Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

محبت کے سوا ? عورت کیا چاہتی ہے



 

 

 

محبت کے سوا ? عورت کیا چاہتی ہے
عورت کیا چاہتی ہے” ۔صدیوں سے یہ سوال اْلجھن بنا ہوا تھا ۔نفسیا ت کے ماہرین نے بھی جو جواب دئے وہ اْدھور ے جواب رہے ہیں ۔بالآخر دور جدید کے نفسیات دانوںجو عورت کی نفسیات بیان فرمائی وہ کسی قدر اسلام کی بیان فرمودہ نفسیات کے قریب ہے ۔ ماہرین کے مطابق محبت انسانی زندگی کے انتشار میں فطرت جیسی ہم آہنگی پیدا کرتی ہے ۔محبت ایک ذات ہے دوسری ذات تک بڑھنے اور نشو نما پانے کا ایک عمل ہے۔ قرآن مجید کے مطابق محبت کے پہلے مرحلہ میں انسان کو اپنی ذات کی تکمیل کے لئے اپنے جوڑے کی تلاش تھی ۔لیکن انسان کی فطرت میں اصل مقصود تو اس کی خالق مالک کی محبت ہے ۔اسکے خالق مالک نے انسان کی فطرت میںاپنی محبت کا بیج بوایا ہے۔بجز خدا تعالیٰ کی محبت کے انسان کی تکمیل ممکن نہیں ۔بہرحال قرآن مجید نے اپنی محبت کے سفر کے ابتدائی مرحلہ میں اسے ازواجی بندھن کی شکل میں پیش کیا ہے ۔یعنی مرد عورت میں محبت کا آسمانی شعلہ آسمان سے نازل ہوتا ہے۔ جو جوڑے فی الحقیقت اپنے اندر محبت کی سچی جستجو رکھتے ہیں ۔ یقیناََ ایسے حقیقی جوڑے ہی خدا ملاتا ہے اور ایسے جوڑے محبت کے آسمانی شعلہ کو اپنے اندر جذب کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ خدا تعا لیٰ فرماتا ہے کہ مرد عورت کو ہم نے جوڑوں میں پیدا کیا فرمایا اْس کے نشانو ں میں ایک یہ بھی نشان ہے کہ اْس نے تمہارے جوڑے بنائے ۔تاکہ تمہیں آپس میں ملنے سے سکون حا صل ہو ۔” ( سورة روم آیت ٢٢)اس آیت میں عورت مرد کے تعلقا ت کا بتایا گیا ہے کہ مرد کے لئے

عورت اور عورت کے لئے مرد سکون کا باعث ہے ۔گویا انسان کے اندر ایک اضطراب تھا ۔اْس اضطراب کو دور کرنے کیلئے انسانیت کے دو ٹکڑے یعنی عورت مرد کی صورت میں کردئے گئے ۔ اور ان کا آپس میں ملنا سکون کا موجب قرار دیا۔۔اور دوسر ی جگہ فرمایا کہ یعنی ” عورتیں تمہارے لئے لباس ہیں اور تم اْن لئے لبا س ہو”( بقرہ آیت ٨٨١) پس موجب سکون اور آرام ہونے میں دونوں برابر ہیں ۔مرد عورت ایک دوسرے کی محبت کے طلبگار ہیں۔اور وہ اس محبت کے رشتہ ازواج میں بندھے ہوتے ہیں۔اور بجز تعلقات محبت ان کی روح کو قرار کہاں ۔جیسے فرمایا یعنی شادی بندھن سے” تم میں مودّت پیدا کی گئی ۔” ( سورة روم آیت ٢٢)مودّت محبت کو کہتے ہیں۔لیکن مودّت محبت میں ایک فرق پایا جاتا ہے۔وہ یہ کہ مودّة اس محبت کو کہتے ہیںجو دوسروں کو اپنے اندر جذب کرلینے کی طاقت رکھتی ہے ۔لیکن محبت میں یہ شرط نہیں ۔شادی سے قبل بھی کئی جوڑے محبت کے نام پر ایک دوسرے سے تعلقات قائم کرتے ہیں۔لیکن ایسے جوڑوں کی تقریباََ سب محبتیں ناکام ثا بت ہوتی ہیں ۔ ( گویا رشتہ ازواج کے سوا ایسے تعلقات محبت خدا کے نزدیک قابل قبول نہیں) بقول شاعر” جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا وہ ناپائیدار ہوگا”۔ لیکن شادی کے بندھن میں بندھ جانے والے جوڑوں ایسے جوڑوں کا آپس میں ملاپ دل کی دودھڑکنیں ہیںجو دو وجودوں میں ایک ساتھ چلتی ہیں گاڑی کے دوپہئے ہیں جو ایک ساتھ آگے بڑھتے ہیں ۔ یقیناََ خود دور جدید کی عور تیں ۔ اس سوال کا جواب جانتی ہیں کہ شادی سے قبل کی محبت اور رشتہ ازواج میں بندھ جانے کے بعد محبت کا کیا فرق ہے ۔ لیکن بعض آزاد خیال آزاد زندگی بسر کرنے والی عورتیں شائد وہ پورا سچ بول کر اپنے دائرہ عمل کو( گھریلو زندگی سے وابستہ کرکے) اپنی زند گی کو محدود نہیں کرنا چاہتی ۔ مگر دور جدید کے نفسیات کے ماہرین کی نظر میں رشتہ ازواج میں بندھ جانے والی عورت کیا چاہتی ہے ؟انکا تجزیہ ہے کہ ”وہ عام طوروہی چاہتی ہے جو مرد چاہتا ہے ۔یعنی وہ کامیابی ‘ قوت ‘ مرتبہ ‘دولت ‘محبت ‘ شادی’بچوں اور خوشیوں کی طلبگار ہوتی ہے ۔وہ اپنی تکمیل چاہتی ہے ۔دور جدید کی عورتوں کی اکثر یت اس جواب کو چھپا کر رکھنا نہیں چاہتی ہیں ۔بلکہ وہ چاہتی ہیںکہ سب لوگ خاص طور پر ان کے مرد ‘اس ‘ راز’ سے آگاہ ہو جائیں ۔ہمارے لوک گیتوں میں محبوبہ اور بیوی دونو ں کے روپ میں عورت سونے چاندی اور کبھی ہیرے جوہرات کی فرمائش کرتی ہیں ۔اس کی زیادہ سے زیادہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ اس کی فطرتی طلب ہے تاکہ وہ قیمتی جواہرات سے اپنے حسن کی حفاظت اور اپنے حسن کو زیادہ سے زیادہ جازب نظر بنا سکے۔لیکن دورجدید کی تعلیم یافتہ اور مہذب عورتوں کا رویہ کسی قدر مختلف ہے۔وہ اس قسم کے تحفوں کو اتنی اہمیت نہیں دیتیں۔وہ محبت کو ترجیح دیتی ہیں ۔اور زیادہ تر عورتیں ان گراں قدر تحفوں کی موجودگی میں مرد سے سچی اور ذاتی محبت کا اظہار مانگتی ہیں ۔عورت کے دل میں ایسے تحائف جگہ بنا سکتے ہیںجن کے ساتھ مرد کی دلی محبت کی وارفتگی ہو ۔مگردور جدید کے بالخصوص مغربی شادی شدہ جوڑے کا المیہ یہ ہے کہ ان جوڑوں کی زیادہ تر محبت کی بنیاد حسن و جمال جنسی لذات شہوات تک محدود ہے۔ لیکن کچھ عرصہ بعد جنسی شہوات پر مبنی محبت کے جذبات ٹھنڈے پڑنے لگتے ہیں۔اور زندگی کے حقائق کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو محبت کے ڈرامے کے ڈراپ سین کے بعد زندگی میں مرد کا رومان باقی نہیں رہتا ۔تو ایسی ازواجی زندگی پھسپھسی میکانکی اور بے لطف ہوتی ہے۔جبکہ ماہرین کے بیان کے مطابق ایسا کوئی روگ نہیںجس سے نجات ممکن نہیں ۔ یعنی اس کے لئے ضروری ہے کہ رومان کی شمع بھجنے نہ پائے ۔رومان کی شمع روشن رکھنے کے لئے مرد کو چاہیے کہ عورت کی دلکشی کو نظر انداز نہ ہونے دے ۔ کم ہی عورتوں کو اپنے حسن کا یقین ہوتا ہے اس لئے عورت کے حسن کی تعریف فقط دور جونی تک محدود نہ ہو لیکن عمر کے ساتھ عورت کی خوبصورتی کم ہوجانے کے باوجو د اس کے حسن کو سراہا جانا ضروری ہے ور نہ عورت مرد کی توجہ نہ پاکر دور دراز اندیشوں میں اْلجھ کر رہے جائے گی اور وہ اپنے خاوند کی محبت کو بھی شک کی نظروں سے دیکھے گی۔اصل بات یہ ہے کہ جب عورت کو گول مول اور مبہم الفاظ میں جتلایا جائے کہ وہ دلکش ہے تو اس مسئلہ کا حل نہیں ہوتا ۔وہ واضح براہِ راست اقرار چاہتی ہے ۔جیسے تمہارے بالوں کا یہ انداز مجھے پسند آیا ۔یا اس لباس میں تم شاندار نظر آرہی ہو ۔یعنی وہ اپنے حسن کی تفصیلات کو پسند کرتی ہے بجز تفصیل کے وہ سمجھتی ہے ۔کہ وہ محض باتیں نہیں بنا رہا اور نہ ہی رسمی جملے ادا کر رہا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس جب وہ پوری توجہ دے رہا ہے ‘ وہ اس کو واقعی دیکھ رہا ہے ۔اس لئے عورت کی خود اعتما د ی اور عزت نفس بڑھ جاتی ہے ۔ماہرین کے مطابق سچائی کی بجائے محبت و ہمدردی سے کام لیجئے اور اسے یقین دلائیے کہ عمر کے ماہ و سال اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکے ۔اس کو دیدہ ذیب لباس پہننے پر آمادہ کیجئے ۔یوں رومانوی محبت کو قائم کیا جاسکتا ہے ۔ ازواجی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لئے رومان کی شمع جلائے رکھنا ضروری ہے ۔ اور اسے کسی صورت میں بھی نظر انداز نہ کیا جائے ۔عورت کو مرد سے مشورہ لینے کا کم ہی شوق ہوتا ہے ۔زیادہ ترعورتوں کی گفتگو اپنے ساتھی سے مسائل کا تجزیہ کرنے اور مسائل کا حل تلاش کے لئے نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے جذبوں کے اظہار اور جذبوں میں ایک دوسرے کو شریک کرنے کے لئے بولتی ہے ۔لہذا وہ اْس وقت تک بولتی چلی جاتی ہیں جب تک ان کے دل کا بوجھ ہلکا نہ ہو جائے ۔ ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ عورت کے نقطئہ نگاہ سے اچھی سیکس کے مقابلہ میں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مرد گھریلو کام کاج میں اس کا ہاتھ بٹائے ۔عورت کی اس قسم کی مدد صحت مند ازواجی زندگی کو قائم رکھنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے لیکن جدید دور کے ماہرین نفسیات عورت کی نفسیات کا صحیح ادراک بعد از خرابیء بسیار دور جدید میں ہوا ۔ مگر اسلام کانفسیاتی تجزیہ جو یہ ہے کہ اسلام نے عورت مرد کو انسانیت کے دائیرہ میں برابر کا شریک قراردیا ۔فرق یہ ہے کہ مرد قوام ( مضبوط ا عصاب کے ) ہیں اور عورتیں قواریر ( صنف نازک) ہیں اسی لئے آنحضرت ۖ نے فرمایا۔۔۔عورت ایک کمزور جنس ہے ویسے ہی حسن سلوک کی مستحق ہے اور دوسرے بوجہ اس کے کہ انسان کو اپنی بیوی کے ساتھ سب سے زیادہ قر یب کا واسطہ پڑتاہے۔انسان کے اخلاق کا صحیح امتحان بیوی کے ساتھ سلوک کرنے میںمضمر ہے ۔( جامع الترمذی) ۔ ۔ ۔عورتوں سے حسن سلوک کی تعلیم حدیث میں ہے۔۔ آپۖ نے فرمایا کہ” اے مسلمانو! تم میں سے ز یادہ اچھے وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ سلوک کرنے میں زیادہ اچھے ہیں۔” (جامع الترمز ی) اسلام نے بیویوں سے بہترین معاملہ کرنے و ان کی دلجوئی کونیکی کا معیار قرار دیا۔غرض اسلام نے عورت کے حقوق اور اس سے حسن سلوک کو بیان کر کے نسوانی دنیا کی کایا پلٹ دی ہے ۔فرمایا ” (عورتوں) سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو ۔اگر تم ان کو ناپسند کرو تو عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بھلائی رکھ دے ۔( النساء ) اورفرمایا” وہ عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم عورتوں کا لباس ہو”( سورة البقرہ ٨٨١) پس لباس کی مثال میں توجہ دلانا مقصود ہے کہ مر د وں عورتوں کے تعلقات کیسے ہونے چاہیے ۔فرمایا مردوں عورتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسر ے کیلئے ہمیشہ لباس کا کام دیں ۔ یعنی ایک دوسرے کے عیب چھپائیں۔ایک دوسرے کیلئے زینت کا موجب بنیں۔پھر جس طرح لباس سردی گرمی کے ضرر سے انسانی جسم کو محفوظ رکھتا ہے اْسی طرح مرد عورت سْکھ دْکھ کی گھڑیو ں میں ایک دوسرے کے کام آئیں۔اور پریشانی کے عالم میں ایک دوسرے کی دلجمعی اور سکون کا باعث بنیں۔ لیکن مذہبی دنیا میں اور دنیاوی معاشروں میں بھی عورت سے یکساں سلوک نہیں ہوا ۔ اسلام کی تعلیم کے برعکس بعض مشرقی معاشروں میں مرد نے عورت کو اپنی نفسانی جنسی اغراض کا ذریعہ بنایا ہوا ہے ۔ جبکہ مغربی معاشرہ میں تو عورت مرد کا فقط جنسی تسکین کا کھلونا بن کر رہ گئی ہے۔جبکہ اسلام نے مرد کو عورت سے حسن سلوک اور اس کے جذبات کی پاسداری کا حکم دیا ۔ اسلام نے عورت سے نیک سلوک اور اس کی عزت احترام کو ہر حیثیت میں قائم یبنفرمایا ۔مختلف احادیث میںجو تعلیم دی گئی کہ بیویوں سے بہترین معاملہ کریں اور ان کی دلجوئی کو نیکی کا معیا ر سمجھیں ۔ ۔آنحضر ت نے عورت اور خوشبو کو پسندیدہ قراردیا ۔آپ نے فرمایا ” نیک عورت سے بہتر دنیا کی کوئی چیز نہیں( ابن ماجہ)

اللہ تعالیٰ کا حکم ہے مباشرت کے حدود

 

 

 

 

اللہ تعالیٰ کا حکم ہے

مباشرت کے حدود

دین کا مقصد تزکیہ ہے۔ وہ ہرگز پسند نہیں کرتا کہ بیوی کے ساتھ منہ یا دبر کے راستے سے جنسی تعلق قائم کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ عورتوں سے ملاقات لازماً اُسی راستے سے ہونی چاہیے جو اللہ نے اُس کے لیے مقرر کر رکھا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے: ‘فَاْتُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ اَمَرَکُمُ اللّٰهُ’ * (تو اُن سے ملاقات کرو، جہاں سے اللہ نے تمھیں حکم دیا ہے)۔ یہ چیز بدیہ یات فطرت میں سے ہے اور اِس پہلو سے، لاریب خدا ہی کا حکم ہے۔ اگر کوئی شخص اِس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ درحقیقت خدا کے ایک واضح، بلکہ واضح تر حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے، اور اِس پر یقینا اُس کے ہاں سزا کا مستحق ہو گا۔

یہ آیت جہاں آئی ہے، قرآن نے یہی بات اِس کے بعد کھیتی کے استعارے سے واضح فرمائی ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
”عورتوں کے لیے کھیتی کے استعارے میں ایک سیدھا سادہ پہلو تو یہ ہے کہ جس طرح کھیتی کے لیے قدرت کا بنایا ہوا یہ ضابطہ ہے کہ تخم ریزی ٹھیک موسم میں اور مناسب وقت پر کی جاتی ہے، نیز بیج کھیت ہی میں ڈالے جاتے ہیں، کھیت سے باہر نہیں پھینکے جاتے، کوئی کسان اِس ضابطے کی خلاف ورزی نہیں کرتا، اِسی طرح عورت کے لیے فطرت کا یہ ضابطہ ہے کہ ایام ماہواری کے زمانے میں یا کسی غیرمحل میں اُس سے قضاے شہوت نہ کی جائے، اِس لیے کہ حیض کا زمانہ عورت کے جمام اور غیرآمادگی کا زمانہ ہوتا ہے، اور غیرمحل میں مباشرت باعث اذیت و اضاعت ہے۔ اِس وجہ سے کسی سلیم الفطرت انسان کے لیے اِس کا ارتکاب جائز نہیں۔” (تدبرقرآن ١/٥٢٧)

اِس کے بعد ‘فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِئْتُمْ’ * (لہٰذا تم اپنی اِس کھیتی میں جس طرح چاہے، آؤ) کی وضاحت میں اُنھوں نے لکھا ہے:

”(اِس) میں یہ بیک وقت دو باتوں کی طرف اشارہ ہے۔ ایک تو اُس آزادی، بے تکلفی، خود مختاری کی طرف جو ایک باغ یا کھیتی کے مالک کو اپنے باغ یا کھیتی کے معاملے میں حاصل ہوتی ہے، اور دوسری اُس پابندی، ذمہ داری اور احتیاط کی طرف جو ایک باغ یا کھیتی والا اپنے باغ یا کھیتی کے معاملے میں ملحوظ رکھتا ہے۔ اِس دوسری چیز کی طرف ‘حَرْثَ’ کا لفظ اشارہ کر رہا ہے اور پہلی چیز کی طرف ‘اَنّٰی شِئْتُمْ’ کے الفاظ۔ وہ آزادی اور یہ پابندی، یہ دونوں چیزیں مل کر اُس رویے کو متعین کرتی ہیں جو ایک شوہر کو بیوی کے معاملے میں اختیار کرنا چاہیے۔

ہر شخص جانتا ہے کہ ازدواجی زندگی کا سارا سکون و سرور فریقین کے اِس اطمینان میں ہے کہ اُن کی خلوت کی آزادیوں پر فطرت کے چند موٹے موٹے قیود کے سوا کوئی قید، کوئی پابندی اور کوئی نگرانی نہیں ہے۔ آزادی کے اِس احساس میں بڑا کیف اور بڑا نشہ ہے۔ انسان جب اپنے عیش و سرور کے اِس باغ میں داخل ہوتا ہے تو قدرت چاہتی ہے کہ وہ اپنے اِس نشہ سے سرشار ہو، لیکن ساتھ ہی یہ حقیقت بھی اُس کے سامنے قدرت نے رکھ دی ہے کہ یہ کوئی جنگل نہیں، بلکہ اُس کا اپنا باغ ہے اور یہ کوئی ویرانہ نہیں، بلکہ اُس کی اپنی کھیتی ہے، اِس وجہ سے وہ اِس میں آنے کو تو سو بار آئے اور جس شان، جس آن، جس سمت اور جس پہلو سے چاہے آئے، لیکن اِس باغ کا باغ ہونا اور کھیتی کا کھیتی ہونا یاد رکھے۔ اِس کے کسی آنے میں بھی اِس حقیقت سے غفلت نہ ہو۔” (تدبرقرآن١/٥٢٧)

یہ ہدایات کس درجہ اہمیت رکھتی ہیں؟ قرآن نے سورہ بقرہ کی اِنھی آیات میں اِسے ‘اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ’* (بے شک، اللہ توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے) کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ آیت کے اِس حصے کی وضاحت استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس طرح کی ہے:

”توبہ اور تطہر کی حقیقت پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ توبہ اپنے باطن کو گناہوں سے پاک کرنے کا نام ہے اور تطہر اپنے ظاہر کو نجاستوں اور گندگیوں سے پاک کرنا ہے۔ اِس اعتبار سے دونوں کی حقیقت ایک ہوئی اور مومن کی دونوں خصلتیں اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں۔ اِس کے برعکس جو لوگ اِن سے محروم ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ہیں۔ یہاں جس سباق میں یہ بات آئی ہے، اُس سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ جو لوگ عورت کی ناپاکی کے زمانے

میں قربت سے اجتناب نہیں کرتے یا قضاے شہوت کے معاملے میں فطرت کے حدود سے تجاوز کرتے ہیں، وہ اللہ کے نزدیک نہایت مبغوض ہیں۔” (تدبرقرآن١/٥٢٦)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس کے بیٹے، اور دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔

غور فرمائیے!

· لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے محبت کا دعوی تو کرتے ہیں مگر آپ کی تعلیمات کو نظر انداز کیوں کر دیتے ہیں؟

عورت کو احتلام ہو تو اس پر بھی غسل واجب ہے

عورت کو احتلام ہو تو اس پر بھی غسل واجب ہے

صحیح بخاری –  کتاب الغسل، حدیث نمبر : 282
جب عورت کو احتلام ہو تو اس پر بھی غسل واجب ہے
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن زينب بنت أبي سلمة، عن أم سلمة أم المؤمنين، أنها قالت جاءت أم سليم امرأة أبي طلحة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت يا رسول الله، إن الله لا يستحيي من الحق، هل على المرأة من غسل إذا هي احتلمت فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏”‏ نعم إذا رأت الماء‏‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، انھوں نے ہشام بن عروہ کے واسطے سے، انھوں نے اپنے والد عروہ بن زبیر سے، وہ زینب بنت ابی سلمہ سے، انھوں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے، آپ نے فرمایا کہ ام سلیم ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی عورت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا کہ اللہ تعالیٰ حق سے حیا نہیں کرتا  کیا عورت پر بھی جب کہ اسے احتلام ہو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہاں اگر ( اپنی منی کا ) پانی دیکھے ( تو اسے بھی غسل کرنا ہو گا ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے۔ اس کے لیے بھی مردکا سا حکم ہے کہ جاگنے پر منی کی تری اگر کپڑے یا جسم پر دیکھے توضرور غسل کرے تری نہ پائے توغسل واجب نہیں
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

 

حمل (Pregnancy)

تخلیق انسانی بارے آیات قرآنی

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ. (النساء، 4 : 1)
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری تخلیق ایک جان سے کی۔

(single life cell)

وَهُوَ الَّذِيَ أَنشَأَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ. (الانعام، 6 : 98)
اور وہی (اﷲ) ہے جس نے تمہاری (حیاتیاتی) نشوونما ایک جان سے کی۔

مَّا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ. (لقمان، 31 : 28)
تمہیں پیدا کرنا اور تمہیں دوبارہ اُٹھانا بالکل اُسی طرح ہے جیسے ایک جان

Zygote یا fertilized ovum

سے انسانی زندگی کا آغاز کیا جانا

إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا (الدهر، 76 : 2)
بیشک ہم نے اِنسان کو مخلوط نطفےسے پیدا کیا۔ پھر ہم اسے مختلف

(mingled fluid)

حالتوں میں پلٹتے اور جانچتے ہیں، حتیٰ کہ اُسے سننے دیکھنے والا بنا دیتے ہیں

أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً (القيامه، 75 : 37، 38)
کیا وہ ابتداءً محض منی کا ایک قطرہ

(spermatic liquid یا sperm)

نہ تھا جو (عورت کے رحم میں) ٹپکا دیا گیا۔ پھر وہ لوتھڑا بنا۔

فَلْيَنظُرِ الْإِنسَانُ مِمَّ خُلِقَ خُلِقَ مِن مَّاءٍ دَافِقٍ يَخْرُجُ مِن بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ (الطارق، 86 : 5 – 7)
پس انسان کو غور (و تحقیق) کرنا چاہئے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔ وہ قوت سے اُچھلنے والے پانی (یعنی قوِی اور متحرک مادۂ تولید) میں سے پیدا کیا گیا ہے۔ جو پیٹھ اور کولہے کی ہڈیوں کے درمیان (پیڑو کے حلقہ میں) سے گزر کر باہر نکلتا ہے۔

ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِن سُلَالَةٍ مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍ. (السجده، 32 : 8)
پھر اس کی نسل کو ایک حقیر پانی کے نطفہ سے پیدا کیا جو اس کی غذاؤں کا نچوڑ ہے۔

إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ. (الدهر، 76 : 2)
بیشک ہم نے اِنسان کو مخلوط نطفےسے پیدا کیا۔

(mingled fluid)

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً. (النساء، 4 : 1)
اے لوگو! اپنے ربّ سے ڈرو، جو تمہاری تخلیق ایک جان

(single life cell)

سے کرتا ہے، پھر اُسی سے اُس کا جوڑ پیدا فرماتا ہے، پھر اُن دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلاتا ہے۔

خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا. (الزمر، 39 : 6)
اُس (ربّ) نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا پھر اُسی میں سے اُس کا جوڑ نکالا۔

وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى. (الحج، 22 : 5)
اور ہم جسے چاہتے ہیں (ماؤں کے) رحموں میں ایک مقررہ مدّت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں۔

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ (العلق، 96 : 1، 2)
اپنے رب کے نام سے پڑھیئے جس نے پیدا کیاo اُس نے اِنسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح ’’معلّق وُجود‘‘ سے پیدا کیاo

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً. فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً. فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا. فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا. ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ (المومنون، 23 : 12 – 14)
اور بیشک ہم نے اِنسان کی تخلیق (کی اِبتدا) مٹی کے (کیمیائی اجزا کے) خلاصہ سے فرمائی پھر ہم نے اُسے نطفہ (تولیدی قطرہ) بنا کر ایک مضبوط جگہ (رحمِ مادر) میں رکھا پھر ہم نے اس نطفہ کو (رحمِ مادر کے اندر جونک کی صورت میں) معلّق وجود بنا دیا۔ پھر ہم نے اُس معلّق وُجود کو ایک (ایسا) لوتھڑا بنا دیا جو دانتوں سے چبایا ہوا لگتا ہے۔ پھر ہم نے اُس لوتھڑے سے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنایا۔ پھر ہم نے اُن ہڈیوں پر گوشت (اور پٹھے) چڑھائے۔ پھر ہم نے اُسے تخلیق کی دُوسری صورت میں (بدل کر تدرِیجاً) نشوونما دی، پھر (اُس) اﷲ نے (اُسے) بڑھا کر محکم وُجود بنا دیا جو سب سے بہتر پیدا فرمانے والا ہے

ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ (السجده، 32 : 9)
پھر اُسے (اعضائے جسمانی کے تناسب سے) درُست کیا اور اُس میں اپنی طرف سے جان پھونکی اور تمہارے لئے (سننے اور دیکھنے کو) کان اور آنکھیں بنائیں اور (سوچنے سمجھنے کے لئے) دِماغ، مگر تم کم ہی (اِن نعمتوں کی اہمیت اور حقیقت کو سمجھتے ہوئے) شکر بجا لاتے ہو

إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا (الدهر، 76 : 2)
بیشک ہم نے انسان کو مخلوط نطفےسے پیدا کیا۔

(mingled fluid)

  پھر ہم اُسے مختلف حالتوں میں پلٹتے اور جانچتے ہیں، حتیٰ کہ اُسے سننے والا (اور) دیکھنے والا (انسان) بنا دیتے ہیں

يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ خَلْقًا مِن بَعْدِ خَلْقٍ فِي ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ (الزمر، 39 : 6)
وہ تمہیں ماؤں کے پیٹ میں تاریکیوں کے تین پردوں کے اندر ایک حالت کے بعد دُوسری حالت میں مرحلہ وار تخلیق فرماتا ہے۔ یہی اللہ تمہارا ربّ (تدرِیجاً پرورش فرمانے والا) ہے۔ اُسی کی بادشاہی (اندر بھی اور باہر بھی) ہے۔ سو اُس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، پھر تم کہاں بہکے چلے جاتے ہو!o

وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا (الفرقان، 25 : 2)
اور اُسی نے ہر چیز کو پیدا فرمایا ہے، پھر اُس (کی بقا و اِرتقاء کے ہر مرحلہ پر اُس کے خواص، اَفعال اور مدّت الغرض ہر چیز) کو ایک مقرّرہ اندازے پر ٹھہرایا ہے

مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ (عبس، 80 : 18 – 22)
اﷲ نے اُسے کس چیز سے پیدا فرمایا ہے؟o نطفہ میں سے اُس کو پیدا فرمایا، پھر ساتھ ہی اُس کا (خواص و جنس کے لحاظ سے) تعیّن فرما دیاo پھر (تشکیل، اِرتقاء اور تکمیل کے بعد بطنِ مادر سے نکلنے کی) راہ اُس کے لئے آسان فرما دیo پھر اُسے موت دی، پھر اُسے قبر میں دفن کر دیا گیاo پھر جب وہ چاہے گا اُسے (دوبارہ زندہ کر کے) کھڑا کر لے گا

سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّى وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَى (الاعلیٰ، 87 : 1 – 3)
اپنے ربّ کے نام کی تسبیح کریں جو سب سے بلند ہےo جس نے (کائنات کی ہر چیز کو) پیدا کیا، پھر اُسے (جملہ تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ) درُست توازُن دیاo اور جس نے (ہر ہر چیز کے لئے) قانون مقرّر کیا، پھر (اُسے اپنے اپنے نظام کے مطابق رہنے اور چلنے کا) راستہ بتایا

أَلَمْ نَخْلُقكُّم مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍ فَجَعَلْنَاهُ فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ إِلَى قَدَرٍ مَّعْلُومٍ فَقَدَرْنَا فَنِعْمَ الْقَادِرُونَ (المرسلات، 77 : 20 – 23)
کیا ہم نے تمہیں ایک بے قدر پانی سے پیدا نہیں فرمایاo پھر ہم نے اُسے ایک محفوظ جگہ (رحمِ مادر) میں رکھاo ایک معلوم ومعین انداز سے (مدت) تکo پھر ہم نے (اگلے ہر ہر مرحلے کے لئے) اندازہ فرمایا، پس ہم کیا ہی اچھے قادر ہیںo

وَهُوَ الَّذِيَ أَنشَأَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَفْقَهُونَ (الانعام، 6 : 98)
اور وہی (اﷲ) ہے جس نے تمہیں ایک جان (یعنی ایک خلیہ) سے پیدا فرمایا ہے پھر (تمہارے لئے) ایک جائے اقامت (ہے) اور ایک جائے امانت (مراد رحمِ مادر اور دنیا ہے یا دنیا اور قبر ہے)۔ بیشک ہم نے سمجھنے والے لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانیاں کھول کر بیان کردی ہیںo

پتھری و حبس بول کا علاج

پتھری و حبس بول کا علاج
سنائی نے حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی ہے کہ ان کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میرے باپ کا پیشاب بند ہوگیا ہے اور اسے پتھری کا مرض ہے۔ اس پر حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وہ دعاء جو انہوں نے تاجدار رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے سنی تھی، بتلائی اور اسے حکم دیا کہ وہ اس دعاء کو پڑھے۔ چنانچہ اس نے پڑھا اور تندرست ہوگیا۔
رَبُنَا اللہُ الَذِی فِی السَمَآءَ تَقَدَسَ اَمرُکَ فِی السَمَآءِ وَالاَرضِ کَماَ رَحمَتُکَ فِی السَمَآءِ فَاجعَل رَحمَتُکَ فِی الاَرضِ وَاغفِرلَناَ ذُنُوبَناَ وَخَطاَیَانَا اَنتَ رَبُ المُتَطَیِبِینَ وَاَنزَلُ شِفَاءً مِن شِفاَ ئِکَ وَرَحمَۃً مِن رَحمَتِکَ عَلٰی ھٰذَا الوجعِ۔(مدارج النبوۃ)یہ دُعاء تھوڑے سے فرق کے ساتھ ابی داؤد شریف کے حوالہ سے بخار کے عنوان میں درج ہو چکی ہے۔

بانجھ پن کا استغفار سے علاج

بانجھ پن کا استغفار سے علاج
حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس تشریف لے گئے تو آپ سے حضرت امیر معاویہ کے ایک ملازم نے کہا کہ میں ایک مالدار آدمی ہوں مگر میرے ہاں کوئی اولاد نہیں ہے۔ کوئی ایسی چیز بتائیے کہ اللہ تعالٰی مجھے اولاد عطا فرمائے۔ آپ نے فرمایا، استغفار پڑھا کرو۔ اس نے استغفار کی اور اتنی کثرت سے کی کہ روزانہ سات سو مرتبہ استغفار پڑھنے لگا۔ اس کی برکت سے اللہ تعالٰی نے اسے دس بیٹے عطا فرمائے۔ -خزائن العرفان حاشیہ
سورۃ ہود۔ آیت  52بانجھ پن کے تحت سیدنا شہزادہ شیر خدا حضرت امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اس جگہ کوئی خاص دعائے استغفار منقول نہ ہے۔ اس لئے ذیل میں وہ دعائے استغفار درج کی جاتی ہے جس کے متعلق وحی ترجمان سے سیدالاستغفار یعنی تمام استغفاروں کا سردار ارشاد ہوا۔ حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالٰی عنہ تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، سب استغفاروں کا سردار یہ استغفار ہے کہ انسان یوں کہے۔ اَللٰھُمَ اَنتَ رَبِی لاَ اِلٰہَ اِلاَ اَنتَ خَلَقتَنِی وَاَنَا عَبدُکَ وَاَنَا عَلٰی عَھدِکَ وَوَعَدِکَ مَا استَطَعتُ اَ عُوذُ مِن شَرِ مَا صَنَعتُ اَبُوءَ لَکَ بِنِعتِکَ عَلٰی وَ اَبُوُء بِذَنبِی فَاغفِرلِی فَانَہ لاَ یَغفِرُ الذُنُوبَ اِلاَ اَنتَ۔ تاجدار انبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے اس استغفار کو صدق دل سے دن میں پڑھا۔ وہ اگر اس روز شام سے پہلے مر گیا تو جنتی ہے اور جس نے رات کو اسے صدق دل سے پڑھا اور صبح ہونے سے پہلے مر گیا تو جنتی ہے۔  -صحیح بخاری شریف-

شہد کی مکھی کے کاٹے کا علاج

شہد کی مکھی کے کاٹے کا علاج

شہد کی مکھی کے کاٹے پر شہد لگانے اور پینے سے درد میں افاقہ ہوتا ہے۔

 شہد کی مکھی کے کاٹنے پر نمک لگانے سے تکلیف ختم ہو جاتی ہے۔

 کوئی بھی زہریلا کیڑا کاٹ لے تو فوری طور پر تلسی کے پتے پیس کر اس جگہ پر لگائیں جہاں کیڑے نے کاٹا ہے زہر کا اثر ختم ہو جائے گا۔

دواء خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

 

مایوس مریضوں کو مژدہ جانفزا

مایوس مریضوں کو مژدہ جانفزا
مواہب لدنیہ اور دوسری کتب میں امام ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے منقول ہے کہ ان کا ایک بچہ سخت بیمار ہوگیا۔ علاج سے افاقہ نہ ہوا حتٰی کہ بچہ قریب المرگ ہوگیا۔ ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے خواب میں تاجدار انبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ میں نے خدمت اقدس میں اپنے بچے کا حال عرض کیا تو حضور سرور انبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا “تم آیات شفاء سے کیوں غافل ہو ؟ کیوں ان کے وسیلہ کے ساتھ شفا نہیں مانگتے
امام ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ میں جب نیند سے بیدار ہوا تو آیات شفاء پر غور کرنے لگا۔ میں نے ان کو کلام اللہ شریف میں چھ مقام پر پایا۔ وہ آیات کریمہ یہ ہیں۔
1 وَیَشفِ ُصدُورَ قَومٍ مُؤمِنِینَ ہ
2 وَشِفَآ ء لِمَا فِی الصُدُورِ
3 یَخرُجُ مِن بُطُونِھاَ شَرَاب مُختَلِف اَلوَانُہ فِیہِ شِفَاء لِنَاس ہ
4 وَنُنزِل مِن القُراٰنِ مَا ھُوَ شِفَآ ء وَرَحمَۃ لِلمُؤمِنِینَ ہ
5وَاِذَا مَرِضتُ فَھُوَ یَشفِین ہ
6 قُل ھُو لِلَذِینَ اٰمَنُوا ھُدًی وَشِفَآء
امام قشیری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے ان تین آیتوں کو لکھا اور پانی میں گھول کر بچے کو پلا دیا تو وہ اسی وقت شفایاب ہوگیا۔ گویا کہ کسی نے ان کے پاؤں کی گرہ کھول دی۔ (مدارج النبوۃ جلد اول)

پھوڑا یا زخم کا علاج

پھوڑا یا زخم کا علاج
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے مروی ہے کہ جس وقت کوئی شخص اپنے جسم میں کسی چیز کی شکایت کرتا تو حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم (اس پھوڑے، زخم یا درد کی طرف اپنی انگلی سے اشارہ فرماتے اور پڑھتے۔ بسم اللہ تربتہ ارضنا بریقتہ بعضنا لیشقی سقمنا باذن ربنا
ترجمہ :   اللہ تعالٰی کے اسم گرامی کے ساتھ برکت حاصل ہوتا ہوں۔ یہ ہماری زمین کی مٹی، ہمارے بعض کے لعان کے ساتھ ملی ہوئی ہے تاکہ ہمارے پروردگار کے حکم سے ہمارے بیمار کو شفاء دی جائے۔ بخاری و مسلم شریف