر روزانہ یہ لیں تو یہ انہیں اگلے دورے سے دور رکھے گا۔اسکا روزانہ استعمال حبس دم میں مفید ہے اور دل کی دھڑکن کو بہتر بناتا ہے۔امریکہ اور کینیڈا کے مختلف نرسنگ ہومز میں مریضوں کو بہت کامیابی کے ساتھ اس طریقے سے ٹریٹ کیا جا رہا ہے۔جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے دل کی شریانوں کی لچک میں کمی واقع ہوتی ہے اور رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔شہد اور دارچینی سے شریانوں کی قوت کو دوبارہ بحال ہوتی ہے۔
دانت کے درد میں
ایک چمچہ پسی دارچینی اور پانچ چمچے شہد کا ایک پیسٹ بنایئں۔ اور اسے اس دانت پر دن میں تین مرتبہ لگایئں جس میں درد ہو جب تک کے درد ختم نہ ہو جائے۔

بڑھے ہوئے کلسٹرول میں
دو کھانے کے چمچے شہد اور تین چائے کے چمچے پسی ہوئی دارچینی کو ١٦ اونس چائے کے پانی میں ملایئں۔اور کلسٹرول کے مریض کو دیں۔اس سے ١٠٪ کلسٹرول صرف دو گھنٹوں میں کم ہو جاتا ہے۔اگر اسے روزانہ دن میں تین مرتبہ لیا جائے تو پرانے سے پرانا مرض بھی ٹھیک ہو جاتا ہے اور اگر خالص شہد روزانہ کھانے کے ساتھ لیا جائے تو اس مرض میں بہت مفید ہے۔

اگر ٹھنڈ لگ جائے تو
ایک کھانے کا چمچہ نیم گرم شہد اور ایک چوتھائی چمچہ پسی دارچینی روزانہ دن میں تین مرتبہ لیں تو پرانے سے پرانا بلغم ،ٹھنڈ دور کرتا ہے اور سایئنس کو صاف کرتا ہے۔

معدے کے امراض میں
شہد ،دارچینی کے ساتھ لینے سے معدے کا درد بھی دور ہوتا ہے اور معدے کے السر کو بھی یہ جڑ سے اکھاڑ دیتا ہے۔

گیس کی تکلیف میں
انڈیا اور جاپان کی تحقیق کے مطابق شہد اور پسی دارچینی کو ایک ساتھ لینے سے گیس سمیت معدے کی جملہ تکالیف میں افاقہ ہوتا ہے۔

وبائی زکام میں
تین دن تک نیم گرم شہد ایک کھانے کے چمچے کے ساتھ پسی دارچینی ایک چوتھائی چائے کا چمچہ۔

دانوں اور جلدی امراض کے لیے
تین کھانے کے چمچے شہد اور ایک چائے کا چمچہ پسی دارچینی کا پیسٹ بنا لیں۔رات سوتے وقت اسے چہرے پر لگایئں اور صبح دھو لیں۔اگر یہ عمل دو ہفتے تک مستقل کیا جائے تو یہ چہرے کے دانوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔اسکے علاوہ ایگزیمہ ،داد اور جلد کی دوسری بیماریوں کے لیے بھی مجرب نسخہ ہے۔

وزن کو کم کرنے کے لیے
روزانہ صبح ناشتے سے آدھا گھنٹہ پہلے،خالی پیٹ اور رات سونے سے پہلے ،ایک چائے کا چمچہ دارچینی اور ایک کھانے کا چمچہ شہد ایک کپ گرم پانی میں پیئں۔اگر یہ عمل روزانہ کیا جائے تو وزن کم ہو جاتا ہے اور اس کے مستقل استعمال سے جسم میں فاضل چربی بھی نہیں بن پاتی ہے۔

.کینسر کے لیے
معدے اور ہڈیوں کے کینسر کے کئی مریض جاپان اور آسٹریلیا میں اس طریقہ علاج سے مستفید ہوئے ہیں۔دواؤں کے ساتھ روزانہ ایک چائے کا چمچہ پسی دارچینی اور ایک کھانے کا چمچہ شہد روزانہ دن میں تین بار لیں۔

بالوں کے جھڑنے میں
روزانہ صبح اور رات میں ایک چائے کا چمچہ شہد اور پسی دارچینی لینے سے بالوں کا جھڑنا بھی رک جاتا ہے۔

انتباہ
کسی بھی چیز کی زیادتی اچھی نہیں ہوتی ہے۔اسلیے بتائے ہوئے طریقوں سے تجاوز نہ کریں تحقیق نے یہ بات ثابت کی ہے کہ دارچینی کا تیل ایک مؤثر مچھر مار ہوتا ہے ۔یہ تحقیق بتاتی ہے کہ دارچینی کا بیجا استعمال صحت کے لیے مضر بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

لاعلاج بیماریوں کا حقیقی علاج صرف عبادات میں

لاعلاج بیماریوں کا حقیقی علاج صرف عبادات میں
قرآن کریم کی دوسری آیات سر چشمہ صحت کی رہنمائی کرتی ہے۔ ”وَنُنَزِّلُ مِنَ القُراٰنِ مَا ھُوَ شِفَآئ وَّرَحمَة لِّلمُومِنِینَ“ اور ہم قرآن میں ایسی چیزیں نازل کرتے ہیں جو ایمان والوں کے حق میں شفا اور رحمت ہیں۔ (سورة بنی اسرائیل82)۔یہاں یہ بات خاص طور پر توجہ طلب ہے کہ مسلمانوں کا ایمان بلکہ یقین ہے کہ مصیبت من جانب اللہ ہی ہے اور جب ہم سچے دل اور خلوص نیت سے غلطیوں کا اعتراف کر کے معافی کے طالب ہونگے اور مکمل صحت یابی کیلئے دعا کریں گے تو وہ یقینا اللہ تعالیٰ کے ہاں مغفرت بھی کرائے گی اور اپنی رحمت سے ہماری مشکلات اور مصائب کو دور بھی کردے گا۔ علاج بالتہجد ایک نفسیاتی طریقہ علاج ہے جس کی تعلیمات قرآن سے ماخوذ ہیں اوربحیثیت تقابل یہ مغربی طریقہ علاج کو پاس پھٹکنے نہیں دیتا۔ ایک مسلمان کا یہ یقین کامل ہے کہ وہ صرف اللہ ہی کا ایک ادنیٰ غلام ہے اور زندگی اور موت صرف اسی کے قبضہ قدرت میں ہے ۔ اسے زندگی کے گوناگوں ہنگاموں میں بہت سے مسائل سے یکسر نجات دے دیتا ہے۔ یہ مذہبی طریقہ علاج جو احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور آیات قرآنی سے مستعار لیا گیا ہے واقعتاً بہت سی دوسری نفسیاتی اور غیر نفسیاتی تکالیف کا منہ
توڑ جواب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی بیماری لا علاج نہیں جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ ”لکل داءدوائ“
اللہ تعالیٰ نے مریض کے لئے شفا عطا فرمائی ہے۔ بہت سی بیماریاں ایسی ہیں جن کا علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوا یعنی سرطان اور ایڈز وغیرہ لیکن مندرجہ بالا حدیث کے آئینے میں یہ بات سو فیصد وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ بیماریاں بھی لا علاج نہیں۔ لہٰذا نفسیاتی بیماریوں کا بہترین علاج سکون قلب میں مضمر ہے جو ذکر الٰہی اور نماز کے ذریعے ممکن ہے تا کہ روحانی اور نفسیاتی صفائی و پاکیزگی کا موجب بنے۔ درحقیقت ہم کسی بھی بیماری کی احتیاط اور روک تھام کیلئے اسلام کے صراط مستقیم پر ثابت قدم رہ کر سرخرو ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ آیات قرآنی، احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔اوقات نماز اورجدید سائنس
انسان طبعی طور پر محرک جسم ہے یہ جامد اور ساکت اجسام کی ضد ہے۔ اس لئے اس کی صحت ، تندرستی اور بقا تحریک میں ہے اور نماز بار بار اسی تحریک کا نام ہے۔ قدرت نے اس کے معمولات زندگی اور اس کو ازل سے ابد تک جانتے اور پہچانتے ہوئے نماز میں اس کیلئے اوقات اور وقفے مقرر کیے ہیں۔نماز فجر
نماز فجر اس وقت ہوتی ہے جب رات ڈوبنے کو ہوتی ہے اور اس وقت آدمی رات کے سکون اور آرام کے بعد اٹھتا ہے۔ سائنس اور حفظان صحت (Hygiene)کا اصول ہے کہ کسی بھی ورزش کو کرنے کیلئے آہستہ آہستہ اپنی رفتار، قوت اور لچک میں اضافہ کیا جائے حتیٰ کہ دوڑنے کیلئے بھی یہ ضروری ہے کہ اس میں پہلے آہستہ آہستہ دوڑیں پھر تیز پھر اور تیز اور پھرسبک رفتار بن جائیں۔ اب اگر انسان صبح اٹھتے ہی ستر ہ رکعات کی نماز پڑھے تو اس کی جسمانی صحت بہت جلد ختم ہو جائے گی اور وہ بہت ہی جلد اعصاب اور بے طاقتی کا مریض بن جائے گا۔ اور پھر رات سونے بعد صبح اٹھتے ہی پیٹ خالی ہوتا ہے اور خالی پیٹ اور اس وقت جب اعضاءرات بھر سکون میں رہے ہوں اور پھر فوراً انہیں تحریک دی جائے دونوں حالتوں میں سخت محنت اور زیادہ اٹھک بیٹھک بہت مضر ہے اس لئے اللہ رب العزت نے صبح کی نماز بہت مختصر رکھی ہے۔ صبح کی نماز کا بنیادی مقصد انسان کو طہارت (Sterilization) اور صفائی کی طرف مائل کرنا ہے اگر اس اس نے نما ز کا وضو نہ کیا اور مسواک نہ کی اور صبح کا ناشتہ کر لیا تو رات بھرجو جراثیم منہ میں پھلتے پھولتے رہے (اور ان(Bacteria)کی ایک خاص قسم رات سوتے وقت منہ میں پیدا ہو جاتی ہے) اگر وہ غذا، لعاب یا پانی کے ذریعہ اندر چلی جائے تو معدے کی سوزش (Stomach Swelling) اور آنتوں کی ورم (Inflammation of Intestines)اور السر (Ulcer) کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

Weight loss with food| وزن میں کمی غذا سے

Healthy Weight Loss

 

 

 

 

 

 

 

Weight loss with food|وزن میں کمی غذا سے

اچھی بات تو یہ ہے کہ انسان کا وزن بڑھتے ہی نہ پائے…. لیکن اگر کچھ وجوہ کی بناءپر وزن بڑھ ہی جائے تو پھر اسے کم کرنے کا فیصلہ بھی بہر حال ایک قابل تحسین اقدام ہے اس فیصلے پر عملدرآمد شروع کرتے ہی انسان اپنے آپ کو پہلے سے بہتر محسوس کرنا شروع کردیتا ہے۔ وزن کم کرنا صرف صحت کی بہتری کے نکتہ نظر سے ہی اہم نہیں…. بلکہ اس سےانسان کی ظاہری شکل وصورت اور شخصیت کے مجموعی تاثر میں بھی بہتری آتی ہے۔ اسکے علاوہ اگر آپ وزن کم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یوں سمجھئے کہ آپ کی زندگی کو لاحق بہت سے خطرات بھی کم ہو جاتے ہیں یعنی بہت سے امراض سے آپ سے خطرات بھی کم ہو جاتے ہیں یعنی بہت سے امراض سے آپ کے محفوظ رہنے کا امان بڑھ جاتے ہیں مثلاً دل کی بیماریاں، ذیابیطس، کمر اورجوڑوں کا درد وغیرہ، اس کے علاوہ شاید آپ کو یہ جان کی حیرت ہو کہ کی اقسام کے کینسر کا بھی کچھ نہ کچھ تعلق موٹا پے اور غیر ضروری وزن سے ہے۔ خوراک، غذائیت، آرائش حسن اور فٹنس کے بہت سے ماہرین کے علاوہ سے ڈاکٹر حضرات اور خواتین مندرجہ ذیل نکات پر متفق ہیں جن کی وجہ سے ہر انسان کو اپنا غیر ضروری وزن کم کرنے کی طرف ضرور توجہ دینی چاہیے۔
وزن کم کر کے آپ خود کو زیادہ جوان اور تروتازہ محسوس کرنے لگتے ہیں۔ آپ صرف بہتر نظر ہی نہیں آتے، خود کو واقعی بہتر محوس کرنے بھی لگتے ہیں۔

آپ کی ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔

آپ کی کارکردگی بڑھ جاتی ہے کیونکہ آپ کی توانائی میں اضافہ ہوتا ہے۔

بیماریوں کے خلاف آپ کی قوت مدافعت بڑھ جاتی ہے۔ کینسر، دل کی بیماریوں، کمر اور جوڑوں کے درد فالج اور سانس کی بیماریوں کے خطرات کم ہو جاتے ہیں۔

سانس لینا آپ کیلئے آسان ہو جاتا ہے۔ اعصابی تناﺅ اور دباﺅ کم ہو جاتا ہے۔

عمر بڑھتی ہے اور زندگی کے معاملات سے نمٹنا آپ کیلئے نسبتاً آسان ہو جاتا ہے۔

یہ تو ہوئے وزن کم کرنے کے فوائد مگر ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ وزن کم کرنے کیلئے دنیا بھر میں جو طریقے رائج ہیں اور جن کے بارے میں آپ کو بارہا محنت اخبارات ورسائل میں پڑھنے کا اتفاق ہوا ہو گا بہت سے طریقوں کے بارے میں آپ نے ٹی وی پروگرامز میں بھی سنا ہو گا ان میں سے کون سے طریقے بہتر ہیں؟ اس ضمن میں متعلقہ شعبوں کے ماہرین مندرجہ ذیل نکات پر متفق ہیں۔ یہ انکے برسوں کے مشاہدے اور تجربات کا نچوڑ ہیں۔ آپ جب بھی وزن کم کرنے کا پروگرام بنائیں ان نکات کا خیال ضرور رکھیں۔

بھوکا رہنے کو ڈائٹنگ یاوزن کم کرنے کا ذریعہ نہ سمجھیں وہ لوگ جو وزن کم کرنا چاہتے ہیں بھوکا رہنا ان کیلئے سب سبے زیادہ نقصان دہ چیز ہے۔ وزن کم کرنے کے سلسلے میں بھوکا رہنے کی نہیں بلکہ اپنی غذائی عادات کی اصلاح کرنے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

جب آپ اپنی غذائی عادات کی اصلاح اور بہت سی عادات پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہوں تو اس سلسلے میں بہت سی زیادہ مثالی انسان بننے کی کوشش نہ کریں۔ بہت زیادہ مثالی بننے کی کوشش میں بعض اوقات انسان ناکام ہو جاتا ہے۔

چھوٹی غلطیوں اور بے قاعدگیوں پر نہ کڑھیں۔ یہ فطری باتیں ہیں۔ کسی بھی بگڑی ہوئی چیز کی اصلاح یکدم نہیں ہوتی رفتہ رفتہ اپنی غذائی عادات کی اصلاح کریں اور انہیں بہتر بنائیں۔

زیادہ کھانا تو ضروری نہیں لیکن اچھا اور متوازن کھاناکھانا ضروری ہے اچھا اور متواز ن کھانا کھانے والے اعصابی تناو کا شکار نہیں ہوتے اور اپنے مشن میں ناکام رہنے کے امکانات ان کیلئے کم ہوتے ہیں۔

بہت تیزی سے وزن کم کرنے کی باتیں محض اشتہار بازی ہیں اور اس کیلئے جو طریقے اختیار کئے جاتے ہیں وہ عام طور پر نقصان دہ ہوتے ہیں زیادہ تر یہ دل بہلانے کی اور خیالی باتیں ہوتی ہیں وزن تیزی سے نہیں رفتہ رفتہ کم ہوتا ہے۔

ڈائٹنگ نہ کریں۔ کھانے پینے کی صحت مندانہ طریقے اختیار کریں۔

زندگی کی معمولات اور طور طریقے بدلنے سے وزن کم کرنے میں مدد ملتی ہے سستی اور کاہلی آمیز معمولات کی جگہ حرکت میں رہنے اور محنت کرنے کی معمولات اپنائیں۔

زندگی میں ہر قسم کی تبدیلیاں ایک ایک کر کے کریں ایک دم سب کچھ کر گزرنا نہ تو ممکن ہوتا ہے اور نہ ہی فائدہ مند،

خوراک کے سلسلے میں مندرجہ ذیل نکات کا خیال رکھیں۔

تلی ہوئی چیزیں نہ کھائیں نظر آنے والی چربی یا چکنائی ہٹا دیں۔ کھانوں میں چکنائی اور سلاد میں میٹھے کا استعمال کم سے کم کریں۔

چربی آپ کے جسم میں بھی چربی کو بڑھاتی ہے چربی سے بچیں۔

کھانوں کو ذائقے دار بنانے کیلئے چکنائی کے بجائے ہری مرچوں، لیموں سر کے اورسویا ساس پر انحصار کریں۔

عورتوں کو باسی اور بچے ہوئے کھانوں کی بڑی فکر ہوتی ہے ان کا حوصلہ پڑتا کہ وہ انہیں کسی اور کودے دیں۔ عام طور پر وہ انہیں خود کھاتی رہتی ہیں اور نتیجے کے طور پر موٹی ہوتی رہتی ہے باسی اوربچے ہوئے کھانے تازہ کھانوں کی نسبت وزن میں زیادہ اضافہ کرتے ہیں۔

پارٹیوں وغیرہ میں جانے سے پہلے دل میں طے کر لیں کہ کھانے پینے کے سلسلے میں آپ ترغیب کا شکار نہیں ہوں گی اپنے آپ کو مطمئن رکھنے کی کوشش کریں کہ آپ کے دل میں کسی بھی خاص چیز کو کھانے کی غیر معمولی تمنایا خواہش نہیں ہے۔

کوشش کریں کہ کھانے پینے کی صحت مندانہ عادات کے سلسلے میں پوری فیملی کو شامل کر لیں۔ غذائی عادات کی اصلاح میں ایک دوسرے کی مدد اور رہنمائی کریں ممکن ہو تو مل جل کر ورزش کریں۔

سبزیوں میں قدرتی نمکیات

سبزیوں میں قدرتی نمکیات

اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کوئی شئے بھی بےکار پیدا نہیں کی مگر کسی بھی شئے کی زیادتی صحت و تندرستی کے لیئے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے ۔ عموماً یہ سوچا جاتا ہے کہ دالیں اور سبزیاں کم تو جبکہ گوشت اچھی اور بہتر غذا ہے ، یہ سوچ قطعاً غلط ہے ۔ دالیں اور سبزیاں بھی گوشت کی طرح ایسے ہی غذائی اجزاء رکھتی ہیں جو انسانی صحت و تندرستی کے لیئے اشد ضروری ہیں ۔ یہاں اس بات کا دھیان رکھنا بھی لازمی ہے کہ گوشت یا صرف سبزیاں کھانا ہی ٹھیک نہیں بلکہ ان کا مناسب امتزاج ہی صحت کی علامت ہے ۔
سبزیاں اب عالمی طور پر غذا کے علاوہ ضرورت بن چکی ہے ، کیونکہ جدید ریسرچ نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ جو لوگ غذا میں سبزیوں کی مناسب مقدار شامل رکھتے ہیں ، ان میں بیماریوں کے امکانات کافی کم ہوتے ہیں ۔ سبزیوں میں قدرتی نمکیات ، معدنیات ، اور وٹامنز کا خزانہ ہوتا ہے کیونکہ ان میں نمکیات کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جو جسم کے لیئے اشد ضروری ہوتے ہیں ۔
اروی ۔
اروی تاثیر کے لحاظ سے گرم تر ہوتی ہے ، بھوک بڑھاتی ہے ۔ خشک کھانسی میں اکثیر اور بلغمی طبعیت میں نقصان دہ ہوتی ہے ۔گرم خشک مزاج کو موافق ہوتی ہے ۔ۃضم کرنے میں ثقیل اور قابض ہوتی ہے ۔ اس لیئے ضروری ہے کہ اس کی تیاری میں گرم مصالحہ اور اجوائن وغیرہ استعمال کیا جائے ۔

پالک ۔
پالک بہت طاقت ور سبزی ہے ، اس میں موجود فولاد سے جسم میں طاقت و قوت کی کمی پوری ہوتی ہے ۔ پالک جلد ہضم ہو جاتی ہے اور قبض کشا ہوتی ہے ۔پالک ، پتھری یرقان اور گرمی کے بخار میں فائدہ مند ہوتی ہے ۔ یہ جسم میں خون کی مقدار بڑھاتی اور جگر کو مضبوط کرتی ہے ۔ حکماء کے مطابق کشتہء فولاد سے خون اتنی تیزی سے نہیں بنتا جتنا پالک کے استعمال سے بنتا ہے ۔ پالک پکانے سے پہلے اسے مناسب طریقے سے دھو لینا چاہیئے تاکہ اس میں لگی ریت اور مٹّی نکل جائے ۔

شلجم ۔

شلجم تاثیر کے لحاظ سے قدرت گرم تر ہوتے ہیں ۔ معتدل ، ہلکی پھلکی اور زود ہضم غذا ہے ۔ اس میں نشاستہ نہیں ہوتا مگر حرارت بخش ہوتے ہیں ۔ شوگر کے مریضوں کے لیئے نہایت مفید ہے ۔ قبض کشا ہے ، اور اس میں وٹامن اے ، بی اور سی پائے جاتے ہیں ۔ شلجم میں پانی کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ اس لیئے اس کو پکاتے وقت زیادہ پانی استعمال نہیں کرنا چاہیئے ۔اس میں سیاہ زیرہ ، ادرک اور سونٹھ شامل کرنے سے اس کے بادی اثرات ختم ہوجاتے ہیں ۔

آلو ۔
آلو پوری دنیا کی ہردلعزیز سبزی ہے ، مگر یہ پوری دنیا میں سارا سال نہیں ملتی ۔ پاکستان میں خوش قسمتی سے اس کی فصل بہترین ہوتی ہے اور یہ عوام النّاس کی پسندیدہ غذا ہے ۔آلو سرد خشک تاثیر کا حامل ہوتا ہے ۔ آلو میں فولاد ، کیلشئیم ، پوٹاشیئم اور فاسفورس کی خاصی مقدار ہوتی ہے ۔جو جسمانی نشونما کے لیئے بہت مفید ہے ۔ اس کے علاوہ آلو میں میگنیشیئم ، سوڈیم ، گندھک ، کلورین اور آیوڈین بھی ہوتی ہے ۔یہ اجزا بھی انسانی صحت کے لیئے بہترین ہیں ۔ آلو میں وٹامن اے بی اور سی بھی پایا جاتا ہے ۔ آلو کو زیادہ پکانے سے اس کے وٹامنز ضائع ہو جاتے ہیں ، آلو کو اُبال کر کھانا مفید ہے ۔

گاجر ۔

گاجر قدرتی طور پر قوتِ مدافعت کا نظام مضبوط کرنے میں مدد دیتی ہے ۔اس میں وٹامن کا وسیع خزانہ موجود ہوتا ہے ۔ گاجر میں وٹامن ، اے ، بی ، سی ، فولاد ، فاسفورس ، نشاستہ اور شکر کی وسیع مقدار ہوتی ہے ، نمکیات کی مناسب مقدار بھی ہوتی ہے جو جسم سے روزآنہ خارج ہونے والے نمکیات کی کمی کو پورا کرتی ہے ۔ گاجر کا جوس پینے سے تیزی سے خون بنتا ہے ۔ گاجر سے بصارت تیز ہوتی ہے ، گاجر خون صاف کرتی ہے ، دل کے امراض ، پتھری اور یرقان میں مفید ہوتی ہے ۔ گاجر سے جگر ، معدہ اور گردے پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ شہد میں گاجر کا مربہ بنا کر کھانے سے زبردست طاقت و توانائی حاصل ہوتی ہے ۔ گاجر کا حلوہ اور گجریلا بدن کو موٹا کرتا ہے ۔گاجر کو کچّا کھانا بھی بہت مفید ہے ، اس سے دیگر فوائد کے علاوہ دانت اور مسوڑھے مضبوط ہوتے ہیں ۔

ٹماٹر ۔
ٹماٹر کی تاثیر معتدل خشک ہوتی ہے یہ انتہائی مفید اور صحت پرور ہوتا ہے ۔ ٹماٹر میں وٹامن اے بی اور سی کی کثیر مقدار ہوتی ہے ۔ٹماٹر خون پیدا کرتا ہے ۔ اس میں مختلف نمکیات اور فولاد ہوتا ہے جو جسم کی نشونما کے لیئے ضروری ہے ۔ٹماٹر کچّا اور پکّا دونوں صورتوں میں مفید ہے ۔ ٹماٹر قبض رفع کرتا ہے اور آنتوں کے لیئے اکثیر ہے ۔ جسم میں قوتِ مدافعت بڑھاتا ہے ، ٹماٹر کا رس بچّوں کی صحت کے لیئے اچھا ہے اور دانتوں کی حفاظت کرتا ہے ۔

مٹر ۔
مٹر کی تاثیر سرد خشک ہوتی ہے ۔ مٹر زود ہضم اور مقوی غذا ہے جس سے انسان میں خون اور گوشت بڑھتا ہے ، مٹر میں گندھک ، فاسفورس ، نائٹروجن اور پروٹین جیسے اجزاء پائے جاتے ہیں ، مٹر پھیپھڑے کے مریضوں کے لیئے بہت مفید ہے اور اس سے پیچش میں آرام ملتا ہے ، خشک مٹر کا شوربہ بہت قوت بخش ہوتا ہے ، مٹر کھانے کے بعد پانی پینے سے پرہیز کرنا چاہیئے وگرنہ مٹر بدہضمی کا باعث ہوتا ہے ۔

پھول گوبھی ۔
پھول گوبھی ایک ایسی سبزی ہے جو وٹامن سے بھرپور ہوتی ہے ۔ پھول گوبھی ہڈیوں کو مضبوط بناتی ہے ، اس کو پکاتے وقت کم پانی استعمال کرنا چاہیئے ، پھول گوبھی سرد خشک ہوتی ہے اس کے استعمال سے پیشاب زیادہ آتا ہے مگر یہ دیر سے ہضم ہوتی ہے ۔ اس لیئے پیٹ کے جملہ امراض اور بیمار افراد کے لیئے مفید ثابت نہیں ہوتی ۔ گوبھی کو ادرک ڈالے بغیر نہیں پکانا چاہیئے ۔

بند گوبھی ۔

بند گوبھی قبض کشا اور پیشاب آور ہوتی ہے ۔ یہ خون صاف کرتی ہے اور شوگر کے مریضوں کے لیئے بہت مفید ہے ۔ کیونکہ اس میں نشاستہ اور شکر نہیں ہوتی ۔

لہسن ۔
پاکستان میں لہسن کو مصالحے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے لیکن لہسن انتہائی بہترین شئے ہے ۔اس کے استعمال سے دل و دماغ اور جسم کو قوت حاصل ہوتی ہے ۔ لہسن تاثیر میں گرم خشک ہوتا ہے ، یہ جسم میں کولسٹرول کی مقدار کو مناسب سطح پر رکھتا ہے اور خون بڑھاتا ہے ، جسم میں موجود غیر ضروری جراثیم مارتا ہے ، چہرہ تروتازہ کرتا ہے ۔ لہسن ، فالج ، لقوہ ، دمّہ ، کھانسی ، دل کی کمزوری ، سردی لگنے ، جوڑوں کے درد ، پھیپھڑے کے زخم ، تپِ دق اور پرانے بخار میں دوا کی طرح کام کرتا ہے ۔

پیاز ۔

پیاز کی تاثیر گرم ہے مگر پیاز بھی نہایت مفید ہے ۔ پیاز قدرتی طور پر جراثیم ختم کرنے والی غذا ہے اس سے قبض رفع ہوتا ہے ، اس میں پروٹین بھی ہوتی ہے جو حرارت پیدا کرنے والے اجزاء اور معدنی اجزاء پر مشتمل ہوتی ہے ، پیاز جسم میں گندھک کی مناسب مقدار برقرار رکھتا ہے ، کچّی پیاز ہاضم ہے ، پیاز کا پانی دِق کے مریضوں کے لیئے اکثیر ہے ۔پیاز کا عرق شہد کے ساتھ استعمال کرنے سے جسمانی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے ۔

مولی ۔

مولی کو عام طور پر ٹھنڈی تاثیر کا سمجھا جاتا ہے مگر مولی گرم تر ہوتی ہے ۔ مولی ، بواسیر ، تلّی ، یرقان ، دمّہ ، معدہ اور پتّہ کے لیئے اکثیر ہے ۔مولی یورک ایسڈ کم کرنے میں بہت مدد دیتی ہے ۔ مولی گردے صاف کرتی ہے اور فضلات کو خارج کرتی ہے ۔

لوکی ۔

لوکی سرد تر اور زود ہضم ہوتی ہے ۔ قبض کشا اور پیشاب آور ہوتی ہے ۔ گرمی اور لو لگنے کا بہترین علاج ہے ، لوکی پاؤں پر لگانے سے گرمی ختم ہو جاتی ہے ۔

ٹنڈے ۔

ٹنڈے سرد تر ، قبض کشا اور زود ہضم ہوتے ہیں ، گرمی کے بخار ، پیشاب کی جلن اور خشک کھانسی میں اکثیر ہیں ۔

چقندر ۔

چقندر میں شکر اور وٹامن کی وسیع مقدار پائی جاتی ہے ۔ اس سے چینی بھی بنائی جاتی ہے ، اس کی تاثیر گرم ہوتی ہے ، چقندر جسم میں فولاد پیدا کرتا ہے ، خون کو بڑھاتا ہے اور جوڑوں کے درد میں مفید ہوتا ہے ۔ تاہم سبزی کے ساتھ ساتھ تمام قسم کے گوشت ، خاص طور پر مرغی ، انڈے اور مچھلی بھی کھانا ضروری ہے تاکہ جسم کو متوازن غذا مل سکے ۔
یہاں چند سبزیوں کا ذکر کیا گیا ہے ، بہرحال ہر سبزی فوائد سے بھرپور ہے ۔ صحیح وقت پر کھانا کھایا جائے ، بسیار خوری سے پرہیز کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنی زندگی کو صحت مند اور خوش و خرم طریقے سے نہ گزار سکیں ۔

بالغ مرد اور عورت میں گیارہ فیصد سے زیادہ توانائی سیچوریٹڈ فیٹس سے نہیں آنی چاہیئے

فیٹ یا چربی انسانی غذا کا ایک اہم جزو ہے لیکن زیادہ تر افراد ان کے لیے ضروری مقدار سے زیادہ فیٹ کھاتے ہیں۔

بالغ مرد اور عورت میں گیارہ فیصد سے زیادہ توانائی سیچوریٹڈ فیٹس سے نہیں آنی چاہیئے

 

 

 

 

بالغ مرد اور عورت میں گیارہ فیصد سے زیادہ توانائی سیچوریٹڈ فیٹس سے نہیں آنی چاہیئے

خاص طور پر سیچوریٹڈ فیٹس یا حل نہ ہونے والی مضر صحت چکنائی سے کولیسٹرول بڑھ جاتا ہے اور یہ دل میں شریانوں کو بند کر سکتی ہے۔

خون میں بہت زیادہ کولیسٹرول دل کی بیماری کا سبب بن سکتا ہے۔ سب کو صحت مند غذا کے لیے فیٹس کھانا بہت ضروری ہیں۔ اچھے فیٹس میں اومیگا۔3 فیٹی ایسڈز اور اومیگا۔6 ہوتے ہیں۔ اومیگا۔3 فیٹی ایسڈز مچھلی کے تیل میں ہوتے ہیں، اور اومیگا۔6 فیٹس زیتون، گری، بیج اور کئی سبزیوں میں ہوتے ہیں۔

یہ فیٹس ہماری شریانوں کو تندرست رکھتے ہیں اور مفید کولیسٹرول ایچ ڈی ایل (ہائی۔ڈینسٹی لِپو پروٹین) کے خون میں تناسب کو بڑھاتے ہیں۔
برے فیٹس سیچوریٹڈ فیٹس ہوتے ہیں۔ یہ وہ سخت فیٹ ہوتے ہیں جو کہ جانوروں سے لی گئی اشیاء یعنی سرخ گوشت، مکھن، اور پورے فیٹ والی پنیر میں ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ برے فیٹس مارجرین، بسکٹ، کیک اور پائیز میں بھی ہوتے ہیں کیونکہ انہیں ایک کیمیائی عمل کے ذریعے سخت کیا گیا ہوتا ہے۔

یہ خون میں مضر فیٹس یعنی ایل ڈی ایل (لو۔ڈینسٹی لِپو پروٹین) کولیسٹرول بڑھاتے ہیں۔

بالغ مرد اور عورت میں گیارہ فیصد سے زیادہ توانائی سیچوریٹڈ فیٹس سے نہیں آنی چاہیئے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک دن میں ایک عام مرد کو 30 گرام سے زیادہ اور ایک عام عورت کو 20 گرام سے زیادہ سیچوریٹڈ فیٹ نہیں کھانا چاہیئے۔

اسی طرح پانچ سے دس سال کے بچوں کو ایک دن میں 20 گرام سے زیادہ سیچوریٹڈ فیٹ نہیں کھانا چاہیئے۔

نزلہ زکام کا علاج منٹوں میں

نزلہ زکام کا علاج منٹوں میںflue

پانی اور بھاپ کا استعمال
پانی حیات بخش ہی نہیں شفا بخش بھی ہوتا ہے نزلے کی صورت میں سب سے زیادہ ناک اوراسکی اندرونی چھلیاں متاثر ہوتیں ہیں ۔
وائرس سے نجات حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جھلیوں سے خارج ہونے والی رطوبت انھیں بہا کر لے جائے ۔
اس عمل میں وضو کا عمل بہت معاون ثابت ہوتا ہے ۔ ناک میں صاف ستھرا پانی چھڑھا نے سے اندرونی چھلیاں اچھی طرح دھل جاتی ہیں ۔اگر پانی نیم گرم اور نمکین ہوتو اسے ذرا اندر چڑھا کر بند ناک آسانی سے کھولی جا سکتی ہے ۔ نمک کی وجہ سے ناک میں نہ صرف ورم دور ہوتا ہے بلکہ وائرس کی خاصی تعداد بھی دھل کر خارج ہوتی ہے جس سے بڑا آرام ملتا ہے اور مرض کی شدت میں کمی آجاتی ہے ۔
Read More

اسلام میں عورت کا مقام

muslim-women

اسلام میں عورت کا مقام

اسلام کی آمد عورت کے لیے غلامی، ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزادی کا پیغام تھی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کردیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں اور عورت کو وہ حقوق عطا کیے جس سے وہ معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں۔

یہاں ہم اسلام کے قائم کردہ معاشرے میں عورت کی تکریم و منزلت کا جائزہ پیش کرتے ہیں

1 اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے درجے میں عورت کو مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں رکھاہے، اسی طرح انسانیت کی تکوین میں عورت مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا

اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا۔ پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔

القرآن، النساء، 4 : 1

2عورت پر سے دائمی معصیت کی لعنت ہٹا دی گئی اور اس پر سے ذلت کا داغ دور کر دیا گیا کہ عورت اور مرد دونوں کو شیطان نے وسوسہ ڈالا تھا، جس کے نتیجے میں وہ جنت سے اخراج کے مستحق ہوئے تھے جبکہ عیسائی روایات کے مطابق شیطان نے حضرت حواء علیہا السلام کو بہکا دیا اور یوں حضرت حواء علیہا السلام حضرت آدم علیہ السلام کے بھی جنت سے اخراج کا سبب بنیں۔ قرآن حکیم اس باطل نظریہ کا رد کرتے ہوئے فرماتا ہے :

فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ

پھر شیطان نے اُنہیں اس جگہ سے ہلا دیا اور انہیں اُس (راحت کے) مقام سے، جہاں وہ تھے، الگ کر دیا۔

القرآن، البقرة، 2 : 36

3اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر کا استحقاق برابر قرار پایا۔ ان دونوں میں سے جو کوئی بھی کوئی عمل کرے گا، اسے پوری اور برابر جزاء ملے گی۔ ارشادِ ربانی ہے

فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لاَ أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ

ان کے رب نے ان کی التجا کو قبول کرلیا (اور فرمایا) کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ تم سب ایک دوسرے میں سے ہی ہو۔

القرآن، آل عمران، 3 : 195

4عورت کو زندہ زمین میں گاڑے جانے سے خلاصی ملی۔ یہ وہ بری رسم تھی جو احترام انسانیت کے منافی تھی۔

5اسلام عورت کے لیے تربیت اور نفقہ کے حق کا ضامن بنا کہ اسے روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور علاج کی سہولت ولی الامر کی طرف سے ملے گی۔

6عورت کی تذلیل کرنے والے زمانۂ جاہلیت کے قدیم نکاح جو درحقیقت زنا تھے، اسلام نے ان سب کو باطل کرکے عورت کو عزت بخشی۔

اب ہم ان حقوق کا جائزہ لیتے ہیں جو اسلام نے عورت کو مختلف حیثیتوں میں عطا کیے

1عورت کے اِنفرادی حقوق

(1) عصمت و عفت کا حق

معاشرے میں عورت کی عزت و احترام کو یقینی بنانے کے لیے اس کے حق عصمت کا تحفظ ضروری ہے۔ اسلام نے عورت کو حق عصمت عطا کیا اور مردوں کو بھی پابند کیا کہ وہ اس کے حق عصمت کی حفاظت کریں

قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَO

(اے رسول مکرم!) مومنوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے پاکیزگی کا موجب ہے۔ اللہ اس سے واقف ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیںo

القرآن، النور، 24 : 30

فرج کے لغوی معنی میں تمام ایسے اعضاء شامل ہیں، جو گناہ کی ترغیب میں معاون ہو سکتے ہیں، مثلاً آنکھ، کان، منہ، پاؤں اور اس لیے اس حکم کی روح یہ قرار پاتی ہے کہ نہ بری نظر سے کسی کو دیکھو، نہ فحش کلام سنو اور نہ خود کہو، اور نہ پاؤں سے چل کر کسی ایسے مقام پر جاؤ، جہاں گناہ میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہو۔ اس کے بعد عورتوں کو حکم ہوتا ہے

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا

اور (اے رسول مکرم!) مومنہ عورتوں سے کہہ دو کہ (مردوں کے سامنے آنے پر) وہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت و آرائش کی نمائش نہ کریں سوائے جسم کے اس حصہ کو جو اس میں کھلا ہی رہتا ہے۔

القرآن، النور، 24 : 31

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ طَوَّافُونَ عَلَيْكُم بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌO

اے ایمان والو! چاہیے کہ تمہارے زیردست (غلام اور باندیاں) اور تمہارے ہی وہ بچے جو (ابھی) جوان نہیں ہوئے (تمہارے پاس آنے کے لئے) تین مواقع پر تم سے اجازت لیا کریں : (ایک) نمازِ فجر سے پہلے، اور (دوسرے) دوپہر کے وقت جب تم (آرام کے لئے) کپڑے اتارتے ہو اور (تیسرے) نمازِ عشاء کے بعد (جب تم خواب گاہوں میں چلے جاتے ہو)، (یہ) تین (وقت) تمہارے پردے کے ہیں، ان (اوقات) کے علاوہ نہ تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ ان پر (کیونکہ بقیہ اوقات میں وہ) تمہارے ہاں کثرت کے ساتھ ایک دوسرے کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں، اِسی طرح اللہ تمہارے لئے آیتیں واضح فرماتا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا حکمت والا ہےo

القرآن، النور، 24 : 58

اسلام نے قانون کے نفاذ میں بھی عورت کے اس حق کو مستحضر رکھا۔ خلفائے راشدین کا طرز عمل ایسے اقدامات پر مشتمل تھا جن سے نہ صرف عورت کے حق عصمت کو مجروح کرنے والے عوامل کا تدارک ہوا بلکہ عورت کی عصمت و عفت کا تحفظ بھی یقینی ہوا۔

ایک شخص حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ میرے ایک مہمان نے میری ہمشیرہ کی آبروریزی کی ہے اور اسے اس پر مجبور کیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے پوچھا اس نے جرم کا اعتراف کرلیا۔ اس پر آپ نے حد زنا جاری کرکے اسے ایک سال کے لئے فدک کی طرف جلا وطن کردیا۔ لیکن اس عورت کو نہ تو کوڑے لگائے اور نہ ہی جلا وطن کیا کیونکہ اسے اس فعل پر مجبور کیا گیا تھا۔ بعد میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس خاتون کی شادی اسی مرد سے کردی۔

هندي، کنز العمال، 5 : 411

اسی طرح کا ایک اور واقعہ یوں مذکور ہے

استفاف رجل ناسا من هذيل فأرسلوا جارية لهم تحطب فأعجبت الضعيف فتبعها فأرادها علي نفسهانا متنعت فعارکها ساعة فانفلتت منه انفلاتة فرمته بحجر ففضت کبده فمات ثم جاء ت إلي أهلها فأخبرتهم فذهب أهلها إلي عمرا فأخبروه فأرسل عمر فوجد أثارهما فقال عمر قتيل اﷲ لا يوري أبدا

ایک شخص نے ہذیل کے کچھ لوگوں کی دعوت کی اور اپنی باندی کو لکڑیاں کاٹنے کے لیے بھیجا۔ مہمانوں میں سے ایک مہمان کو وہ پسند آگئی اور وہ اس کے پیچھے چل پڑا اور اس کی عصمت لوٹنے کا طلب گار ہوا لیکن اس باندی نے انکار کردیا۔ تھوڑی دیر ان دونوں میں کشمکش ہوتی رہی۔ پھر وہ اپنے آپ کو چھڑانے میں کامیاب ہوگئی اور ایک پتھر اٹھا کر اس شخص کے پیٹ پر مار دیا جس سے اس کا جگر پھٹ گیا اور وہ مرگیا۔ پھر وہ اپنے گھروالوں کے پاس پہنچی اور انہیں واقعہ سنایا۔ اس کے گھر والے اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے کر گئے اور آپ سے سارا واقعہ بیان کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے معاملہ کی تحقیق کے لیے کچھ لوگوں کو بھیجا اور انہوں نے موقع پر ایسے آثار دیکھے، جس سے دونوں میں کشمکش کا ثبوت ملتا تھا۔ تب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ نے جسے مارا ہے اس کی دیت کبھی نہیں دی جاسکتی۔

1. عبدالرزاق، المصنف، 9 : 435 2. ابن ابي شيبه، المصنف، 1 : 166، رقم : 154 3. ابن ابي شيبه، المصنف، 5 : 431، رقم : 27793 4. خلال، السنة، 1 : 166، رقم : 154 5. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 337 6. ابن عبدالبر، التمهيد، 21 : 257 7. ابن حزم، المحلي، 8 : 25 8. ابن قدامه، المغني، 9 : 152 9. عسقلاني، تلخيص الحبير4 : 86، رقم : 1817 10. انصاري، خلاصة البدر المنير، 2 : 332، رقم : 2488

(2) عزت اور رازداری کا حق

معاشرے میں عورتوں کی عزت اور عفت و عصمت کی حفاظت ان کے رازداری کے حق کی ضمانت میں ہی مضمر ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کو رازداری کا حق عطا فرمایا اور دیگر افراد معاشرے کو اس حق کے احترام کا پابند کیا۔ قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَO فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّى يُؤْذَنَ لَكُمْ وَإِن قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا هُوَ أَزْكَى لَكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌO

اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہوا کرو جب تک (اس امر کی) اجازت نہ لے لو اور اہلِ خانہ پر سلام کہو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے کہ تم ان باتوں سے نصیحت حاصل کروo اور اگر گھر میں کوئی نہ ہو تو ان میں داخل نہ ہو، جب تک تمہیں (اندر جانے کی) اجازت نہ ملے اور اگر تم سے لوٹ جانے کو کہا جائے تو لوٹ جاؤ۔ یہ تمہارے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے خوب واقف ہےo

القرآن، النور، 24 : 27، 28

خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہی دستور تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کے ہاں جاتے تو باہر سے السلام علیکم فرماتے، تاکہ صاحبِ خانہ کو معلوم ہو جائے اور وہ آپ کو اندر آنے کی اجازت دے دے۔ اگر پہلی بار کوئی جواب نہ ملتا تو دوسری مرتبہ السلام علیکم کہتے۔ اگر اب بھی کوئی جواب نہ ملتا تو تیسری مرتبہ پھر یہی کرتے اور اس کے بعد بھی جواب نہ ملنے پر واپس تشریف لے جاتے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے۔ حسبِ معمول السلام علیکم کہا۔ سعد نے جواب میں آہستہ سے وعلیکم السلام کہا جو آپ سن نہ سکے۔ اسی طرح تینوں بار ہوا۔ آخر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ خیال کرکے واپس جانے لگے کہ غالباً گھر میں کوئی نہیں تو حضرت سعد دوڑ کر آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساتھ لے گئے اور عرض کیا

يا رسول اﷲ! إني کنت أسمع تسليمک و أرد عليک ردا خفيا لتکثر علينا من السلام

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے جواب تو دیا تھا لیکن آہستہ سے، میں یہ چاہتا تھا کہ آپ زیادہ سے زیادہ بار ہمارے لئے دُعا کریں (کیونکہ السلام علیکم بھی سلامتی کی دُعا ہے)۔

1. ابوداؤد، السنن، کتاب الأدب، باب کم مره يسلم، 4 : 347، رقم : 5185 2. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 421 3. طبراني، المعجم الکبير، 18 : 253، رقم : 902 4. بيهقي، شعب الايمان، 6 : 439، رقم : 8808 5. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 3 : 280

انہی معنوں میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا

إذا استاذن احدکم ثلاثا فلم يوذن له فليرجع

جب تم میں سے کوئی شخص (کسی کے گھر میں داخل ہونے کے لئے) تین مرتبہ اجازت طلب کرے اور اس کو اجازت نہ ملے تو چاہیے کہ واپس چلا آئے۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب الاسئذان، باب التسليم، 5 : 2305، رقم : 5891 2. مسلم، الصحيح، کتاب الأداب، باب الإستئذان، 3 : 1694، رقم : 2153 3. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 398 4. ابن حبان، الصحيح، 13 : 122، رقم : 5806 5. طيالسي، المسند، 1 : 70، رقم : 518 6. حميدي، المسند، 2 : 321، رقم : 734 7. ابويعليٰ، المسند، 2 : 269، رقم : 981 8. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 168، رقم : 1687 9. بيهقي، السنن، 8 : 339، رقم : 39 10. شيباني، الآحاد والمثاني، 4 : 449، رقم : 2502

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر سلام کے جواب میں صاحبِ خانہ مکان کے اندر سے نام وغیرہ پوچھے تو فوراً اپنا نام بتانا چاہیے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گیا اور اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اندر سے پوچھا : کون ہے؟ میں نے عرض کیا : میں ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناگواری سے فرمایا : میں ہوں، میں ہوں اور باہر تشریف لے آئے، گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محض میں ہوں جواب دینے کو ناپسند فرمایا۔

بخاري، الصحيح، کتاب الإستئذان، باب إزا قال من ذا، 5 : 2306، رقم : 5896

اس میں تعلیم یہ ہے کہ پوچھنے پر اپنا نام بتانا چاہیے، محض میں ہوں کہنے سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کون ہے؟ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب اندر سے کوئی جواب نہیں ملتا تو متجسس لوگ ادھر ادھر جھانکنے لگتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرح کسی دوسرے کے گھر میں جھانکنے سے منع فرمایا، کیونکہ اس سے اجازت طلب کرنے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس طرح جھانکے اور صاحب خانہ اسے سزا دینے کے لئے اسے کنکری یا پتھر مار دے جس سے جھانکنے والے کی آنکھ پھوٹ جائے یا اسے کوئی زخم پہنچ جائے تو صاحب مکان بری الذمہ ہے اور جھانکنے والے کو قصاص نہیں دیا جائے گا۔

بخاري، الصحيح، کتاب الإستئذان، باب من أجل البصر، 5 : 2304، رقم : 5888

کسی کے گھر میں اجازت لے کر داخل ہونے کے اس عام حکم کے بعد فرمایا کہ تم کسی کے گھر سے کوئی چیز طلب کرنا چاہو تو تمہارا فرض ہے کہ پردے کے پیچھے سے سوال کرو تاکہ ایک دوسرے کا سامنا نہ کرنا پڑے جو دونوں کے لئے اخلاقی لحاظ سے اچھا ہے۔ ارشاد ربانی ہے :

وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ

اور جب تم عورتوں سے کوئی چیز طلب کرو تو ان سے پردے کے باہر سے مانگ لو۔ یہ تمہارے دلوں کے لئے اور ان کے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔

القرآن، الاحزاب، 33 : 53

عورتوں کے حق رازداری و عصمت و عفت کی حفاظت کے لئے پردہ کے احکام آئے۔ قرآن حکیم میں خواتین کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے اور اپنی آرائش و زیبائش کو افشا نہ کرنے کی تعلیم دے کر اس پاکیزگیء معاشرت کی بنیاد رکھی گئی جو خواتین کے حق رازداری و عصمت و عفت کی حفاظت کو یقینی بناسکتی ہے

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُوْلِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO

اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی (ہم مذہب، مسلمان) عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں کے یا مردوں میں سے وہ خدمتگار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کمسنی کے باعث ابھی) عورتوں کے پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے (یہ بھی مستثنیٰ ہیں) اور نہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں (زمین پر اس طرح) مارا کریں کہ (پیروں کی جھنکار سے) انکا وہ سنگھار معلوم ہوجائے جسے وہ (حکم شریعت سے) پوشیدہ کیے ہوئے ہیں اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہوکر) فلاح پا جاؤo

القرآن، النور، 24 : 31

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ

اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے۔

القرآن، الأحزاب، 33 : 59

(3) تعلیم و تربیت کا حق

اسلام کی تعلیمات کا آغاز اِقْرَاْ سے کیا گیا اور تعلیم کو شرفِ انسانیت اور شناختِ پروردگار کی اساس قرار دیا گیا

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَO خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍO اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُO الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ

(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایاo اس نے انسان کو (رحم مادر میں جونک کی طرح) معلق وجود سے پیدا کیاo پڑھئیے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہےo جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایاo جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھاo

القرآن، العلق، 96 : 1 – 5

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کی تعلیم و تربیت کو اتنا ہی اہم اور ضروری قرار دیا ہے جتنا کہ مردوں کی۔ اسلامی معاشرے میں یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ کوئی شخص لڑکی کو لڑکے سے کم درجہ دے کر اس کی تعلیم و تربیت نظرانداز کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے

الرجل تکون له الامة فيعلمها فيحسن تعليمها و يودبها فيحسن ادبها ثم يعتقها فيتزوجها فله اجران

اگر کسی شخص کے پاس ایک لونڈی ہو پھر وہ اسے تعلیم دے اور یہ اچھی تعلیم ہو۔ اور اس کو آداب مجلس سکھائے اور یہ اچھے آداب ہوں۔ پھر آزاد کرکے اس سے نکاح کرے تو اس شخص کے لیے دوہرا اجر ہے۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب الجهاد، باب فضل من أسلم، 3 : 1096، رقم : 2849 2. ابو عوانه، المسند، 1 : 103، رقم : 68 3. ابن ابي شيبه، المصنف، 3 : 118، رقم : 12635 4. روياني، المسند، 1 : 307، رقم : 458

یعنی ایک اجر تو اس بات کا کہ اس نے اسے اچھی تعلیم دی اور اچھے آداب سکھائے اور دوسرا اجر اس امر کا کہ اسے آزاد کرکے اس سے نکاح کر لیا اور اس طرح اس کا درجہ بلند کیا۔

اس سے ظاہر ہے کہ اسلام اگر باندیوں تک کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کو کارِ ثواب قرار دیتا ہے تو وہ آزاد لڑکوں اور لڑکیوں کے تعلیم سے محروم رکھے جانے کو کیونکر گوارا کر سکتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم کی عظمت ظاہر کرنے کے لیے ارشاد فرمایا کہ اس کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے :

طلب العلم فريضة علي کل مسلم

علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے۔

ایک دوسرے موقع پر حصولِ علم میں ہر طرح کے امتیاز اور تنگ نظری کو مٹانے کی خاطر نہایت لطیف پیرائے میں فرمایا

1. ابن ماجه، السنن، المقدمه، باب فضل العلماء، 1 : 81، رقم : 224 2. ابويعليٰ، المسند، 5 : 223، رقم : 2837 3. طبراني، المعجم الکبير، 10 : 195، رقم : 10439 4. طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 8، رقم : 9 5. طبراني، المعجم الصغير، 1 : 36، رقم : 22 6. ابويعليٰ، المعجم، 1 : 257، رقم : 320 7. شعب الايمان، 2 : 203، رقم : 1663 8. هيثمي، مجمع الزوائد، 1 : 119 9. منذري، الترغيب والترهيب، 1 : 52، رقم : 109 10. کناني، مصباح الزجاجة، 1 : 30، رقم : 81

الکلمة الحکمة ضالة المؤمن فحيث وجدها فهو احق بها

علم اور عقل کی بات مؤمن کا گمشدہ مال ہے، پس جہاں بھی اسے پائے اسے حاصل کرنے کا وہ زیادہ حق دار ہے۔

1. ترمذي، السنن، کتاب العلم، ماجاء في فضل الفقه، 5 : 51، رقم : 2687 2. ابن ماجه، السنن، کتاب الزهد، باب الحکمة، 2 : 1395، رقم : 4169 3. ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 240، رقم : 35681 4. روياني، المسند، 1 : 75، رقم : 33 5. بيهقي، سنن الکبريٰ، 6 : 190، رقم : 11851 6. شيباني، الاحاد والمثاني، 3 : 264، رقم : 1639 7. ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، 2 : 152، رقم : 2770 8. ابونعيم اصبهاني، حلية الاولياء، 3 : 354 9. سيوطي، شرح سنن ابن ماجه، 1 : 307، رقم : 4169 10. مناوي، فيض القدير، 2 : 545

(4) حسنِ سلوک کا حق

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں سے حسن سلوک کی تعلیم دی اور زندگی کے عام معاملات میں عورتوں سے عفو و درگزر اور رافت و محبت پر مبنی سلوک کی تلقین فرمائی

عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : المرأة کالضلع ان اقمتها کسرتها وان استمتعت بها استمتعت بها وفيها عوج

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عورت پسلی کی مانند ہے اگر اسے سیدھا کرو گے تو ٹوٹ جائے گی اگر اسی طرح اس کے ساتھ فائدہ اٹھانا چاہو تو فائدہ اٹھا سکتے ہو ورنہ اس کے اندر ٹیڑھا پن موجود ہے۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب المدارة مع النساء، 5 : 1987، رقم : 4889 2. مسلم، الصحيح، کتاب الرضاع، باب الوصية بالنساء، 2 : 1090، رقم : 1468 3. ترمذي، السنن، کتاب الطلاق، باب ماجاء في مدارة النساء، 3 : 493، رقم : 1188 4. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 428، رقم : 9521 5. ابن حبان، الصحيح، 9 : 487، رقم : 4180 6. دارمي، السنن، 2 : 199، رقم : 2222 7. ابن ابي شيبه، المصنف، 4 : 197 8. ابوعوانة، المسند، 3 : 142، رقم : 4495 9. طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 178، رقم : 565 10. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 303، رقم : 304

عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : من کان يؤمن باﷲ واليوم الاخر فلا يؤذي جاره واستوصوا بالنساء خيرا، فانهن خلقن من ضلع و ان اعوج شئ في الضلع اعلاه فان ذهبت تقيمه کسرته وان ترکته لم يزل اعوج فاستوصوا بالنساء خيرا.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو اللہ تعالیٰ اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے ہمسائے کو تکلیف نہ دے، اور عورتوں کے ساتھ نیکی کرنے کے بارے میں میری وصیت قبول کر لو کیونکہ وہ پسلی سے پیدا کی گئیں ہیں۔ اور سب سے اوپر والی پسلی سب سے زیادہ ٹیڑھی ہوتی ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو گے تو توڑ ڈالو گے اور اس کے حال پر چھوڑے رہو گے تب بھی ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی پس عورتوں کے ساتھ بھلائی کرنے کے بارے میں میری وصیت قبول کر لو۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب الوصاة بالنساء، 5 : 1987، رقم : 4890 2. مسلم، الصحيح، کتاب الرضاع، باب الوصية بالنساء، 2 : 1091، رقم : 1468 3. ابن ابي شيبه، المصنف، 4 : 197 4. ابن راهويه، المسند، 1 : 250، رقم : 214 5. ابويعليٰ، المسند، 11 : 85، رقم : 6218 6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 295، رقم : 14499

(5) ملکیت اور جائیداد کا حق

اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی حق ملکیت عطا کیا۔ وہ نہ صرف خود کماسکتی ہے بلکہ وراثت کے تحت حاصل ہونے والی املاک کی مالک بھی بن سکتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے

لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُواْ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ

مردوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور عورتوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا۔

القرآن، النساء، 4 : 32

عورت کا حق ملکیت طلاق کی صورت میں بھی قائم رہتا ہے۔ طلاق رجعی کے بارے میں ابنِ قدامہ نے لکھا ہے کہ اگر شوہر نے ایسی بیماری جس میں ہلاکت کا خطرہ ہو، کے دوران میں اپنی بیوی کو طلاق دی اور پھر دورانِ عدت اسی بیماری سے مرگیا تو بیوی اس کی وارث ہوگی اور اگر بیوی مرگئی تو شوہر اُس کا وارث نہیں ہوگا۔ یہی رائے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔

ابن قدامه، المغني، 6 : 329

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے

اذا طلقها مريضا ورثته ما کانت في العدة ولا يرثها

اگر شوہر نے اپنی بیماری کی حالت میں بیوی کو طلاق دے دی تو بیوی دوران عدت اس کی وارث ہوگی لیکن شوہر اس کا وارث نہیں ہو گا۔

1. عبدالرزاق، المصنف، 7 : 64، رقم : 12201 2. ابن ابي شيبه، المصنف، 4 : 171 3. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 363، رقم : 14908 4. مالک بن انس، المدونة الکبريٰ، 6  38 5. ابن حزم، المحلي، 10 : 219

طلاق مغلظہ کے بارے میں قاضی شریح بیان کرتے ہیں کہ عروۃ البارقی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ہوکر میرے پاس آئے اور اس شخص کے بارے میں بیان کیا جو اپنی بیوی کو حالت مرض میں تین طلاقیں دے دے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک بیوی دوران عدت اس کی وارث ہوگی لیکن شوہر اس کا وارث نہیں ہوگا۔

1. ابن حزم، المحلي، 10 : 219، 228 2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 97

(6) حرمتِ نکاح کا حق

اسلام سے قبل مشرکینِ عرب بلا امتیاز ہر عورت سے نکاح جائز سمجھتے تھے۔ باپ مر جاتا تو بیٹا ماں سے شادی کر لیتا۔ جصاص نے احکام القرآن (2 :۔ 148) میں سوتیلی ماں سے نکاح کے متعلق لکھا ہے

و قد کان نکاح إمراة الأب مستفيضا شائعا في الجاهلية

اور باپ کی بیوہ سے شادی کر لینا جاہلیت میں عام معمول تھا۔

اسلام نے عورتوں کے حقوق نمایاں کرتے ہوئے بعض رشتوں سے نکاح حرام قرار دیا اور اس کی پوری فہرست گنوا دی۔ ارشادِ ربانی ہے

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالاَتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللاَّتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَآئِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللاَّتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَآئِكُمُ اللاَّتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُواْ دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلاَئِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلاَبِكُمْ وَأَن تَجْمَعُواْ بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إَلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ

تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری (وہ) مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعت میں شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں سب حرام کردی گئی ہیں۔ اور (اسی طرح) تمہاری گود میں پرورش پانے والی وہ لڑکیاں جو تمہاری ان عورتوں (کے بطن) سے ہیں جن سے تم صحبت کرچکے ہو (بھی حرام ہیں) پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو تم پر ان کی (لڑکیوں سے نکاح کرنے میں) کوئی حرج نہیں اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں (بھی تم پر حرام ہیں) جو تمہاری پشت سے ہیں اور یہ (بھی حرام ہے کہ) تم دو بہنوں کو ایک ساتھ (نکاح میں) جمع کرو سوائے اس کے جو دور جہالت میں گزر چکا۔

القرآن، النساء، 4 : 23

2 عورت کے عائلی حقوق

(1) ماں کی حیثیت سے حق

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل ایمان کی جنت ماں کے قدموں تلے قرار دے کر ماں کو معاشرے کا سب سے زیادہ مکرم و محترم مقام عطا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے زیادہ حسن سلوک کی مستحق ماں ہے

عن ابي هريرة رضي الله عنه قال : جاء رجلي الي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فقال : يا رسول اﷲ! من احق الناس بحسن صحابتي؟ قال : امک، قال : ثم من؟ قال : ثم امک، قال  ثم من؟ قال : ثم امک، قال ثم من؟ قال : ثم ابوک

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ایک آدمی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری والدہ، عرض کی کہ پھر کون ہے فرمایا کہ تمہاری والدہ، عرض کی کہ پھر کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری والدہ ہے، عرض کی کہ پھر کون ہے؟ فرمایا کہ تمہارا والد ہے۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب الأدب، باب من أحق الناس، 5 : 2227، رقم : 5626 2. مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة، باب بر الوالد ين4 : 1974، رقم : 2548 3. ابن راهوية، المسند، 1 : 216، رقم : 172 4. منذري، الترغيب و الترهيب، 3 : 220، رقم : 3766 5. الحسيني، البيان و التعريف، 1 : 171، رقم : 447 6. کناني، مصباح الزجاجة، 4 : 98، رقم : 1278

(2) بیٹی کی حیثیت سے حق

وہ معاشرہ جہاں بیٹی کی پیدائش کو ذلت و رسوائی کا سبب قرار دیا جاتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹی کو احترام و عزت کا مقام عطا کیا۔ اسلام نے نہ صرف معاشرتی و سماجی سطح پر بیٹی کا مقام بلند کیا بلکہ اسے وراثت کا حق دار بھی ٹھہرایا، ارشادِ ربانی ہے

يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ

اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لیے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کے لیے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے۔

القرآن، النساء، 4 : 11

قرآن حکیم نے بیٹی کی پیدائش پر غم و غصے کو جاہلیت کی رسم اور انسانیت کی تذلیل قرار دیتے ہوئے اُس کی مذمت کی

وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌO يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلاَ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَO

اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی (کی پیدائش) کی خوشخبری سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا ہےo وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (بزعم خویش) اس بری خبر کی وجہ سے جو اسے سنائی گئی ہے (اب یہ سوچنے لگتا ہے کہ) آیا اسے ذلت و رسوائی کے ساتھ (زندہ) رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے (یعنی زندہ درگور کردے) خبردار کتنا برا فیصلہ ہے جو وہ کرتے ہیںo

القرآن، النحل، 16 : 58، 59

اور بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کی ممانعت کرکے دورِ جاہلیت کی اس رسم بد کا قلع قمع کیا جو اسلام کی آمد سے قبل اس معاشرے میں جاری تھی

وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلاَدَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُم إنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئاً كَبِيرًاO

اور تم اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل مت کرو ہم ہی انہیں (بھی) رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی، بے شک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہےo

القرآن، بني اسرائيل، 17 : 31

(3) بہن کی حیثیت سے حق

قرآن حکیم میں جہاں عورت کے دیگر معاشرتی و سماجی درجات کے حقوق کا تعین کیا گیا ہے، وہاں بطور بہن بھی اس کے حقوق بیان کیے گئے ہیں۔ بطور بہن عورت کا وراثت کا حق بیان کرتے ہوئے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا گیا

وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلاَلَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ فَإِن كَانُواْ أَكْثَرَ مِن ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَآ أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَآرٍّ.

اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کی وراثت تقسیم کی جارہی ہو جس کے نہ ماں باپ ہوں نہ کوئی اولاد اور اس کا ماں کی طرف سے ایک بھائی یا ایک بہن ہو (یعنی اخیافی بھائی یا بہن) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے پھر اگر وہ بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ تقسیم بھی) اس وصیت کے بعد (ہوگی) جو (وارثوں کو) نقصان پہنچائے بغیر کی گئی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد۔

القرآن، النسآء، 4 : 12

يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلاَلَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَآ إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِن كَانُواْ إِخْوَةً رِّجَالاً وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ.

لوگ آپ سے حکم دریافت کرتے ہیں۔ فرما دیجئے کہ اللہ تمہیں (بغیر اولاد اور بغیر والدین کے فوت ہونے والے) کلالہ (کی وراثت) کے بارے میں یہ حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص فوت ہوجائے جو بے اولاد ہو مگر اس کی بہن ہو تو اس کے لیے اس (مال) کا آدھا (حصہ) ہے جو اس نے چھوڑا ہے اور اگر (اس کے برعکس بہن کلالہ ہو تو اس کے مرنے کی صورت میں اسکا) بھائی اس (بہن) کا وارث (کامل) ہوگا اگر اس (بہن) کی کوئی اولاد نہ ہو۔ پھر اگر (کلالہ بھائی کی موت پر) دو (بہنیں وارث) ہوں تو ان کے لیے اس (مال) کا دو تہائی (حصہ) ہے جو اس نے چھوڑا ہے اور اگر (بصورت کلالہ مرحوم کے) چند بھائی بہن مرد (بھی) اور عورتیں (بھی وارث) ہوں تو پھر (ہر) ایک مرد کا (حصہ) دو عورتوں کے برابر ہوگا۔

القرآن، النساء، 4 : 176

(4) بیوی کی حیثیت سے حق

قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے نسل انسانی کے تسلسل و بقاء کے لیے ازدواجی زندگی اور خاندانی رشتوں کو اپنی نعمت قرار دیا

وَاللّهُ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُم مِّنْ أَزْوَاجِكُم بَنِينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللّهِ هُمْ يَكْفُرُونَO

اور اللہ نے تم ہی میں سے تمہارے لیے جوڑے پیدا فرمائے اور تمہارے جوڑوں (بیویوں) سے تمہارے لیے بیٹے، پوتے اور نواسے پیدا فرمائے اور تمہیں پاکیزہ رزق عطا فرمایا تو کیا پھر بھی وہ (حق کو چھوڑ کر) باطل پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کی نعمت سے وہ ناشکری کرتے ہیںo

القرآن، النحل، 16 : 72

دوسرے مقام پر بیوی کے رشتے کی اہمیت اور اس سے حسن سلوک کو یوں بیان کیا گیا

أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَآئِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ عَلِمَ اللّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُواْ مَا كَتَبَ اللّهُ لَكُمْ وَكُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّواْ الصِّيَامَ إِلَى الَّيْلِ وَلاَ تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ فَلاَ تَقْرَبُوهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَO

تمہارے لیے روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کردیا گیا ہے وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو، اللہ کو معلوم ہے کہ تم اپنے حق میں خیانت کرتے تھے سو اس نے تمہارے حال پر رحم کیا اور تمہیں معاف فرمادیا، پس (اب روزوں کی راتوں میں بیشک) ان سے مباشرت کیا کرو اور جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے چاہا کرو، اور کھاتے پیتے رہا کرو یہاں تک کہ تم پر صبح کا سفید ڈورا (رات کے) سیاہ ڈورے سے (الگ ہوکر) نمایاں ہوجائے، پھر روزہ رات (کی آمد) تک پورا کرو، اور عورتوں سے اس دوران میں شب باشی نہ کیا کرو جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو، یہ اللہ کی (قائم کردہ) حدیں ہیں پس ان کے توڑنے کے نزدیک نہ جاؤ، اِسی طرح اللہ لوگوں کے لیے اپنی آیتیں (کھول کر) بیان کرتا ہے تاکہ وہ پرہیزگاری اختیار کریںo

القرآن، البقره، 2 : 187

وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوءٍ وَلاَ يَحِلُّ لَهُنَّ أَن يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُواْ إِصْلاَحًا وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكُيمٌO

اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں، اور ان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اسے چھپائیں جو اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا فرما دیا ہو اگر وہ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں، اس مدت کے اندر ان کے شوہروں کو انہیں (پھر) اپنی زوجیت میں لوٹانے کا حق زیادہ ہے اگر وہ اصلاح کا ارادہ کرلیں، اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر، البتہ مردوں کو ان پر فضیلت ہے، اور اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔

القرآن، البقره، 2 : 228

وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ.

اور تمہارے لیے اس (مال) کا آدھا حصہ ہے جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر ان کی اولاد ہو تو تمہارے لیے ان کے ترکہ سے چوتھائی ہے (یہ بھی) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد، اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لیے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال ) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا تمہارے قرض کی ادائیگی کے بعد۔

القرآن، النساء، 4 : 12

یہ قرآنِ حکیم ہی کی تعلیمات کا عملی ابلاغ تھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیوی سے حسن سلوک کی تلقین فرمائی

عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما قال : جاء رجل الي النبي صلي الله عليه وآله وسلم فقال : يا رسول اﷲ! اني کتبت في غزوة کذا و کذا و امراتي حاجة، قال : ارجع فحج مع امراتک

ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک شخص حاضر ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اﷲ! میرا نام فلاں فلاں غزوہ میں لکھ لیا گیا ہے اور میری بیوی حج کرنے جا رہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم واپس چلے جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب الجهاد، باب کتابة الإمام الناس، 3 : 1114، رقم : 2896 2. بخاري، الصحيح، کتاب الجهاد، باب من اکتتب في جيش، 3 : 1094، رقم : 2844 3. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب سفر المرأه مع محرم، 2 : 978، رقم : 1341 4. ابن حبان، الصحيح، 9 : 42، رقم : 3757 5. ابن خزيمه، الصحيح، 4 : 137، رقم : 2529 6. طبراني، المعجم الکبير، 11 : 424، 425، رقم : 12201، 12205

اور اسی تعلیم پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم عمل پیرا رہے

عن زيد هو ابن اسلم عن ابيه قال : کنت مع عبداﷲ بن عمر رضي اﷲ عنهما بطريق مکة فبلغه عن صفية بنت ابي عبيد شدة وجع، فاسرع السير حتي اذا کان بعد غروب الشفق ثم نزل فصلي المغرب والعتمة يجمع بينهما و قال : إني رايت النبي صلي الله عليه وآله وسلم اذا جد به السير اخر المغرب و جمع بينهما

زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں مکہ مکرمہ کے سفر میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے ساتھ تھا انہیں اپنی زوجہ محترمہ حضرت صفیہ بنت ابوعبید کے بارے میں خبر پہنچی کہ وہ سخت بیمار ہیں۔ انہوں نے رفتار تیز کر دی اور مغرب کے بعد جب شفق غائب ہو گئی تو سواری سے اترے اور مغرب کی نماز ادا کر کے نماز عشاء بھی اس کے ساتھ ملا کر پڑھ لی اور فرمایا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ کو سفر طے کرنے میں جلدی ہوتی تو مغرب میں دیر کر کے مغرب و عشاء کو جمع فرما لیتے۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب السافر إذا جد به، 2 : 639، رقم : 1711 2. بخاري، الصحيح، کتاب الجهاد، باب السرعة في السير، 3 : 1093، رقم : 2838 3. عسقلاني، فتح الباري، 2 : 573، رقم : 1041 4. مبارکپوري، تحفة الاحوذي، 3 : 102

3عورت کے اَزدواجی حقوق

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا کردہ تعلیمات کی روشنی میں عورت کے درج ذیل نمایاں حقوق سامنے آتے ہیں

(1) شادی کا حق

اسلام سے قبل عورتوں کو مردوں کی ملکیت تصور کیا جاتا تھا اور انہیں نکاح کا حق حاصل نہ تھا۔ اسلام نے عورت کو نکاح کا حق دیا کہ جو یتیم ہو، باندی ہو یا مطلقہ، شریعت کے مقرر کردہ اُصول و ضوابط کے اندر رہتے ہوئے اُنہیں نکاح کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْاْ بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ.

اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو جب وہ شرعی دستور کے مطابق باہم رضامند ہوجائیں تو انہیں اپنے شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو۔

القرآن، البقره، 2 : 232

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌO

اور تم میں سے جو فوت ہوجائیں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن انتظار میں روکے رکھیں پھر جب وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو پھر جو کچھ وہ شرعی دستور کے مطابق اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میں کوئی مواخذہ نہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح خبردار ہےo

القرآن، البقره، 2 : 234

وَآتُواْ النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًاO

اور عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی سے ادا کیا کرو، پھر اگر وہ اس (مہر) میں سے کچھ تمہارے لیے اپنی خوشی سے چھوڑ دیں تو تب اسے (اپنے لیے) سازگار اور خوشگوار سمجھ کر کھاؤo

القرآن، النساء، 4 : 4

وَأَنكِحُوا الْأَيَامَى مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌO

اور تم اپنے مردوں اور عورتوں میں سے ان کانکاح کردیا کرو جو بغیر ازدواجی زندگی کے (رہ رہے) ہوں اور اپنے باصلاحیت غلاموں اور باندیوں کا (نکاح کردیا کرو) اگر وہ محتاج ہوں گے (تو) اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کردیگا اور اللہ بڑی وسعت والا بڑے علم والا ہےo

القرآن، النور، 24 : 32

اگرچہ کئی معاشرتی اور سماجی حکمتوں کے پیش نظر اسلام نے مردوں کو ایک سے زائد شادیوں کا حق دیا، مگر اسے بیویوں کے مابین عدل و انصاف سے مشروط ٹھہرایا اور اس صورت میں جب مرد ایک سے زائد بیویوں میں عدل قائم نہ رکھ سکیں، اُنہیں ایک ہی نکاح کرنے کی تلقین کی

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُواْ فِي الْيَتَامَى فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلاَّ تَعُولُواْO

اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کرسکوگے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لیے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرط عدل ہے) پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کرسکوگے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو) یا وہ کنیزیں جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں آئی ہوں یہ بات اس سے قریب تر ہے کہ تم سے ظلم نہ ہوo

القرآن، النساء، 4 : 3

وَلَن تَسْتَطِيعُواْ أَن تَعْدِلُواْ بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلاَ تَمِيلُواْ كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ وَإِن تُصْلِحُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ اللّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًاO

اور تم ہرگز اس بات کی طاقت نہیں رکھتے کہ (ایک سے زائد) بیویوں کے درمیان (پورا پورا) عدل کرسکو اگرچہ تم کتنا ہی چاہو۔ پس (ایک کی طرف) پورے میلانِ طبع کے ساتھ (یوں) نہ جھک جاؤ کہ دوسری کو (درمیان میں) لٹکتی ہوئی چیز کی طرح چھوڑ دو۔ اور اگر تم اصلاح کرلو اور (حق تلفی و زیادتی سے) بچتے رہو تو اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo

القرآن، النساء، 4 : 129

ان آیات مبارکہ سے واضح ہے کہ اسلام کا رجحان یک زوجگی کی طرف ہے اور ان حالات میں جہاں اسلام نے ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دی ہے اسے عدل و مساوات سے مشروط ٹھرایا ہے کہ مرد ان تمام معاملات میں جو اس کے بس میں ہیں مثلاً غذا، لباس، مکان، شب باشی اور حسن معاشرت میں سب کے ساتھ عدل کا سلوک کرے۔ گویا ایک سے زائد شادیوں کا قرآنی فرمان حکم نہیں بلکہ اجازت ہے جو بعض حالات میں ناگزیر ہوجاتی ہیں جنگ، حادثات، طبی اور طبعی حالات بعض اوقات ایسی صورت پیدا کردیتے ہیں کہ معاشرے میں اگر ایک سے زائد شادیوں پر پابندی عائد ہو تو وہ سنگین سماجی مشکلات کا شکار ہو جائے جس کے اکثر نظائر ان معاشروں میں دیکھے جاسکتے ہیں جہاں ایک سے زیادہ شادیوں پر قانونی پابندی ہوتی ہے۔ تاہم یہ اسلام کا تصور عدل ہے۔ وہ معاشرہ جہاں ظہور اسلام سے قبل دس دس شادیاں کرنے کا رواج تھا اور ہر طرح کی جنسی بے اعتدالی عام تھی اسلام نے اسے حرام ٹھرایا اور شادیوں کو صرف چار تک محدود کر کے عورت کے تقدس اور سماجی حقوق کو تحفظ عطا کر دیا۔

(2) خیارِ بلوغ کا حق

نابالغ لڑکی یا لڑکے کا بلوغت سے قبل ولی کے کیے ہوئے نکاح کو بالغ ہونے پر رد کر دینے کا اختیار خیارِ بلوغ کہلاتا ہے۔ اسلام نے خواتین کو ازدواجی حقوق عطا کرتے ہوئے خیارِ بلوغ کا حق عطا کیا جو اسلام کے نزدیک انفرادی حقوق کے باب میں ذاتی اختیار کی حیثیت رکھتا ہے۔ احناف کے نزدیک اگر کسی ولی نے نابالغ لڑکے یا لڑکی کا نکاح کیا ہو تو وہ لڑکا یا لڑکی بالغ ہونے پر خیارِ بلوغ کا حق استعمال کرکے نکاح ختم کرسکتے ہیں۔

جس طرح بالغ خاتون کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اگر ولی نے اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کیا ہو تو عدم رضا کی بناء پر اسے اس نکاح کو تسلیم نہ کرنے اور باطل قرار دینے کا اختیار حاصل ہے، اسی طرح ایک نابالغہ کو بھی جس کا نکاح نا بالغی کے زمانہ میں کسی ولی نے کیا ہو، بلوغ کے بعد عدم رضا کی بناء پر خیار بلوغ حاصل ہے۔

خیارِ بلوغ کے حق کی بناء پر حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ایک حدیث مبارکہ ہے جس میں قدامہ بن مظعون نے اپنی بھتیجی اور حضرت عثمان بن مظعون کی صاحب زادی کا نکاح حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے کر دیا تھا اور وہ لڑکی بوقت نکاح نابالغ تھی۔ بلوغت کے بعد اُس لڑکی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس نکاح کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا :

عن عبداﷲ بن عمر، قال : توفي عثمان بن مظعون، و ترک ابنة له من خويلة بنت حکيم بن أمية بن حارثة بن الأوقص، قال : و أوصي إلي أخيه قدامة بن مظعون، قال عبداﷲ : و هما خالاي، قال : فخطبت إلي قدامة بن مظعون ابنة عثمان بن مظعون، فزوجنيها، ودخل المغيرة بن شعبة. يعني إلي أمها. فأرغبها في المال، فحطت إليه، و حطت الجارية إلي هوي أمها، فأبتا، حتي ارتفع أمرهما إلي رسول اﷲ صلد الله عليه وآله وسلم، فقال قدامة بن مظعون : يا رسول اﷲ! ابنة أخي، أوصي بها إلي، فزوجتها ابن عمتها عبداﷲ بن عمر، فلم أقصر بها في الصلاح ولا في الکفاءة، و لکنها امرأة، و إنما حطت إلي هوي أمها. قال : فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : هي يتيمة، ولا تنکح إلا باذنها. قال : فانتزعت واﷲ مني بعد أن ملکتها، فزوجوها المغيرة

عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ عثمان بن مظعون فوت ہوئے اور پسماندگان میں خویلہ بنت حکیم بن امیہ بن حارثہ بن اوقص سے ایک بیٹی چھوڑی اور اپنے بھائی قدامہ بن مظعون کو وصیت کی۔ راوی عبداﷲ کہتے ہیں : یہ دونوں میرے خالو تھے۔ میں نے قدامہ بن مظعون کو عثمان بن مظعون کی بیٹی سے نکاح کا پیغام بھیجا تو اس نے میرا نکاح اس سے کرا دیا اس کے بعد مغیرہ بن شعبہ اس لڑکی کی ماں کے پاس آیا اور اسے مال کا لالچ دیا۔ وہ عورت اس کی طرف مائل ہو گئی اور لڑکی بھی اپنی ماں کی خواہش کی طرف راغب ہو گئی پھر ان دونوں نے انکار کر دیا یہاں تک کہ ان کا معاملہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش ہوا۔ قدامہ بن مظعون نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! یہ میرے بھائی کی بیٹی ہے اور میرے بھائی نے مجھے اس کے متعلق وصیت کی تھی پس میں اس کی شادی اس کے ماموں زاد عبداﷲ بن عمر سے کر دی۔ میں نے اس کی بھلائی اور کفو میں کوئی کمی نہ کی لیکن یہ عورت اپنی ماں کی خواہش کی طرف مائل ہو گئی اس پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ یتیم ہے، لہٰذا اس کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ راوی کہتے ہیں : اس کے بعد میرا اس کے مالک بننے کا جھگڑا ہی ختم ہو گیا اور اس نے مغیرہ سے شادی کر لی۔

1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 130، رقم : 6136 2. دارقطني، السنن، 3 : 230 3. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 113، 120، رقم : 13434، 13470 4. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 280

ایک دوسری سند کے ساتھ مروی حدیث مبارکہ میں ان الفاظ کا اضافہ ہے

فأمره النبي صلي الله عليه وآله وسلم أن يفارقها، وقال : لا تنکحوا اليتامٰي حتي تستأمروهن فإن سکتن فهو إذنهن

پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی علیحدگی کا حکم دیا اور فرمایا : یتیم بچیوں کا نکاح ان کے اجازت کے بغیر نہ کیا جائے پس اگر وہ خاموش رہیں تو وہی ان کی اجازت ہے۔

بيهقي، السنن الکبري، 7 : 121

(3) مہر کا حق

اسلام نے عورت کو ملکیت کا حق عطا کیا۔ عورت کے حق ملکیت میں جہیز اور مہر کا حق بھی شامل ہے۔ قرآن حکیم نے مردوں کو نہ صرف عورت کی ضروریات کا کفیل بنایا بلکہ اُنہیں تلقین کی کہ اگر وہ مہر کی شکل میں ڈھیروں مال بھی دے چکے ہوں تو واپس نہ لیں، کیونکہ وہ عورت کی ملکیت بن چکا ہے

وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَاناً وَإِثْماً مُّبِيناًO

اور اگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی بدلنا چاہو اور تم اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تب بھی اس میں سے کچھ واپس مت لو، کیا تم بہتان تراشی کے ذریعے اور کھلا گناہ کر کے وہ مال واپس لو گےo

القرآن، النساء، 4 : 20

لاَّ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنُّ أَوْ تَفْرِضُواْ لَهُنَّ فَرِيضَةً وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَO

تم پر اس بات میں (بھی) کوئی گناہ نہیں کہ اگر تم نے (اپنی منکوحہ) عورتوں کو ان کے چھونے یا ان کے مہر مقرر کرنے سے بھی پہلے طلاق دے دی ہے تو انہیں (ایسی صورت میں) مناسب خرچہ دیدو، وسعت والے پر اس کی حیثیت کے مطابق (لازم) ہے اور تنگدست پر اس کی حیثیت کے مطابق (بہرطور) یہ خرچ مناسب طریق پر دیا جائے، یہ بھلائی کرنے والوں پر واجب ہےo

القرآن، البقره، 2 : 236

(4) حقوقِ زوجیت

مرد پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ حتی الوسع حقوق زوجیت ادا کرنے سے دریغ نہ کرے۔ جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ اگر خاوند بیوی کو دق کرنا چاہتا تو قسم کھا لیتا کہ میں بیوی سے مقاربت نہیں کروں گا اسے اصطلاح میں ایلاء کہتے ہیں۔ اس طرح عورت معلقہ ہو کر رہ جاتی ہے، نہ مطلقہ نہ بیوہ (کہ اور شادی ہی کر سکے) اور نہ شوہر والی۔ کیونکہ شوہر نے اس سے قطع تعلق کر لیا ہے۔ یہ رویہ درست نہیں کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے حلال ٹھہرائی ہے، انسان کا کوئی حق نہیں کہ اسے اپنے اُوپر حرام قرار دے لے۔ قرآن کہتا ہے

لِّلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِن نِّسَآئِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَآؤُوا فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌO

جو لوگ اپنی بیویوں کے قریب نہ جانے کی قسم کھالیں تو ان کے لیے چار ماہ کی مہلت ہے۔ پھر اگر وہ اس مدت کے اندر رجوع کر لیں اور آپس میں ملاپ کر لیں تو اللہ رحمت سے بخشنے والا ہےo

القرآن، البقره، 2 : 226

یعنی اگر بیوی کی کسی غلطی کی وجہ سے تم نے یہ قسم کھائی ہے تو عفو و درگزر کرتے ہوئے اسے معاف کر دو، اور اگر کسی معقول سبب کے بغیر تم نے یوں ہی قسم کھالی تھی تو قسم کا کفارہ دے کر رجوع کر لو۔ اللہ تعالیٰ تمہاری غلطیوں کو بخش دے گا۔ اگر خاوند چار ماہ تک رجوع نہ کرے، تو پھر بعض فقہاء کے نزدیک خود بخود طلاق واقع ہو جائے گی۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں

قال النبي : صلي الله عليه وآله وسلم إنک لتصوم الدهر و تقوم اليل. فقلت : نعم، قال : انک اذا فعلت ذلک هجمت له العين، و نفهت له النفس، لا صام من صام الدهر، صوم ثلاثة أيام صوم الدهر کله. قلت : فاني أطيق أکثر من ذلک، قال فصم صوم داؤد عليه السلام، کان يصوم يوما و يفطر يوما

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم ہمیشہ روزہ رکھتے اور ہمیشہ قیام کرتے ہو؟ میں عرض گزار ہوا : جی۔ فرمایا : اگر ایسا کرتے رہو گے تو تمہاری آنکھوں میں گڑھے پڑ جائیں گے اور تمہارا جسم بے جان ہو جائے گا، نیز ہر مہینے میں تین روزے رکھنا گویا ہمیشہ روزہ رکھنا ہے۔ میں نے عرض کیا : میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا : داؤد علیہ السلام والے روزے رکھ لیا کرو جو ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن نہیں رکھتے تھے اور جب دشمن سے مقابلہ ہوتا تو پیٹھ نہیں دکھاتے تھے۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صوم داود، 2 : 698، رقم : 1878 2. مسلم، الصحيح، کتاب الصوم، باب نهي عن صوم الدهر، 2 : 813، رقم : 1159 3. ترمذي، السنن، کتاب الصوم عن رسول اﷲ، باب ما جاء في سرد الصوم، 3 : 140، رقم : 770 4. دارمي، السنن، 2 : 33، رقم : 1752 5. ابن حبان، الصحيح، 6 : 325، رقم : 2590، 14 : 118، رقم : 6226 6. ابن خزيمه، الصحيح، 2 : 181، رقم : 1145 7. بيهقي، السنن الصغري، 1 : 477، رقم : 838 8. هيثمي، مجمع الزوائد، 3 : 193 9. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 3 : 530

عبادت میں زیادہ شغف بھی بیوی سے بے توجہی کا باعث ہوسکتا ہے۔ اگر خاوند دن بھر روزہ رکھے اور راتوں کو نمازیں پڑھتا رہے تو ظاہر ہے کہ وہ بیوی کے حقوق ادا کرنے سے قاصر رہے گا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی لیے صوم وصال یعنی روزے پر روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے اور زیادہ سے زیادہ صوم داؤدی کی اجازت دی ہے کہ ایک دن روزہ رکھو، ایک دن نہ رکھو۔

اسی طرح عبادت میں بھی اعتدال کا حکم فرمایا

عن عون بن ابي حجيفه، عن ابيه قال : اخي النبي صلي الله عليه وآله وسلم بين سلمان و ابي الدرداء فزار سلمان ابا الدرداء فرأي ام الدرداء متبذلة، فقال لها : ماشانک؟ قالت : اخوک ابوالدرداء ليس له حاجة في الدنيا، فجاء ابوالدرداء فصنع له طعاما، فقال : کل. قال : فاني صائم، قال : ما انا باٰکل حتي تاکل، قال : فاکل، فلما کان الليل ذهب ابوالدرداء يقوم. قال : نم، فنام ثم ذهب يقوم. فقال : نم، فلما کان من اخر الليل قال سلمان، قم الان فصليا. فقال له سلمان : ان لربک عليک حقا ولنفسک عليک حقا ولاهلک عليک حقا فاعط کل ذي حق حقه. فاتي النبي صلي الله عليه وآله وسلم فذکر ذلک له فقال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : صدق سلمان.

حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی اور حضرت ابودرداء رضی اﷲ عنہما کے درمیان بھائی چارہ کرا دیا تھا۔ حضرت سلمان ایک روز حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کے مکان پر گئے۔ اُم درداء کو غمگین دیکھا تو حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا : کہو، یہ کیا حال کر رکھا ہے؟ اُم درداء کہنے لگیں : تمہارے بھائی ابودرداء کو دُنیا کی ضرورت نہیں ہے۔ اتنے میں ابودرداء آ گئے، کھانا تیار کروایا گیا اور کہا کہ آپ کھائیں۔ سلمان بولے میرا روزہ ہے۔ ابودرداء نے کہا جب تک تم نہیں کھاؤ گے میں بھی نہیں کھاؤں گا۔ جب رات ہوئی (اور دونوں نے کھانا کھا لیا) تو ابودرداء نماز کے لیے اُٹھنے لگے۔ سلمان بولے سو جاؤ۔ اس پر ابودرداء سو گئے۔ (رات گئے پھر کسی وقت) اُٹھے اور (نماز کے لیے) جانے لگے تو سلمان نے پھر کہا سو جاؤ۔ ابودرداء پھر سو گئے۔ اخیر رات میں سلمان نے کہا، اب اُٹھو۔ چنانچہ دونوں نے اُٹھ کر نماز ادا کی۔ پھر سلمان کہنے لگے، تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے، اور نفس کا بھی، اور گھر والوں کا بھی۔ لہٰذا ہر ایک حقدار کا حق ادا کرو۔ دن میں جب ابودرداء حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سلمان نے سچ کہا۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب من أقسم علي أخيه، 2 : 694، رقم : 1867 2. ترمذي، السنن، کتاب الزهد، باب منه، 4 : 608، رقم : 2413 3. ابويعليٰ، المسند، 2 : 193، رقم : 898 4. واسطي، تاريخ واسط، 1 : 233 5. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 2 : 637 6. زيلعي، نصب الراية، 2 : 465

اسی طرح کا واقعہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ سے متعلق بیان ہوا ہے۔ حضرت عثمان بہت عبادت گزار اور راہبانہ زندگی بسر کرنے والے تھے۔ ایک دن ان کی بیوی خولہ بنت حکیم حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے پاس آئیں، تو اُنہوں نے دیکھا کہ وہ ہر طرح کے زنانہ بناؤ سنگھار سے عاری ہیں۔ پوچھا کہ کیا سبب ہے؟ بولیں کہ میرے میاں دن بھر روزہ رکھتے ہیں، رات بھر نمازیں پڑھتے ہیں۔ میں سنگھار کس کے لیے کروں؟ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو حضرت عائشہ نے قصہ بیان کیا۔ اس پر حضور علیہ السلام عثمان کے پاس گئے اور اُن سے فرمایا

يا عثمان! ان الرهبانية لم تکتب علينا، أفمالک في أسوة؟

عثمان ہمیں رہبانیت کا حکم نہیں ہوا ہے۔ کیا تمہارے لیے میرا طرزِ زندگی پیروی کے لائق نہیں؟

1. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 226، رقم : 25935 2. ابن حبان، الصحيح، 1 : 185، رقم  9 3. عبدالرزاق، المصنف، 6 : 168، رقم : 10375 4. عبدالرزاق، المصنف، 7 : 150، رقم : 12591 5. طبراني، المعجم الکبير، 9 : 38، رقم : 8319 6. هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 313، رقم : 1288 7. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 452

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بارے میں صحابہ سے خاص طور پر فرمایا

واﷲ! اني لأخشاکم ﷲ و اتقاکم له لکني أصوم وأفطر وأصلي وأرقد، واتزوج النساء فمن رغب عن سنتي فليس مني

خدا کی قسم، میں تمہاری نسبت خدا سے بہت زیادہ ڈرتا ہوں اور بہت متقی ہوں۔ اس کے باوجود روزہ بھی رکھتا ہوں، اور افطار بھی کرتا ہوں۔ نماز بھی پڑھتا ہوں، سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ پس جو میری سنت سے روگردانی کرے گا، وہ میرے طریقے پر نہیں۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب ترغيب النکاح، 5 : 1949، رقم : 4776 2. مسلم، الصحيح، کتاب النکاح، باب استحباب النکاح، 2 : 1020، رقم : 1401 3. نسائي، السنن، کتاب النکاح، باب النهي عن التبتل، 6 : 60، رقم : 3217 4. ابن حبان، الصحيح، 1 : 190، رقم : 14 5. ابن حبان، الصحيح، 2 : 20، رقم : 317 6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 77، رقم : 13226 7. احمد بن حنبل، مسند، 2 : 158، رقم : 6478 8. عبد بن حميد، مسند، 1 : 392، رقم : 1318 9. بيهقي، شعب الايمان، 4 : 381، رقم : 5377 10. منذري، الترغيب و الترهيب، 3 : 30، رقم : 2953 11. ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، 4 : 358، رقم : 7030 12. عسقلاني، فتح الباري، 9 : 105

اس کے مقابلے میں عورت کو بھی یہ حکم دیا کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے۔ ارشاد فرمایا

لا تصوم المرأة وبعلها شاهد إلا باذنه

اپنے خاوند کی موجودگی میں عورت (نفلی) روزہ نہ رکھے مگر اس کی اجازت سے۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صوم المرأة، 5 : 1993، رقم : 4896 2. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الصوم، باب ما جاء في کراهية، 3 : 151، رقم : 782 3. ابوداؤد، السنن، کتاب الصوم، باب المرأة تصوم، 2 : 230، رقم : 2458 4. نسائي، السنن الکبريٰ، 2 : 247، رقم : 3289 5. دارمي، السنن، 2 : 21، رقم : 1720 6. ابن حبان، الصحيح، 8 : 339، رقم : 3572 7. ابن خزيمه، الصحيح، 3 : 319، رقم : 2168 8. حاکم، المستدرک، 4 : 191، رقم : 7329 9. بيهقي، السنن الکبريٰ، 4 : 192، رقم : 7639 10. هيثمي، مجمع الزوائد، 3 : 200

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیوی کے حق کی اہمیت کو اپنی سنت مبارکہ سے واضح فرمایا۔ آپ کا طریقہ مبارک یہ تھا کہ کسی سفر یا غزوہ پر تشریف لے جاتے تو بیویوں میں قرعہ ڈالتے اور جس کے نام قرعہ نکل آتا، اُسے ساتھ لے جاتے۔

بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب القرعة بين النساء، 5 : 1999، رقم : 4913

ایک رات حضرت عمر رضی اللہ عنہ حسبِ معمول شہر میں گشت کر رہے تھے کہ اُنہوں نے ایک عورت کی زبان سے یہ شعر سنے

تطاول هذا الليل تسري کواکبه وارَّقني ان لاضجيع ألاعبه

فواﷲ لولا اﷲ تخشي عواقبه لَزُحزِحَ من هذا السرير جوانبه

(یہ رات کس قدر لمبی ہو گئی ہے۔ اور اس کے کنارے کس قدر چھوٹے ہو گئے ہیں اور میں رو رہی ہوں کہ میرا شوہر میرے پاس نہیں ہے کہ اس کے ساتھ ہنس کھیل کر اس رات کو گزار دوں۔ خدا کی قسم خدا کا ڈرنہ ہوتا تو اس تخت کے پائے ہلا دیئے جاتے۔ )

سيوطي، تاريخ الخلفاء : 139

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سُن کر افسوس کیا اور فوراً اپنی صاحبزادی اُم المؤمنین حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا کے پاس گئے اور پوچھا بیٹی! ایک عورت شوہر کے بغیر کتنے دن گزار سکتی ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا : چار ماہ۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حکم جاری کر دیا کہ کوئی شخص چار ماہ سے زیادہ فوج کے ساتھ باہر نہ رہے۔ خود قرآن حکیم نے یہ معیاد مقرر کی ہے

لِّلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِن نِّسَآئِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَآؤُوا فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌO

جو لوگ اپنی بیویوں کے قریب نہ جانے کی قسم کھالیں، ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے۔ پھر اگر وہ (اس مدت کے اندر) رجوع کر لیں (اور آپس میں میل ملاپ کرلیں) تو اللہ رحمت سے بخشنے والاہےo

القرآن، البقره، 2 : 226

گویا یہاں قرآن حکیم نے اس امر کو واضح کر دیا کہ خاوند اور بیوی زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک علیحدہ رہ سکتے ہیں، اس سے تجاوز نہیں کرسکتے۔ اگر وہ اس دوران صلح کر لیں تو درست ہے۔ اس سے زیادہ بیوی اور شوہر کا الگ الگ رہنا دونوں کے لیے جسمانی، روحانی اور اخلاقی لحاظ سے مضر ہے۔ یہی حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا کے جواب کا مقصود تھا اور اسی کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم نافذ کیا۔

(5) کفالت کا حق

مرد کو عورت کی جملہ ضروریات کا کفیل بنایا گیا ہے۔ اس میں اُس کی خوراک، سکونت، لباس، زیورات وغیرہ شامل ہیں

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ

مرد عورتوں پر محافظ و منتظم ہیں اس لیے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، اور اس وجہ سے (بھی) کہ مرد (ان پر) اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔

القرآن، النساء، 4 : 34

وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَعَلََى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لاَ تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلاَّ وُسْعَهَا لاَ تُضَآرَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلاَ مَوْلُودٌ لَّهُ بِوَلَدِهِ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِكَ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالاً عَن تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا وَإِنْ أَرَدتُّمْ أَن تَسْتَرْضِعُواْ أَوْلاَدَكُمْ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُم مَّآ آتَيْتُم بِالْمَعْرُوفِ وَاتَّقُواْ اللّهَ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌO

اور مائیں اپنے بچوں کو دو برس تک دودھ پلائیں یہ (حکم) اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے، اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ کے ذمہ ہے، کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے (اور) نہ ماں کو اس کے بچے کے باعث نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کے سبب سے، اور وارثوں پر بھی یہی حکم عائد ہوگا، پھر اگر ماں باپ دونوں باہمی رضامندی اور مشورے سے (دو برس سے پہلے ہی) دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں، اور پھر اگر تم اپنی اولاد کو (دایہ سے) دودھ پلانے کا ارادہ رکھتے ہو تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں جبکہ جو تم دستور کے مطابق دیتے ہو انہیں ادا کر دو، اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ بے شک جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُسے خوب دیکھنے والا ہےo

القرآن، البقره، 2 : 233

وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَO

اور طلاق یافتہ عورتوں کو بھی مناسب طریقے سے خرچ دیا جائے، یہ پرہیزگاروں پر واجب ہےo

القرآن، البقره، 2 : 241

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ.

اے نبی! (مسلمانوں سے فرما دیں) جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کر بیٹھیں۔

القرآن، الطلاق، 65 : 1

أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُم بِمَعْرُوفٍ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَىO لِيُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًاO

تم اُن (مطلّقہ) عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم اپنی وسعت کے مطابق رہتے ہو اور انہیں تکلیف مت پہنچاؤ کہ اُن پر (رہنے کا ٹھکانا) تنگ کردو، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ اپنا بچہ جَن لیں، پھر اگر وہ تمہاری خاطر (بچے کو) دودھ پلائیں تو انہیں اُن کا معاوضہ ادا کرتے رہو، اور آپس میں (ایک دوسرے سے) نیک بات کا مشورہ (حسبِ دستور) کر لیا کرو، اور اگر تم باہم دشواری محسوس کرو تو اسے (اب کوئی) دوسری عورت دودھ پلائے گیo صاحبِ وسعت کو اپنی وسعت (کے لحاظ) سے خرچ کرنا چاہیے، اور جس شخص پر اُس کا رِزق تنگ کردیا گیا ہو تو وہ اُسی (روزی) میں سے (بطورِ نفقہ) خرچ کرے جو اُسے اللہ نے عطا فرمائی ہے۔ اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں ٹھہراتا مگر اسی قدر جتنا کہ اُس نے اسے عطا فرما رکھا ہے، اللہ عنقریب تنگی کے بعد کشائش پیدا فرما دے گاo

القرآن، الطلاق، 65 : 6، 7

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احادیث مبارکہ میں عورت کے اس حق کی پاسداری کی تلقین فرمائی

1. فاتقو اﷲ في النساء فإنکم اخذتموهن بامان اﷲ واستحللتم فروجهن بکلمة اﷲ، ولکم عليهن ان لا يوطئن فرشکم احدا تکرهونه، فان فعلن ذلک فاضربوهن ضربا غير مبرح، ولهن عليکم رزقهن و کسوتهن بالمعروف

عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے طور پر اپنے ماتحت کیا ہے اور اللہ کے کلمہ (نکاح) سے انہیں اپنے لیے حلال کیا ہے۔ ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ کسی آدمی کو تمہارا بستر نہ روندنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو۔ اگر وہ ایسا کریں تو تم اُن کو ایسی سزا دو جس سے چوٹ نہ لگے اور ان کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ تم انہیں دستور (شرعی) کے موافق خوراک اور لباس فراہم کرو۔

1. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب حجة النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 2 : 889، رقم : 1218 2. ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب حجة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، 2 : 1025، رقم : 3074 3. ابن حبان، الصحيح، 4 : 311، 9 : 257 4. دارمي، السنن، 2 : 69، رقم : 1850 5. ابن ابي شيبه، المصنف، 3 : 336، رقم : 14706 6. عبد بن حميد، المسند، 1 : 343، رقم : 1135 7. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 144، رقم : 13601 8. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 295، رقم : 14502 9. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 272 10. ابن حزم، المحلي، 9 : 510، 10 : 72 11. ابن قدامه، المغني، 3 : 203 12. اندلسي، حجة الوداع، 1 : 169، رقم : 92 13. محمد بن اسحاق، اخبار مکة، 3 : 127، رقم : 1891 14. ابونعيم، المسند، 3 : 318، رقم : 2828 15. ابوطيب، عون المعبود، 5 : 263 16. ابن حبان، الثقات، 2 : 128 17. اندلسي، تحفة المحتاج، 2 : 161

2حکیم بن معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں

أن رجلا سأل النبي صلي الله عليه وآله وسلم : ما حق المرأة علي الزوج؟ قال : أن يطعمها إذا طعم، و أن يکسوها إذا اکتسي، ولا يضرب الوجه، ولا يقبح، ولا يهجر إلا في البيت

ایک آدمی نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا : عورت کا خاوند پر کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب خود کھائے تو اسے بھی کھلائے، جب خود پہنے تو اسے بھی پہنائے، اس کے منہ پر نہ مارے، اُسے برا نہ کہے اور گھر کے علاوہ تنہا کہیں نہ چھوڑے۔

1. ابن ماجه، السنن، کتاب النکاه، باب حق المرأة، 1 : 593، رقم : 1850 2. ابو داؤد، السنن، کتاب النکاح، باب في حق المرأة، 2 : 244، رقم : 2142 3. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الرضاع، باب ماجاء في حق المرأة، 3 : 466، رقم : 1162 4. نسائي، السنن الکبري، 5 : 373، رقم : 1971 5. نسائي، السنن الکبري، 6 : 323، رقم : 11104 6. ابن حبان، الصحيح، 9 : 482، رقم : 4175 7. بيهقي، السنن الکبري، 7 : 295 8. هيثمي، موارد الظمآن : 313، رقم : 1286

3حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی بیوی ہندہ کے اپنے خاوند کی کنجوسی کی شکایت کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

خذي ما يکفيک و ولدک بالمعروف

تو (ابوسفیان کے مال سے) اتنا مال لے سکتی ہے جو تجھے اور تیرے بچوں کے لیے باعزت طور پر کافی ہو۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب النفقات، باب إذا لم ينفق الرجل، 5 : 2052، رقم : 5049 2. ابن ماجه، السنن، کتاب التجارات، باب التغليظ في الرباء 2 : 769، رقم : 2293 3. دارمي، السنن، 2 : 211، رقم : 2259 4. ابن راهويه، المسند، 2 : 224، رقم : 732 5. ابويعليٰ، المسند، 8 : 98، رقم : 4636 6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 10 : 270، رقم : 2187 7. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 8 : 237 8. ابن قدامه، المغني، 8 : 156، 161؛ 10 : 276 9. شوکاني، نيل الاوطار، 7 : 131

اگر نفقہ واجب نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے ابوسفیان کی اجازت کے بغیر مال لینے کی اجازت نہ فرماتے۔

مسلم فقہاء نے عورت کے اس حق کو نہ صرف قرآن و سنت بلکہ اجماع و عقلی طور پر بھی ثابت قرار دیا۔ الکاسانی کے مطابق

جہاں تک اجماع سے وجوبِ نفقہ کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں پوری امت کا اجماع ہے کہ خاوند پر بیوی کا نفقہ واجب ہے۔

عقلی طور پر شوہر پر بیوی کا نفقہ واجب ہونا اس طرح ہے کہ وہ خاوند کے حق کے طور پر اس کی قید نکاح میں ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کی قید نکاح کا نفع بھی خاوند ہی کو لوٹ رہا ہے لہٰذا اس کی کفالت بھی خاوند کے ذمہ ہی ہونی چاہئے۔ اگر اس کی کفالت کی ذمہ داری خاوند پر نہ ڈالی جائے اور نہ وہ خود خاوند کے حق کے باعث باہر نکل کر کما سکے تو اس طرح وہ ہلاک ہو جائے گی لہٰذا اس کا نفقہ خاوند کے ذمہ ہے چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قاضی کا خرچہ مسلمانوں کے بیت المال سے مقرر کیا گیا ہے کیونکہ وہ انہی کے کام میں محبوس (روکا گیا) ہے اور کسی دوسرے ذریعے سے کمائی نہیں کرسکتا لہٰذا اس کے اخراجات ان کے مال یعنی بیت المال سے وضع کیے جائیں گے۔ اسی طرح یہاں (عورت کے نفقہ میں) ہے۔

کاساني، بدائع الصنائع، 4 : 46

(6) اِعتماد کا حق

عورت کا مرد پر یہ بھی حق ہے کہ وہ عورت پر اعتماد کرے، گھر کے معاملات میں اس سے مشورہ کرتا رہے۔ خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل اس معاملے میں یہی تھا۔ قرآن حکیم میں ہے

وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَن بَعْضٍ.

اور جب نبیء (مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اپنی ایک زوجہ سے ایک رازدارانہ بات ارشاد فرمائی، پھر جب وہ اُس (بات) کا ذکر کر بیٹھیں اور اللہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اسے ظاہر فرما دیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اس کا کچھ حصّہ جِتا دیا اور کچھ حصّہ (بتانے) سے چشم پوشی فرمائی۔

القرآن، التحريم، 66 : 3

گھریلو معاملات میں عورت، مرد کی راز دان ہے لیکن اگر عورت غلطی یا نادانی سے کوئی خلاف مصلحت کام کر بیٹھے تو مرد کو چاہیے کہ اس کی تشہیر نہ کرے، نہ اسے اعلانیہ ملامت کرے، جس سے معاشرے میں اس کی سبکی ہو۔ عورت کی عزت و وقار کی حفاظت مرد کا فرض اوّلین ہے کیونکہ یہ خود اس کی عزت اور وقار ہے۔ عورت کی سبکی اُس کی عزت اور وقار کے مجروح ہونے کا باعث بنتی ہے۔ مرد کوچاہیے کہ اسے اس کی غلطی سے آگاہ کر دے اور آئندہ کے لیے اسے محتاط رہنے کا مشورہ دے۔ قرآن حکیم نے عورت اور مرد کے تعلقات کو ایک نہایت لطیف مثال کے ذریعے بیان کیا ہے۔

هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ.

عورتیں تمہارے لیے لباس (کا درجہ رکھتی) ہیں اور تم ان کے لیے لباس (کا درجہ رکھتے) ہو۔

القرآن، البقره، 2 : 187

اور لباس سے متعلق ایک دوسری جگہ کہا

يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْءَاتِكُمْ وَرِيشًا.

اے لوگو! ہم نے تمہیں لباس دیا ہے، جو تمہارے عیب ڈھانکتا ہے اور تمہاری زینت (اور آرائش کا ذریعہ ) ہے۔

القرآن، الاعراف، 7 : 26

یعنی مرد اور عورت ایک دوسرے کی خامیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ کرنے والے ہیں۔ مرد کا فرض ہے کہ وہ عورت کی غلطیوں پر پردہ ڈالے اور عورت کو چاہیے کہ وہ مرد کے نقائص ظاہر نہ ہونے دے۔

(7) حسنِ سلوک کا حق

ازدواجی زندگی میں اگر مرد اور عورت کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں تو ذمہ داریاں بھی ہیں۔ پہلے مرد کو حکم دیا

وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ.

عورتوں کے ساتھ معاشرت میں نیکی اور انصاف ملحوظ رکھو۔

القرآن، النساء، 4 : 19

اسلام سے پہلے عرب میں عورت کی خاندانی زندگی نہایت قابل رحم تھی۔ قدر و منزلت تو درکنار اسے جانوروں سے زیادہ وقعت نہیں دی جاتی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

ان کنا في الجاهلية ما نعد للنساء امرا حتي انزل اﷲ تعالي فيهن ما انزل و قسم لهن ما قسم

خدا کی قسم زمانہ جاہلیت میں ہماری نظر میں عورتوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی، حتیٰ کہ خدا نے ان سے متعلق جو احکام نازل کرنا چاہے نازل کر دیئے اور جو حقوق ان کے مقرر کرنا تھے، مقرر کر دیئے۔

1. مسلم، الصحيح، کتاب النکاح، باب حکم العزل، 2 : 1108، رقم : 1479 2. بخاري، الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب تبتغي مرضاة، 4 : 1886، رقم : 4629 3. ابوعوانه، المسند، 3 : 167 4. عسقلاني، فتح الباري، 8 : 658، رقم : 4629 5. عسقلاني، فتح الباري، 9 : 281

اور تو اور عورت، جانوروں اور دوسرے ساز و سامان کی طرح رہن تک رکھی جاسکتی تھی۔

بخاري، الصحيح، کتاب الرهن، باب رهن السلاح، 2 : 887، رقم : 2375

وہ رہن ہی نہیں رکھی جاتی تھی بلکہ فروخت بھی کی جاتی تھی غرضیکہ وہ محض مرد کی خواہشات نفسانی کی تسکین کا ذریعہ تھی اور مرد پر اس کی طرف سے کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی تھی۔ اسلام نے بتایا کہ عورت کے بھی مرد پر ایسے ہی حقوق ہیں جیسے مرد کے عورت پر ہیں اور وہ ہر طرح کے انصاف اور نیک سلوک کی حقدار ہے۔

اسلام نے نکاح کو ایک معاہدہ قرار دے کر بھی اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے

وَأَخَذْنَ مِنكُم مِّيثَاقًا غَلِيظًاO

اور تمہاری عورتیں تم سے مضبوط عہد لے چکی ہیںo

القرآن، النساء، 4 : 21

اس مضبوط عہد کی تفسیر خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبے میں یوں فرمائی

اتقوا اﷲ في النساء فانکم اخذتموهن بامانة اﷲ

عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، کیونکہ تم نے اُنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور امانت لیا ہے۔

1. ابوداؤد، السنن، کتاب المناسک، باب صفة حجةالنبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 2 : 185، رقم : 1905 2. ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب حجة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، 2 : 1025، رقم : 3074 3. نسائي، السنن الکبريٰ، 2 : 421، رقم : 4001 4. ابن خزيمه، الصحيح، 4 : 251، رقم : 2809 5. دارمي، السنن، 2 : 69، رقم : 1850 6. عبد بن حميد، المسند، 1 : 343، رقم : 1135 7. بيهقي، السنن الکبريٰ، 5 : 8 8. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 144، 295، 304 9. ابن قدامه، المغني، 3 : 203

گویا نکاح کو ایک امانت قرار دیا ہے اور جیسے ہر ایک معاہدے میں دونوں فریقوں کے کچھ حقوق ہوتے ہیں اور ان پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں، اسی طرح امانت کا حال ہے۔ چونکہ نکاح ایک معاہدہ اور ایک امانت ہے، اس لیے جیسے مرد کے عورت پر بعض حقوق ہیں، ویسے ہی عورت کی طرف سے اس کے ذمے بعض فرائض بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے عورتوں سے گھریلو زندگی میں نیکی اور انصاف کا سلوک کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس حسن سلوک کی تاکید کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

خيرکم خيرکم لأهله

تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنے اہل (یعنی بیوی بچوں) کے لیے اچھا ہے۔

1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فضل أزواج النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 5  907، رقم : 3895 2. ابن ماجه، السنن، کتاب النکاح، باب حسن معاشرة النساء، 1 : 636، رقم : 1977 3. ابن حبان، الصحيح، 9 : 484، رقم : 4177 4. دارمي، السنن، 2 : 212، رقم : 2260 5. بزار، المسند، 3 : 197، رقم : 974 6. طبراني، المعجم الکبير، 19 : 363، رقم : 853 7. قضاعي، مسند الشهاب، 2 : 227، رقم : 1243 8. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 468

(8) تشدد سے تحفظ کا حق

خاوند پر بیوی کا یہ حق ہے کہ وہ بیوی پر ظلم اور زیادتی نہ کرے

وَلاَ تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لَّتَعْتَدُواْ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ وَلاَ تَتَّخِذُواْ آيَاتِ اللّهِ هُزُوًا

اور ان کو ضرر پہنچانے اور زیادتی کرنے کے لئے نہ روکے رکھو۔ جو ایسا کرے گا اس نے گویا اپنے آپ پر ظلم کیا اور اللہ کے احکام کو مذاق نہ بنا لو۔

القرآن، البقره، 2 : 231

یہ آیت ان احکام سے متعلق ہے جہاں خاوند کو بار بارطلاق دینے اور رجوع کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ بعض خاوند بیوی کو دق کرنا چاہتے ہیں اس لئے اسے معروف طریقے سے طلاق دے کر آزاد نہیں کر دیتے، بلکہ طلاق دیتے ہیں اورپھر رجوع کر لیتے ہیں، پھر طلاق دیتے ہیں اور پھر کچھ دن کے بعد رجوع کر لیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عورت ایک دائمی اذیت میں مبتلا رہتی ہے۔ یہ گویا اللہ کے احکام اور رعایتوں سے تمسخر ہے۔ اس سے منع فرمایا گیا کہ ان کو ظلم اور زیادتی کے لئے نہ روک رکھو۔ اس آیت مبارکہ میں یہاں ایک عام اصول بیان کر دیا ہے کہ عورت پر ظلم اور زیادتی نہ کرو۔ ظلم اور زیادتی کی تعیین نہیں کی، کیونکہ یہ جسمانی بھی ہوسکتی ہے، ذہنی اور روحانی بھی۔

(9) بچوں کی پرورش کا حق

اس امر میں اُمتِ مسلمہ کا اجماع ہے کہ بچہ کی پرورش کی مستحق سب سے پہلے اُس کی ماں ہے۔ البتہ اس اَمر میں اختلاف ہے کہ بچہ یا بچی کی پرورش کا حق ماں کو کتنی عمر تک رہتا ہے۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک جب بچہ خود کھانے پینے، لباس پہننے اور استنجاء کرنے لگے تو اُس کی پرورش کا حق ماں سے باپ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ لڑکے کی اس حالت کو پہنچنے کی عمر کا اندازہ علامہ خصاف نے سات آٹھ سال بیان کیا ہے، البتہ ماں کو لڑکی کی پرورش کا حق اس کے بالغ ہونے تک ہے۔ یہی قول امام ابو یوسف کا ہے۔ امام محمد کے نزدیک جب لڑکی میں نفسانی خواہش ظاہر ہو تو اس وقت تک ماں کو پرورش کا حق حاصل ہے۔ متاخرین احناف نے امام محمد کے قول کو پسند کیا ہے۔

1. داماد آفندي، مجمع الانهر، 1 : 481، 482 2. کاساني، بدائع الصنائع، 4 : 42 3. ابن همام، فتح القدير، 3 : 316

ماں کو بچہ کی پرورش کا حق حاصل ہونے کے بارے میں قرآن کریم میں کوئی آیت ظاہر نص کے طور پر تو موجود نہیں مگر اقتضاء نص کے طور پر فقہاء کرام نے آیتِ رضاعت۔ وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ.  سے ثابت کیا ہے کہ صغر سنی میں بچہ کی پرورش کا حق ماں کو حاصل ہے۔

فقہاء کرام نے مذکورہ آیت مبارکہ کے ساتھ ساتھ درج ذیل احادیث سے بھی استدلال کیا ہے

1 جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فتح مکہ کے بعد نکلے تو حمزہ کی بیٹی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعاقب کیا اور آواز دی : اے چچا! اے چچا! پس حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس بچی کا ہاتھ پکڑ لیا اور سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے کہا : اپنے چچا کی بیٹی کو لو۔ چنانچہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے اُسے اُٹھا لیا۔ اس بارے میں حضرت زید، علی اور جعفر رضی اللہ عنھم کا جھگڑا ہو گیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے اسے لے لیا ہے کیونکہ وہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور جعفر نے کہا : وہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میرے نکاح میں ہے جبکہ زید نے کہا کہ وہ میرے بھائی کی بیٹی ہے۔ پس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی خالہ کے حق میں فیصلہ دیا اور فرمایا

الخالة بمنزلة الأم

خالہ ماں کے درجہ میں ہے۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب الصلح، باب کيف يکتب هذا، 2 : 960، رقم : 2552 2. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب عمرة القضاء، 4 : 1551، رقم : 4005 3. ابوداؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب من أحق بالوالد، 2 : 284، رقم : 2280 4. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 127، 168، رقم : 8456، 8578 5. بيهقي، السنن الکبري، 8 : 5، 6 6. مقدسي، الأحاديث المختاره، 2 : 392، 393، رقم : 779

2حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا

يا رسول اﷲ! ان ابني هذا، کان بطني له وعاء، و ثديي له سقاء، و حجري له حواء، و إن أباه طلقني و أراد أن ينتزعه مني

اے اﷲ کے رسول! یہ میرا بیٹا ہے جس کے لئے میرا پیٹ ظرف تھا اور میری چھاتی مشکیزہ اور میری گود اس کے لئے پناہ گاہ تھی۔ اس کے باپ نے مجھے طلاق دی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اسے مجھ سے لے لے۔

اس پر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

أنت أحق به ما لم تنکحي

تو اپنے بچہ کی زیادہ مستحق ہے جب تک کہ تو (دوسرا) نکاح نہ کرلے۔

1. ابوداؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب نفقة، 2 : 283، رقم : 2276 2. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 182 3. عبدالرزاق، المصنف، 7 : 153، رقم : 2276 4. دارقطني، السنن، 3 304، 305 5. حاکم، المستدرک، 2 : 225 6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 4، 5

3حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک انصاری عورت اُمِ عاصم کو طلاق دی۔ عاصم اپنی نانی کے زیرِ پرورش تھا۔ اُس کی نانی نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تنازعہ پیش کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فیصلہ دیا

أن يکون الولد مع جدته، والنفقة علي عمر، وقال : هي أحق به

لڑکا اپنی نانی کے پاس رہے گا، عمر کو نفقہ دینا ہو گا۔ اور کہا : یہ نانی اس بچہ کی (پرورش کرنے کی) زیادہ حق دار ہے۔

1. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 5 2. عبدالرزاق، المصنف، 7 : 155، رقم : 12602

ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس لڑکے کی ماں کے حق میں فیصلہ کیا پھر فرمایا کہ میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا

لا توله والدة عن ولدها

والدہ کو اس کے بچہ سے مت چھڑاؤ۔

بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 5

عبدالرحمن بن ابی زناد اہل مدینہ سے فقہاء کا قول روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے خلاف ان کے بیٹے عاصم کے حق میں فیصلہ کیا کہ اس کی پرورش اس کی نانی کرے گی یہاں تک کہ عاصم بالغ ہوگیا، اور اُم عاصم اُس دن زندہ تھی اور (دوسرے شخص کے) نکاح میں تھی۔

بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 5

ابو حسین مرغینانی حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں

ولأن الأم أشفق وأقدر علي الحضانة، فکان الدفع إليها أنظر، و إليه أشار الصديق رضي الله عنه بقوله ريقها خير له من شهد و عسل عندک يا عمر

یعنی اس لئے کہ ماں بچہ کے حق میں انتہا سے زیادہ شفیق ہوتی ہے اور نگرانی و حفاظت پر مرد کی نسبت زیادہ قدرت رکھتی ہے۔ اسی شفقت کی طرف حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے اس قول میں اشارہ کیا ہے : اے عمر! بچے کی ماں کا لعاب دہن بچے کے حق میں تمہارے شہد سے بھی زیادہ شیریں ہو گا۔

مرغيناني، الهداية، 2 : 37

مرغینانی مزید لکھتے ہیں

باپ کی نسبت ماں اس لئے زیادہ شفیق ہوتی ہے کہ حقیقت میں بچہ ماں کے جسم کا ایک حصہ ہوتا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات بچہ کو قینچی کے ذریعے کاٹ کر ماں سے جدا کیا جاتا ہے اور عورت اسی پرورش میں مشغول ہونے کی وجہ سے حضانت پر زیادہ حق رکھتی ہے بخلاف مرد کے کہ وہ مال حاصل کرنے پر زیادہ قدرت رکھتا ہے۔

اسی طرح امام شافعی نے استدلال میں یہی احادیث پیش کی ہیں اور والدہ کے تقدم کی علت ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے

فلما کان لا يعقل کانت الأم أولي به علي أن ذلک حق للولد لا لأبوين، لأن الأم أحني عليه و أرق من الأب

پس جب کہ بچہ نا سمجھ ہو تو ماں اس کی پرورش کی زیادہ حق دار ہے کیونکہ یہ بچہ کا حق ہے نہ کہ والدین کی محبت و الفت و شفقت کے درجات کا۔

شافعي، الأم، 8 : 235

ابن قدامہ حنبلی اپنی کتاب المغنی (7 : 613، 614) میں لکھتے ہیں

الأم أحق بکفالة الطفل و المعتوة إذا طلقت. . . ولأنها أقرب إليه و أشفق عليه ولا يشارکها في القرب إلا أبوه، و ليس له مثل شفقتها، ولايتولي الحضانة بنفسه و إنما يدفعه إلي امرأته و أمه أولي به من أم أبيه

بچے اور عدیم العقل کی پرورش کی ماں زیادہ حق دار ہے جبکہ اُسے طلاق دے دی گئی ہو۔ ۔  کیونکہ بچہ سے زیادہ قریب اور زیادہ شفقت رکھنے والی ماں ہوا کرتی ہے۔ اگرچہ اس قرب و شفقت میں باپ کے علاوہ اس کے ساتھ کوئی دوسرا شریک نہیں ہو سکتا مگر اس کے باوجود حقیقت تویہ ہے کہ باپ بھی ماں جیسی شفقت نہیں رکھتا، اور نانی دادی کی نسبت سے اولیٰ ہو گی۔

ابن قدامہ مزید لکھتے ہیں

و الحضانة إنما تثبت لحظ الولد فلا تشرع علي وجه يکون فيه هلاکه و هلاک دينه

اور حضانت بچے کی بہبود و فلاح کے پیش نظر مقرر کی گئی ہے، لہٰذا کسی ایسے طریقے پر درست نہ ہو گی جس سے بچے کی ذات اور دین ضائع ہونے کا اندیشہ ہو۔

(10) خلع کا حق

اگر عورت اپنی ازدواجی زندگی سے مطمئن نہ ہو اور اپنے شوہر کی بداخلاقی، مکاری یا اُس کی کمزوری سے نالاں ہو جائے اور اُسے ناپسند کرے اور اُسے خوف ہو کہ حدود اللہ کی پاسداری نہ کر سکے گی تو وہ شوہر سے خلع حاصل کر سکتی ہے اور یہ کسی عوض کے بدلے ہو گا جس سے وہ اپنی جان چھڑائے۔ اس کی دلیل یہ آیت قرآنی ہے

فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ.

پس اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود قائم نہ رکھ سکیں گے تو (اندریں صورت) ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی (خود) کچھ بدلہ دے کر (اس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی حاصل کر لے۔

القرآن، البقره، 2 : 229

شریعتِ مطہرہ نے طلاق کو صرف شوہر کا حق قرار دیا ہے، کیونکہ شوہر ہی خاص طور سے رشتہ زوجیت قائم رکھنے کا خواہاں ہوتا ہے اور وہ زوجیت کی بناء پر کافی مال خرچ کر چکا ہوتا ہے، اس لئے وہ طلاق نہ دینے کو ترجیح دیتا ہے کیوں کہ طلاق کی صورت میں اسے مؤخر شدہ مہر اور عورت کے دوسرے مالی حقوق ادا کرنا پڑتے ہیں۔

چونکہ بیوی پر شوہر کے کوئی مالی حقوق واجب نہیں ہوتے، اس لئے شریعت نے طلاق کا حق مرد کو دیا ہے اور عورت کے لئے خلع کا حق رکھا ہے تاکہ اس کے پاس بھی تفریق کا حق موجود ہو۔

عورت کے اس حق کو احادیث مبارکہ میں یوں بیان کیا گیا

عن ابن عباس : أن امرأة ثابت بن قيس أتت النبي صلي الله عليه وآله وسلم فقالت : يا رسول اﷲ. ثابت بن قيس، ما اعتب عليه في خلق ولا دين، ولکني اکره الکفر في الاسلام. فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : أتردين عليه حديقته؟ قالت : نعم. قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : اقبل الحديقة و طلقها تطليقة

حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت ثابت بن قیس کی اہلیہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئیں : یارسول اللہ! میں کسی بات پر ثابت بن قیس سے ناخوش نہیں ہوں، نہ ان کے اخلاق سے اور نہ ان کے دین سے، لیکن میں اسلام میں احسان فراموش بننا ناپسند کرتی ہوں۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا تم ان کا باغ واپس دینا چاہتی ہو؟ اُنہوں نے کہا : ہاں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان کا باغ دیدو اور ان سے طلاق لے لو۔

بخاري، الصحيح، کتاب الطلاق، باب الخلع 5 : 2021، رقم : 4971

تاہم اگر شوہر صحیح ہو اور عورت کے تمام شرعی حقوق پورے کرتا ہو تو اس حالت میں خلع لینا دُرست نہیں ہے۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا

ايما امرأة سألت زوجها الطلاق ما بأس فحرام عليها رائحة الجنة

جو کوئی عورت اپنے شوہر سے بلاوجہ طلاق مانگے اُس پر جنت کی خوشبوحرام ہے۔

احمد بن حنبل، المسند، 5 : 277، رقم : 22433

خلع عورت کا ایسا حق ہے کہ جب عورت خلع لے لیتی ہے تو اپنے نفس کی مالک ہو جاتی ہے اور اُس کا معاملہ خود اُس کے ہاتھ میں آجاتا ہے، کیونکہ اس شخص کی زوجیت سے آزادی کے لئے اس نے مال خرچ کیا ہے۔

خلع کو عورت کے لئے مرد سے چھٹکارے کا ذریعہ بنایا گیا ہے کہ جب وہ اپنے شوہر کو ناپسند کرتی ہو اور اُس کے ساتھ رہنا نہ چاہتی ہو گویا یہ طلاق کی طرح عورت کے پاس ایک حق ہے اس میں عورت کو شوہر سے لیا ہوا مہر واپس کرنا ہوتا ہے۔

وہ چند صورتیں جن میں عورت کی طرف سے طلاق یا خلع واقع ہوتا ہے، درج ذیل ہیں

1نکاح کے وقت عورت نے اپنے لئے طلاق کا حق رکھا ہو اور شوہر نے اُس پر موافقت کی ہو۔ اس شرط کو استعمال کرنا اُس کا حق ہے۔

2جب وہ شوہر کی مخالفت کے باعث اپنے نفس پر نافرمانی کے گناہ میں پڑنے کا خوف کرے۔

3اس سے شوہر کا سلوک برا ہو، یعنی وہ اس پر اُس کے دین یا جان کے بارے میں ظلم روا رکھے اور عورت اس سے مال دے کر طلاق حاصل کرنا چاہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے

فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ.

پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، سو (اندریں صورت) ان پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی (خود) کچھ بدلہ دے کر (اس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی لے لے۔

القرآن، البقره، 2 : 229

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بیوی سے ناروا سلوک کرنے والے شوہر کے لئے اس سے مہر لینا بھی مکروہ سمجھتے ہیں، کیونکہ اسلام دین مروت ہے وہ عورت سے برا سلوک قبول نہیں کرتا کہ جب اُسے طلاق دے تو اُس کا مال بھی لے لے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :۔

وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَاناً وَإِثْماً مُّبِيناًO

اور جب تم ایک کی جگہ دوسری بیوی لانے کا ارادہ کرو اور تم اُن میں سے کسی کو سونے کے ڈھیر بھی دے چکے ہو تو اُس میں سے کچھ نہ لو بھلا تم ناجائز طور پر اور صریح ظلم سے اپنا مال اُس سے واپس لو گےo

القرآن، النساء 4، : 20

4شوہر اپنی بیوی سے جنسی تعلق پر قادر نہ ہو تو عورت اپنا معاملہ عدالت میں پیش کرے گی، قاضی اُسے ایک سال کی مہلت دیگا کہ (وہ علاج کرائے) اس کے بعد اگر وہ جنسی تعلق پر قادر نہ ہو سکے اور عورت علیحدگی کا مطالبہ کرے تو قاضی اُن کے درمیان علیحدگی کرا دے گا۔

5شوہر مجنون ہو جائے یا اُسے برص یا جزام (کوڑھ) کی بیماری لاحق ہو جائے تو بیوی کے لئے یہ حق ہے کہ وہ عدالت میں معاملہ اُٹھائے اور علیحدگی کی مطالبہ کرے، اس پر قاضی اُن میں علیحدگی کرا سکتا ہے۔

مرغيناني، الهدايه، 3 : 268

الغرض عورت کو ہر سطح پر اسلام نے وہ تحفظ اور عزت و احترام عطا کیا جس کی نظیر ہمیں کسی دوسرے نظام زندگی میں نہیں ملتی۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری

عورت کے بارے میں مرد کی غلط فہمیاں

men-and-women

عورت کے بارے میں مرد کی غلط فہمیاں

شروع ہی سے مرد عورت کے بارے میں چند غلط فہمیوں کا شکار رہا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں.ااا

مرد عورت کو اپنی شہوانی خواہشات کی آگ بجھانے کا ایک خوبصورت آلہ سمجھتا ہے. حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ عورت انسان کی نسل برقرار رکھنے کے لیے پیدا کی گئی ہے اور قدرت نے اسے مرد کی رفیق اور ہر پریشانی و درد کی ساتھی پا کر بھیجا ہے. اس لیے مرد کو چاہیئے کہ وہ اس صیحح اور جائز استعمال کر کے اپنی زندگی کو بہشت کا نمونہ بنائے اور تندرست و توانا اولاد پیدا کر کے اپنی نسل کو بہتر بنائے. ا کے لیے عورت کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنے آپ کو بلکل بے کس اور مجبور خیال نہ کرے یا اپنے آپ کو بالکل ہی مرد کی دست نگ تصور نہ کرے. بلکہ مرد کی ہم پلہ بن کر اپنے آپ کو صیحح معنوں میں نصف بہتر بنائے . لڑکی کے والدین کو چاہیئے کہ وہ شروع سے ہی اپنی لڑکی میں ایسے اوصاف پیدا کریں جن سے وہ مرد کے لیے وبال جان نہ بنے بلکہ اس کی صیحح شریک زندگی
ثابت ھو. اکثر اوقات مرد یہ سمجھتے ہیں کہ عورت میں جنسی خواہشات مرد کی نسبت بہت زیادہ ھوتی ہیں اور وہ تقریبا ہر وقت مباشرت کے لیے تیار رہتی ہے حالانکہ حقیقت کا اس سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہوتا . عورت بے چاری تو خواہش کے نہ ھوتے ھوئے بھی اپنے خاوند کو خوش کرنے کے لییے مباشرت کے لیے تیار ھو جاتی ہے. اسی وجہ سے مرد یہ سمجھتا ہے کہ اس کی بیوی پر شہوت کا غلبہ رہتا ہے اور وہ خاوند کا اشارہ پاتے ہی یہ آگ بجھانے کے لیے تیار ھو جاتی ہے. جو لوگ عوررت کو وقت بے وقت ستاتے رہتے ہیں اور کثرت سے مباشرت کرتے ہیں وہ جلد ہی کمزور ھو جاتے ہیں اور جس وقت عورت کو ان کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ مباشرت میں ناکام ھو جاتے ہیں بار بار ایسا ھونے سے عورت غم و غصے میں مبتلا ھو کر بدکار ھو جاتی ھے. علم تولید کے مشہور ڈآکٹر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ناکام مباشرت کی +وجہ سے بہت سی عوررتی رحم کے امراض میں مبتلا ھو جاتی ہیں. ڈآکٹر میری سٹوپس نے لکھا ہے کہ کامیاب مباشرت کے بعد عورت کا جسم ڈھیلا پڑ جاتا ہے اور وہ سکون کی نیند سوتی ھے. اگر مباشرت ناکام ھو تو وہ بے چین ہوجاتی ھے اور صحت بگڑتی چلی جاتی ھے. ایک آسٹرین ڈاکٹر کے مطابق رحم کی مرض عورتوں میں پچھتر فیصد عورتوں ے رحم میں خون جم گیا کونکہ ان کو مکمل جنسی تسکین حاصل نہ ھوئی. اکثر و بیشتر مرد یہ سمجھتے یہں کہ ان کی بیوی حاملہ ھو چکی ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کی جنسی خواہشات کی تکمیل صیحح طور پر ھو رہی ہے. لیکن یہ بات صیحح نہیں ہے

حقیقت یہ ہے کہ حمل عورت کی پیاس بجھے بغیر بھی ٹھہر سکتا ہے کیونکہ مرد کے مادہ منویہ میں لاکھوں جراثیم ھوتے ہیں اگر ایک جراثیم بھی عورت کے بیضہ انثی سے مل جاتے تو وہ رحم کی دیوار سے چپک کر حمل کا باعث بن سکتا ہے. بعض اوقات ایسے لوگ بھی دیکھنے میں آتے ہیں کہ مرد کا مادہ منویہ اندام نہانی کے منہ پر ہی گرا اور اس کے باوجود بھی حمل ٹھہر گیا اسس سے یہ بات ثابت ھوتی ہے اگر عورت بار بار بھی حاملہ ھو جائے تو اس سے یہ بات نہیں سمجھنی چاہیئے کہ عورت کی جنسی تسکین صیحح طور پر ھو رہی ہے بہت سے نوجوان شادی سے قبل بھی مباشرت کئے بغیر نہیں رہ سکتے ایسے مردوں کو مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہیئے. آآآ

جن عورتوں کو بانجھھ پن ، سیلان الرحم یا جریان عغیرہ کی شکایت ھو تو ایسی عورت سے مباشرت نہیں کرنی چاہیئے کونکہ اس سے مختلف قسم کی بیماریاں پیدا ھو جاتی ہیں. پندرہ برس سے کم عمر کی لڑکی سے مباشرت نہیں کرنی چاہیئے. جو عورت خود مباشرت کی خواہش ظاہر کرے اس سے مباشرت نہیں کرنی چاہیے کونکہ جس طرح وہ تم سے اس خواہش کا اظہار کر رہی ہے وہ دوسروں پر بھی اس خواہش کا اظہار کر چکی ھو گی. اور انہیں فیض یاب بھی کر چکی ھو گی. بہت سے مختلف لوگوں کا مادہ منویہ اس کی اندام نہانی میں مختلف بیماریاں پیدا کر چکا ھو گا اور یہ بیماریا ںتم کو بھی لگ سکتی ہیں اس لیے اس طرح کی عورت سے مباشرت نہیں کرنی چاہیئے. میلی گندی رہنے والی اور لنگڑی لولی عورت سے مباشرت نہیں کرنی چاہیئے کونکہ ان سے گھن آنے کی وجہ سے لذت حاصل نہیں ھوتی. اپنی سے بڑی عورت سے مباشرت نہیں کرنی چاہیئے. اس سے تم کمزور ھو جاؤ گے. بڑوں کا قول ھے کہ اگر کوئی بوڑھا مرد نوجوان عورت سے شادی کرتا ہے تو وہ جوان ھو جائے گا اور اگر کوئی جوان بوڑھی عورت سے شادی کرے گا تو وہ بوڑھا ہے جائے گا. بوڑھی عورتوں سے کبھی مباشرت نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ ان کی اندام نہانی بہت سا مادہ منویہ چوس لیتی ہے اور مرد کمزور ھو جاتا ہےایسی عورتیں جو اپنی کسی سہیلی وغیرہ سے اندام نہانی رگڑوا کر انزال کروانے کی عادی ھوں ان سے بھی مباشرت نہیں کرنی چاہیئے ایسی عورت سے مباشرت کرنے سے سوزاک ھو جانے کا ڈر رہتا ھے. جو عورتیں کافی عرصہ سے رکی ھوئی ھوں ان سے مباشرت کرنے سے کئی طرح کی بیماریاں لگ چاتی ہیں. غیر ملکی عورتوں سے مباشرت نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ ان کا مزاج تم سے الگ ھوتا ہے