Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

بچے کی ولادت کے بعد

بچے کی ولادت کے بعد

لڑکی کے ما ں بنتے ہی اس کی اور خاندان کی زند گی یکسر بدل جا تی ہے ۔ بچے کے دنیا میں آتے ہی خوشیو ں کی بارات اتر آتی ہے تو اس کی صحت اور حفاظت کی فکر بھی لا حق رہتی ہے۔ خو د ما ں کی صحت اور سلامتی پر تو جہ کر نا بہت ضروری ہو تا ہے خا ص طو ر پر پہلو ٹی کے لیے یہ احتیاطیں زیادہ ضروری ہوتی ہیں۔ بر صغیر میں پہلا ہفتہ جسے عام طور پر ”چھٹی “ کہتے ہیں ‘ احتیاط کا زیا دہ متقاضی ہو تا ہے۔ علا ج معالجے کی جدید سہولتو ں کے با وجود پاکستان میں نو عمر بچوں کی مجمو عی اموات میں سے کچھ فی صد ولا دت کے پہلے ہفتے اور کچھ فی صد پہلے مہینے میں واقع ہو تی ہے ، اس لیے ماﺅ ں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ خود بھی احتیاط سے کا م لیں اور بچے کا بھی بہت خیال رکھیں۔ ما ں کے لیے ضروری ہے کہ اگر زچگی نارمل ہوئی ہے تو وہ پہلے روز مکمل آرام کر ے ۔ اس کے بعد وہ احتیاط سے چل پھر سکتی ہے ۔ اس سے اس کی ٹا نگو ں میں دوران خون بہتر ہو جا ئے گااور وہ رگوں کے پھولنے کی شکا یت سے محفو ظ رہے گی ۔ آٹھ دس دن بعد ما ں گھر کا ہلکا کام کا ج کر سکتی ہے ، مگر زچگی آپریشن سے ہوئی ہو تو ایسی صورت میں معالج کے مشورے
پر عمل ضروری ہے۔ ورزش زچگی کے پہلے ہفتے میں ورزش سے بچنا چاہیے، صر ف کمرے میں ٹہلنا کا فی ہو تا ہے ۔ حمل کے دوران وزن میں اضا فے سے فکرمند نہیں ہو نا چاہئے۔ رفتہ رفتہ یہ اضا فہ کم ہو جا ئے گا۔ بچے کی غذا: یہ بہت ضروری ہے کہ ما ں بچے کو اپنا دودھ پلائے اور یہ عمل پیدائش کے بعد پہلے گھنٹے ہی سے شروع ہو جا نا چاہئے۔ اس عمل سے پہلے ضروری ہے کہ ما ںہا تھ اور چھاتیاں دھو لیا کرے اور بچے کو با ری باری دونوں چھا تیوں سے دودھ پلائے۔ بچہ رفتہ رفتہ دودھ پینے کا اپنا معمول مقرر کر ے گاجو عام طور سے ۳۔ ۴گھنٹے ہو تا ہے اور جب بھی بھوک اسے ستانے لگی گی وہ رو کر اس کا اظہار کرے گا۔ ما ں کو اپنے دودھ کے علاوہ بچے کو کوئی اور چیز نہیں کھلا نی چاہئے، یہا ں تک کہ سخت گرمی کے باوجو د پانی بھی نہیں پلا نا چا ہئے ۔ ما ں کے دودھ میں بچے کے لیے درکا ر پانی کا فی مقدار میں ہو تا ہے۔ ماں کی غذا:ماں کے لیے گھر میں تیار ہو نے والا عام کھانا کا فی ہو تا ہے بشرطیکہ کھا نا متوازن ہو ۔ البتہ ما ں کو اپنی غذا کی مقدار میں تھوڑا اضافہ کر لینا چاہئے یعنی ۰۵۵ حرارے سے زائد کھانے کے علاوہ ۵۲ گرام پروٹین زیادہ استعما ل کر نی چاہئے۔ ہمارے ہاں ما ﺅ ں کو اصلی گھی اور خشک مغزیا ت بکثرت کھلا ئے جا تے ہیں ۔ یہ انداز درست نہیں ہے ۔ ما ں کو روٹی، چاول ، دالو ں، سبزیوں ، پھل ،دودھ، انڈوں اور گو شت پر مشتمل متوازن غذا کا ملنا ضروری ہے۔ اصلی گھی دن بھر میں زیا دہ سے زیادہ تین چائے کے چمچو ں کے برا بر کھلا نا کا فی ہو تا ہے۔ اسی طر ح دس، گیارہ بادام اور پستے وغیرہ کافی ہو تے ہیں ۔ اس عرصے میں زیادہ گھی، مغزیا ت اور ضرورت سے زیادہ غذا ہی کے نتیجے میں ہماری خواتین موٹی ہو جا تی ہیں اس کے بعد ان کا دبلا ہو نا بہت مشکل ہو تا ہے۔ فولا د کی ضرورت:حمل کے دوران فولاد کی زائد مقدار کااستعمال زچگی کے بعد بھی جاری رہنا چا ہئے بلکہ اس وقت اس کی مقدار میں مزید اضافہ ضروری ہو جا تا ہے تاکہ زچگی کے دوران ہو نے والے جریان خون سے ہو نی والی فولاد کی کمی دور ہو جا ئے۔ اس کے علا وہ بچے کو اپنا دودھ پلانے کی وجہ سے بھی فولا د کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔ صفا ئی کا خیال :۔ ما ں کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ صاف ستھری رہے۔ نارمل زچگی کی صورت میں وہ غسل کر سکتی ہے۔ اسے صاف ستھرا ، لیکن ڈھیلا ڈھالا اور آرام دہ لباس پہننا چاہئے اور اچھی کو الٹی کے سینیٹری نےپکن یا صاف کپڑا استعمال کر نا چاہئے تاکہ مقامی چھو ت سے وہ محفو ظ رہے۔ بچے کا رکھ رکھاو :سب سے پہلا کام بچے کا وزن کر نا ہو تا ہے۔ پیدائش کے وقت اس کا وزن کر کے درج کر لینا چاہئے۔ اس کے مطابق اس کی صحت کا خیال رکھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ بچے کا وزن کم ازکم ۸ئ۲ کلو گرام ہو نا چاہئے۔ ٭کسی بھی اچھے زچگی خانے سے بچے کی بڑھوتری کا فارم مل جا تا ہے۔ اس میں درج معلوما ت کے مطابق عمل کرنے سے اس کی اچھی صحت کے لیے جتن اور تدابیر آسان ہو جا تی ہیں۔ ٭بچے کو ماں کے دودھ کے علاوہ کسی قسم کے وٹامن یعنی حیا تین وغیرہ نہیں دینے چاہئیں ۔ ان سے فا ئد ے کے بجا ئے نقصان ہو سکتا ہے۔ ٭بچے کو روزانہ نہلا کر صاف ستھرے آرام دہ کپڑے پہنا ئے جائیں ۔ کپڑوں کے سلسلے میں موسم کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہو تا ہے۔ جاڑوں میں گرم کپڑے اسے ٹھنڈ اور نزلہ زکا م سے محفوظ رکھتے ہیں ۔ ہمارے ہا ں ڈیزرٹ کو لرز کا استعمال بھی عام ہو گیا ہے۔ نومولود بچے کو اس کی ہوا کی زد میں نہیں رکھنا چاہئے۔ ٭مچھر ہر جگہ ہیں ، بچے کو ان سے محفوظ رکھنا بے حد ضروری ہے اس کے لیے مچھر جا لی کا استعمال ضرور کر نا چاہئے۔ ٭بچے کو اس کے پنگھوڑے میں لٹا ئے رکھنا بہتر ہے۔ بہت زیادہ لو گو ں کا اسے گو د میں لینا مناسب نہیں ہو تا ۔ خاص طور پر نزلے، زکا م اور کھانسی میں مبتلا افراد کو اسے گود میں لینے سے احتیاط کر نی چاہئے۔ ٭بچے کو خشک رکھنا بھی ضروری ہے۔ یعنی وہ جب بھی فارغ ہو، اس کے کپڑے بدل دینے چاہئیں ۔ اس طرح اسکی جلد خراش اور جلن سے محفوظ رہے گی ۔ کپڑے بدلنے کے بعد نیم گرم پانی سے صاف کر کے جگہ خشک کرنے کے بعد پاﺅڈر لگا دینا بہتر رہتا ہے۔ اسی طر ح اس کی بغل میںبھی پاﺅڈر چھڑک دینا چاہئے ٭ نال کو کبھی چھیڑ نا نہیں چاہئے ۔ یہ سو کھ کر خود جھڑ جا تی ہے۔ اس پر گرم کر کے ٹھنڈا کیا ہوا کھو پرے کا تیل کبھی کبھی لگاتے رہنا منا سب ہوتا ہے ۔ اس پر کبھی مٹی ، پانی اور گو بر وغیرہ نہیں لگا نا چاہئے۔ یہ انتہا ئی خطرنا ک کا م ہے اس سے بچہ ایک بیماری یعنی ٹیٹنس میں مبتلا ہو سکتا ہے ۔ خطر ے کی علامات :۔ بچے میں رونما ہو نے والی بعض بظاہر معمولی تبدیلیاں خطر نا ک بھی ثابت ہو سکتی ہیں ، انہیں کبھی نظر انداز نہیں کر نا چا ہئے ۔ اسی طرح ما ںمیں بھی بعض علا ما ت خطر ناک ہو تی ہیں ۔ بچے کی علا مات : ٭دودھ چوسنے میںدقت ۔ ٭رونے کی آواز میں تبدیلی کمزور آواز میں رونا ٭تیز تیز سانس لینا (فی منٹ ۰۶ سانس)٭نیلے ہونٹ، ناخن وغیرہ ٭جلد اور آنکھو ں کی پیلی رنگت یعنی یرقان ٭آنول کی سو جن ، سرخی یا رطوبت کا اخراج ٭دورے اور اینٹھن ، کسی عضو کا ٹیڑھا ہونا یا کھینچنا ٭پیدائش کے ۴۲ گھنٹوں بعد پیشاب نہ کرنا ٭غنودگی ۔ ٭آنکھوں سے پانی کا مسلسل بہنا۔ ٭دودھ پینے کے بعد بچہ نرم اجابت کر تاہے۔ یہ معمول کے مطابق ہوتا ہے، لیکن پانی جیسے دست جن میں خون بھی ہو ، توجہ اور علاج کے محتاج ہوتے ہیں٭بچے کو پیدائش کے پہلے ہفتے میں دق و سل (بی سی جی ) اور پولیو کی خوراک دے دینی چاہئے۔

ماں کی علامات :۔ ٭خون کا بکثر ت اخراج٭بدبو دار رطوبت کا اخراج ٭حرارت میں اضافہ یعنی بخار٭پنڈلی کے پٹھوں میں درد اور سوجن٭چھاتیوں میں بھاری پن اور درد ٭نچلے پیٹ میں شدید درد ٭پیشاب کر نے میں مشکل۔

ضبط ولادت (مانع حمل) – شرعی نقطہ نظر سے

اولاد اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے مگر اس کے باوجود بعض اوقات انسان ضبط ولادت کو ضروری خیال کرتا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر ضبط ولادت کے پیچھے حرام کاری ہی کارفرما ہو۔

ضبط ولادت میں ممکنہ جائز وجوہات

 ماں اور بچوں کی صحت کے نکتہ نظر سے خواہش ہوتی ہے کہ بچوں کی پیدائش میں دو تین سال کا وقفہ ہو۔
 بعض اوقات ماں کی صحت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ مزید بچے پیدا کر سکے۔
بعض اوقات میڈیکل ٹیسٹوں کی مدد سے پتہ چل جاتا ہے کہ آئندہ بچے نارمل نہیں‌ ہوں گے، چنانچہ حمل سے احتراز کیا جاتا ہے۔
 والدین کی بعض بیماریاں بچوں کو منتقل ہونے کے خدشے سے بھی بعض اوقات ضبط ولادت کو ترجیح دی جاتی ہے۔
 اکثر جوڑے دو یا تین بچوں کی پیدائش کے بعد اپنے خاندان کو مزید بڑا کرنے سے احتراز کرتے ہیں تاکہ وہ بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کا انتظام کر سکیں۔
 ملازمت پیشہ خواتین بچوں کی تربیت کے لئے کم وقت نکال پاتی ہیں، چنانچہ ان کی بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ کم بچے پیدا کریں۔
شرعی نقطہ نظر
مذکورہ بالا ممکنہ وجوہات کے پیش نظر بہت سے علماء ضبط ولادت کو سو فیصد حرام قرار نہیں دیتے۔ اس کے جواز میں وہ احادیث پیش کی جاتی ہیں جن میں صحابہ کرام کے عزل کرنے کا ذکر ہے۔ عزل اس دور میں ضبط تولید کا ایک طریقہ تھا۔

صحیح بخاری میں مذکور حدیث مبارکہ میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم عزل کیا کرتے تھے درآنحالیکہ قرآن مجید کے نزول کا سلسلہ جاری تھا۔

بخاری شریف کی ایک اور حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ عزل کرنا کیسا ہے؟ آپ نے فرمایا جس جان کو اللہ نے قیامت سے پہلے پیدا کرنا ہے وہ ضرور پیدا ہو گی۔ (یعنی تم اسے روک نہیں سکو گے۔)

حقیقت بھی یہی ہے کہ عزل کے دوران انزال سے پہلے ذکر کو فرج سے باہر نکالنے کی کوشش میں یا انزال سے بھی پہلے بعض اوقات چند سپرم فرج میں رہ جاتے ہیں اور وہ حمل کا باعث بن جاتے ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق عزل کی صورت میں 25 فیصد تک حمل کا امکان باقی رہتا ہے۔ یہی بات چودہ صدیاں قبل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمائی تھی۔

اس صفحہ کے مواد میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔
دوبارہ ملاحظہ کرنا مت بھولئے گا۔