Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

ضبط ولادت (مانع حمل) – شرعی نقطہ نظر سے

اولاد اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے مگر اس کے باوجود بعض اوقات انسان ضبط ولادت کو ضروری خیال کرتا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر ضبط ولادت کے پیچھے حرام کاری ہی کارفرما ہو۔

ضبط ولادت میں ممکنہ جائز وجوہات

 ماں اور بچوں کی صحت کے نکتہ نظر سے خواہش ہوتی ہے کہ بچوں کی پیدائش میں دو تین سال کا وقفہ ہو۔
 بعض اوقات ماں کی صحت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ مزید بچے پیدا کر سکے۔
بعض اوقات میڈیکل ٹیسٹوں کی مدد سے پتہ چل جاتا ہے کہ آئندہ بچے نارمل نہیں‌ ہوں گے، چنانچہ حمل سے احتراز کیا جاتا ہے۔
 والدین کی بعض بیماریاں بچوں کو منتقل ہونے کے خدشے سے بھی بعض اوقات ضبط ولادت کو ترجیح دی جاتی ہے۔
 اکثر جوڑے دو یا تین بچوں کی پیدائش کے بعد اپنے خاندان کو مزید بڑا کرنے سے احتراز کرتے ہیں تاکہ وہ بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کا انتظام کر سکیں۔
 ملازمت پیشہ خواتین بچوں کی تربیت کے لئے کم وقت نکال پاتی ہیں، چنانچہ ان کی بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ کم بچے پیدا کریں۔
شرعی نقطہ نظر
مذکورہ بالا ممکنہ وجوہات کے پیش نظر بہت سے علماء ضبط ولادت کو سو فیصد حرام قرار نہیں دیتے۔ اس کے جواز میں وہ احادیث پیش کی جاتی ہیں جن میں صحابہ کرام کے عزل کرنے کا ذکر ہے۔ عزل اس دور میں ضبط تولید کا ایک طریقہ تھا۔

صحیح بخاری میں مذکور حدیث مبارکہ میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم عزل کیا کرتے تھے درآنحالیکہ قرآن مجید کے نزول کا سلسلہ جاری تھا۔

بخاری شریف کی ایک اور حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ عزل کرنا کیسا ہے؟ آپ نے فرمایا جس جان کو اللہ نے قیامت سے پہلے پیدا کرنا ہے وہ ضرور پیدا ہو گی۔ (یعنی تم اسے روک نہیں سکو گے۔)

حقیقت بھی یہی ہے کہ عزل کے دوران انزال سے پہلے ذکر کو فرج سے باہر نکالنے کی کوشش میں یا انزال سے بھی پہلے بعض اوقات چند سپرم فرج میں رہ جاتے ہیں اور وہ حمل کا باعث بن جاتے ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق عزل کی صورت میں 25 فیصد تک حمل کا امکان باقی رہتا ہے۔ یہی بات چودہ صدیاں قبل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمائی تھی۔

اس صفحہ کے مواد میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔
دوبارہ ملاحظہ کرنا مت بھولئے گا۔

اسقاط ‌حمل شرعی نقطہ نظر سے

بچے کی زندگی کا آغاز مرحلہ جنین سے ہوتا ہے اور حمل کے 4 ماہ بعد رحم مادر میں موجود بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ حمل کے پہلے 4 ماہ کے دوران کسی معقول وجہ کی بناء پر حمل ضائع کرنا جائز ہے جبکہ 4 ماہ گزرنے کے بعد حمل کو ضائع کرنا بچہ کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔رحم مادر میں استقرارِ حمل جب تک 120 دن یعنی چار ماہ کا نہ ہو جائے یعنی بچہ کے اندر روح پھونکے جانے سے قبل اسقاطِ حمل (abortion) اگرچہ جائز ہے مگر بلا ضرورت مکروہ ہے، جب کہ 4 ماہ کا حمل ہو جانے کے بعد اسے بلا عذر شرعی ضائع کرنا حرام ہے۔
عذر شرعی سے مراد یہ ہے کہ اگر حمل کے 4 ماہ گزرگئے ہوں لیکن حمل برقرار رہنے کی وجہ سے عورت کی ہلاکت یقینی ہو، جس کی ماہر ڈاکٹروں نے تصدیق کردی ہو، تو ایسی صورت میں 4 ماہ کے بعد بھی اسقاط حمل جائز ہے بلکہ عورت کی جان بچانے کے لیے ضروری ہے کیونکہ اِسقاط نہ کرانے کی صورت میں ماں اور بچہ دونوں کی ہلاکت کا خطرہ یقینی ہے۔ ماں‌ کے مقابلہ میں پیٹ میں‌ موجود بچہ کا زندہ ہونا محض ظنی ہے، چنانچہ بچے کی نسبت ماں کی جان بچانا زیادہ اہم ہے۔ اس لیے اس صورت میں اسقاط کرانا واجب ہے۔