Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

کسی کا ٹوتھ برش استعمال کرنے سےہیپاٹائٹس سی

جرمنی کی یونیورسٹی آف ریجنس برگ نے کہا ہے کہ ایسا ٹوتھ برش جو دو لوگ استعمال کرتے ہوں اس سے ہیپاٹائٹس سی جیسا موذی مرض لاحق ہونے کا خطرہ ہے۔ ریسرچرز کا کہنا ہے کہ یہ بیماری گھر مین ایک دوسرے کا برش استعمال کرنے سے بھی ہو سکتی ہے اس لیے اس سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ جناح ہسپتال کے مشہور ڈینٹل سرجری کے سربراہ ڈاکٹر خالد محمود بٹ نے اتوار کے روز بتایا
کہ جرمنی ریسرچ کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک دوسرے کا ٹوتھ برش استعمال کرنے سے ہیپاٹائٹس سی کے خطرات بہت حد تک بڑھ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کئی لوگوں کے مطابق گھر میں کسی کو ایسی کوئی بیماری نہیں اس لیے ایک دوسرے کا ٹوتھ برش استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے انہوں نے لوگوں کو ہدایت کی کہ وہ کسی کے زیر استعمال برش کو استعمال کرنے سے گریز کریں جبکہ گھر کے بڑے افراد اور بچے ایک دوسرے کے ٹوتھ برش کو استعمال میں نہ لائیں۔

کاسمیٹکس کا استعمال سرطان کا باعث

ماہر ڈاکٹروں نے سرطان سے متاثرہ خواتین کی بافتوں کا مطالعہ کے بعد پہلی بار پیرابنس کی موجودگی کا انکشاف کیا ہے اور کینسر کا سبب قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حسن و زیبائش کے لیے کاسمیٹکس کا مسلسل استعمال چھاتی کا سرطان پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ اور دنیا بھر میں بے شمار خوتین اس میں مبتلا ہو چکی ہیں ۔ ماہرین کے مطابق مصنوعات کاسمیٹکس کے دیر تک محفوظ کرنے والا کیمیائی مادہ پیرا بنس چھاتی کے سرطان کا سبب بن رہا ہے۔ انٹرنیشنل ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ دنیا بھر میں سیمپو ، ماسک، بال بڑھانے والی مصنوعات،
ناخنوں کی کریمیں ، و دیگر مصنوعات میں پیرابنس نامی کیمیکل کے استعمال سے یہ مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ماہرین نے مزید کہا کہ ہم پہلے یہ خیال کرتے تھے کہ یہ مادہ جسم میں جذب نہیں ہوتا لیکن طویل تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ ناخنوں تک میں جذب ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ طبی ماہرین نے یہ پتہ چلایا ہے کہ پیرابنس نامی مادہ 31 ہزار 2 سو سے زائد مختلف کا کاسمیٹکس میں استعمال ہوتا ہے۔ ڈاکٹر بھی اپنی تحقیق کا رخ اسی سمیت موڑنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بریسٹ کے ساتھ ساتھ جسم انسانی کی دیگر بافتوں اور اعضا کا مطالعہ بھی بہت ضروری ہے ہو سکتا ہے کہ اس مادہ سے بریسٹ کے ساتھ ساتھ دیگر انسانی اعضا کو بھی نقصان پہنچتا ہو۔

دہی کا باقاعدہ استعمال اچھی صحت اور درازی عمر کا سبب بنتا ہے

دہی کو عربی میں ”لبن“ فارسی میں ”ماست“ اور انگریزی میں یوگرٹ  کہتے ہیں ۔ صدیوں سے یہ انسانی خوراک کا حصہ رہا ہے ۔ زمانہ قبل از تاریخ کا انسان بھی گائے‘ بکری‘ بھینس‘ اونٹ اور بھیڑ کے دودھ کو بطور غذا استعمال کیا کرتا تھا۔ ان کے مویشیوں کے دودھ کی مقدار کم ہوتی تھی اس لیے وہ اسے جانوروں کی کھالوں یا کھردرے مٹی کے برتنوں میں جمع کرلیتے تھے تاکہ بہ وقت ضرورت آسانی سے استعمال میں آجائے۔
شروع شروع میں اسے جانوروں سے حاصل کرنے کے بعد اسی طرح کچی حالت میں رکھنے کی کوشش کی گئی لیکن کچے دودھ کو محفوظ حالت میں رکھنا‘ وہ بھی اس طرح کہ اس کی غذائیت بھی برقرار رہے ناممکن سی بات ثابت ہوئی۔ اس مسئلے کا حل اتفاقی طور پر دریافت ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ جنوب مغربی ایشیا کے وسیع علاقوں میں سفر کرنے والے ”نوماد“ قبیلے والے دودھ کی شکل میں اپنی رسد کو بھیڑ کی کھال سے بنے ہوئے تھیلے میں رکھا کرتے اور اسے اپنے جانوروں کی پیٹھ پر باندھ دیا کرتے تھے۔ ایام سفر میں وہ تھیلے مسلسل ہلتے رہتے اس پر سورج کی تپش بھی اپنا اثر دکھاتی رہتی۔ نتیجتاً ہ دودھ خمیر بن کر نیم ٹھوس شکل اختیار کرلیتا۔ وہ اس بات سے ناواقف تھے کہ بھیڑ کی کھال کے اندرونی حصے میں چھپے ہوئے بیکٹریا نے دودھ کو خمیر کرکے دہی کی شکل دے دی ہے۔

ابتداء میں دودھ کی اس شکل کو بہت کم مقدار میں استعمال کیا جاتا تھا کیوں کہ نو ماد قبیلے والے اسے زہریلا سمجھتے تھے پھر آہستہ آہستہ تجربے سے یہ بات سامنے آئی کہ دودھ کی یہ نئی شکل مضر صحت نہیں معجزاتی غذا ہے ۔ جب اس کی افادیت سامنے آئی تو اسے بنانے کا طریقہ دریافت کیا گیا۔ دودھ کو جمانے کے لیے انہوں نے اس میں تھوڑا سا دہی ملالیا ۔ اس تجربے نے کامیابی عطا کی اور پھر دھیرے دھیرے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ کھٹا اور خمیر کیا ہوا دودھ تازہ دودھ سے بہت زیادہ فائدے مند ہے ۔ یہ نہ صرف زیادہ عرصے تک اچھی حالت میں رہتا ہے بلکہ اس کا ذائقہ بھی مزیدار ہوجاتا ہے۔

بلغاریہ کے لوگوں کی طبعی عمر دیگر ممالک سے زیادہ ہے۔ سائنسدانوں نے مسلسل تجربوں اور تجزیہ کے بعد پتا چلایا کہ اس کی ایک وجہ دہی بھی ہے۔ وہاں کے لوگ دہی کا استعمال بہت زیادہ کرتے ہیں۔

فرانس میں اسے ”حیات جاوداں“ کا نام دیا گیا ہے۔ 1700ء میں فرانس کا کنگ فرسٹ کسی بیماری میں ایسا مبتلا ہوا کہ کوئی علاج کارگر نہیں ہوتا تھا۔ بادشاہ سوکھ کا کانٹا ہوگیا تھا۔ نقاہت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ وہ بیٹھنے کی قوت بھی کھو چکا تھا۔ اس کے علاج کے لیے مشرق بعید کے ایک معالج کو بلایا گیا۔ اس نے بادشاہ کو صرف دہی کا استعمال کرایا اور کنگ فرسٹ صحت یاب ہوگیا۔

فرانس ہی کے ایک ماہر جراثیم پروفیسر میچسنٹکو لکھتے ہیں کہ دہی درازی عمر کی چابی ہے۔ اس کے استعمال سے نہ صرف انسان بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے بلکہ عمر بھی طویل پاتا ہے۔

Live longer look younger نامی کتاب میں مصنف نے اسے معجزاتی غذا کہا ہے۔

1908ءکے نوبل انعام یافتہ ایلی میٹ ٹنگوف وہ پہلا ماہر تھا جس نے برسوں کی تحقیق کے بعد اس کے خواص پر تحقیق کی اور بتایا کہ یہی وہ غذا ہے جو انسان کو طویل عمرگزارنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔

آنتوں کے نظام کے اندر ایک خاص تعداد میں بیکٹیریا پائے جاتے ہیں جنہیں فلورا کہا جاتا ہے۔ دہی فلورا کی پرورش میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ انٹی بایوٹک ادویات فلورا کو ختم کردیتی ہیں اسی لیے بعض ڈاکٹر صاحبان اینٹی بائیوٹک ادویات کے ساتھ دہی کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ دہی بیکٹیریا کے انفیکشن کو بھی روکتا ہے۔

غذائی ماہرین کے مطابق دہی میں پروٹین‘ کیلشیم اور وٹامن بی اچھی خاصی مقدار میں موجود ہوتی ہے۔ البتہ آئرن اور وٹامن سی اس میں بالکل نہیں ہوتا۔ گائے کے دودھ کے مقابلے میں بھینس کے دودھ سے بنا ہوا دہی زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ اس میں چکنائی پروٹین اور دوسرے غذائی اجزاءزیادہ پائے جاتے ہیں۔ دہی کے اوپر جو پانی ہوتا ہے اس میں وٹامن اورمنرلز وغیرہ اچھی خاصی مقدار میں موجود ہوتی ہیں کیوں کہ وہ دودھ کا ہی پانی ہوتا ہے۔ جب دودھ جمتا ہے تو پانی اس کے اوپر آجاتا ہے جسے دہی میں ملالیا جاتا ہے۔

دہی نہ صرف کھانوں کو لذت بخشتا ہے بلکہ غذائیت بھی فراہم کرتا ہے۔ جسم کی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ نہ صرف بہ آسانی ہضم ہوجاتا ہے بلکہ آنتوں کے نظام پر بھی خوشگوار اثر ڈالتا ہے۔ اسے صحت مند بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس میں چکنائی اور حرارے انتہائی کم مقدار میں ہوتے ہیں۔ ایک کپ دہی کے اندر صرف 120حرارے (کلوریز) پائے جاتے ہیں۔ اتنی کم مقدار میں کلوریز کے حامل دہی میںایسے کئی اقسام کے غذائی اجزاءہوتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ مثلاً پروٹین‘ مکھن نکلے دودھ سے بنے دہی کے ایک کپ میں 8 گرام پروٹین ہوتی ہے۔ جب کہ خالص دودھ سے بنے دہی کے ایک کپ میں 7 گرام۔ دہی کی اتنی ہی مقدار میں (مکھن نکلے ہوئے دودھ سے بنائے گئے دہی میں) ایک ملی گرام آئرن‘ 294 ملی گرام کیلشیم‘ 270 گرام فاسفورس‘ 50 ملی گرام پوٹاشیم اور 19 ملی گرام سوڈیم پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وٹامن اے (A) 170 انٹرنیشنل یونٹ۔ وٹامن بی (B) ایک ملی گرام۔ تھیا مین 44 ملی گرام۔ وٹامن بی (ریبوفلاوین) 2 ملی گرام اور وٹامن سی (ایسکور بک ایسڈ) بھی 2 ملی گرام پایا جاتا ہے۔

ڈائٹنگ کرنے اور وزن کرنے والوں کے لیے دہی ایک آئیڈیل خوراک ہے کیوں کہ اس کے اندر حراروں کی تعداد انتہائی کم ہوتی ہے جس کی مقدار اوپر لکھی جاچکی ہے۔ مندرجہ بالا مقدار میں 13 گرام کاربوہائیڈریٹس پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح چکنائی کی مقدار بھی بہت کم ہوتی ہے۔ دہی کے ایک کپ میں 4 گرام چکنائی پائی جاتی ہے۔ جب کہ خالص دودھ سے بنے دہی میں یہ مقدار بڑھ کر 8 گرام ہوجاتی ہے۔

دہی میں ایک خاص قسم کے بیکٹیریا پائے جاتے ہیں۔ یہ بیکٹیریا ایک خاص درجہ حرارت پر رکھے جانے والے دودھ کے اندر بڑی تیزی سے پیدا ہوکر بڑھتے چلے جاتے اور دودھ کو نصف ٹھوس حالت میں لادیتے ہیں جسے دہی کہا جاتا ہے۔ یہ بیکٹیریا بہت بڑی مقدار میں وٹامن بی مہیا کرتے ہیں جو آنتوں کے نظام کو صحت مند رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

دودھ کے کھٹا ہوتے ہی لیکٹوز خمیر ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ ایک شفاف مایہ کی شکل اختیار کرلیتا ہے جسے لیکٹک ایسڈ کہتے ہیں ۔ یہ نظام ہضم کو قوت فراہم کرنے کے علاوہ غذا کو ہضم کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وزن کم کرنے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔ دہی کے بیکٹیریا کی زندگی کا انحصار لیکٹوز پر ہے۔ وہی اسے لیٹک ایسڈ میں تبدیل کرتی ہیں۔ لیکٹوز کی خاصیت ہے کہ وہ توانائی کی بڑی مقدار فراہم کرنے کے ساتھ آنتوں کی صحت کا بھی ضامن ہے۔

 

Read More

اولاد انسان کیلئے قدرت کا ایک عظیم عطیہ ہے

نسان کو رب کریم نے احسن تقویم میں خلق کیا۔ انسان ہر مخلوق سے افضل ترین ہے۔ اولاد انسان کیلئے قدرت کا ایک عظیم عطیہ ہے اور اس عظیم عطیہ اور انعام کیلئے ماں کا دودھ ایک انمول اور بے مثل تحفہ ہے۔ ایک نوزائیدہ بچے کیلئے ماں کے دودھ سے بڑھ کر اور کوئی نعمت نہیں ہے اوراس نعمت کی فراوانی کا انتظام رب کریم اس کی پیدائش سے پہلے ہی کر لیتا ہے۔
جدید ترقی یافتہ دور میں نوزائیدہ بچوں کو ماں کا دودھ نہ پلانے کے رحجان میں اضافہ ہوا ہے اس کی بجائے بچوں کو مختلف اقسام کے غذائی فارمولے اور ڈبے کا دودھ پلانے کے رحجان میں بہت اضافہ ہوا ہے ۔ ان غذائی فارمولوں اور خشک دودھ کے ڈبوں کی تشہیر ہوئی ہے کہ ہر ماں کی خواہش کہ اس کا بچہ یہ فارمولے اور دودھ استعمال کرے مگر ماں کے دودھ کو چھوڑ کر خشک دودھ اور غذائی فارمولے استعمال کرنے کے اس قدر نقصانات سامنے آئے ہیں کہ پوری دنیا میں ماں کا دودھ ہلانے کا ایک دن منایا جاتا ہے تاکہ ماں کو مصنوئی دودھ کے نقصانات اور اپنے دودھ کے فوائد سے آگہی ہو سکے۔
یہ حقیقت ہے کہ نوزائیدہ بچوں کو ماں کا دودھ پلانے سے ان بچوں کے ابتدائی مسائل صحت ختم ہو جاتے ہیں۔ اگر نوزائیدہ بچوں کو پیدا ہونے سے پہلے گھنٹے کے اندر اندر ماں کا دودھ پلانا شروع کر دیا جائے تو دنیا بھر میں ہر سال دس لاکھ بچوں کو موت کے منہ سے بچایا جا سکتا ہے۔ پہلے دہ تین گھنٹوں کا ماں دودھ نوزائیدہ بچے کیلئے صحت کا ایک انمول خزانہ ہے۔ اس میں ضروری غذائی اجزاء اور بیماریوں سے تحفظ کیلئے مدافعاتی مادے موجود ہوتے ہیں۔ جو بچے اس خزانے سے محروم رہ جاتے ہیں وہ ساری عمر اس کمی کو پورا نہیں کر سکتے۔
دوملینیم ترقیاتی اہداف یعنی بھوک وافلاس سے نجات اور بچوں کی اموات پر قابو پانا ماں کے دودھ کے استعمال سے بچے کی افزائش کی رفتار بڑھتی ہے۔ بچہ متعدی سانس اور اسہال کی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں شیر خوار اور پانچ سال تک کے بچوں میں شرح اموات کم ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں زندہ پیدا ہونے والے ہزار بچوں میں سے 57 بچے پیدائش کے پہلے مہینے میں ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اگر پیدائش کے بعد پہلے گھنٹے سے یہ ماں کا دودھ پلانا شروع کر دیا جائے تو ان میں سے12بچوں کو بچایا جا سکتا ہے۔
ضروری ہے کہ وزارت صحت اور دیگر متعلقہ ادارے پیدائش کے بعد پہلے گھنٹے سے ماں کا دودھ کی حوصلہ افزائی کریں اور اس بیماریوں کے خلاف بچاؤ کیلئے کلیدی علامت کے طور پر متعارف کروائیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ طفل دوست ہسپتالوں کے قیام کیلئے ضروری اقدامات کی حاصلہ افزائی کی جائے، صحت کی خدمات و سہولیات فراہم کرنے والے عملے، پالیسی سازوں، خاندانوں اور معاشرے کے تمام طبقات کا تعاون اور شعوری کوششیں ہی ماں کے دودھ کے استعمال کے رحجان کو تحفظ اور فروغ دے سکتی ہیں۔
٭۔۔ ماں کا دودھ شیر خوار بچے کی ضروریات کے مطابق غذائی اجزاء اور دوسرے مدافعاتی اجزاء سے بھرپور ہوتا ہے۔ یہ جراثیم سے پاک ہوتا ہے۔ انسانی جسم کے قدرتی درجہ حرارت سے کے مطابق ہوتا ہے۔ بچے کو بوقت ضرورت فوراً پلایا جا سکتا ہے اور اس کیلئے کسی قسم کی تیاری کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ ماں کا دودھ ماں اور بچے کے تعلق کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرتا ہے۔ ماں اور بچے میں محبت زیادہ ہوتی ہے۔ ماں کا دووھ پینے والے بچے ابتدائی خطرناک بیماریوں سے بچے رہتے ہیں۔ رب کریم نے قرآن حکیم میں بھی ماؤں کو دو سال تک اپنا دودھ پلانے کا حکم دیا ہے۔ نوزائیدہ اور شیر خوار بچوں کو قدرت کے اس انمول اور بے مثل تحفے سے محروم رکھنا ایک اظلم ہے جس کی تلافی کبھی نہیں ہو سکتی۔

ہاتھ پاؤں کا سن ہونا

ہاتھ پاؤں کا سن ہونا

کلونجی گیارہ دانے کم از کم روزانہ پانی کے ساتھ کھائیں
خشک خوبانیاں 11 عدد رات کو پانی میں بگھو کر کم از کم 40 دن تک صبح کھائیں۔ انشاءاللہ افاقہ ہو گا۔
روزانہ 2/1 لیموں اور ایک چمچمہ شہد ایک گلاس پانی میں ملا کر پیس کر کم از کم 40 دن پئیں۔

سانس کی تکلیف کا علاج

سانس کی تکلیف اس وقت ہوتی ہے جب پھیپھڑے یا پھیپھڑوں کی جھلی متورم ہو جائے یا سانس کی نالی میں بلغم جما ہوا ہو یا پھر دل کی دھڑکن کی زیادتی کی وجہ سے سانس کی تکلیف ہوتی ہے۔
اگر سانس کی تکلیف پھیپھڑوں اور پھیپھڑوں کی جھلی کا ورم، نمونیہ یا بلغم کی زیادتی کی وجہ سے ہو تو ایسی حالت میں مندرجہ ذیل نسخہ بہت مفید رہے گا۔
کلونجی 2گرام، برگ بانسہ 3 گرام
چائے کی پتی کی طرح ابال کر دن میں چار بار قہوہ پلائیں اور میٹھے کی جگہ شہد ملالیں۔

شوگر کا آسان علاج

شوگر کا آسان علاج
نسخہ الشفاء : کلونجی 20 گرام، تخم سرس 20 گرام، گوند کیکر 20 گرام، تمہ خشک 20 گرام
تمام ادویات کو باریک پیس کر فل سائز کے کپسول بھر لیں اور صبح شام استعمال کروائیں۔ یا دن میں تین یا چار بار روزانہ استعمال کرائیں۔ یہ کیپسول شوکر کیلئے حتٰی کہ بسا اوقات بھیانک حد تک شوکر آؤٹ آف کنٹرول ہو گئی ہو۔ ان تمام کیفیات کیلئے بہت ہی زیادہ مفید ہے۔

دواء خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

 

Read More

بالوں کے گرنے کا علاج

سر پر اچھی طرح لیموں لگائیں۔ 15 منٹ بعد اچھے صابن یا شیمپو سے دھولیں۔ اچھی طرح خشک ہونے کے بعد کلونجی کا تیل لگائیں۔ انشاءاللہ عزوجل بال گرنے بدن ہو جائیں گے نیز سوتے وقت زیتون کے تیل کی مالش بھی کرنے سے مقصد حاصل ہوگا۔
اگر بال گرنے کا سبب وٹامنز کی کمی یا دیگر وجوہات ہوں تو اس کا علاج بھی ساتھ کریں۔

ناک کی بیماریوں کا علاج

– ناک کی بیماریوں میں بڑا چمچہ شہد صبح نہار منہ اور بعد نماز عصر ابلتے پانی میں ملا کر چائے کی طرح طرح گرم گرم پئیں۔
– سوتے وقت ایک چمچہ خالص زیتون کا تیل پئیں اس کے پینے سے ہفتہ بھر میں شفاء ہو جاتی ہے۔
– زکام کے علاج میں کلونجی اور زیتون کے تیل کا مرکب مفید ہے۔ ایک چمچہ کلونجی پیس کر اس میں گیارہ چمچے زیتون کا تیل ملا کر اسے 5 منٹ تک ابال کر چھان لیا جائے یہ تیل صبح و شام ناک میں
ڈالا جائے ایک ایک قطرہ۔
– اگر روزہ نہ ہو تو ناک میں زور سے پانی چڑھائیں ایک نتھنا بند کرکے دوسرے نتھنے سے 3 دفعہ پانی زور سے چڑھائیں اسی طرح دوسرے نتھنے میں بھی۔ انشاءاللہ سات دن میں نزلہ ختم ہو جائے گا۔ نزلہ زیادہ ہو تو ہر گھنٹہ بعد تین تین دفعہ دونوں نتھنوں میں پانی چڑھائیں۔ ہمیشگی کرنے والے کو کبھی بھی نزلہ نہیں ہو گا۔
– نزلہ پرانا ہو یا بار بار ہو جاتا ہو تو مچھلی کا تیل آدھا چمچہ ناشتہ کے دو گھنٹہ بعد ایک ماہ تک لگا تار پئیں۔ چھوٹے بچوں کیلئے خوشبودار مچھلی کا تیل بھی ملتا ہے۔ چند قطرے دن میں ایک یا دو بار کم از کم ایک ماہ تک پئیں انشاءاللہ عزوجل دائمی نزلہ جاتا رہے گا۔ سردیوں میں رات کو بھی آدھا چمچہ پئیں۔
– بھنے ہوئے چنے (چھلکے کے ساتھ) ایک مٹھی روزانہ رات کو کھائیں مگر ایک گھنٹہ تک پانی نہ پئیں۔
– نیم کے تازہ پتے پانی میں جوش دیں۔ چھان کر ناک میں زور سے چڑھائیں اور غرارے بھی کریں۔ (معمولی نمک بھی ملا لیں) دن میں کم از کم پانچ مرتبہ چالیس دن کا کورس کریں دائمی نزلہ انشاءاللہ عزوجل ختم ہو جائے گا۔
– دائمی نزلہ، زکام، ناک کا مستقل بند رہنا ایسے تمام امراض کیلئے کلونجی کی نسوار اگر دن میں تین چار مرتبہ استعمال کی جائے تو بہت فائدہ مند ہے۔

درد سر کا مدنی علاج

حضرت حمیدی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے بروایت یونس بن یعقوب عبداللہ سے درد سکا رقیہ (دم) نقل فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم درد سر میں اپنے اس ارشاد سے تعویذ فرماتے ہیں۔ بسم اللہ الکبیر واعوذ بااللہ العظیم من کل عرق تفار ومن شرحرنار۔ (مدارج النبوۃ)