Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

پھل آم سے تیارہونے والی دوائیں

پھل آم سے تیارہونے والی دوائیں
قدرت نے جتنے بھی پھل عطا فرمائے ہیں طب و صحت
آم سے تیارہونے والی دوائیں
قدرت نے جتنے بھی پھل عطا فرمائے ہیں یہ موسمی تقاضے پورا کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں ، اس طرح آم موسم گرما کا پھل ہے اور موسم گرما میں دھوپ میں باہر نکلنے سے لو لگ جاتی ہے ، لو لگنے کی صورت میں شدید بخار ہو جاتا ہے ، آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں ، لو کے اثر کو ختم کرنے کے لیے کچا آم گرم راکھ میں دبا دیں ، نرم ہونے پر نکال لیں ، اس کا رس لے کر ٹھنڈے پانی میں چینی کے ساتھ ملا کر استعمال کرائیں ، لو لگنے کی صورت میں تریاق کا کام دے گا۔ آم کے پتے ، چھال ، گوند ، پھل اور تخم سب دوا کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ آم کا اچار جس قدر پرانا ہو اس کا تیل گنج کے مقام پر لگائیں بال چر میں بھی فائدہ ہو گا۔
 آم کے درخت کی پتلی ڈالی کی لکڑی سے روزانہ بطور مسواک کرنے سے منہ کی بدبو جاتی رہے گی۔
 آم کے بور کا سفوف روزانہ نہار منہ چینی کے ساتھ استعمال کریں ، مرض جریان میں مفید ہے۔
 جن لوگوں کو پیشاب رکنے کی شکایت ہو آم کی جڑ کا چھلکا برگ شیشم ایک ایک تولہ لے کر ایک کلو پانی میں جوش دیں ، جب پانی تیسرا حصہ رہ جائے تو ٹھنڈا کر کے چینی ملا کر پی لیں ، پیشاب کھل کر آئے گا ، ذیابیطس کے مرض میں آم کے پتے جو خود بخود جھڑ کر گر جائیں سائے میں خشک کر کے سفوف بنا لیں ، صبح و شام دو دو ماشہ پانی سے استعمال کرنے سے چند دنوں میں فائدہ ہوتا ہے۔
نکسیر کی صورت میں آم کے پھولوں کو سائے میں خشک کر کے سفوف بنا لیں اور بطرز نسوار ناک میں لینے سے خون بند ہو جاتا ہے۔
جن لوگوں کے بال سفید ہوں ، آم کے پتے اور شاخیں خشک کر کے سفوف بنا لیں ، روزانہ تین ماشہ یہ سفوف استعمال کیا کریں۔ کھانسی ، دمہ اور سینے کے امراض میں مبتلا لوگ آم کے نرم تازہ پتوں کا جوشاندہ ارنڈی کے درخت کی چھال اور سیاہ زیرے کے سفوف کے ساتھ استعمال کریں۔
 آم کی چھال قابض ہوتی ہے اور اندرونی جھلیوں پر نمایاں اثر کرتی ہے۔ اس لیے سیلان الرحم ( لیکوریا ) آنتوں اور رحم کی ریزش ، پیچش ، خونی بواسیر کے لیے بہترین دوا خیال کی جاتی ہے۔ ان امراض میں چھال کا سفوف یا تازہ چھال کا رس نکال کر اسے انڈے کی سفیدی یا گوند کے ساتھ دیا جاتا ہے۔
چھال کا رس چونے کے پانی کے ساتھ سوزاک میں ایک تیر بہدف دوا سمجھی جاتی ہے۔ تازہ چھال کا رس مرض آتشک کا بہترین علاج ہے۔ چھال سے نکلا ہوا گوند تلووں پر لگایا جاتا ہے۔ تیل اور عرق لیموں کے ساتھ بنایا ہوا مرہم خارش اور دوسرے امراض جلد میں استعمال کرایا جاتا ہے۔
 آم کا کچا پھل ( کیری ) ترش اور مسہل ہونے کے علاوہ اسکربوط ( مرض اسکروی ) کو ختم کرتا ہے۔
 کیری کے چھلکے کو گھری میں تل کر شکر ملا کر کھانے سے کثرت حیض میں فائدہ ہوتا ہے۔ یہ چھلکا مستوی اور قابض ہوتا ہے۔ آم کی گٹھلی کی گری قابض ہوتی ہے چونکہ اس میں بکثرت گیلک ایسڈ ہوتا ہے اس لیے پرانی پیچش اسہال ، بواسیر اور لیکوریا میں مفید ہے۔ پیچش میں آنووں کو روکنے کے لیے گری کا سفوف دہی کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ نکسیر بند کرنے کے لیے گری کا رس ناک میں ٹپکایا جاتا ہے۔
 دستوں کی شکایت میں آم کی گٹھلی کا مغز فائدہ مند ہوتا ہے۔ خاص طور پر پرانی گٹھلی زیادہ مفید ہے۔ اسے باریک پیس کر تین گرام کی مقدار پانی کے ساتھ کھانے سے دست رک جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین کے مخصوص ایام میں خون زیادہ جاری ہو یا خونی بواسیر کی زیادتی سے روز بروز کمزوری بڑھ رہی ہو تو اس کے کھلانے سے شکایت رفع ہو جاتی ہے۔
ایک عجیب کرشمہ
جب آم کے درخت میں پھول آئیں اور وہ خوشبو دینے لگےں تو انہیں توڑ کر دونوں ہتھیلیوں میں اچھی طرح ملیں ، جب ملتے ملتے پھول ختم ہو جائیں تو مزید پھول لے کر ملیں ، تقریبا ایک گھنٹہ تک آم کے پھولوں کو ہتھیلیوں پر ملیں ، اس کے تین چار گھنٹے بعد پانی سے ہاتھ نہ دھوئیں ، ایسا کرنے سے ہاتھ میں ایک حیرت انگیز تاثیر پیدا ہو گی جو کرشمہ سے کم نہیں ہے۔ جس جگہ بچھو بھڑ وغیرہ کاٹے محض اس جگہ ہاتھ رکھنے سے فوراً درد اور جلن موقوف ہو جاتی ہے اور ہاتھوں میں یہ تاثیر ایک سال تک رہتی ہے۔

آم سے متعدد بیماریوں کا علاج

آم سے متعدد بیماریوں کا علاج

آم

قدرت نے انسان کو جس قدر بھی پھل عطا فرمائے ہیں وہ سب کے سب موسم کے قدرتی تقاضے پورے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آم موسم گرما کا پھل ہے۔ گرمیوں میں باہر نکلنے دھوپ میں پھرنے سے لو لگ جاتی ہے۔ لو لگنے کی صورت میں شدت کا بخار چڑھ جاتا ہے۔ آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں۔ پس لو کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے کچا آم لے کر گرم راکھ میں دبائیں۔ تھوڑی دیر بعد نرم ہونے پر باہر نکال لیں۔ اس کا رس لے کر ٹھنڈے پانی میں چینی کے ساتھ ملا کر دیں۔ یہ تریاق کا کام کرے گا۔

گنجا پن
گنجے پن میں آم کو اس طرح استعمال کیجئے کہ آم کا اچار جس قدر پرانا ہو وہ بہتر ہے اس کا تیل گنجے ہونے کے مقام پر لگائیں۔ یہ نسخہ بال جھڑ میں بھی فائدہ مند ہے۔

منہ کی بدبو
آم کی گٹھلی کو مسواک کی طرح استعمال کرنے سے یعنی گٹھلی سے مسواک کی طرح منہ صاف کرنے سے منہ کی بدبو جاتی رہتی ہے۔ دانت مضبوط اور صاف ہو جاتے ہیں۔

جریان
آم کے بور کا پوڈر بنا کر روزانہ صبح نہار منہ چینی ملا کر استعمال کریں۔ چند روز میں جریان جاتا رہے گا۔

پیشاب کی بندش
جن لوگوں کو پیشاب رکنے کی شکایت ہو وہ آم کی جڑ کا چلکا ، برگ شیشم ایک تولہ، ایک سیر پانی میں ڈال کر جوش دیں۔ جب تیسرا حصہ رہ جائے تو ٹھنڈا کرکے چینی ملا کر نوش جاں کریں۔ پیشاب کھل کر آئے گا۔

ذیابیطس
آم کے پتے جو خود بخود جھڑ کر گریں انہیں سایہ میں خشک کرکے باریک سفوف بنا لیں۔ اسے ڈیڑھ شہ صبح و شام پانی میں استعمال کرنے سے مرض جاتا رہے گا۔

نکسیر
آم کے پھولوں کو سایہ میں خشک کرکے سفوف بنا لیں۔ نکسیر کی صورت میں نسوار کی طرح ناک میں لینے سے خون بند ہو جائے گا

بالوں کا سفید ہونا
آم کے پتے اور شاخیں خشک کرکے سفوف بنا لیا جائے۔ کم بال والے یا سفید بال والے اس تیل میں ملا کر روزانہ سر پر مالش کریں۔ بال سفید ہونا کم ہو جائیں گے۔

قے
اگر کسی کو بار بار قے ہو رہی ہو تو آم کے پتے اور پودینہ کے پتے ہم وزن لے کر جوشاندہ بنالیں اور تھوڑا سا شہد ملا کر قے کرنے والے کو پلا دیں تو قے آنا فورا بند ہو جائے گی۔

آم کھائیں بے شمار فائدے

 آم کھائیں بے شمار فائدے

آم کا شمار برصغیر کے بہترین پھلوں میں ہوتا ہے، اس لیے یہ پھلوں کا بادشاہ کہلاتا ہے۔ اسے برصغیر کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ آم اپنے ذائقے، تاثیر، رنگ اور صحت بخشی کے لحاظ سے تمام پھلوں سے منفرد ہے اور چوں کہ خوب کاشت ہوتا ہے، اس لیے یہ سستا اور سہل الحصول بھی ہے۔ اس کی سینکڑوں اقسام ہیں۔ برصغیر کو آم کا گھر بھی کہتے ہیں۔ فرانسیسی مورخ ڈی کنڈوے کے مطابق برصغیر میں آم چار ہزار سال قبل بھی کاشت کیا جاتا تھا۔ آج کل جنوبی ایشیاءکے کئی ممالک میں بھی بڑے پیمانے پر اسے کاشت کیا جاتا ہے۔
ویسے تو آم کی متعدد اقسام ہیں جن کا ذکر آگے چل کر آئے گا تاہم دو قسمیں عام ہیں۔ تخمی اور قلمی، کچا آم جس میں گٹھلی نہیں ہوتی، کیری کہلاتا ہے اور اس کا ذائقہ ترش ہوتا ہے۔ البتہ پکا ہواآم شیریں اور کبھی کھٹ میٹھا ہوتا ہے۔ پکے ہوئے تخمی آم کا رس چوسا جاتا ہے اور قلمی کو تراش کر کھایا جاتا ہے۔ آم قلمی ہو یا تخمی بہر صورت پکا ہوا لینا چاہیے۔ یہ رسیلا ہونے کی وجہ سے پیٹ میں گرانی پیدا نہیں کرتا اور جلد جزو بدن ہوتا ہے۔ پکا ہوا رسیلا میٹھا آم اپنی تاثیر کے لحاظ سے گرم خشک ہوتا
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آم کے استعمال کے بعد کچی لسی پینے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ اس طرح آم کی گرمی اور خشکی جاتی رہتی ہے۔ جو لوگ کچی لسی (دودھ میں پانی ملا ہوا) استعمال نہیں کرتے ان کے منہ میں عام طور پر چھالے ہو جانے یا جسم پر پھوڑے پھنسیاں نکل آنے کی شکایت ہو جاتی ہے۔ آم کے بعد کچی لسی استعمال کرنے سے وزن بھی بڑھتا ہے اور تازگی آتی ہے۔ معدے، مثانے اور گردوں کو طاقت پہنچتی ہے۔ آم کا استعمال اعضائے رئیسہ دل، دماغ اور جگر کیلئے مفید ہے۔ آم میں نشاستے دار اجزا ہوتے ہیں جن سے جسم موٹا ہوتا ہے۔ اپنے قبض کشا اثرات کے باعث اجابت بافراغت ہوتی ہے۔اپنی مصفی خون تاثیر کے سبب چہرے کی رنگت کو نکھارتا ہے۔ ماہرین طب کی تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ آم تمام پھلوں میں سے زیادہ خصوصیات کا حامل ہے اور اس میں حیاتین ”الف “اور حیاتین ”ج “ تمام پھلوں سے زیادہ ہوتی ہے۔کچا آم بھی اپنے اندر بے شمار غذائی و دوائی اثرات رکھتا ہے۔ اس کے استعمال سے بھوک لگتی ہے اور صفرا کم ہوتا ہے۔ موسمی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے لو کے اثرات سے بچاتا ہے البتہ ایسے لوگ جن کو نزلہ، زکام اور کھانسی ہو ان کو یہ ہرگز استعمال نہیں کرنا چاہیے۔آم تمام عمر کے لوگوں کیلئے یکساں مفید ہے۔ جو بچے لاغر اور کمزور ہوں ان کیلئے تو عمدہ قدرتی ٹانک ہے۔ اسے حاملہ عورتوں کو استعمال کرنا چاہیے، یوں بچے خوب صورت ہوں گے۔ جو مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں، اگر آم استعمال کریں تو دودھ بڑھ جاتا ہے۔ یہ خوش ذائقہ پھل نہ صرف خون پیدا کرنے والا قدرتی ٹانک ہے بلکہ گوشت بھی بناتا ہے اور نشاستائی اجزا کے علاوہ فاسفورس، کیلشیم، فولاد، پوٹاشیم اور گلوکوز بھی رکھتا ہے۔ اسی لیے دل، دماغ اور جگر کیساتھ ساتھ سینے اورپھیپھڑوں کیلئے بھی مفید ہے البتہ آم کا استعمال خالی پیٹ نہیں کرنا چاہیے۔ بعض لوگ آم کھانے کے بعد گرانی محسوس کرتے ہیں اور طبیعت بوجھل ہو جاتی ہے۔ انہیں آم کے بعد جامن کے چند دانے استعمال کرنے چاہئیں، جامن آم کا مصلح ہے۔

آم کی مختلف اقسام
یوں تو آم کی بے شمار اقسام سامنے آچکی ہیں مگر پاکستان میں بکثرت پیدا ہونے والی اقسام درج ذیل ہیں:
دسہری
اس کی شکل لمبوتری، چھلکا خوبانی کی رنگت جیسا باریک اور گودے کے ساتھ چمٹا ہوتا ہے۔ گودا گہرا زرد، نرم، ذائقے دار اور شیریں ہوتا ہے۔

چونسا
یہ آم قدرے لمبا، چھلکا درمیانی موٹائی والا ملائم اور رنگت پیلی ہوتی ہے۔ اس کا گودا گہرا زرد، نہایت خوشبودار اور شیریں ہوتا ہے۔ اس کی گٹھلی پتلی لمبوتری، سائز بڑا اور ریشہ کم ہوتا ہے۔ اس کی ابتدا ملیح آباد (بھارت) کے قریبی قصبہ ”چونسا“ سے ہوئی۔

انور رٹول
اس کی شکل بیضہ نما ہوتی ہے اور سائز درمیانہ ہوتا ہے۔ چھلکا درمیانہ، چکنا اور سبزی مائل زرد ہوتا ہے۔ گودا بے ریشہ، ٹھوس، سرخی مائل زرد، نہایت شیریں، خوشبودار اور رس درمیانہ ہوتا ہے۔ اس کی گٹھلی درمیانی، بیضوی اور نرم، ریشے سے ڈھکی ہوتی ہے۔ اس قسم کی ابتدا میرٹھ (بھارت) کے قریب قصبہ ”رٹول“ سے ہوئی۔

لنگڑا
یہ آم بیضوی لمبوترا ہوتا ہے۔ اس کا چھلکا چکنا، بے حد پتلا اور نفیس گودے کے ساتھ چمٹا ہوتا ہے۔ گودا سرخی مائل زرد، ملائم، شیریں، رس دار ہوتا ہے۔ الماس: اس کی شکل گول بیضوی ہوتی ہے اور سائز درمیانہ، چھلکا زردی مائل سرخ، گودا خوبانی کے رنگ جیسا ملائم، شیریں اور ریشہ برائے نام ہوتا ہے۔

فجری
یہ آم بیضوی لمبوترا ہوتا ہے۔ فجری کا چھلکا زردی مائل، سطح برائے نام کھردری ، چھلکا موٹا او نفیس گودے کے ساتھ لگا ہوتا ہے۔ گودا زردی مائل، سرخ، خوش ذائقہ، رس دار اور ریشہ برائے نام ہوتا ہے۔ اس کی گٹھلی لمبوتری موٹی اور ریشے دار ہوتی ہے۔

سندھڑی
آم بیضوی اور لمبوترا ہوتا ہے۔ اس کا سائز بڑا، چھلکا زرد، چکنا باریک گودے کیساتھ چمٹا ہوتا ہے۔ گودا شریں، رس دار اور گٹھلی لمبی اور موٹی ہوتی ہے۔ اصلاًمدراس کا آم ہے۔

گولا
یہ شکل میں گول ہوتا ہے۔ سائز درمیانہ، چھلکا گہرا نارنجی اور پتلا ہوتا ہے۔ گودا پیلا ہلکا ریشے دار اور رسیلا ہوتا ہے۔ گٹھلی بڑی ہوتی ہے۔

مالدا
یہ آم سائز میں بہت بڑا ہوتا ہے، مگر گٹھلی انتہائی چھوٹی ہوتی ہے۔ چھلکا پیلا اور پتلا ہوتا ہے۔
نیلم
اس آم کا سائز درمیانہ اور چھلکا درمیانہ، موٹا اور پیلے رنگ کا چمکتا ہوا ہوتا ہے۔ سہارنی: سائز درمیانہ اور ذائقہ قدرے میٹھا ہوتا ہے۔

دوائی استعمالات
تمام پھل موسمی تقاضے پورا کرنے کی صلاحیتوں سے مالامال ہیں۔ چونکہ آم موسم گرما کا پھل ہے اور موسم گرما میں دھوپ میں باہر نکلنے سے لو لگ جاتی ہے، لو لگنے کی صورت میں شدید بخار ہو جاتا ہے۔ اس لیے لو کے اثر کو ختم کرنے کیلئے کچا آم گرم راکھ میں دبا دیں۔ نرم ہونے پر نکال لیں۔ اس کا رس لے کر ٹھنڈے پانی میں چینی کے ساتھ ملا کر استعمال کرائیں۔ لو لگنے کی صورت میں تریاق کا کام دے گا۔ آم کے پتے، چھال، گوند، پھل اور تخم سب دوا کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ آم کے پرانے اچار کا تیل گنج کے مقام پر لگانے سے بالچر کو فائدہ ہوگا۔ آم کے درخت کی پتلی ڈالی کی لکڑی سے روزانہ مسواک کرنے سے منہ کی بدبو جاتی رہے گی۔ خشک آم کے بور کا سفوف روزانہ نہار منہ چینی کے ساتھ استعمال کرنا مرض جریان میں مفید ہے۔جن لوگوں کو پیشاب رکنے کی شکایت ہو، آم کی جڑ کا چھلکا برگ شیشم دس دس گرام ایک کلو پانی میں جوش دیں۔ جب پانی تیسرا حصہ رہ جائے تو ٹھنڈا کرکے چینی ملا کر پی لیں۔ پیشاب کھل کر آئے گا۔ ذیابیطس کے مرض میں آم کے پتے جو خود بخود جھڑ کرگر جائیں، سائے میں خشک کرکے سفوف بنا لیں۔ صبح و شام دو دو گرام پانی سے استعمال کرنے سے چند دنوں میں فائدہ ہوتا ہے۔ نکسیر کی صورت میں آم کے پھولوں کو سائے میں خشک کرکے سفوف بنا لیں اور بطور نسوار ناک میں لینے سے خون بند ہو جاتا ہے۔ جن لوگوں کے بال سفید ہوں، آم کے پتے اور شاخیں خشک کرکے سفوف بنا لیں۔ روزانہ تین گرام یہ سفوف استعمال کیا کریں۔ کھانسی، دمہ اور سینے کے امراض میں مبتلا لوگ آم کے نرم تازہ پتوں کا جوشاندہ، ارنڈی کے درخت کی چھال ‘سیاہ زیرے کے سفوف کے ساتھ استعمال کریں۔ آم کی چھال قابض ہوتی ہے اور اندرونی جھلیوں پر نمایاں اثر کرتی ہے، اس لیے سیلان الرحم (لیکوریا)، آنتوں اور رحم کی ریزش، پیچش، خونی بواسیر کیلئے بہترین دوا خیال کی جاتی ہے۔ ان امراض میں آم کے درخت کی چھال کا سفوف یا تازہ چھال کا رس نکال کر اسے انڈے کی سفید ی یا گوند کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ کیری کے چھلکے کو گھی میں تل کر شکر ملا کر کھانے سے کثرت حیض میں فائدہ ہوتا ہے۔ یہ چھلکا مقوی اور قابض ہوتا ہے۔آم کی گٹھلی کی گری قابض ہوتی ہے۔ چونکہ اس میں بکثرت گیلک ایسڈ ہوتا ہے‘ اس لئے پرانی پیچش‘ اسہال‘ بوا سیر اور لیکوریا میں مفید ہے۔ پیچش میں آنوﺅں کو روکنے کیلئے گری کا سفوف دہی کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ نکسیر بند کرنے کیلئے گری کا رس ناک میں ٹپکایا جاتا ہے۔آم برصغیر پاکستان وہندوستان کا مشہور و معروف ہردلعزیز اور مقبول ترین پھل ہے۔ نہایت خوش رنگ ، خوش ذائقہ ، لذیذ اور خوشبودار۔ اپنی شیریں اور حلاوت کی وجہ سے پوری دُنیا میں سب سے زیادہ پسند کیا جانے والا یہی پھل ہے۔ دور حاضر میں مصر ، سوڈان ، برازیل ، برما ، فلپائن ، انڈونیشیا ، سری لنکا ، تھائی لینڈ ، فلوریڈا ، آسٹریلیا ، میکسیکو ، یمن ، اور عمّان وغیرہ میں آم کی کاشت ہورہی ہے۔ لیکن اب بھی دنیا کا 75 فیصد آم برِصغیر پاکستان و ہندوستان میں ہوتا ہے۔
مختلف نام
اردو ۔۔۔ آم
پیجابی ۔۔۔ انب
سندھی ۔۔۔ آمو
فارسی ۔۔۔ انبہ
عربی ۔۔۔ انبج
ترکی ۔۔۔ منگواغ
فرانسیسی ۔۔۔ انبو
جرمنی ۔۔۔ مینگو بام

آم کا درخت
درخت کی اونچائی تقریباً ساٹھ ستر فٹ ہوتی ہے ۔ دس بارہ سال کے بعد پھلنا پھولنا شروع ہوتا ہے ۔ پتے چھ انچ سے 9 انچ تک لمبے اور نوکیلے ہوتے ہیں ۔ اپنی ابتدائی بہار میں‌بہت اچھے اور زیادہ پھل دیتا ہے مگر جوں‌جوں عمر زیادہ ہوتی جاتی ہے، پھلوں میں‌بھی کمی واقع ہوتی جاتی ہے۔ نیز اوّل سال اچھے اور بکثرت پھل لگتے ہیں ۔ دوسرے سال کم بعض اوقات پھلتے ہی نہیں۔

ذائقہ
بہت خام آم کا ذائقہ کسیلا ۔ اوسط درجے میں‌بہت زیادہ ترش اور پختہ حالت میں‌بدرجہ غایت شیریں‌ہوتا ہے۔

آم کی قِسمیں
قلمی اور تخمی یہ دو بڑی آم کی قسمیں ہیں ۔ پھر ان میں‌سے ہرایک مزے ، شکل وصورت اور مقامِ پیدائش کے اعتبار سے بیسیوں‌قسم کا ہوتا ہے۔
بعض مشہور آموں کے نام درج ذیل ہیں
مالدہ ۔ انور رٹول ۔ چونسہ ۔ لنگڑا ۔ پرنس ۔ سفیدہ ۔ دسہری ۔

آم کے غذائی اجزاء : فی صد
وٹامن اے 48ء
وٹامن سی ۔ 13ء0
آبی اجزاء ۔ 1ء86
پروٹین (لحمی اجزاء) ۔ 6ء5
چکنائی ۔ 61ء0
فولاد ۔ 63ء0
معدنی نمکیات ۔ 93ء0
چونا ۔ 1 ء4

Read More