Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

لمبی ٹانگیں صحت مند دل کی تصدیق

لمبی ٹانگیں صحت مند دل کی تصدیق
400 برطانوی خواتین پر کی گئی تحقیق کے مطابق ٹانگوں کی لمبائی 4٫3 سینٹی میٹر کے فرق سے 16 فیصد دل کے امراض نہ ہونے کی امید ہوتی ہے۔ برطانوی سائنسدانوں کے مطباق جن خواتین کی ٹانگیں ان کے جسم کے لحاظ سے چھوٹی ہوتی ہیں انہیں دل کے امراض لاحق ہونے کے اندیشے لمبی ٹانگوں والی خواتین کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق بچپن سے کھانے پینے کی عادت اور ماحولیاتی آلودگی سے دل کا مرض ہونا طے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر خوراک مناسب ، ورزش کی عادت اور پرسکوں ماحول ہو تو دل کا مرض ہونے کا اندیشہ کم ہوتا ہے۔ رپورٹ لمبی ٹانگوں سے دل کی صحت یابی کی تصدیق کے علاوہ اس بات کی بھی دلیل دیتی ہے کہ بچوں کے پاؤں پیدائشی چھوٹے ہوں تو ماں کا دودھ پینے پرپاؤں طاقتور اور لمبے ہوجاتے ہیں اور ماں کا دودھ پینے سے بچے کا اندرونی حصہ طاقتور اور صحت یاب ہوتا ہے۔

حقہ پینے سے مسوڑوں کی بیماریاں لاحق

حقہ پینے سے مسوڑوں کی بیماریاں لاحق
سویڈن میںماہرین نے مسوڑوں کی بیماریاں لاحق ہونے کی وجوہات معلوم کرنے کے لیے سٹاک ہوم کیرولیستکا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین کی ایک ٹیم نے سعودی عرب میں حقہ اور سگریٹ نوشی کرنے والوں کے دانتوں اور مسوڑھوں کا جائزہ لیا جس میں انہوں نے 262 نوجوان افراد کا انتخاب کیا جن میں سے 31 فیصد صرف حقہ پینے والے تھے جبکہ 19 فیصد سگریٹ پینے والے اور 20 فیصد
سگریٹ اور حقہ تمباکو نوشی کے دونوں طریقے استعمال کرنے والے تھے۔ تحقیق میں 30 ایسے افراد کو بھی شامل کیا گیا جو تمباکو نوش نہیں تھے۔ تحقیق کاروں نے ان افراد کو سوال نامے دینے او رکچھ عرصے بعد ان افراد کے مسوڑھوں اور دانتوں کے چیک اپ کی رپورٹوں کا جائزہ لیا جس کے مطابق وہ تمام افراد جو ا س تحقیق میں شامل تھے ان میں مسوڑھوں کی بیماری کی نشاندہی کی گئی ہے۔ تحقیق مکمل ہو جانے کے بعد ماہرین کا کہنا ہے کہ حقہ پینے سے دانتوں اور مسوڑھوں کو نقصان پہنچتا ہے جبکہ مسوڑھوں میں سوجن بھی ہو سکتی ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق تحقیق میں شامل افراد میں حقہ یا سگریٹ نہ پینے والے افراد میں 8 فیصد میں مسوڑھوں کی سوزش اور سرخ مسوڑھوں کی نشاندہی کی گئی ہے ،حقہ پینے والے افراد میں 30 فیصد جبکہ سگریٹ نوشی کرنے والوں میں سے24 فیصد افراد مین مسوڑھوں اور دانتوں کے امراض کی نشاندہی کی گئی ہے۔ سویڈن کے طبی ماہرین کے مطابق حقہ پینے والوں کو تمباکو نوشی نہ کرنے والوں کی نسبت مسوڑھوں کی سوزش لاحقہ ہونے کے امکانات 5 فیصد زیادہ ہوتے ہیں اور ماہرین کے مطابق اس کی وجہ حقہ نوشی کے دوران دانتوں کی ہڈیوں کو پہنچنے والا نقصان ہو سکتی ہے۔

موٹاپا بار بار حمل ضائع ہونے کی وجہ

موٹاپا بار بار حمل ضائع ہونے کی وجہ
ایک سائنسی تحقیق کے مطابق وہ خواتین جن کا ایک بار حمل ضائع ہوچکا ہے ان کے دوبارہ حمل ضائع ہونے کا خطرہ زیادہ ہوجاتا ہے اگر ان کا وزن معمول سے زیادہ ہو یا وہ موٹاپے کی بیماری ’اوبیسٹی‘ کی شکار ہیں۔
لندن کے سینٹ میری ہسپتال نے ایک تحقیق کے دوران 696 ایسی خواتین کی اسٹڈی کی جن کا حمل ضائع ہونے کی کوئی خاص وجہ نہیں پتہ چل پائی تھی۔
اسپتال کی ایک ٹیم نے کینڈا میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ موٹی خواتین کے حمل ضائع ہونے کے امکانات ان کے وزن کی وجہ سے 73 فی صد زیادہ ہوجاتے ہیں۔موٹاپے کے علاج کے ایک ماہر کا کہنا تھا کہ حمل کے دوران وزن گھٹانا ایک خطرناک عمل ثابت ہوسکتا ہے۔

حالانکہ یا بات پہلے ہی ثابت ہوچکی ہے کہ موٹاپے کی وجہ سے بچے کی پیدائش اور حاملہ ہونے میں مشکلات آتی ہیں لیکن سینٹ میری ہسپتال کی جانب سے کی جانے والی یہ ایسی پہلی تحقیق ہے جس میں بار بار حمل ضائع ہونے کی وجوہات پر تحقیق کی گئی ہے اور اس کا تعلق موٹاپے سے جوڑا گیا ہے۔

جن 696 خواتین پر تحقیق کی گئی ان میں سے آدھی خواتین کا وزن نارمل تھا، 30 فی صد معمول سے زیادہ موٹی تھیں اور 15 فی صد ’اوبیس‘ تھیں۔

جن 696 خواتین پر تحقیق کی گئی ان میں سے آدھی خواتین کا وزن نارمل تھا، 30 فی صد معمول سے زیادہ موٹی تھیں اور 15 فی صد ’اوبیس‘ تھیں۔

سائسنی تحقیقات کے تحت خواتین کی عمر جتنی زیادہ ہوتی انہیں بچے پیدا کرنے میں اتنی ہی زیادہ پریشانی ہوتی ہے لیکن نئی تحقیقات میں معلوم ہوا ہے کہ بچے کی پیدائش کے عمل میں پریشانی اور بار بار حمل ضائع ہونے کی ایک وجہ موٹاپا بھی ہے۔

سینٹ میری ہسپتال کی کلینیکل نرس اسپیشلسٹ ونی لو کا کہنا ہے کہ یہ پہلی تحقیق ہے جس میں موٹاپے کی بیماری یعنی اوبیسٹی اور بار بار حمل ضائع ہونے کے درمیان کے تعلق کو سمجھا گیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ’اوبیس خواتین جن کا حمل ضائع ہوتا ہے انہیں اپنے موٹاپے کی وجہ سے حمل ضائع ہونے کا مزید خطرہ رہتا ہے۔ ‘

ونی لو کایہ بھی کہنا تھا کہ جن خواتین کوموٹاپے کی بیماری ہے انہیں اپنا وزن کم کرنے کے لیے سنجیدہ قدم اٹھانے چاہیے اور انہیں اس کے لیے کاؤنسنلنگ کی مدد بھی لینی چاہیے۔

موٹاپا بیماری یا صحت کی علامت

نئی تحقیق کے مطابق موٹےلوگوں کی موت کےامکانات عام لوگوں سے کم ہیں۔ اس دریافت کا اعلان کرتے ہوئے امریکہ کے وفاقی ادارہ سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول (سی ڈی سی ) نے کہا ہے درمیانے درجے کے موٹے لوگ عام لوگوں کی نسبت موت کا کم شکار ہوتے ہیں۔
ادارے کے نئے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں موٹاپے سے صرف 25 ہزار 8 سو چودہ اموات واقع ہوئی ہیں۔ ابھی جنوری میں ہی اس ادارے نےچودہ گنا بڑے اعداد دیتے ہوئے کہا تھا کہ موٹاپا تین لاکھ پینسٹھ ہزار اموات کا باعث بنا ہے۔ قبل ازیں سی ڈی سی کی درجہ بندی میں موٹاپا موت کے اسباب میں دوسرے نمبر پر تھا لیکن اب اس کا کہنا ہے کہ موٹاپا موت کے اسباب میں ساتویں نمبر پر ہے۔
رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک پاکستانی ماہر ڈاکٹر خالد عبداللہ نے کہا کہ عام مشاہدہ ہے کہ امریکی دنیا میں سب سے زیادہ موٹے ہیں اور اگر ان میں موٹاپا موت کے اسباب میں بہت نیچے ہے تو باقی دنیا میں تو موٹاپا اور بھی معمولی عنصر سمجھا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود کھانے میں ذمہ داری اور احتیاط سے کام لیا جانا چاہیے اور ورزشیں بھی کی جانی چاہیں۔

سی ڈی سی کی تحقیق میں ابہام کو دور کرنے کے لیے یہ ضرور کہا گیا ہے کہ بہت زیادہ موٹاپا یا اوبیسٹی تو خطرناک قاتل ہے ہی اور اس سے مرنے والوں کی تعداد کافی ہے۔ اس کے الٹ چھوٹی چھوٹی تحقیقی رپورٹوں اور تجزیوں سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ وہ لوگ جو درمیانی حد تک موٹے ہیں ان کے مرنے کے امکانات ان لوگوں سے کم ہیں جو کہ بالکل موٹے نہیں ہیں۔

پچھلے سال سی ڈی سی کی درجہ بندی میں موت کے اسباب ترتیب وار یوں تھے: تمباکو نوشی، موٹاپا، شراب نوشی، جراثیم، آلودگی، کاروں کے حادثات، اسلحہ، غیر ذمہ دارانہ جنسی طرز عمل اور منشیات کا استعمال۔ نئی تحقیق کے لحاظ سے موٹاپے کا نمبر کاروں کے حادثے کے بعد آئے گا۔

ڈاکٹر جو این مینسن کا کہنا ہے کہ نئے اعداد و شمار درست معلوم ہوتے ہیں اور اندازہ ہوتا ہے کہ علاج معالجوں سے میانے درجے کے موٹے لوگوں کی صحت بہتر ہو گئی ہے۔ اب اس زمرے میں آنے والے لوگ اپنے بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کو کافی حد تک کنٹرول میں رکھتے ہیں جس سے ان کے زندہ رہنے کے امکانات بہتر ہو گئے ہیں۔

اسی نوعیت کا ایک تجزیہ جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں چھپا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ میں موٹے لوگ اپنی صحت کا بہتر خیال کرتے ہیں۔ وہ بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کو توازن میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سی ڈی سی کی تجزیاتی رپورٹ لکھنے والی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ نئی تحقیق کی موجودگی میں اب یہ طے کرنا پڑے گا کہ موٹا کس کو کہا جائے۔

سگریٹ نوشی خارش کی بیماری سورائیسس کا باعث بنتی ہے۔

امریکہ کے طبی ماہرین نے کہا ہے کہ سگریٹ نوشی جلد میںکھجلی اورخارش کے مرض سورائیسس کے باعث بھی ہوتی ہے۔ امریکی ماہرین امراض جلد نے اس ضمن میںسورائیسس کے 557 مریضوں میں موٹاپے اورسگریٹ نوشی کے کردار کاجائزہ لینے کیلئے مریضوں کا تقابلی مطالعاتی جائزہ لیا جس کے دوران معلوم ہواکہ سورائیسس(جلد میں خارش اورکھجلی) کی بیماری سگریٹ نوشوں میں 73 فیصدپائی جاتی ہے جبکہ مطالعاتی تحقیق میں سگریٹ نہ کرنے والے سورائیسس کے مریضوں میں یہ
بیماری 13 فیصد سے لے کر 25 فیصد تک پائی گئی اسی طرح موٹے مریضوں میںبیماری کی شرح 34 فیصد پائی گئی جبکہ ایسے مریض جوزائدالوزن یا موٹے نہیں تھے ان میں بیماری کی شرح 18 فیصد رہی۔ ماہرین کے مطابق سگریٹ نوشی کا جلد کی بیماریسورائیسس کا باعث بننے کی وجہ جسم کے مدافعتی نظام کو متاثر کرنا ہے اس لئے سگریٹ نوشی کا جلد کی اس بیماری سے براہ راست تعلق ہے۔ ماہرین نے تجویز کیا کہ سورائیسس کے علاج میں سگریٹ نوشی فوراً ترک کردینا بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے

معدے کی تیزابیت دور کرنے والی دوائیں ہڈیوں کے لیے نقصان دہ

معدے کی تیزابیت پر قابو پانے کےلیے جو دوائیں عام طور پر تجویز کی جاتی ہیں، اگر ان کو طویل عرصے تک استعمال کیا جائے تو اس سے ہڈیاں کمزور ہوسکتی ہیں۔

جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں پنسلوانیا یونیورسٹی کے ریسرچرز کی شائع شدہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ میں جن مریضوں نے “پروٹون پمپ انہی بیٹرز” دوائین ایک سال تک استعمال کی تھیں ان میں کولہے کے فریکچر کا امکان نمایاں طور پر بڑھا ہوا پایا گیا لہذا ڈاکٹروں کو اس قسم کی دوائیں تجویز کرتے وقت اس خطرے کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔

برطانیہ میں لاکھوں افراد معدے کی تیزابیت دور کرنے کے لیے “اومے پیرازول” قسم کی دوائیں استعمال کرتے ہیں جو براہ راست فارمیسی سے بھی خریدی جا سکتی ہیں جن کےلیے ڈاکٹری نسخے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس سے پہلے بھی اس ضمن میں تحقیق کی جا چکی ہے جس سے معلوم ہوا تھا کہ اس قسم کی دوائیں جسم کو کیلشیم جذب کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیتی ہیں اور جسم میں کیلیشیم کا اتجذاب ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے ناگزیر ہے۔

طب کی مختلف شاخیں -ماخوذازوکیپیڈیا

طب
علم طب؛ صحت سے متعلق معلومات کو کہا جاتا ہے اس شعبہ علم کا تعلق ، سائنس و فن (Science and Art) دونوں سے ہے (وضاحت نیچے دیکھیۓ)۔ اس شعبہ علم میں تندرستی کی نگہداری و بقا اور بصورت ِمرض و ضرر، تشخیص اور معمول کی جانب جسم کی بحالی سے مطالق بحث کی جاتی ہے۔ تاریخ طب کسی اور مضون میں درج کی جاۓ گی، اس مضون میں صرف جدید طب کے موجودہ خدوخال پر نظر ڈالی گئی ہے۔
طب ایک سائنس بھی ہے کیونکہ اسکی عمارت، بادقت کیۓ گۓ تجربات اور دقیق مطالعہ سے حاصل ہونے والی معلومات پر کھڑی ہے اور یہ ایک فـن بھی ہے کہ اسکی کامیابی کا انحصار طبیب کی ذاتی فہم اور مہارت ِعمل پر ہوتا ہے، کہ وہ کس صلاحیت سے علم طب کی معلومات کو استعمال کرتا ہے۔
بنیادی طور پر طب کو دو بڑی شاخوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے؛اساسی طب (Basic medicine) جو تشریح، حیاتی کیمیاء اور فعلیات جسیے بنیادی مضامین پر مشتمل ہے۔ ان مضامین کا مرض یا مریض پر براہ راست عملی استعمال نہیں ہوتا بلکہ یہ اس عملی استعمال کیلیۓ ایک بنیاد فراہم کرتے ہیں
سریری طب (Clinical medicine) جسکو نفاذی طب بھی کہ سکتے ہیں کہ اسمیں طبی معلومات کو علاج و معالجہ کے لیۓ نافذ کیا جاتا ہے۔ اسمیں شامل اہم مضامین؛ طبی علاج، جراحی اور علم الادویہ ہیں جو اساسی طب کی بنیاد پر کھڑے ہوکر براہ راست علاج و معالجہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
معالجہ المثلیہ
اسکو انگریزی میں Homeopathy کہا جاتا ہے۔ اس میں امراض کے علاج کی خاطر قلیل مقدار میں ایسے ادویاتی نسخے استعمال کیے جاتے ہیں کہ جنکا زیادہ مقدار میں استعمال عام افراد میں وہی مرض پیدا کرتا ہے کہ جس کے علاج کے لیۓ وہ نسخہ ہو، اسی لیۓ اسکو معالجہ المثلیہ (علاج مثل) کہا جاتا ہے۔
معالجۂ اخلافیہ
معالجۂ اخلافیہ جسکو انگریزی میں Allopathy اور Allopathic medicine بھی کہا جاتا ہے دراصل ایک اصطلاح ہے جو کہ معالجہ المثلیہ (homeopathy) کے متعارف کنندہ سیموئل ہنیمان نے اپنے طریقۂ علاج یعنی معالجہ المثلیہ سے دوسرے تمام موجودہ طریقہ معالجات کو جدا کرنے کیلیۓ استعمال کی تھی۔ اور عمومی طور پر آج کل اس سے جو مثال لی جاتی ہے وہ رائج الوقت مغربی طب (medicine) کی ہوتی ہے، جبکہ درحقیقت جیسا کہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس اصطلاح کے دائرۂ کار میں وہ تمام معالجات آجاتے ہیں جو کہ معالجہ المثلیہ کے علاوہ ہیں۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ علم medicine گو معالجۂ اخلافیہ میں آجاتا ہے مگر اسکے باوجود اس میں بھی چند ایسے طریقہ کار موجود ہیں کہ جو معالجہ المثلیہ میں آتے ہیں، اگر غور کیا جاۓ تو بقریت (vaccination) ایک قسم کا معالجہ المثلیہ ہی ہے جبکہ معالجہ اخلافیہ کی پیداوار ہے۔

کباب سموسے کے نقصانات درود شریف کی فضیلت

اللہ کے محبوب، دانائے غیوب، منزہ عن العیوب عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ رحمت نشان ہے، جس نے یہ کہا، جزی اللہ عنا محمدا ما ھو اہلہ ستر فرشتے ایک ہزار دن تک اس کیلئے نیکیاں لکھتے رہیں گے۔ (ملتقطاً من الحدیثین فی المعجم الاوسط ج1 ص82 حدیث 235 دارالفکر عمان والمعجم الکبیر ج11 ص165 حدیث 11509 دار احیاء التراث العربی بیروت)
صلی اللہ تعالٰی علٰی محمد
مسلمان کی بھلائی چاہنا کارِ ثواب ہے
حضرت سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں، “میں نے حضور تاجدار رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے اس بات پر بیعت کی کہ نماز قائم کروں گا اور زکوٰۃ ادا کروں گا اور عام مسلمانوں کی خیر خواہی کروں گا (یعنی بھلائی چاہوں گا) (صحیح مسلم ص48 حدیث 97)
الحمدللہ عزوجل خود کو مسلمانوں کے خیر خواہوں میں کھپانے اور ثواب کمانے کے مقدس جذبے کے تحت دعاء کے ساتھ ساتھ صحت مند رہنے کیلئے چند مدنی پھول نذر حاضر کئے ہیں۔ اگر محض دنیا کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہونے کیلئے تندرست رہنے کی آرزو ہے تو رسالہ پڑھنا یہیں موقوف کر دیجئے اور اگر عمدہ صحت کے ذریعے عبادت اور سنتوں کی خدمت پر قوت حاصل کرنے کا ذہن ہے تو ثواب کمانے کی غرض سے اچھی اچھی نیتیں کرتے ہوئے درود شریف پڑھ کر آگے بڑھئے اور رسالہ مکمل پڑھئے
صلی اللہ تعالٰی علٰی محمد
اللہ رب العزت عزوجل میری، آپ کی، جملہ اہل خاندان اور ساری اُمت کی مغفرت فرمائے۔ ہمیں صحت و عافیت کے ساتھ اور دعوت اسلامی کے مدنی ماحول میں رہتے ہوئے اسلام کی خدمت پر استقامت عنایت فرمائے۔ اللہ عزوجل ہماری جسمانی بیماریاں دور کرکے ہمیں بیمارِ مدینہ بنائے۔
اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم

کباب سموسے کھانے والے متوجہ ہوں

بازار اور دعوتوں کے چٹ پٹے کباب سموسے کھانے والے توجہ فرمائیں۔ کباب سموسے بیچنے والے عموماً قیمہ دھوتے نہیں ہیں۔ ان کے بقول قیمہ دھو کر ڈالیں تو کباب سموسے کا ذائقہ متاثر ہوتا ہے ! بازاری قیمہ میں بعض اوقات کیا کیا ہوتا ہے یہ بھی سن لیجئے! گائے کی اوجھڑی کا چھلکا اتار کر اس کی “بٹ“ میں تلی بلکہ معاذاللہ عزوجل کبھی تو جما ہوا خون ڈال کر مشین میں پیستے ہیں اس طرح سفید بٹ کے قیمے کا رنگ گوشت کی مانند گلابی ہو جاتا ہے۔ بسا اوقات کباب سموسے والے حسب ضرورت ادرک لہسن وغیرہ بھی قیمے کے ساتھ ہی پسوا لیتے ہیں۔ اب اس قیمے کے دھونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اُسی قیمے میں مرچ مصالحہ ڈال کر بھون کر اُس کے کباب سموسے بنا کر فروخت کرتے ہیں۔ ہوٹلوں میں بھی اسی طرح کے قیمے کے سالن کا اندیشہ رہتا ہے۔ گندے کباب سموسے والوں سے پکوڑے وغیرہ بھی نہ لئے جائیں کہ کڑہای ایک اور تیل بھی وہی گندے قیمے والا۔ خیر میں یہ نہیں کہتا کہ معاذاللہ ہر گوشت بیچنے والا اس طرح کرتا ہے یا خدانخواستہ ہر کباب، سموسے والا ناپاک قیمہ ہی استعمال کرتا ہے۔ یقیناً خالص گوشت کا قیمہ بھی ملتا ہے۔ عرض کرنے کا منشاء یہ ہے کہ قیمہ یا کباب سموسوں سے قابل اطمینان مسلمان سے لینے چاہئیں اور جو مسلمان ایسی اوچھی حرکتیں کرتے ہیں ان کو توبہ کر لینی چاہئیے۔

کباب سموسے طبیبوں کی نظر میں
کباب، سموسے، پکوڑے، شامی کباب، مچھلی اور مرغی وغیرہ کی تلی ہوئی بوٹیاں، پوریاں، کچوریاں، پیزے، پراٹھے، انڈہ آملیٹ وغیرہ ہم خوب مزے لے لے کر کھاتے ہیں۔ مگر بے ضرر نظر آنے والی یہ خستہ اور کراری غذائیں اپنے اندر کیسے کیسے مہلک امراض لئے ہوئے ہیں اس کا شاذ و نادر ہی کسی کو علم ہوتا ہے۔ تلنے کیلئے جب تیل کو خوب گرم کیا جاتا ہے تو طبی تحقیقات کے مطابق اس کے اندر کئی ناخشگوار و نقصان دہ مادے پیدا ہو جاتے ہیں، تلنے کیلئے ڈالی جانے والی چیز بھی نمی چھوڑتی ہے جس کے سبب تیل مشتعل ہو کر چٹاخ چٹاخ کا شور مچاتا ہے جو کہ اس کے کیمیائی اجزاء کی توڑ پھوڑ کی علامت ہے اور اس کے سبب غذائی اجزاء اور وٹامنز تباہ ہو جاتے ہیں۔

“یارب ! لذت نفسانی سے بچا“ کے انّیس حُروف کی نسبت سے تلی ہوئی چیزوں سے ہونے والی 19 بیماریوں کی نشاندہی

بدن کا وزن بڑھتا ہے۔
 آنتوں کی دیواروں کو نقصان پہنچتا ہے۔
 اجابت (پیٹ کی صفائی) میں گڑ بڑ پیدا ہوتی ہے۔
 پیٹ کا درد
 متلی (6) قے یا
اسہال (یعنی پانی جیسے دست) ہو سکتے ہیں۔
 چربی کے مقابلے میں تلی ہوئی چیزوں کا استعمال زیادہ تیزی کے ساتھ خون میں نقصان دہ کولیسٹرول یعنی LDL بناتا ہے۔
 مُفید کولیسٹرول یعنی HDL میں کمی آتی ہے۔
 خون میں لوتھڑے یعنی جمی ہوئی ٹکڑیاں بنتی ہیں۔
ہاضمہ خراب ہوتا ہے۔
 گیس ہوتی ہے۔
 زیادہ گرم کردہ تیل میں ایک زہریلا مادہ “ایکرولین“ پیدا ہو جاتا ہے جو کہ آنتوں میں خراش پیدا کرتا ہے بلکہ معاذاللہ عزوجل
 کینسر کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
 تیل کو زیادہ دیر تک گرم کرنے اور اس میں چیزیں تلنے کے عمل سے اس میں ایک اور خطرناک زہریلا مادہ “فری ریڈیکلز“ پیدا ہو جاتا ہے جو کہ دل کے امراض
کینسر
 جوڑوں میں سوزش
دماغ کے امراض اور
جلد بڑھاپا لانے کا سبب بنتا ہے۔
“فری ریڈیکلز“ نامی خطرناک زہریلا مادہ پیدا کرنے والے مذید اور بھی عوامل ہیں۔ مثلاً تمباکو نوشی، ہوا کی آلودگی (جیسا کہ آج کل گھروں میں ہر وقت کمرہ بند رکھا جاتا ہے نہ دھوپ آنے دی جاتی ہے نہ تازہ ہوا)، کار کا دھواں، ایکسرے X RAY, مائیکرو ویو اوون، T.V. اور کمپیوٹر کے اسکرین کی شعائیں، فضائی سفر کی تابکاری (یعنی ہوائی جہاز کا شعائیں پھینکنے کا عمل)

خطرناک زہر کا توڑ
اللہ عزوجل نے اس خطرناک زہر یعنی “فری ریڈکلرز“ کا توڑ بھی پیدا فرمایا ہے چنانچہ جن سبزیوں اور پھلوں کا رنگ سبز، زرد یا نارنجی یعنی سرخی مائل زرد ہوتا ہے یہ اس خطرناک زہر کو تباہ کر دیتے ہیں اس طرح کے پھلوں اور سبزیوں کا رنگ جس قدر گہرا ہوگا ان میں وٹامنز اور معدنی اجزاء کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے وہ اس زہر کا زیادہ قوت کے ساتھ توڑ کرتے ہیں۔
صلی اللہ تعالٰی علٰی محمد

تلی ہوئی چیزوں کا نقصان کم کرنے کا طریقہ
دو باتوں پر عمل کرنے سے تلی ہوئی چیزوں کے نقصانات میں کمی آ سکتی ہے۔
(1) کباب سموسے، پکوڑے، انڈہ آملیٹ، مچھلی وغیرہ تلنے کیلئے جو کڑاہی یا فرائی پین استعمال کیا جائے وہ نان اسٹک (Non Stick) ہو۔

(2) تلنے کے بعد ایک ایک چیز کو بے خوشبو ٹشو پیپر میں اچھی طرح لپیٹ لیا جائے تاکہ کچھ نہ کچھ تیل جذب ہو جائے۔

بچا ہوا تیل دوبارہ استعمال کرنے کا طریقہ
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک بار تلنے کیلئے استعمال کرنے کے بعد تیل کو دوبارہ گرم نہ کیا جائے۔ اگر دوبارہ استعمال کرنا ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس کو چھان کر ریفریجریٹر میں رکھ دیا جائے، بغیر چھانے فرج میں نہ رکھا جائے۔

فن طب یقینی نہیں
تلی ہوئی چیزوں کے نقصانات کے تعلق سے میں نے جو کچھ عرض کیا وہ میری اپنی نہیں طبیبوں کی تحقیق ہے۔ یہ اُصول یاد رکھنے کے قابل ہے کہ فن طب سارے کا سارا ظنی ہے یقینی نہیں۔

“یارب مصطفٰے ہمیں مدینۃ النورہ کی نعمتیں نصیب فرما“ کے 41 حُروف کی نسبت سے غذاؤں کے بارے میں 41 مدنی پھول

(1) چاکلیٹ اور مٹھائیاں زیادہ کھانے سے دانت خراب ہو جاتے ہیں کیونکہ چینی کے ذّرات دانتوں پر چپک کر مخصوص جراثیم کی افزائش کا سبب بنتے ہیں۔

(2) بچّے چاکلیٹ کے شیدائی ہوتے ہیں ان کو بچانا ضروری ہے۔ چاکلیٹ یا اس کی پنّی پر چند مرتبہ کوئی کڑوی چیز یا مرچیں وغیرہ لگا دی جائیں جس سے ان کی چاکلیٹ سے دلچسپی ختم ہو جائے۔

(3) پراسیس کردہ ٹن پیک غذاؤں کو محفوظ کرنے کیلئے “سوڈیم نائٹرٹ“ نامی کیمیکل ڈالا جاتا ہے۔ اس کا مسلسل استعمال سرطان کی گانٹھ (Cencer Tumer) بناتا ہے۔

(4) آئسکریم کے ایک کپ (یعنی 210 ملی لیٹر) میں 84 ملی گرام کولیسٹرول ہوتا ہے۔

(5) 250 گرام کی ٹھنڈی بوتل (کولڈ ڈرنک) میں تقریباً سات چمچ چینی ہوتی ہے۔

(6) اُبلے ہوئے یا بھاپ (Steam) میں پکائے ہوئے کھانے اور سبزیاں زیادہ مفید اور زود ہضم ہوتے ہیں۔

(7) بیمار جانور کا گوشت فوڈ پوائزننگ (Food Poisoning) اور بڑی آنت کے کینسر کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

( 8 ) ہاف فرائی انڈہ کھانے کے بجائے اچھی طرح فرائی کرکے کھانا چاہئیے اور آملیٹ اُس وقت پکایا جائے جب تک خشک نہ ہو جائے۔

(9) انڈہ اُبالنا ہو تو کم از کم سات منٹ تک اُبالا جائے۔

(10) سیب، چیکو، آڑو، آلوچہ، املوگ، کھیرا وغیرہ پھلوں کو چھیلے بغیر کھانا مفید ہے کیونکہ چھلکے میں بہترین غذائی ریشہ (فائبر) ہوتا ہے۔ غذائی ریشے، بلڈ شوگر، بلڈ کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کم کرکے قبض کھولتے اور غذا سے زہریلے مادوں کو لیکر نکل جاتے نیز بڑی آنت کے کینسر سے بچاتے ہیں۔

(11) کدو شریف، شکر قند، چقندر، ٹماٹر، آلو وغیرہ وغیرہ چھلکے سمیت پکانا چاہئیے، ان کا چھلکا کھا لینا مفید ہے۔

(12) کالے چنوں کا استعمال صحّت کیلئے مفید ہے۔ اُبلے ہوئے ہوں یا بھنے ہوئے ان کے چھلکے بھی کھا لینے چاہئیں۔

(13) ایک ہی وقت میں مچھلی اور دودھ کا استعمال نقصان دہ ہے۔

(14) اینٹی بائیوٹیک دواء استعمال کرنے کے بعد دہی کھا لینا چاہئیے۔ جو ضروری بیکٹیریا ختم ہو جاتے ہیں وہ دہی کھانے سے بحال ہو جاتے ہیں (ہر علاج تجربہ کار طبیب کے مشورہ کے مطابق کرنا چاہئیے)

(15) کھانے کے فوراً بعد چائے یا ٹھنڈی بوتل پینا نظام انہضام کو متاثر کرتا ہے، اس سے بد ہضمی اور گیس کی شکایت ہو سکتی ہے (کھانا کھانے کے تقریباً دو گھنٹے کے بعد ایک دو گلاس پانی پی لینا مفید ہے)

(16) چاول کھانے کے فوراً بعد پانی پینے سے کھانسی ہو سکتی ہے۔

(17) گودے والے پھل (مثلاً پپیتا، امرود، سیب وغیرہ) اور رس والے پھل (مثلاً موسمبی، سنگترہ وغیرہ) ایک ساتھ نہیں کھانے چاہئیں۔

( 18 ) پھلوں کے ساتھ چینی یا مٹھائی کا استعمال نقصان کرتا ہے (مختلف پھلوں کی ٹکڑیاں کرکے چاٹ مصالحہ ڈالنے میں حرج نہیں مگر چینی نہ ڈالی جائے)

(19) پھل اور سبزیاں ایک ساتھ نہ کھائے جائیں۔

(20) گھیرا، پپیتا اور تربوز کھانے کے بعد پانی نہ پیا جائے۔

(21) کھانا کھانے کے آدھے گھنٹے پہلے پھل کھا لینا چاہئیے، کھانے کے فوراً بعد پھل کھانا مضر صحت ہے (آفسوس ! آج کل کھانے کے فوراً بعد پھل کھانے کا رواج ہے)

(22) میرے آقا اعلٰی حضرت، مولیٰنا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن روایت نقل کرتے ہیں، “کھانے سے پہلے تربوز کھانا، پیٹ کو خوب دھو دیتا ہے اور بیماری کو جڑ سے ختم کر دیتا ہے۔ (فتاوٰی رضویہ تخریج شدہ ج5 ص442 و جامع صغیر ص 192 حدیث 3212 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

(23) میٹھی ڈشیں، مٹھائیں اور میٹھے مشروبات کھانے سے کم از کم آدھے گھنٹے قبل استعمال کئے جائیں، کھانے کے بعد ان کا استعمال نقصان کرتا ہے (افسوس ! میٹھی ڈشیں آج کل کھانے کے بعد کھائی جاتی ہیں) جوانی ہی سے مٹھاس اور چکناہٹ کا استعمال کم کر دیجئے، اگر مذید زندہ رہنے میں کامیاب ہو گئے، تو انشاءاللہ عزوجل بڑھاپے میں سہولت رہے گی۔

(24) اُبلی ہوئی سبزی کھانا بہت مفید ہے اور یہ جلدی ہضم ہوتی ہے۔

(25) سبزی کے ٹکڑے اُسی وقت کئے جائیں جب پکانی ہو، پہلے سے کاٹ کر رکھ دینے سے اُس کے قوت بخش اجزاء رفتہ رفتہ ضائع ہو جاتے ہیں۔

(26) تازہ سبزیاں وٹامنز، نمکیات اور معدنیات وغیرہ کے اہم عناصر سے لبریز ہوتی ہیں مگر جتنی دیر تک رکھی رہیں گی اُتنے ہی اُس کے وٹامنز اور مقوّی اجزاء ضائع ہوتے چلے جائیں گے لٰہذا بہتر یہی ہے کہ جس دن کھانا ہو اُسی دن تازہ سبزیاں خریدیں۔

(27) سبزیاں پکانے میں پانی کم سے کم ڈالنا چاہئیے کیونکہ پانی سبزیوں کے حیات بخش اجزاء (وٹامنز) کھینچ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

( 28 ) سبزیاں مثلاً آلو، شکرقند، گاجر، چقندر وغیرہ ابالنے کے بعد بچا ہوا پانی ہرگز پھینکا نہ جائے، اس کو استعمال کر لینا فائدہ مند ہے کیونکہ اُس میں ترکاریوں کے مقوی اجزاء شامل ہوتے ہیں۔

(29) سبزیاں زیادہ سے زیادہ 19 منٹ میں ابال لینی چاہئیں ان میں بھی بالخصوص سبز رنگ کی ترکاریاں تو دس منٹ کے اندر اندر چولہے سے اتار لی جائیں۔

(30) زیادہ دیر پکانے سے سبزیوں کے حیات بخش اجزاء (وٹامنز) ضائع ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ بالخصوص وٹامن سی کافی نازک ہوتا ہے زیادہ دیر پکانے سے یہ بالکل ختم ہو جاتا ہے۔

(31) ترکاری یا کسی قسم کی غذا پکاتے وقت آگ درمیانی ہونی چاہئیے۔ اس سے غذا اندر تک اچھی طرح پک جائیگی اور لذیذ بھی ہو گی۔

(32) چولھے سے اُتارنے کے بعد ڈھکن بند رکھنا چاہئے اس طرح بھاپ کا اندر رہنا پکنے کے عمل کیلئے مفید ہے۔

(33) کچی یا پکی سبزیاں فرج میں رکھی جا سکتی ہیں۔

(34) لیموں کی بہترین قسم وہ ہے جس کا رس رقیق (پتلا) اور چھلکا ایک دم پتلا ہو، عام طور پر اسے کاغذی لیموں کہتے ہیں۔ لیموں کو آم کی طرح گھولنے کے بعد، چوڑائی میں کاٹنا چاہئے، اس کے کم از کم چار اور اگر ذرا بڑا ہو تو آٹھ ٹکڑے کر لیجئے، اس طرح نچوڑنے میں آسانی رہے گی۔ لیموں کا ٹکڑا اس قدر نچوڑیں کہ سارا رس نچڑ جائے، ادھور نچوڑ کر پھینک دینا اسراف ہے۔

(35) فرج سے نکال کر ٹھنڈا لیموں باورچی خانہ میں چولھے کے پاس رکھ دیجئے یا گرم پانی میں ڈال دیجئے یا کاٹ کر گرم چاولوں کے پتیلے میں بھی رکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح نرم ہو جائے گا اور رس بآسانی نکل آئے گا۔

(36) کچی سبزیاں اور سلاد کھانا مفید ہے کہ یہ وٹامنز سے بھرپور،صحت بخش اور قبض کشا ہوتی ہیں۔ سائنسی تحقیق کے مطابق پکانے سے اکثر غذائیت ضائع ہو جای ہے۔

(37) تازہ سبزی کا استعمال زیادہ مفید ہوتا ہے۔ باسی سبزیاں نقصان کرتی اور پیٹ میں گیس بھرتی ہیں، ہاں آلو، پیاز، لہسن وغیرہ تھوڑے دن رکھنے میں حرج نہیں۔

( 38 ) سبزی، پھل اور اناج میں موجود غذائیت کا “حارس“ (یعنی محافظ) اُس کا چھلکا ہوتا ہے لٰہذا ان میں سے جو جو چیز چھلکے کے ساتھ بآسانی کھائی جا سکتی ہے، اُس کا چھلکا نہیں اُتارنا چاہئیے۔ جس کا چھلکا بہت سخت ہوتا ہے اور نہیں کھایا جاتا اُس کی بھی صرف ہلکی سی تہ وہ بھی آہستہ آہستہ اُتارنی چاہئیے۔ چھلکا جس قدر موٹا اتاریں گے اتنے ہی وٹامنز اور قوت بخش اجزاء ضائع ہوں گے۔

(39) پالش کئے ہوئے گندم، چاول اور دالوں کا آج کل استعمال عام ہے، آٹا بھی پالش کئے ہوئے گندم ہی کا ملتا ہے، پالش کی وجہ سے اناج کا غذائی ریشہ اور اس کی اوپری تہ جو وٹامنز سے بھرپور ہوتی ہےبرباد ہو جاتی ہے۔

(40) موسمبی، سنگترہ وغیرہ کا موٹا چھلکا اتارنے کے بعد بچی ہوئی باریک جھلی کھا لیجئے۔

(41) حضرت مولائے کائنات، علی المرتضٰی شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں، انار کے دانے اس کی جھلی کے ساتھ کھانے چاہئیں جو دانوں پر لپٹی ہوتی ہے یہ مقوی معدہ (یعنی معدہ کو طاقت دینے والی) ہے۔ (تاریخ الخلفاء ص147،


Read More

سانس کی تکلیف کا علاج

سانس کی تکلیف اس وقت ہوتی ہے جب پھیپھڑے یا پھیپھڑوں کی جھلی متورم ہو جائے یا سانس کی نالی میں بلغم جما ہوا ہو یا پھر دل کی دھڑکن کی زیادتی کی وجہ سے سانس کی تکلیف ہوتی ہے۔
اگر سانس کی تکلیف پھیپھڑوں اور پھیپھڑوں کی جھلی کا ورم، نمونیہ یا بلغم کی زیادتی کی وجہ سے ہو تو ایسی حالت میں مندرجہ ذیل نسخہ بہت مفید رہے گا۔
کلونجی 2گرام، برگ بانسہ 3 گرام
چائے کی پتی کی طرح ابال کر دن میں چار بار قہوہ پلائیں اور میٹھے کی جگہ شہد ملالیں۔

ناک کی بیماریوں کا علاج

– ناک کی بیماریوں میں بڑا چمچہ شہد صبح نہار منہ اور بعد نماز عصر ابلتے پانی میں ملا کر چائے کی طرح طرح گرم گرم پئیں۔
– سوتے وقت ایک چمچہ خالص زیتون کا تیل پئیں اس کے پینے سے ہفتہ بھر میں شفاء ہو جاتی ہے۔
– زکام کے علاج میں کلونجی اور زیتون کے تیل کا مرکب مفید ہے۔ ایک چمچہ کلونجی پیس کر اس میں گیارہ چمچے زیتون کا تیل ملا کر اسے 5 منٹ تک ابال کر چھان لیا جائے یہ تیل صبح و شام ناک میں
ڈالا جائے ایک ایک قطرہ۔
– اگر روزہ نہ ہو تو ناک میں زور سے پانی چڑھائیں ایک نتھنا بند کرکے دوسرے نتھنے سے 3 دفعہ پانی زور سے چڑھائیں اسی طرح دوسرے نتھنے میں بھی۔ انشاءاللہ سات دن میں نزلہ ختم ہو جائے گا۔ نزلہ زیادہ ہو تو ہر گھنٹہ بعد تین تین دفعہ دونوں نتھنوں میں پانی چڑھائیں۔ ہمیشگی کرنے والے کو کبھی بھی نزلہ نہیں ہو گا۔
– نزلہ پرانا ہو یا بار بار ہو جاتا ہو تو مچھلی کا تیل آدھا چمچہ ناشتہ کے دو گھنٹہ بعد ایک ماہ تک لگا تار پئیں۔ چھوٹے بچوں کیلئے خوشبودار مچھلی کا تیل بھی ملتا ہے۔ چند قطرے دن میں ایک یا دو بار کم از کم ایک ماہ تک پئیں انشاءاللہ عزوجل دائمی نزلہ جاتا رہے گا۔ سردیوں میں رات کو بھی آدھا چمچہ پئیں۔
– بھنے ہوئے چنے (چھلکے کے ساتھ) ایک مٹھی روزانہ رات کو کھائیں مگر ایک گھنٹہ تک پانی نہ پئیں۔
– نیم کے تازہ پتے پانی میں جوش دیں۔ چھان کر ناک میں زور سے چڑھائیں اور غرارے بھی کریں۔ (معمولی نمک بھی ملا لیں) دن میں کم از کم پانچ مرتبہ چالیس دن کا کورس کریں دائمی نزلہ انشاءاللہ عزوجل ختم ہو جائے گا۔
– دائمی نزلہ، زکام، ناک کا مستقل بند رہنا ایسے تمام امراض کیلئے کلونجی کی نسوار اگر دن میں تین چار مرتبہ استعمال کی جائے تو بہت فائدہ مند ہے۔