Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

اچھی صحت ? سبزیاں صحت کی ضامن ہیں

اچھی صحت ? سبزیاں صحت کی ضامن ہیں

اچھی صحت ? سبزیاں انسانی صحت کے لیے بے حد مفید ہیں ان کے اندر موجود سبزمادہ کلوروفل زندگی بخش ہے۔ سبزیاں استعمال کرنے والے لوگ بہت کم بیمار پڑتے ہیں چونکہ ان کے اندر قدرت کاملہ نے شفا کی تاثیر رکھ دی ہے۔ سبزیاںجسم انسانی کے اندر موجود زہریلے اورفاسد مادوںکا قلع قمع کرنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتیں۔جانوروںمیں سے گوشت خورجانور بہت کم ہیں اکثرجانور بھی سبزی پر ہی انحصار کرتے ہیں اور تندرست وتوانا رہتے ہیں۔ ہمارے دودھیل جانور بھی سبزہ کھا کر ڈھیروں دودھ دیتے ہیں جو انسانی زندگی کو قائم دوائم رکھتا ہے۔ سبزیاں ذود ہضم ہوتی ہیں اس لیے معدے کی اصلاح کا کام انجام دیتی ہیں، گوشت کیطرح معدے پر بوجھ نہیں بنتیں۔

انسان کے دانتوںکی ساخت گوشت خورجانوروںجیسی نہیں بلکہ گھاس پھوس اور سبزیوں جیسی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سبزیاںکھانے والے لوگ بہت کم بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سبزیاں انسان کے امیون سسٹم یعنی نظام دماغ کو مضبوط کرتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں گوشت خور قومیں بیماریوں کا زیادہ شکار نظر آتی ہیں۔ ان میں بلڈپریشرکا مرض عام ہے جسے خاموش قاتل کا نام بھی دیا جاتا ہے۔

سبزیاں ٹھنڈی تاثیر کے باعث انسانی خون کو موزوں رکھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ جو لوگ سبزیوںکازیادہ استعمال کرتے ہیں وہ بلڈپریشرکا شکار نہیں ہوتے۔ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی سبزیوں کو پسند فرماتے تھے۔ سبزیوں میں سے کدو آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مرغوب غذا تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے بڑے شوق سے کھایا کرتے تھے۔

جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کدو میں خداتعالٰی نے شفا رکھی ہے اس کی تاثیر سرد ہوتی ہے۔ یہ جسم کو تقویت دیتا ہے اور بھرپورغذائیت کاحامل ہے۔ چنانچہ حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے باہرآئے توسخت کمزور ہوچکے تھے ساحل پر کدو کی ایک بیل تھی جس پر کدو لگے ہوئے تھے حضرت یونس علیہ السلام وہ کدو استعمال کرتے تھے جس نے ان کے جسم کو تقویت دی اور آپ صحت مند ہو گئے۔

کدو ایک ایسی سبزی ہے جسے گوشت کے ساتھ پکا کر کھانا بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔ طبی نقطہ نگاہ سے یہ صفرادی اوردموی مزاج لوگوں کے لیے بہترین غذا ہے۔ یہ خلط صالح پیدا کرتا ہے ملین طبع ہے اور اس کے استعمال سے کھل کر پیشاب آتا ہے جس سے جسم کے اندرموجود زہریلے مادے خارج ہو جاتے ہیں۔ یہ انتڑیوں کو مرطوب کرتا ہے’ تپ دق کے لیے اس سے بہتر کوئی غذا نہیں’ اس کے استعمال سے جسم کے اندر ایسی قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے جس سے انسان مرض سل سے محفوظ رہتا ہے۔

مری میں موجود ساملی سینی ٹوریم کی ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ کدوکا کثرت سے استعمال کرتے ہیں تپ دق اور سل سے محفوظ ومصون رہتے ہیں۔ مرض سرسام اور جنون میں اس کا گودا تالو پر رکھنے سے آرام آ جاتا ہے۔ روغن کدو دماغ کی خشکی کو دور کرتا ہے اور نیند آور ہے اس کے بیجوں کا شیرہ بھی تاثیر کا حامل ہے۔ اس کا روغن بھی نکالا جاتا ہے جسے روغن کدو کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ دماغ کی خشکی کو دور کرتا ہے۔ صرف ایک سبزی کدو کے اندر بہت زیادہ شفا پائی جاتی ہے۔ کدو کا روغن صفراوی بخاروں اور جریان خون میں بھی مفید ہے۔

سل اور تپ دق میں بھی بھبھلائے ہوئے کدو کا پانی نچوڑ کر پلانے سے فائدہ ہوتا ہے اس کا رائتہ بے حد مفید اور لذیذ بھی ہوتا ہے۔ کدواسہال میں بھی بے حد مفید ہے یہ صرف ایک سبزی کدو کی افادیت بتائی گئی ہے۔

کوئی سبزی جتنی زیادی گہری سبزی مائل ہو گی اتنی ہی زیادہ مفید ہو گی۔ پالک اور ساگ میں سبز مادہ بہت زیادہ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ پالک خون کی اصلاح کرتی ہے اور ساگ کا استعمال معدے کو نرم کرتا ہے اورغذائیت سے بھر پور ہے یہ خون صالح بھی پیدا کرتا ہے۔

ہمارے ہاں سبزیوںکی بہتات ہے یہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر نہیں بلکہ ہر امیرغریب خرید کر انہیں استعمال کر سکتا ہے۔ جنگلوں میں رہنے والے لوگ سبزی پر ہی انحصار کرتے ہے یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی بیمار نہیں پڑتے’ انہیں ڈاکٹروں کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی۔ گوشت اس قدر مہنگا ہے کہ ہر شخص کے بس میں نہیں کہ اسے خریدکرکھا سکے مگر موسم کے مطابق سبزیاں کوڑیوں کے مول بکتی ہیں مگر چونکہ کہ لوگ ان کی افادیت سے آگاہ نہیں ہوتے لہذا ان کے مقابل گوشت کو ترجیح دیتے ہیں جو ان کو طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا کرتا ہے کیونکہ گوشت ایسی چیز نہیں جسے ہر روز کی غذا کا حصہ بنایا جائے۔

رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں بھی گوشت بعض تقریبات کے مواقع پر ہواکرتے تھے ان میں عید قرباں’ بچوں کا عقیقہ ولیمہ ایسے مواقع ہوا کرتے تھے جن پر گوشت کھایا جاتا تھا۔ عید قربان پر کثرت سے قربانی کے جانور ذبح کئے جاتے مگر یہ موقع تو سال میں صرف ایک مرتبہ آیا کرتا تھا۔ جس طرح آج ہمارے معاشرے میں کثرت کے ساتھ اور روزانہ گوشت کا استعمال کیا جاتا ہے کسی زمانے میں ایسا نہ تھا۔

عربوں کی خوراک زیادہ ترکھجوریں’ بکری یا اونٹی کا دودھ اور سبزیوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین بہت کم بیمار پڑا کرتے اور کسی طبیب کی ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں کئی قسم کی بیماریاں بھی منظر عام پر آرہی ہیں ہسپتالوں میں جائیں تو مختلف النوع بیماریوں کے شکار نظر آئیں گے۔ اس کا سبب بھی یہی ہے کہ ہم گوشت پر زیادہ انحصار کرتے ہیں مگر زندگی بخش سبزیوں کو استعمال کرنا توہین سمجھتے ہیں اور انہیں پسند نہیں کرتے۔ دیہات میں رہنے والے لوگ سبزیاں کثرت سے استعمال کرتے ہیں یہی وجہ کہ وہ بہت کم بیمار ہو تے ہیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے ہمارے گاؤں میں مہینے میں صرف ایک مرتبہ قصائی گائے ذبح کیا کرتا تھا۔ گوشت کی بکنگ پہلے سے ہو جاتی تھی۔ جب گاہک پورے ہوجاتے تو اچھی قسم کی گائے ذبح کرتا اور لوگ گوشت خرید کر لے جاتے باقی سارا مہینہ سبزیوں اور دالوں پر ہی انحصار کیا جاتاتھا’ لوگ توانا وتندرست رہتے تھے اور خوب محنت ومشقت کے ساتھ کھیتوں میں سبزیوں اور فصلیں کاشت کیا کرتے تھے۔

ہمارے گاؤں والے ایک گھر میں ایک گھیا توری کی بیل لگی ہوئی تھی اس قدرگھیا توری لگتی کہ ٹوکریوں کے حساب سے اسے اکٹھا کیا جاتا اور گاؤں کے لوگ مفت لے جایا کرتے تھے اوراس کا سالن استعمال کرتے۔ مقصد کہنے کا یہ ہے کہ جس مقدار میں اور جس تسلسل کے ساتھ ہم آج گوشت کا استعمال کر رہے ہیں اس کا رواج کسی بھی زمانے میں نہیں رہا۔ اب تو لوگ مختلف النوع بیماریوں کا شکار ہیں اور اپنی آمدنی کا معتدبہ حصہ ڈاکٹروں کی نذر کر دیتے ہیں۔

ہم میں سے ہرشخص اچھی طرح جانتا ہے کہ گوشت کا بے تحاشا استعمال غیر مفید ہے اس کے باوجود ہم گوشت کھاتے چلے جاتے ہیں اور سبزیوں اوردالوں کو ثانوی حیثیت دینے پر بھی تیار نہیں ہوتے اور ہمیں ان کا ذائقہ بھی نہیں آتا۔ جب بڑے سبزیاں کھانے سے گریز کریں تو بچے کب اسے پسند کریں گے بچے بھی ہر روز گوشت والا سالن کھانے پر اصرار کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ سبزیوں میں وہ قوت اور غذائیت نہیں ہوتی جو گوشت کے اندر موجود ہے۔ ان کا مفروضہ غلط ہے کیونکہ ہماری گائیں بھینسیں سبزیاں ہی کھاتی ہیں پھر ان پر منوں کے حساب سے گوشت کیسے چڑھتا ہے اور دودھ کے اندر چکنائی کس طرح وافر مقدار میں پیدا ہوجاتی ہے جسے ہم استعمال کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ سبزیوں کے اندر بھی گوشت کے سارے اجزاء موجود ہوتے ہیں۔

دریائی گھوڑا جو بھاری بھرکم جانور ہے اور پانی سے نکل کر باہربھی زندہ رہ سکتا ہے اس کی خوراک کا مکمل انحصار صرف گھاس پر ہے وہ پانی سے باہر نکل کر خوب گھاس کھاتا ہے اور پھر پانی کے اندر چلا جاتا ہے۔ خدا تعالٰی نے ہمارے ملکوں کو طرح طرح کی سبزیوںسے نواز رکھا ہے سبزیاں وافر مقدارمیں ہمیں دستیاب بھی ہیں ان میں سے ہر سبزی کی اپنی افادیت ہے مگر اس مختصر مضمون میں ان سب کی افادیت بیان کرنا ممکن نہیں۔

کدو کی افادیت بیان کی جاچکی ہے۔ اس کے علاوہ بھنڈی توری’ گھیا توری’ٹینڈے’ مٹر’ ٹماٹر’آلو وغیرہ ہمارے ہاں عام مل جاتے ہیں ان میں سے چند ایک کی افادیت بیان کی جاتی ہے۔

آلو ایک ایسی سبزی ہے جو پوری دنیا میںکثرت سے کھائی جاتی ہے اس کو مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے کبھی اس کا سالن بنایا جاتا ہے کبھی اس کے چپس تیار کیے جاتے ہیں کبھی اس کے فرنچ فرائز تیار کیے جاتے ہیں۔ یہ سبزی بے پناہ قوت کی حامل ہے۔ اس کے اندر غذائیت کے خزانے ہیں۔ یورپ’ امریکہ’ ایشیا’ افریقہ’ آسٹریلیا میں آلو کثرت سے کھایاجاتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ سستا مل جاتا ہے مگر اسے بطور سبزی استعمال کرنا ہم اپنی توہین سمجھتے ہیں۔

ساگ اور پالک جوکلوروفل کا خزانہ ہیں اس کا ذکر کیا جاچکا ہے مگر اسے بھی بہت کم لوگ استعمال کرتے ہیں اور سارا زور گوشت پر لگاتے ییں جو اس قدر مہنگا ہے کہ عام شخص اسے خرید کر نہیں کھا سکتا۔

کریلاجو ایک بے حد مفید سبزی ہے ہمارے ہاں عام ملتا ہے یہ بے پناہ افادیت کی حامل سبزی ہے۔ یہ سبزی ملین طبع اور مقوی معدہ ہے اس کا استعمال پیٹ کے کیڑوں کو ہلاک کرتا ہے اسے چنے کی دال اور گوشت کے ہمراہ بھی پکاکر کھایا جاتا ہے۔ یہ صفرا اوربلغم کو دور کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ سرد مزاج لوگوں کے معدوں کوتقویت بخشتا ہے پیٹ کے کیڑوںکو ہلاک کرتا ہے۔

فالج’ لقوہ’ جوڑوں کے درد’ نقرس’ ذیابیطس’ رعشہ’ یرقان’ تلی کے ورم میں بے حد مفید ثابت ہوا ہے۔ کریلے کا پانی اور اس کا سفوف بنا کر استعمال کرنا بھی بہت سی بیماروں کا علاج ہے’ پتے کی پتھری کو دور کرنے کے لیے کریلے کا پانی دو دو تولہ صبح وشام روغن زیتون اور دودھ میں ملا کر پینے سے پتھری ٹوٹ کر خارج ہو جاتی ہے۔ افریقہ میں اس کے پکے ہوئے بیج روغن بادام شیریں میں گھوٹ کرزخموں پر لگاتے ہیں۔

مٹر اپنے موسم میں ہمارے ہاں وافر اور سستے مل جاتے ہیں اس کے اندر لحمیات کا ایک وافر ذخیرہ موجود ہوتا ہے۔ آلو کے ہمراہ مٹر کا سالن بے حد لذیذ اور قوت بخش ہوتا ہے۔ یہ گوشت کی کمی کو پورا کرتا ہے اور جسم کو طاقت دیتا ہے۔ اس کے علاوہ جتنی بھی دالیں ہیں یہ بھی سبزیوں سے ہی حاصل ہوتی ہیں یعنی ان کا اصل بھی سبزی ہے اور یہ سبزی کی ایک خشک شکل ہے۔

دالوں کی اہمیت سے کون نہیں واقف تاہم ان کا ذکر کسی اگلی نشست میں کیا جائے گا۔ بھنڈی آج کل عام اور سستی ہے یہ سبزی بڑی لذیذ ہوتی ہے یہ جسم کو ٹھنڈک اور فرخت بخشتی ہے اور بدن کی اصلاح کرتی ہے۔ سبزیاں کھانے والے لوگوں کے دانت مضبوط رہتے ہیں انہیں کیڑا نہیں لگتا اور صاف وشفاف رہتے ہیں کیونکہ ان کے اندر موجود سبز مادہ کلوروفل دانتوں کی حفاظت اور صفائی کا کام بھی انجام دیتا ہے اس کے مقابلے میں گوشت کھانے والے اصحاب کے دانت جلد خراب ہو جاتے ہیں۔

دواء خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

 

سبز پتّوں والی سبزیاں اور ساگ دونوں

سبز پتّوں والی سبزیاں اور ساگ دونوںEat Your Greens

 

 

 

 

 

 

سرسوں کا ساگ ۔انسان ، سبز پتّوں والی سبزیاں اور ساگ دونوں کا ساتھ بہت پرانا ہے ان کی غذائی اہمیت کے باوجود آج بعض لوگ ساگ کو معمولی درجے کی غذا سمجھتے ہیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ زندگی کی بنیاد انہی ساگوں اور سبزیوں پر قائم ہے ۔ قدرت ان ہی کے ذریعے زندگی کی تعمیر کے لیئے ضروری اجزاء تیار کرتی ہے ان کے بغیر زندگی زیادہ دیر تک صحت مند بنیادوں پر استوار نہیں رہ سکتی ہے ۔ دودھ جسے ہم اعلٰی درجے کی غذا سمجھتے ہیں انہی ساگوں اور سبزیوں کا دوسرا روپ ہے ۔ سائنسی اعتبار سے ساگ میں ، کیلشیئم ، سوڈیم ، کلورین ، فاسفورس ، فولاد ، پروٹین ( جسم کو نشونما دینے والے اجزاء ) اور وٹامن اے ، بی اور ای کافی مقدار میں پائے جاتے ہیں ۔ ساگ کے بارے میں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ساگ اور دودھ بڑی حد تک ایک دوسرے کا بدل ہو سکتے ہیں اور ساگ جسم میں بڑی حد تک دودھ کی کمی پورا کرسکتے ہیں ۔بچّوں کی نشونما اور پرورش میں بھی ساگ سے بہت مدد ملتی ہے اور اگر بچّوں میں بچپن ہی سے ساگ اور سبزیوں کے کھانے کی رغبت پیدا کی جائے تو یہ عادت زندگی بھر انہیں بہت سی بیماریوں اور مشکلات سے محفوظ رکھ سکتی ہے  ذیل میں ساگ کی کچھ اقسام اور ان کے طبّی اور سائنسی خواص و فوائد سے آگاہ کیا گیا ہے ۔

سرسوں کا ساگ

طبّی سائنس کی جدید تحیقیق کے مطابق سرسوں کے پتّوں کے ساگ میں حیاتین ب ، کیلشیئم اور لوہے کے علاوہ گندھک بھی پوئی جاتی ہے ۔اس کی غذائیت گوشت کے برابر ہے ۔ یہ ساگ خون کے زہریلےمادّوں کو ختم کرکے خون صاف کرتا ہے ۔ اطباء نے سرسوں کے ساگ ، مکئی کی روٹی اور مکھن کو ایک عمدہ غذا قرار دیا ہے ۔ دار چینی ، بڑی الائچی ، کالا زیرہ پیس کر ساگ کے اوپر چھڑک کر کھانے سے گیس یا پیٹ میں مروڑ کی تکلیف نہیں ہوتی ، حکماء کے مطابق سرسوں کا ساگ اپنی تاثیر کے لحاظ سے گرم خشک ، قبض کشا اور پیشاب آور ہے ۔اس کے استعمال سے پیٹ کے کیڑے ہلاک ہوجاتے ہیں اور بھوک بڑھ جاتی ہے ۔

بتھوے کا ساگ

بتھوا مشہور ساگ ہے ۔ اطباء کے مطابق اس کی تاثیر سرد ہے ۔ گرم مزاج والوں کے لیئے خاص طور پر مفید ہے ۔بتھوے میں وہ تمام غذائی اجزء پائے جاتے ہیں جو صحت اور توانائی کے لیئے ناگزیر ہیں ۔یہ قبض کشا ہوتا ہے ، سینے اور حلق کو نرم کرتا ہے ، گرمی کو دور کرتا ہے ، پیاس بجھاتا ہے اور حلق کے ورم کے لیئے بھی مفید ہے ۔اس کے بیج بھی دوا کے طور پر استعمال ہوتے ہیں اور اس کے تمام خواص بتھوا کے ساگ کے مطابق ہیں ۔حکماء اور اطباء کے مطابق برص کے مرض میں روزآنہ دن میں چار یا مرتبہ بتھوے کے پتّوں کا رس سفید دانوں پر لگائیں اور بتھوے کا ساگ یا بجھیا بنا کر کھائیں ۔دو ماہ کے استعمال انشاء اللہ برص کے داغ دور ہو جائیں گے ۔ بتھوے کو اگر چقندر کے ساتھ پکائیں تو اس کی اصلاح ہوجاتی ہے ۔ بتھوے کا ساگ معدے اور آنتوں کو طاقت بخشتا ہے ۔ جگر اور تلّی کے امراض میں مفید ہے ۔ہر قسم کی پتھری اور پیشاب کی جملہ بیماریوں میں اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے ۔

خرفے کا ساگ ۔

اسے قلفے کا ساگ بھی کہتے ہیں ۔ جتنے بھی ساگ ہیں سب میں حیاتین اور معدنی نمک پائے جاتے ہیں ۔ان کی غذائیت کے پیشِ نظر اپنے اپنے موسم میں سب ہی غذا کے طور پر استعمال کرنے چاہئیں ، خرفہ یا قلفہ نمکین ساگ ہے ۔ معدے اور جگر کی گرمی کو دور کرتا ہے ۔ اس کے استعمال سے پیاس کی شدّت کم ہوتی ہے ۔ اس لیئے ذیابطیس کے مریضوں کے لیئے بے حد مفید ہے ۔ اسے پکانے کے مختلف طریقے ہیں ۔مثلاً اسے گوشت کے ساتھ پکانے سے اس میں دال کے فوائد بھی شامل ہوجاتے ہیں ۔ جن لوگوں کو کھٹائی پسند ہوتی ہے وہ اس میں ٹماٹر یا امچور ڈالتے ہیں ۔ قلفہ روٹی اور چاول دونوں کے ساتھ مزہ دیتا ہے ۔ بعض لوگ اسے باریک کتر کر نمک مرچ ملا کر گندم کے آٹے یا بیسن میں ملا کر روٹی پکا کر کھاتے ہیں ۔ خرفے کے بیج صفرا کو تسکین دیتے ہیں ۔ تپ صفراوی میں پیاس بجھاتے ہیں ۔ معدے کی گرمی اور گرمی کے سر درد کے لیئے مفید ہیں ۔ جگر کی گرمی کو کم کرتے ہیں ۔ خرفے کا ساگ کھانے کے بعد تھوڑا سا گُڑ کھانا مفید ہے ۔

مکو کا ساگ ۔

مکو کا ساگ اہم طبّی خواص سے مالا مال ہے ۔ اس کے پتّوں کو کوٹ کر ان میں پانی ملا کر جگر ، معدہ ، آنتوں ، گردوں ، پتّے اور رحم کی سوجن دور کرنے کے لیئے صدیوں سے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ اطباء کے مطابق جب جگر بڑھ جائے ، پیٹ پھول جائے اور اس سے اپھارہ ہونے لگے تو مکو کا ساگ پکا کر اس میں نمک کی جگہ نوشادر ملا کر چند دن سے چند ہفتوں تک کھانے سے پیشاب کے راستے جسم کا فالتو پانی نکل جاتا ہے ۔ ورم دور ہوجاتا ہے ۔ جگر اور گردوں کی خرابی میں بدن پھول جاتا ہے اور ہاتھ پاؤں پر ورم آجاتا ہے تو ایسے میں چند دن مکو کے ساگ کے استعمال سے یہ تکلیف دور ہوجاتی ہے ۔ خونی بواسیر ، پتھری اور کھانسی میں بھی یہ ساگ صحت بخش ہے قبض کشا اور پیشاب آور ہے ۔ یرقان کے مرض میں اس کا استعمال شفا یابی کا عمدہ نسخہ ہے ، ہچکی اور قے کو روکتا ہے ۔گردوں کے تمام امراض میں خصوصیت سے مفید ہے ۔

سوئے کا ساگ ۔

سویا سونف کی طرح کاشت کیا جاتا ہے ۔اطباء نے اسے گیس تحلیل کرنے والی سبزی قرار دیا ہے ۔ صدیوں سے یہ اسی غرض سے استعمال ہورہا ہے ۔ بے خوابی کی شکایت میں اس کے سبز پتّے تکیے کے نیچے رکھنے کا رواج عام ہے ۔ اطباء کے مطابق جب پیٹ میں درد رہنے لگے ، معدہ غذا کو پوری طرح ہضم نہ کرسکے ۔ طبعیت بوجھل اور پیٹ خراب ہو تو سویا اور پودینے کے ہم وزن پتّوں کا پانی شکر ملا کر دودھ کے ساتھ پینے سے دودھ بھی ہضم ہو جاتا ہے اور پیٹ بھی ہلکا ہوجاتا ہے ۔گردے اور مثانے کی پتھری اور پیشاب کی تمام بیماریوں میں سویا ایک نعمت اور شفا بخش ہے ۔ سوئے کا ایک آسان استعمال یہ ہے کہ آپ روزآنہ اپنے دسترخوان کے سلاد میں اس کی چند پتیاں شامل کر لیا کریں ۔یہ ہاضمے کے لیئے مفید ثابت ہوگا ۔ سویا جسم میں بادی اور اس سے پیدا ہونے والی متعدد بیماریوں کا بھی موثر علاج ہے ۔

پالک کا ساگ ۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
یہ سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ساگ ہے ۔اس میں حیاتین الف اور لوہا وافر مقدار میں پایا جاتا ہے ۔ طبّی سائنس کی جدید تحقیق کی رو سے 100 گرام پکے ہوئے پالک میں 23 حرارے ، 3 گرام پروٹین ، 4 گرام نشاستہ ، اور 2 گرام غذائی ریشہ ہوتا ہے ۔ پالک زود ہضم اور پیشاب آور ہے اور اس کی تاثیر سرد ہے ۔ معدے کی سوزش ، جگر کی گرمی کو دور کرتا ہے ۔ دماغ کی خشکی سے نجات کے لیئے مفید اور آزمودہ ہے ۔ غذائی ریشے کی خاصی مقدار کی وجہ سے قبض کشا بھی ہے ۔ اس کی مضرت کی اصلاح دارچینی سے ہوجاتی ہے ۔جو بچّے مٹی یا کوئلہ کھاتے ہیں ، پیٹ بڑھا ہوا ہوتا ہے اور ضدّی ہوتے ہیں ، انہیں پالک ، میتھی ، بند گوبھی اور شلغم زیادہ کھلائیں ۔ اس سے ان کا نظامِ ہضم درست ہوگا اور جسم میں طاقت آئے گی ۔پالک کے بیج دوا کے طور پر پیشاب لانے اور معدہ کی سوزش کو دور کرنے کے لیئے استعمال ہوتے ہیں پیاس کو بھی تسکین دیتے ہیں ۔ جن لوگوں کو دائمی قبض کی شکایت رہتی ہو انہیں پالک کا باقاعدہ استعمال کرنا چاہیئے ، اطباء کے مطابق پتھری ، یرقان ، مالیخولیا اور گرمی کے بخار میں بھی پالک کا استعمال فائدہ بخش ہے ۔غذائی ماہرین تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ چونکہ پالک میں فولاد اور کیلشیئم کی مقدار قدرے زائد ہوتی ہے لہٰذا یہ خون بڑھاتا ہے اور جگر کو تقویت دیتا ہے ۔کیلشیئم ہڈیوں کی ساخت کو مضبوط ، سخت اور پائیدار بناتا ہے ۔جن لوگوں کے جسم میں خون کی کمی ہو وہ اسے ضرور استعمال کریں ۔ مجرب اور بہترین قدرتی نسخہ ہے ۔

میتھی ۔

میتھی میں تمام حیاتین ملی جلی شکل میں کافی مقدار میں پائے جاتے ہیں ۔یہ غذائیت سے بھرپور ساگ ہے ۔ اس کے زرد رنگ کے بیج میتھی دانہ کہلاتے ہیں ۔اس کا مزاج گرم تر ہے ۔قدرت نے اس کے بیجوں میں حیاتین کوٹ کوٹ کر بھر دیا ہے ۔ بیجوں میں پروٹین گوشت کے برابر مقدار میں شامل ہیں ۔ اطباء کہتے ہیں کہ میتھی موٹاپا پیدا کرتی ہے ۔موٹا ہونے کے خواہشمند افراد کے لیئے حکیم حضرات تجویز کرتے ہیں کہ ایک پاؤ میتھی اور دو پاؤ منقٰی اچھی طرح پیس کر ایک ایک تولے کے لڈو بنا لیں روزآنہ ایک لڈو استعمال کرنے سے خاطر خواہ فائدہ ہوگا ۔ میتھی جسم کے فاسد مادّوں کو خارج کرتی ہے ۔کیونکہ اس کا ذائقہ تلخ ہوتا ہے ، میتھی دانہ کا استعمال تقریباً ہر اچار میں ہوتا ہے ۔یہ خون صاف کرتی ہے ، پھوڑے پھنسیوں سے بچاتی ہے ، چہرے کی رنگت نکھارنے میں بہت مفید ثابت ہوتی ہے ۔میتھی کا سالن غذائیت کے لحاظ سے ہر طبقے کے افراد کے لیئے بہت مفید ہے ۔

چولائی ۔

چولائی کے ساگ کو خود رو ساگ بھی کہا جاتا ہے ۔اس کی دو اقسام بہت ہی عام ہیں ۔ان میں سے ایک قسم سرخ چولائی اور دوسری سبز چولائی کہلاتی ہے ۔سبز چولائی تو نہایت عام ہے تاہم سرخ چولائی کا استعمال اطباء حضرات مریضوں کے مختلف امراض کا غذاؤں سے علاج کے دوران انہیں یہ کھانے میں تجویز کرتے ہیں ۔یہ ہاضمے اور خون صاف کرنے میں مفید سمجھی جاتی ہے ۔ چولائی کے استعمال کا شہروں میں عام رجحان نہیں ہے ۔تاہم یہ انسان کو صحت مند رکھنے کے لیئے قدرتی علاج بھی ہے ۔
الغرض پتّوں والی سبزیاں اور ساگ انسانی جسم کی نشونما ، صحت اور تندرستی کی بقاء کے لیئے ناگزیر ہیں ، اسی لیئے ہمیں چاہیئے کہ روزمرہ کی غذا میں ان قدرتی غذائی نعمتوں سے بقدر مناسب استفادہ کریں ۔ کسی بھی سبزی کو بطور دوا استعمال کرنے سے پہلے اپنے معالج سے مشورہ ضرور کریں

سبزیاں کتنی ضروری

سبزیاں کتنی ضروری

صحت برقرار رکھنے کے لیے ایک فرد کو روزانہ 280گرام سبزیاں یا ان کا جوس استعمال کرنا چاہیے۔ ان میں 40فیصد پتوں پر مشتمل سبزیاں‘ 30فی صد جڑوں اور 30فی صد پھلیوں (یعنی بینگن‘ بھنڈی توری‘ کدو وغیرہ) پر مشتمل ہونا چاہئیں۔

تقریباً سبھی سبزیاں اور پھل مختلف غذائی اجزاءاور وٹامنز سے مالا مال ہوتے ہیں۔ لیموں جیسی ترش سبزیوں کے علاوہ کسی میں وٹامن سی نہیں ہوتی۔ اگر کسی سبزی میں اس کی کچھ مقدار ہوتی بھی ہے تو وہ پکانے کے دوران ضائع ہوجاتی ہے۔ اناج اور غلے میں وٹامن سی بالکل نہیں ہوتی لیکن بہت سے پھلوں میں اس کی وافر مقدار پائی جاتی ہے۔
سبزیوں میں تین چوتھائی پانی ہوتا ہے تاہم مختلف سبزیاں مختلف مقدار میں معدنی اجزاءاور وٹامنز رکھتی ہیں۔ کچھ سبزیوں میں آئرن زیادہ ہوتا ہے تو کچھ میں کیروٹین۔ کسی فعال اور صحت مند فرد کی خوراک کے لیے سبزیوں کی قسم اور مقدار کا تعین اس کی صحت کے مطابق کیا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے انسان اپنی خوراک کے غلط یا صحیح استعمال کا خیال نہیں رکھتے جب کہ حیوانوں کی جبلت میں غلط یا صحیح چارے کے انتخاب کی صلاحیت فطری انداز میں کام کرتی ہے۔ تمام حیوان جب وہ بیمار ہوں تو کچھ نہیں کھاتے لیکن جب وہ تندرست ہوں تو اس وقت کھاتے ہیں جب انہیں ضرورت ہو اور اتنا ہی کھاتے ہیں جتنی انہیں ضرورت ہوتی ہے اور صرف وہ چیز کھاتے ہیں جو ان کے لیے موزوں اور مناسب ہو۔ بہت کم یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ کوئی حیوان ضرورت سے زیادہ کھائے۔ لیکن انسان شعور کی نعمت سے مالا مال ہونے کے باوجود اکثر اوقات بے وقوفی کی حد تک بسیار خوری اور ممنوعہ یا نقصان دہ غذائی عادتوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ دراصل ایسے لوگوں کے نزدیک جسمانی ضرورت کی بجائے ذائقہ زیادہ اہم ہوتا ہے اور اب جدید طرز حیات کا ایک المناک پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ سبزیوں اور سلاد کے استعمال کو ترک کرکے مسالے دار چٹپٹے اور مرغن کھانوں کو روز مرہ خوارک کا حصہ بنایا جاچکا ہے۔