Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

بارآوری کا عرصہ کیا ہوتا ہے؟ اِس کاحساب کس طرح لگایا جاتا ہے

بارآوری کا عرصہ کیا ہوتا ہے؟ اِس کاحساب کس طرح لگایا جاتا ہے

عورت کے ماہانہ تولیدی دورانئے میںوہ عرصہ جس کے دوران اُس کے حاملہ ہونے کے اِمکانات بہت زیادہ ہوں ،اِس عرصے کوبارآوری کا عرصہ کہا جاتا ہے۔

اِس عرصے کا حساب لگانے سے پہلے، متعلقہ عورت کو 6 ماہ تک اپنی ماہواری کے بارے میں تفصیلی مشاہدہ کرنا ہوتا ہے، ہر ماہ گزشتہ ماہواری کے آخری دِن اور نئی ماہواری کے پہلے دِن کے درمیان گزرنے والے دِنوں کو نوٹ کیجئے، پھر ایسے طویل ترین اور مختصر ترین وقفوں کو نوٹ کیجئے اب حساب لگایا جاسکتا ہے۔

اِن دِنوں کا درست حساب لگانا مشکل ہوتا ہے ،آپ کو کاغذ اور قلم کی ضرورت پیش آئے گی۔مختصر ترین وقفے سے ہمیشہ 18دِن کم کئے جاتے ہیں۔مثال کے طور پر، اگر گزشتہ 6ماہ کے دوران ،ایک ماہواری کے اختتام اور دوسری ماہواری کے آغاز کے درمیان ،مختصر ترین وقفہ 27 دِن کا تھا تو اِس میں سے 18دِن کم کرنے کے بعد ، آپ کی ماہواری کے آغاز سے 9 دِن بنتے ہیں۔
طویل ترین وقفے سے ہمیشہ 11دِن کم کئے جاتے ہیں، مثال کے طور پر، اگر گزشتہ 6 ماہ کے دوران ،ایک ماہواری کے اختتام اور دوسری ماہواری کے آغاز کے درمیان ،طویل ترین وقفہ 31 دِن کا تھا تو اِس میں سے 11 دِن کم کرنے کے بعد آپ کی ماہواری کے آغاز سے 20 دِن بنتے ہیں، اِس مثال میں دیئے ہوئے اعدادوشمار کو استعمال کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ، حمل ہونے کا اِمکان ، نویں اور بیسویں دِن کے درمیانی عرصے میںسب سے زیادہ ہوگا، واضح رہے کہ یہ اعداد وشمار صِرف مثال کے طور پر پیش کئے گئے ہیں، آپ کو اپنے لئے یہ حساب اپنے بارے میں مشاہدہ کر کے خود لگانا ہوگا،آپ کے لئے کون سے عرصے میں بارآوری کا اِمکان سب سے زیادہ ہے اور کون سے عرصے میں اِس کا اِمکان کم ہے۔

اگر آپ کی ماہواری میں زیادہ بے قاعدگی ہے تو بارآوری کے عرصے زیادہ طویل ہوں گے

دوا خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

 

موٹاپا بار بار حمل ضائع ہونے کی وجہ

موٹاپا بار بار حمل ضائع ہونے کی وجہ
ایک سائنسی تحقیق کے مطابق وہ خواتین جن کا ایک بار حمل ضائع ہوچکا ہے ان کے دوبارہ حمل ضائع ہونے کا خطرہ زیادہ ہوجاتا ہے اگر ان کا وزن معمول سے زیادہ ہو یا وہ موٹاپے کی بیماری ’اوبیسٹی‘ کی شکار ہیں۔
لندن کے سینٹ میری ہسپتال نے ایک تحقیق کے دوران 696 ایسی خواتین کی اسٹڈی کی جن کا حمل ضائع ہونے کی کوئی خاص وجہ نہیں پتہ چل پائی تھی۔
اسپتال کی ایک ٹیم نے کینڈا میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ موٹی خواتین کے حمل ضائع ہونے کے امکانات ان کے وزن کی وجہ سے 73 فی صد زیادہ ہوجاتے ہیں۔موٹاپے کے علاج کے ایک ماہر کا کہنا تھا کہ حمل کے دوران وزن گھٹانا ایک خطرناک عمل ثابت ہوسکتا ہے۔

حالانکہ یا بات پہلے ہی ثابت ہوچکی ہے کہ موٹاپے کی وجہ سے بچے کی پیدائش اور حاملہ ہونے میں مشکلات آتی ہیں لیکن سینٹ میری ہسپتال کی جانب سے کی جانے والی یہ ایسی پہلی تحقیق ہے جس میں بار بار حمل ضائع ہونے کی وجوہات پر تحقیق کی گئی ہے اور اس کا تعلق موٹاپے سے جوڑا گیا ہے۔

جن 696 خواتین پر تحقیق کی گئی ان میں سے آدھی خواتین کا وزن نارمل تھا، 30 فی صد معمول سے زیادہ موٹی تھیں اور 15 فی صد ’اوبیس‘ تھیں۔

جن 696 خواتین پر تحقیق کی گئی ان میں سے آدھی خواتین کا وزن نارمل تھا، 30 فی صد معمول سے زیادہ موٹی تھیں اور 15 فی صد ’اوبیس‘ تھیں۔

سائسنی تحقیقات کے تحت خواتین کی عمر جتنی زیادہ ہوتی انہیں بچے پیدا کرنے میں اتنی ہی زیادہ پریشانی ہوتی ہے لیکن نئی تحقیقات میں معلوم ہوا ہے کہ بچے کی پیدائش کے عمل میں پریشانی اور بار بار حمل ضائع ہونے کی ایک وجہ موٹاپا بھی ہے۔

سینٹ میری ہسپتال کی کلینیکل نرس اسپیشلسٹ ونی لو کا کہنا ہے کہ یہ پہلی تحقیق ہے جس میں موٹاپے کی بیماری یعنی اوبیسٹی اور بار بار حمل ضائع ہونے کے درمیان کے تعلق کو سمجھا گیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ’اوبیس خواتین جن کا حمل ضائع ہوتا ہے انہیں اپنے موٹاپے کی وجہ سے حمل ضائع ہونے کا مزید خطرہ رہتا ہے۔ ‘

ونی لو کایہ بھی کہنا تھا کہ جن خواتین کوموٹاپے کی بیماری ہے انہیں اپنا وزن کم کرنے کے لیے سنجیدہ قدم اٹھانے چاہیے اور انہیں اس کے لیے کاؤنسنلنگ کی مدد بھی لینی چاہیے۔