Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

نیند یا کم خوابی کی وجہ جینز

آپ کے سونے یا جاگنے کی صلاحیت کی وجہ آپ کے جینز ہو سکتے ہیں۔
نئی تحقیق سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کیا آپ کے سویرے اٹھنے یا رات تک جاگنے کی کیفیت کا پتہ آپ کے جینیاتی ورثے سے لگایا جا سکتا ہے یا نہیں۔

نئی تحقیق میں یہ جاننے کے عمل کو آسان بنایا جا رہا ہے اور اس جینیاتی رحجان کی تشخیص اب خون کے ٹیسٹ سے نہیں بلکہ محض ’ماؤتھ سواب‘ یعنی تھوک کے نمونے سے ممکن ہو سکے گا۔

جسم میں سونے اور جاگنے کے اوقات ’سرکیڈئین رِدھم‘ کہلاتے ہیں۔ اس ٹیسٹ میں ان جینز کی تشخیص ہو جاتی ہے جو ’سرکیڈئن رِدھم‘ کو متاثر کرتے ہیں۔

سِرکیڈئین رِدھم پر کئی مختلف جینز اثر انداز ہوتی ہیں اور ان سے پیدا ہونے والے’ رِبو نُکلئیک ایسِڈ‘ یعنی ’آر این اے‘ کے مقدار سے انفرادی سرکیڈئین ردھم بنتے ہیں۔ آر این اے کی پیداوار کی وجہ سے سے انسان کے مختلف اوقات پر سستی یا عدم سستی محسوس ہوتی ہے۔

مثلاً ’پیر ٹو‘ نامی ایک جین صبح کے چار بجے سب سے زیادہ آر این اے پیدا کرتی ہے اور اس جین کا نیند سے گہرا تعلق ہے۔

’آر ای وی ای آر بی‘ (REV-ERB) نامی ایک اور جین سہ پہر کے چار بجے سب سے زیادہ آر این اے پیدا کرتی ہے اور خیال ہے کہ اس کا تعلق جاگنے سے ہے۔

برطانیہ کے شہر چیلٹنھم میں پچھلے ہفتے ہونے والے ایک سائنسی میلے میں اس جین پر تحقیق کی گئی۔ میلے پر ہونے والے ایک خطاب سے پہلے اور بعد میں کئی افراد کے تھوک کے نمونے لیے گئے اور ان میں ان جینز کا پتہ لگا کر دیکھا جائے گا کہ ان افراد میں سستی کی کیفیت کیا رہی۔

سوانزی یونیورسٹی کی محقق سارا فوربز رابرٹسن نے بتایا ہے کہ اگر کسی شخص میں سہ پہر چار بجے سے پہلے REV-ERB کی مقدار زیادہ ہو تو ان کے سویرے اٹھنے والے شخص ہونے کے امکانات کافی ہیں۔لیکن اگر کسی میں سہ پہر چار بجے کے بعد اس کی مقدار زیادہ ہو تو یہ عین ممکن ہے کہ وہ ایسے شخص ہونگے جو رات دیر تک آسانی سے جاگتے ہوں۔

لوگوں میں سونے جاگنے کے مختلف اوقات کے رحجان سے اکثر شادی شدہ جوڑوں میں اختلافات پیدا ہو تے ہیں کیونکہ ایک شخص صبح سویرے اٹھ سکتا ہے جبکہ دوسرا رات دیر تک جاگنا پسند کرتا ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس نئے ٹیسٹ سے اب نہ صرف لوگوں کے اس رحجان کا پتہ چل سکے گا بلکہ اس سے جینز مختلف اشیا کے اثرات کے پتہ چلانے میں بھی مدد ملے گی۔

مثلاً ’جیٹ لیگ‘ یعنی جہاز کے لمبے سفر کے بعد تھکن کے لیے دی جانے والی ادویات کا ان جینز پر اثر کا اندازہ لگایا جا سکے گا۔ محقق سارا فاربز رابرٹسن کہتی ہیں کہ جیٹ لیگ جینز کے رویے پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے، اور ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ کھانے سے بھی اس پر اثر پڑ سکتا ہے۔‘

ہڈیوں کے بھربھرےپن کی وجہ وٹامن ڈی کی کمی

وٹامن ڈی کی کمی ، سگریٹ اور مشروبات کے استعمال سے بڑھ جاتی ہے” یہ بات آرتھوپیڈک ڈاکٹر سلمان نے اپنے ایک بیان میں کہی۔ انہوں نے آسٹیوپروسس کے بارے میں بتایا کہ یہ بیماری بارملی 50 برس کی عمر میں شروع ہوتی ہے لیکن اس سے قبل بھی یہ عارضہ لاحق ہو سکتا ہے، اس بیماری میں ہڈیاں ہلکی اور بھربھری ہو جاتی ہیں۔ فریکچر ہونے لگتے ہیں۔ کبھی کبھار معمولی ٹھوکر لگنے سے بھی فریکچر ہو جاتا ہے۔ ہر بیماری کا علاج دواؤں اور غذا سے ممکن ہے۔ ورزش اور وزن اٹھانے کی
ورزش سے ہڈیوں کو نقصان پہنچنے کے بارے میں انہو نے کہا کہ یہ غلط تاثر ہے کہ وزن اٹھانے سے ہڈیوں پر اثر پڑتا ہے۔ ہلکا پھلکا وزن اٹھانا اور ورزش کرنا ہڈیوں سے کےلیے فائدہ مند ہوتا ہے۔ ڈاکٹر سلمان نے اس بیماری کے لیے ٹیسٹ کے حوالے سےبات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ 50 برس سے زائد عمر کی خواتین اور وہ لوگ جن کے خاندان کے افراد اس مرض کا شکار ہو چکےہیں انہیں ضرور ٹیسٹ کرانا چاہیے۔ کیونکہ بیماری کا جتنی جلدی پتہ چل جائے اس کا علاج اتنا ہی بہتر اور اچھا ممکن ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے افراد جو زیادہ گاڑی چلاتے ہیں یا ان کی ٹانگوں میں درد رہتا ہے ان کےلیے فزیوتھراپسٹ کی مدد سے ایک مشین کا استعمال فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جو خواتین برقعہ پہنتی ہیں یا دھوپ میں کم نکلتی ہیں ان کو بھی ہڈیوں کے بھربھرن پن کی بیماری ہو سکتی ہے ایسی خواتین کو ہدایت دیتےہوئے کہا کہ انہیں صبح و شام میں 10 منٹ کےلیے دھوپ میں بیٹھنا چاہیے۔ انہوںنے کہا کہ وٹامن ڈی کی کمی، سگریٹ نوشی ، کیفین اور کولا کے استعمال سےبڑھ جاتی ہے۔

موٹاپا بار بار حمل ضائع ہونے کی وجہ

موٹاپا بار بار حمل ضائع ہونے کی وجہ
ایک سائنسی تحقیق کے مطابق وہ خواتین جن کا ایک بار حمل ضائع ہوچکا ہے ان کے دوبارہ حمل ضائع ہونے کا خطرہ زیادہ ہوجاتا ہے اگر ان کا وزن معمول سے زیادہ ہو یا وہ موٹاپے کی بیماری ’اوبیسٹی‘ کی شکار ہیں۔
لندن کے سینٹ میری ہسپتال نے ایک تحقیق کے دوران 696 ایسی خواتین کی اسٹڈی کی جن کا حمل ضائع ہونے کی کوئی خاص وجہ نہیں پتہ چل پائی تھی۔
اسپتال کی ایک ٹیم نے کینڈا میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ موٹی خواتین کے حمل ضائع ہونے کے امکانات ان کے وزن کی وجہ سے 73 فی صد زیادہ ہوجاتے ہیں۔موٹاپے کے علاج کے ایک ماہر کا کہنا تھا کہ حمل کے دوران وزن گھٹانا ایک خطرناک عمل ثابت ہوسکتا ہے۔

حالانکہ یا بات پہلے ہی ثابت ہوچکی ہے کہ موٹاپے کی وجہ سے بچے کی پیدائش اور حاملہ ہونے میں مشکلات آتی ہیں لیکن سینٹ میری ہسپتال کی جانب سے کی جانے والی یہ ایسی پہلی تحقیق ہے جس میں بار بار حمل ضائع ہونے کی وجوہات پر تحقیق کی گئی ہے اور اس کا تعلق موٹاپے سے جوڑا گیا ہے۔

جن 696 خواتین پر تحقیق کی گئی ان میں سے آدھی خواتین کا وزن نارمل تھا، 30 فی صد معمول سے زیادہ موٹی تھیں اور 15 فی صد ’اوبیس‘ تھیں۔

جن 696 خواتین پر تحقیق کی گئی ان میں سے آدھی خواتین کا وزن نارمل تھا، 30 فی صد معمول سے زیادہ موٹی تھیں اور 15 فی صد ’اوبیس‘ تھیں۔

سائسنی تحقیقات کے تحت خواتین کی عمر جتنی زیادہ ہوتی انہیں بچے پیدا کرنے میں اتنی ہی زیادہ پریشانی ہوتی ہے لیکن نئی تحقیقات میں معلوم ہوا ہے کہ بچے کی پیدائش کے عمل میں پریشانی اور بار بار حمل ضائع ہونے کی ایک وجہ موٹاپا بھی ہے۔

سینٹ میری ہسپتال کی کلینیکل نرس اسپیشلسٹ ونی لو کا کہنا ہے کہ یہ پہلی تحقیق ہے جس میں موٹاپے کی بیماری یعنی اوبیسٹی اور بار بار حمل ضائع ہونے کے درمیان کے تعلق کو سمجھا گیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ’اوبیس خواتین جن کا حمل ضائع ہوتا ہے انہیں اپنے موٹاپے کی وجہ سے حمل ضائع ہونے کا مزید خطرہ رہتا ہے۔ ‘

ونی لو کایہ بھی کہنا تھا کہ جن خواتین کوموٹاپے کی بیماری ہے انہیں اپنا وزن کم کرنے کے لیے سنجیدہ قدم اٹھانے چاہیے اور انہیں اس کے لیے کاؤنسنلنگ کی مدد بھی لینی چاہیے۔